"غدّاری کے فتوے اور ہماری سوچ کا المیہ"

جمعہ 17 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں ہر کوئی غداری کے فتوے بانٹتا پھرتا ہے ۔کبھی کسی سیاستدان کو غدار کہا جاتا ہے تو کبھی ہر اُس شخص کو جو اپنے حقوق کی بات کرے اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے آواز اُٹھائے ۔یہ سلسلہ ساٹھ کی دہائی میں اُس وقت شروع ہوا جب جنرل ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے۔ انھوں نے فاطمہ جناح جو بانی پاکستان کی چھوٹی بہن تھیں اُن کو غدار قرار دیا اُن کی ذاتی زندگی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔

یہ اُس دور میں صرف فاطمہ جناح کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر اُس سیاست دان یا لیڈر کو غدار کہا گیا جو 1965 کے الیکشن میں مادرِ ملت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ایک طرف اپوزیشن کا اتحاد تھا جس میں شیخ مجیب الرحمن، باچا خان اور دوسرے قائدین شامل تھے۔

(جاری ہے)

لیکن دوسری طرف کنونشن مسلم لیگ کے سربراہ جنرل ایوب خان تھے جو اُس وقت پاکستان کے صدر تھے۔ اِس دور میں سب سے زیادہ غداری کے فتوے لگائے گئے اور اِس کا نشانہ زیادہ تر وہ سیاستدان تھے جن کا تعلق پاکستان کے چھوٹے صوبوں سے تھا ۔

اُس وقت بھی عوام میں یہ بیانیہ بیایا گیا کہ اپوزیشن کے اِن لیڈران کو انڈیا کی پشت پناہی حاصل ہے اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن اور خیبرپختونخوا سے باچا خان پر اِس طرح کے سنگین الزامات لگے۔پھر الیکشن کا رزلٹ بھی عوامی توقعات سے بلکل برعکس نکلا جب ایوب خان نے اِن سب کو غدار کہ کر الیکشن سے ہروایا ۔حالانکہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کے آبائی علاقے سے بھی جیت چکی تھیں کیونکہ شیخ مجیب الرحمن جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور وہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ بھی تھے وہ مکمل طور پر فاطمہ جناح کو سپورٹ کر رہے تھے۔

مشرقی پاکستان کی عوام کی یہ دلی خواہش تھی کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہو۔جس کی علم بردار محترمہ فاطمہ جناح تھیں ۔پھر کس طرح محترمہ کو غدار قرار دیا گیا یعنی کہ مشرقی پاکستان کی عوام کی اکثریت ایوب خان کی نظر میں غدار ٹھہری ۔جب پاکستان کی آبادی کی اکثریت کو اقتدار کے لالچ میں غدار قرار دے دیا جائے تو ہم کس طرح اُن سے یہ توقعات وابستہ کریں کہ وہ امن کا جھنڈا تھام کے چلینگے ۔

ایک طرف اُن کے حقوق کو غصب کیا گیا دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام اور اُن کے لیڈران کو غدار قرار دیا گیا ۔تو پھر تاریخ نے اِس کا بھیانک انجام بھی دیکھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اکثریت کی آبادی اقلیت سے علیحدہ ہو گئی ۔ یہ سلسلہ یہیں تھما نہیں وقت کے بہت سے حکمرانوں پر غداری کے فتوے لگائے جاتے رہے۔ مشرقی پاکستان تو ہم سے علیحدہ ہو چکا تھا جو پاکستان بچ گیا جس کو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں یہاں بھی چھوٹے صوبوں میں محرومیاں پائی جاتی ہیں یہاں کے لیڈران نے اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کی تو انہیں غاروں میں شہید کر دیا گیا اکبر بگٹی جو تحریک پاکستان کے بہت بڑے علمبردار تھے اُنھوں نے بلوچ عوام کے حقوق کی بات کی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن کی باتوں کو سنا جاتا ۔عمل درآمد کروانے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا بلکہ اِن لیڈران کو بھی غدار کہا گیا اور غداری کے فتوے بانٹے گئے اور آج بلوچستان سلگ رہا ہے ۔اِس کا ذمہ دار ہم خود ہیں جن کو غداری کے فتوے بانٹنے کا بہت شوق ہے اور ایسے لوگ اپنا شوق مسلسل پورا کر رہے ہیں ۔

پاکستان کے تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم بھی اِن فتووں سے بچ نہیں سکے۔وہ جب جب وزیر اعظم رہے اُن پر غداری کا یہ داغ مسلسل لگایا جاتا رہا۔حالانکہ وہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں جب ہم اِن کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب وزیراعظم کو ایسے القابات سے نوازیں تو یقیناً اِس سے ہمارے دشمن عناصر ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔جب ہم میں سے وہ نوجوان جو اِن بیانات پر اپنے منتخب وزیراعظم کا دفاع کرتے ہیں تو فتوے بانٹنے والوں کو یہ ڈر لگ جاتا ہے کہ ہم ففتھ جنریشن وارفیئر کا شکار ہو چکے ہیں ۔

ملک کے وزیراعظم کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات یقینی بنائے ۔امن کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے کیونکہ اِس سے ہمارا ہی فائدہ ہے تاکہ ہم دشمن کی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں لیکن بدقسمتی سے جب جب منتخب وزرائے اعظم نے ایسا کیا تو فتوے بازوں کی طرف سے غداری کے فتوے لگا دیے گئے ۔کل ہی موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر علی محمد خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہماری پارٹی کی اعلیٰ قیادت میاں نواز شریف کو غدار نہیں سمجھتی ۔

انہوں نے کہا کہ میں کیسے تسلیم کر لوں کے منتخب وزیراعظم غدار ہو سکتا ہے ۔یہ الفاظ ایک وفاقی وزیر کے تھے جو تحریک انصاف کے اہم رکن بھی ہیں ۔اِن کے اِس بیان کے بعد پاکستانیوں کو یہ سمجھ جانا چاہئے چاہے اِن کا تعلق کسی پارٹی سے ہی کیوں نہ ہو کہ منتخب وزیراعظم کبھی غدار نہیں ہو سکتا ۔
اگر آپ منتخب وزیراعظم کو غدار سمجھ رہے ہیں تو اُن کے چاہنے والوں پر بھی اسی طرح کے الزامات لگانا بھی معمولی سی بات ہے ۔


ماضی میں غداری کا انجام ہم نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان کی اکثریت ہم سے علیحدہ ہوئی ۔اب ایسے کسی سانحے سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی۔ لوگوں کی سوچوں کا احترام کرنا ہوگا ۔ہمارا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہو ہم کسی صورت منتخب وزیراعظم یا اِن کے چاہنے والوں پر غداری کے فتوے نہیں لگا سکتے یا اُس شخص کو غدار نہیں سمجھ سکتے جو اپنے حقوق مانگنے کی بات کر رہا ہو۔ پاکستان کی سالمیت ہمیں عزیز ہے اور ایک منتخب وزیراعظم یا اِن کے چاہنے والوں سے زیادہ اِس بات کو اور کوئی نہیں جان سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :