اقتدار نہیں حقیقی جمہوریت ضروری ہے

منگل 10 اگست 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بڑے بڑے جلسوں کے انعقاد اور ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد سینٹ الیکشن میں اختلافات کا شکار ہو کر غیر موثر ہوگئی۔ حکمران جماعت کے کپتان عمران خان اپنی جارحانہ سیاسی اننگز جاری رکھے ہوئے ہیں۔جی بی کے بعد آزاد کشمیر الیکشن میں تبدیلی سرکار کامیاب رہی۔ اس کامیابی کا پس منظر اگرچہ دوسرا ہے لیکن سیالکوٹ کی صوبائی نشست پر الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی شکست نے حکومت کے مضبوط ہونے کے تاثر کو درست ثابت کر دیا۔

آج تبدیلی سرکار جہانگیر ترین گروپ کے پریشر سے بھی آزاد دکھائی دیتی ہے۔آئندہ عام الیکشن تک مہنگائی کے علاوہ موجودہ حکومت کو کوئی چیلنج نہیں۔اپوزیشن ایک طرف تقسیم ہے دوسری طرف عوامی ترجمانی کی بجائے نوازشریف کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے بطور لیڈر کردار ادا کرنے کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی لائن پر اتحاد کو چلانے کی کوشش کی جو بہت بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوئی۔

لیڈر اتحاد میں شامل جماعتوں کو متحد رکھتا ہے لیکن مولانا سیاسی فیصلوں میں ناکام رہے۔اتحادی سیاست کے حوالہ سے نواب زادہ نصراللہ خان پاکستان کے سب سے کامیاب سیاستدان رہے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اتحادی سیاست میں اختلافات کا ہونا فطری امر ہے۔ان اختلافات کو کم کرنے کے لییپل کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔مولانا فضل الرحمن پل بنے کی بجائے سپیڈ بریکر بن گئے۔


اتحاد ہمیشہ ایک واضح ایجنڈا پر آگے بڑھتا ہے۔ حکومت کے خلاف اتحاد کا مقصد جمہوری طریقہ سے حکومت کا خاتمہ ہی ہوا کرتا ہے۔ حکومت کے خاتمہ کے لیے عوامی پریشر کے ساتھ اِن ہاوس تبدیلی ہی سب سے بہتر آپشن ہوتا ہے۔ نمبر گیم پر کام کرنے کی بجائے خفیہ رابطے اور اداروں پر تنقید ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔پی ڈی ایم کو مسلم لیگ (ن) کی متحرک لیڈر شب نے متفقہ فیصلوں کے ساتھ چلانے کی بجائے اپنی خواہش کے تابع پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کی عددی اکثریت سے چلانا چاہا۔

اتحادی سیاست میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک پارٹی دوسری پارٹی کو شوکاز نوٹس دے رہی ہے۔ اپوزیشن کی اپوزیشن کی جاتی رہی۔ حکومت کو اس غیردانشمندانہ حکمتِ عملی سے کیا خطرہ ہونا تھا۔ عمران خان تو پہلے ہی عوام کو یہ بتاتے آ رہے ہیں کہ پارٹیاں صرف اپنے اقتدار کے لیے سرگرم ہیں۔ عوام اور عوامی مسائل انکے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔
پہلے جاوید لطیف نے مریم نواز کی سیاست کو لیکر بہت ہی خطرناک بات کی۔

اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ایم ایل اے کے امیدوار کی طرف سے را کو پکارنے کی بات، اس سے قبل سیالکوٹ سے ہی لیگی رہنما کا یہ موقف عام پاکستانی نے سنا کہ عمران خان کی بجائے مودی کی تصویر لگانے کو ترجیحی دیں گے اور اس عمل سے نواز شریف خوش ہونگے۔ ایک ٹاک شو میں اپنے وزیراعظم کی نفرت میں اس حد تک جانا ملکی اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

ادارے کیا عام پاکستانی بھی اس سوچ کو قبول نہیں کر سکتا۔
مناسب تھا اس طرح کے بیانات سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قیادت لا تعلقی کا اعلان کرتی۔اس کے برعکس مریم نواز تو سیاسی تصادم سے کم پر راضی ہی دکھائی نہیں دیتیں۔ نواز شریف خود بیرون ملک آرام سے رہیں اور پاکستان میں پی ڈی ایم بشمول پی پی پی سڑکوں پر احتجاج کرے۔عجیب خواہش ہے کہ پہلے انقلاب آئے اور پھر نواز شریف ملک کی قیادت کے لیے شاہانہ انداز سے پاکستان آئیں۔


مریم نواز کی خواہشات اپنی جگہ، مولانا فضل الرحمن اور سیاسی تجزیہ نگار تو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن)بطور جماعت احتجاجی سیاست کی تاریخ نہیں رکھتی۔ نواز شریف کے کارکنان کی تربیت مزاحمت اور احتجاجی سیاست کی نہیں۔ نواز شریف بطور حکمران سیاسی لیڈر بنے ہیں۔ عوامی طاقت سے سیاست میں نہیں آئے۔ یہ بااثر اہلِ ثروت مقامی رہنما ہیں جو جلسوں میں عوام کو لے آتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) تنظیمی سطح پر عوام کو اکھٹا نہیں کر سکتی۔ مریم نواز کو یہ کریڈیٹ دینا کہ وہ جلسہ کی کامیابی کی ضمانت ہیں سیاسی شعور کے پیمانہ کے مطابق درست نہیں۔ جذباتی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے اس پر بحث نہیں۔یہ باتیں صرف اس لیے پھیلائی جاتی ہیں تاکہ شہباز شریف کے تجربہ کو نظر انداز اور سیاسی فکر کو کمزور کیا جاسکے۔نواز شریف کا بیرون ملک قیام،مریم نواز کا سیاسی انداز اور مولانا فضل الرحمن کی فکری بے صبری اپوزیشن کے متحد ہونے میں بنیادی رکاوٹ ہے۔


سیاست میں بتدریج آگے بڑھا جاتا ہے ایک جلسہ سے آر یا پار نہیں ہوجاتا۔ احتجاج اور مذکرات دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ حکومت کو وقت دے کر بھی بے نقاب کیا جاتا ہے اور عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کے لیے سرگرمی بھی جاری رہتی ہیں۔سیاست خواہشات کے تابع رہ کر نہیں ہو سکتی۔ سیاست سیاسی انداز سے ہی ہوتی ہے جیسے پی پی پی نے کراچی سے سیٹ جیتی، جی بی اور کے پی میں بہتر نتائج حاصل کیے۔

سینٹ میں کامیابی حاصل کی۔ اب بلوچستان میں خاطر خواہ سیاسی حما?ت حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) بلوچستان سے فارغ اور پی پی پی مضبوط ہوئی۔ لیگی رہنماوں میں اضطراب ہے وہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ پر چلنے پر ہجکچاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ نواز شریف کے ووٹ بنک کا نعرہ سننے کے حد تک درست لیکن عملی سیاست میں کامیابی کو مسلم لیگ (ن) سے دور ہی کرتا جائے گا۔


قارئین کرام! ذرائع مسلم لیگ (ن) کے مطابق 11اگست کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے ہونے والے سربراہی اجلاس میں شہباز شریف شریک ہونگے۔ مریم نواز اجلاس میں شریک نہیں ہونگی۔اس اجلاس میں پی ڈی ایم کے مستقبل اور حکومت کے خلاف نئی تحریک کے حوالہ سے مشاورت ہوگی۔فیصلہ ہوگیا اب شہاز شریف ہی سیاسی محاذ سنھبالیں گے۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف پی پی پی سے بھی رابطہ میں ہیں۔

قومی اسمبلی میں ہر ایشو پر پی پی پی مسلم لیگ (ن)کو سپورٹ کریگی۔
اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے شہباز شریف ایک موزوں شخصیت ہیں۔ میدانِ سیاست کی تمام اتار چڑھاو سے بخوبی آگاہ ہیں۔سب سے بڑھ کر انہیں عضوِ معطل بنا کر مسلم لیگ (ن) نے نتائج دیکھ لیے۔ مریم نواز اور فضل الرحمن پی ڈی ایم کو یکجا نہیں رکھ سکے۔ اب حکومت کی رخصتی ممکن نہیں اپوزیشن اتحاد صرف مل کر حکومت کو عوام میں غیر مقبول کرنے کی کوشش کرے۔

ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے سے کپتان کی جارحانہ اننگز جاری رہے گی۔اپوزیشن کو متحد کرنا ہے تو مریم نواز کی خاموشی ضروری ہے۔ مولانافضل الرحمن کی جگہ پی ڈی ایم کی سربراہی شہباز شریف کو سونپی جائے۔گڈ کوپ بیڈ کوپ پالیسی سے اپوزیشن متحد نہیں ہوسکتی۔فیصلہ کرنا ہوگا کہ شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر اسمبلی اور اسمبلی سے باہر اپنا کردار ادا کریں۔

اپوزیشن کو متحد کریں۔اب وہ وقت آنے والا ہے جب کمزور طبقہ منہ زور طبقے کو افلاس بانٹنے کی پاداش میں مسترد کر دے گا۔اپوزیشن کو متحد ہونا ہوگا۔ سیاسی مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ہونا چاہیے۔ اقتدار نہیں حقیقی جمہوریت کی خواہش ہی اپوزیشن کو متحد رکھ سکتی ہے۔
انشاء اللہ پاکستان کو آگے بڑھناہے
اقتدار نہیں حقیقی جموریت ضروری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :