''جمہوریت اورسیاسی رویے''

جمعرات 12 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان میں جمہوریت کے حوالہ سے سیاسی جماعتوں میں موروثیت کے ساتھ تنظیمی معاملات میں جمہوری طریقہ نہ ہونے پر تنقید کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں کم وبیش شخصیات ہی اہم ہیں۔ پارٹی پروگرام، منشور اور تنظیم سازی کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے طلال چوہدری کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے تو تنظیم سازی ایک مذاق بن گے رہ گئی۔

افراد کے نام پر پارٹیاں قائم ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نوازشریف کی پارٹی، مسلم لیگ (ق) چوہدری برادارن کے نام، پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کے بعد زرداری خاندان کے زیر اثر ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی باچا خان کی میراث ہے۔مذہبی جماعتوں میں بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں۔ پارٹی کی سربراہی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ جماعت اسلامی میں امارت کے لیے طریقہ کار موجود ہے۔

سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں لیڈران طاقتور ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ شخصیت پرستی ہماری جمہوریت کا خاصا ہے۔ تقسیم پاکستان کے بعد مسلم لیگ درجنوں گروپس میں تقسیم ہوئی اور اسٹیبلیشمنٹ کی جماعت کے طور پرہر دور میں مختلف گروپس کی صورت موجود رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی افکار پر قائم کی اور بھٹو کو راستہ سے ہٹانے کے نتیجہ میں اس پارٹی کے ساتھ بھٹو کا نام لازم ہوگیا۔

اس تناظر میں پی پی پی کو بھی اسی صف میں شامل کرنا کچھ مناسب نہیں۔ میری دانست کے مطابق بھٹو کی پارٹی کا معاملہ جدا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے پر پی ٹی آئی نے بھرپور تنقید کی۔ عمران خان تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ میدان سیاست سے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
سیاسی جماعتوں میں تنظیمی سطح پر معاملہ مثالی نہیں رہا تو پارٹی فنڈز میں شفافیت کس طرح ممکن ہوسکتی ہے۔

۔۔؟
پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ التواء کا شکار ہے۔اب مسلم لیگ (ن)کے حوالہ سے ایف آئی اے کو سلمان شہباز کے خلاف جاری تحقیقات میں پارٹی فنڈز کے ذاتی اکاونٹس میں منتقلی کے بھی شواہد مل گئے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق متعدد ٹکٹ ہولڈرز نے ایف آئی اے کو بیان ریکارڈ کروادیا کہ چیک سلمان شہباز کے اکاونٹس میں جمع ہوئے۔ تحقیقات کے مطابق یہ چیک ٹکٹ ہولڈرز اورکاروباری شخصیات کی جانب سے شہباز شریف کو دئیے گئے تھے۔

انہوں نے یہ چیک سلمان شہباز کے حوالہ کیے۔ اس طرح کے شواہد نیب لاہور کے پاس بھی موجود ہیں جن میں پارٹی فنڈز کی رقم ذاتی اکاونٹس میں منتقل ہوئی۔
قارئین کرام! سیاسی قائدین پر کرپشن کے الزامات کے ساتھ پارٹی فنڈز کا ذاتی استعمال جمہوریت پسندوں کے لیے کیے ندامت کا باعث ہے۔افراد اور خاندانوں کے گرد گھومنے والی پارٹیوں کا جمہوریت کا راگ الاپنا محض دھوکا ہی لگتا ہے۔


جہاں تک بات ہے کرپشن کی تو کرپشن کا وجود دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر دور میں رہا۔کرپشن ذاتی مفاد کے لیے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ برسراقتدار رہنے والوں کے ساتھ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے فنڈز کا ذاتی اکاونٹس میں منتقلی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ جمہوریت عوام الناس کے لیے انصاف اور مساوات کی علامت ہے۔ شومئی قسمت پاکستان میں جو جمہوری نظام قائم ہوا بااثر طبقات اس نظام کے مالک بن گے۔

قومی ہی نہیں علاقائی سطح پر بھی ہر طرف بااثر گروہ تخلیق ہو چکے ہیں۔ کسی بھی جمہوری دور میں یہ بااثر افراد اپنی مرضی کی جماعت کے لیڈر کو الیکشن جتواسکتے ہیں۔ یہ سب جمہوری طریقہ سے ہی ہوتا ہے۔ طریقہ انتخاب ایک آدمی ایک ووٹ مگر سوچ سیاسی یا قومی نہیں ہوتی۔ تعصب، وقتی فائدہ اور دباو سب ووٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے سیاسی ماحول میں کرپشن اور پارٹی فنڈز کا ذاتی استعمال بڑی بات نہیں۔


پاکستان کی بقاء جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں جیسی بھی جمہوریت ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو اسکے خاندان اور پارٹی کارکنوں کا خون شامل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قربانیاں فراموش کرکے آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔ اس حقیقت کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا اکثر سیاسی رہنماوں کو سیاست وراثت میں ملتی ہے لیکن کامیابی مکمل طور پر اپنی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔


یہ بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ سیاستدانوں کی غلطیاں اور غیر جمہوری رویے ہی طالع آزماوں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔الزامات کی سیاست،سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور عدم برداشت نے جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیا۔ ایسے سیاسی ماحول میں پی ٹی آئی جیسی جماعتیں ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی میں موروثیت نہیں تو جمہوریت بھی نہیں۔ سیاسی لائحہ عمل، مربوط سیاسی پروگرام کچھ بھی تو نہیں تمام سیاست سیاسی مخالفین پر تنقید کے گرد ہی گھومتی ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ غیر جمہوری کردار کی حامل ہے تو سوال یہ ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔۔۔؟ جمہوریت تو بتدریج مضبوط ہو گی۔ سیاسی نظام چلے گاتوشعورآئے گا۔ عدم برداشت اور الزام تراشی سے جمہوریت نہیں چل سکتی۔ کرپشن کے فیصلے عدلیہ کرے اور حکومت سیاسی قیادت سے سیاسی انداز میں بات کرے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔موجودہ سیاسی صورتحال میں سیاسی قیادت کی اہلیت کی آزمائش کا وقت ہے۔ اگلے چند روز میں اسکا فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ ہماری سیاسی قیادت ماضی سے کچھ سیکھ پائی ہے یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :