''انرجی سپورٹ پیکیج''

جمعرات 5 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وفاقی کابینہ نے صنعتوں کے لیے توانائی سپورٹ پیکج کی منظوری دے دی اور ٹیرف طے کرنے کے لیے معاملہ نیپرا کو بھیجنے کی ہدایت کی۔صنعتوں کے لیے بڑے ریلیف پیکیج کے تحت انہیں سستی بجلی فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یکم نومبر 2020ء سے جون 2021ء تک چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو گزشتہ سال کے ان مہینوں کے بلوں سے زائد استعمال کی جانے والی بجلی پر 50فیصد رعایت ملے گی۔


قارئین کرام! ماضی میں انرجی کرائیسس کی وجہ سے ملک میں نہ صرف اندھیرے چھائے رہے بلکہ معیشت کو بھی نقصان ہوا۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف کی طرف سے بینظیر بھٹو کی حکومت کے معاہدوں کو ختم کرنے سے اس کا آغاز ہوا۔ صدرپرویز مشرف نے بھی انرجی سیکٹر پر توجہ نہ دی۔

(جاری ہے)

2008ء میں پی پی پی حکومت میں بجلی کا شدید بحران رہا۔ اس وقت کی حکومت سستی بجلی کی بات کرتی رہی، لیکن اس وقت لوڈ شیڈنگ پر مسلم لیگ(ن)نے بھرپور سیاسی حمایت حاصل کی۔

مہنگی بجلی بناکر لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا کریڈیٹ بھی لیا۔ مہنگی بجلی ہونے کی وجہ سے صنعتوں کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلہ میں پاکستان میں 25فیصد بجلی مہنگی ہے۔
تبدیلی سرکار نے بہترین فیصلہ کیا ہے کہ صنعتوں میں پیداواری لاگت کم کرنے سے ہی انٹرنیشنل سطح پر مقابلہ ممکن ہے اور معیشت کا پہیہ بھی تیز چلے گا، روزگار بڑھے گا اور تجارتی خسارہ کم ہوگا۔

وفاقی وزیر اسد عمر کے مطابق سابقہ حکومتوں نے ذاتی مفاد کے لیے جو معاہدے کیے اس سے بجلی کا یونٹ 24روپے تھا تاہم اب وہی معاہدے 6روپے یونٹ پر کیے ہیں۔دوسری طرف ٹیکسوں میں اضافے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ حکومت نے مسترد کردیا۔آئی ایم ایف نے گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔
ملکی معیشت مشکلات کا شکار ہے اس صورتحال سے نکلنے کے لیے جامع پالیسی کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس کا مکمل ادراک ہے۔

کابینہ کی سطح پر فیصلے تو ہونگے مگراصل امتحان ان پر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی زراعت اور غریب طبقات کو اہمیت دیتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) موٹرویز کی تعمیر کو ترقی قرار دیتی ہے۔ قرضے لیکر میگا پروجیکٹ تو مکمل ہو ہوسکتے ہیں مگر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ قرضوں سے نجات حکومت کا ہدف ہے۔

ترکی کی کامیابی کا بھی یہی راز ہے۔ دنیا کی 16ویں بڑی معاشی طاقت ترکی نے پہلے قرضوں سے نجات کی پالیسی اختیار کی۔ مہنگائی سبسڈی سے نہیں آمدن بڑھانے سے ہی کم ہو سکتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے ایسے ہی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
آج پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر دستک دے رہی ہے۔ رواں سال کے آغاز سے ہی کورونا وباء نے پوری دنیا کی معیشت پر برے اثرات ڈالے۔

پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا مگر کورونا سے قبل انرجی کرائسسز نے بھی معیشت کا بٹھا بیٹھا دیا۔ پاکستان عالمی مارکیٹ میں بنگلہ دیش، بھارت اور فلپائن سے مقابلہ میں اپنی معیشت سنبھال نہ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ بجلی کی فراہمی مسئلہ نہیں اصل مسئلہ سستی بجلی کی فراہمی ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو موجودہ حکومت مسابقت اور مقابلہ کے لیے تمام صنعتوں کو 3سال کے لیے اضافی بجلی 25فیصد کم نرخوں پر دینے جارہی ہے۔ اورنج ٹرین یا دیگر میگا پراوجیکٹ پر سبسڈی کی بجائے مسلم لیگ(ن) اس طرف مکمل دھیان دیتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ تختی اور فیتے کاٹنے کے شوق نے ملک کا یہ حال کیا۔بجلی سستی رہتی تو ترقی کی رفتار تیز ہوتی شو مئی قسمت سستی تو کیا بجلی کا بحران رہا۔

فوری بجلی کے لیے رینٹل پاور پلانٹ
 واحد حل تھا مگر چیف جسٹس (ر)افتخار چوہدری نے پی پی پی حکومت کو کام کرنے ہی نہیں دیا۔ مسلم لیگ (ن) آئی تو مہنگی بجلی نے پیداواری مقابلہ کی صلاحیت ہی ختم کرکے رکھ دی۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت نے بہترین فیصلہ کیا بجلی سستی ہوگی تو سب کچھ سستا ہوگا۔ موجودہ حکومت مشکل فیصلوں کے بعد معیشت کو درست سمت پر ڈال سکے تو یہی کامیابی ہے اور اصل تبدیلی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :