ٹڈی دل اور حکومتی کاوشیں

پیر 1 جون 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہے ملک کے کئی اضلاع کا ٹڈی دل سے متاثر ہوجانا دوہری تکلیف و پریشانی کا باعث ہے۔ضلعی انتظامیہ، محکمہ زراعت اور پاک فوج کی مشترکہ ٹیمیں ٹڈیوں کو تلف کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ مگر کسان مطمئن نہیں۔ مقامی سطح پر کاشتکار اپنی مدد آپ کے تحت دیسی طریقوں سے ٹڈی دل کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


صوبہ سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب میں ٹڈی دل نے فصلوں اورباغات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔کسان پریشان ہیں۔ اسپرے کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ٹڈی دل کے حملے بھی جاری ہیں۔گزشتہ سال ٹڈیوں نے کروڑوں انڈے دئیے جن سے نکلنے والی ٹڈیوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔سرتوڑ کوششوں کے باجود نقصان جاری ہے۔

(جاری ہے)

فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں 30سیزائد ممالک ٹڈیوں سے متاثر ہیں۔

متاثرہ افریقی ممالک میں سوڈان، مصر، موریطانیہ،صومالیہ،ایتھوپیا، یمن جبکہ ایشیائی ممالک میں سعودی عرب، پاکستان،ایران، بھارت اور افغانستان قابل ذکر ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے سال یہ ٹڈیاں ایتھوپیا سے صومالیہ، یمن، سعودی عرب اور پھر عمان سے ہوتی ہوئیں ایران داخل ہوئیں وہاں سے بلوچستان اور سندھ پہنچی تھیں۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس حوالے سے وفاق سے مدد کی درخواست کی تھی، تاکہ فضائی اسپرے کیا جاسکے۔

ہر معاملہ کی طرح وفاق اور صوبہ سندھ میں اس پر بھی سیاست جاری رہی۔ سال گزر گیا۔ کچھ اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر یہ صورتحال قابو میں نہ آسکی۔گزشتہ سال سے اب تک ٹڈی دل کے حملوں سے بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچاہے۔ملک کے مشرقی علاقوں میں ٹڈی دل کا شدید ترین حملے ہوئے جسکے بعد حکومت پاکستان نے نیشنل ایمرجنسی لگادی۔
یاد رہے پچھلی دو دہائیوں میں ٹڈی دل کا یہ سب سے شدید حملہ ہیں۔

اس سے قبل پاکستان میں 1993ء میں ٹڈی دل بڑا حملہ ہوا تھا۔آج پاکستان کے زرعی رقبہ کا 38% ٹڈی دل سے متاثر ہے۔بلوچستان 60%،سندھ25%، پنجاب 15% متاثر ہوا۔ کل قابل کاشت رقبہ437900مربع کلومیڑ میں سے 161720مربع کلومیڑ رقبہ ٹڈی دل حملہ سے متاثر ہے۔پاکستان کی 47%آبادی زراعت سے منسلک ہے۔کورونا سے شہری علاقوں میں روزگار سے منسلک افراد متاثر ہوئے جبکہ ٹڈی دل نے کسان کو پریشان کیا۔

اقوام متحدہ کے مطابق ٹڈی دل کے حملہ سے 600 بلین روپے (3.72ملین ڈالر) نقصان ہوگا۔
امسال فروری تک 121400ہیکڑ رقبہ کو ٹڈی دل سے پاک کرنے کے اقدامات کیے گئے۔20,000ہیکڑ رقبے پر فضائی اسپرے ہوا تھا۔ لیکن ٹڈی دل کے حملے پھر بھی جاری ہیں۔
پنجاپ حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمہ اور فصلوں سے بچاو کے لیے ایک ارب روپے کے وسائل فراہم کیے ہیں۔وفاقی حکومت کے تعاون سے فضائی اسپرے بھی جاری ہے۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے ٹڈی دل کے خاتمہ کے لیے اپنا ہیلی کاپٹر بھی وقف کردیا ہے۔محکمہ زراعت اور پی ڈی ایم حکام کو ہیلی کاپٹر استعمال میں لانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔وزیر اعلی پنجاب نے بذات خود راجن پور اور بھکر کے دورے کیے۔متاترہ اضلاع میں موثر نگرانی جاری ہے۔وسیع رقبے پر اسپرے کیا گیا۔اینٹی ٹڈی دل سکواڈ بھی میدان میں مصروف عمل ہے۔

سکواڈ میں شامل گاڑیاں متاثرہ علاقوں میں اسپرے کر رہی ہیں۔ حکومت کسانوں کو تمام اقدامات سے آگاہ بھی کر رہی ہے اور نقصانات کا تخمینہ بھی لگایا جارہا ہے۔ترکی نے اس مسئلہ میں پاکستان کی مدد کرتے ہوئے ایک اسپرے کرنے والا جہازحوالے کیا جس کے ساتھ عملہ کے چار اراکین بھی شامل ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں چین کے حوالہ سے خبر آئی تھی کہ چین نے صوبہ سنکیانگ میں بطخوں کی مدد سے ٹڈی کے خاتمہ کا منصوبہ شروع کیا ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ وہ پاکستان کو بھی بطخیں پہنچائے گا۔

اس کا کیا ہوا۔۔۔؟ایک بطخ روزانہ دوسو سے زائد ٹڈیاں کھا سکتی ہے، جبکہ مرغیاں دن میں 70ٹڈیاں کھاپاتی ہیں تو بطخوں کی خوراک ان سے 3گنازیادہ ہے۔یہ ٹڈی دل کے خاتمہ کے لیے ادویات سے زیادہ موثر ہو سکتی ہیں اور بطخ رہتی بھی گروہ میں ہیں۔نقصان ہونے تک چین یا بیرونی امداد کے منتظر رہنے سے بہتر نہیں کہ مقامی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاو کے دوران جہاں ایک طرف دل گرفتہ کرنے والی خبریں آرہی ہیں وہاں ایف اے او خبردار کر رہا ہے کہ اگر ٹڈی دل پر قابو نہ پایا گیا تو انکی تعداد میں 20گنااضافہ ہو جائے گا۔

پاکستان ہی نہیں ٹڈی دل بھارت میں بھی تباہی پھیلارہا ہے۔راجھستان، پنجاب، ہریانہ،گجرات تک ہی نہیں ٹڈی دل اتر پریش، مدھیہ پردیش تک پہنچ چکا ہے، جو غیر معمولی بات ہے۔ایف اے او کے مطابق کرہ ارض پر ہردس افراد میں سے ایک فرد کی زندگی ان ٹڈیوں سے متاثر ہوتی ہے اس لیے یہ دنیا میں منتقل ہونے والی بدترین وبا قراردی جاتی ہے۔ 
کورونا وائرس کے ساتھ اس مشکل سے نجات کے لیے فوری اور موثر اقدامات ضروری ہیں۔

تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو ماحولیات کے لیے بھی موزوں ہوں۔ کورونا وائرس کے حوالہ سے وفاقی حکومت ایک موثر اور متفقہ پالیسی لانے میں ناکام رہی، لاک ڈاون ہوا مگر وزیراعظم اور کچھ وزراء اسکی مخالفت کرتے رہے۔لاک ڈاون کے معاشی اثرات بھی سامنے آئے اور لاک ڈاون غیر موثر بھی کر دیا گیا۔کورونا وائرس کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی بجائے وفاق سندھ حکومت کے مد مقابل رہا۔

اب اس طرح کی صورتحال سے بچنا بہت ضروری ہے۔ٹڈی دل کے خلاف موثر پالیسی اور اقدامات میں تاخیر ہوئی تو دو طرفہ نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔ پاکستان کی معشیت کورونا اور ٹڈی دل کے نقصان برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔منصوبہ سازوں کو چائیے کہ مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر انقلابی فیصلے کریں۔چین پاکستان کا خیر خواہ ملک ہے۔ترکی اور عالمی برادری کے تعاون اور مشاورت سے بہتر حکمت عملی مرتب کی جانی چائیے جس سے معشیت کو لگنے والے گھاو بھر سکیں۔بصورت دیگر ہماری معشیت مزید تباہی تک جاپہنچے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :