"سقوطِ کشمیر کو ایک سال مکمل"

بدھ 5 اگست 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

حسن سے مالا مال کشمیر کی جنت نظیر وادی اپنے اندر کئی ظلم و ستم کی داستانیں سموئے ہوئے ہے ۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے ۔لیکن اِس میں شدت اُس وقت آئی جب برصغیر کی نامکمل تقسیم نے مسائل کو جنم دیا۔1947 سے لے کر اب تک کشمیری آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن 73 سال گزرنے کے باوجود کشمیر کی عوام آج بھی آزادی جیسی نعمت سے محروم ہیں ۔

اب تک ہزاروں کشمیری انڈین آرمی کی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن کشمیری عوام میں آزادی حاصل کرنے کی خواہش آجتک زندہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہم والنٹیرز پیس کانفرنس کے سلسلے میں مظفر آباد آزاد کشمیر آئے تھے، سفر پیر چناسی کا تھا، اور منزل کشمیر کی برفیلی چوٹیوں کو دیکھنا تھا ۔ہماری گاڑی بھی پہاڑوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی بڑی تیزی سے آگے کو بڑھ رہی تھی لیکن جیسے ہی ہم پیر چناسی کےقریب پہنچے تو برف کی وجہ سے گاڑی کا آگے جانا مشکل لگ رہا تھا، ہم گاڑی سے اترے اور پیدل سفر کا آغاز کیا ۔

(جاری ہے)

تھوڑی ہی دیر میں سامنے سے دو ننھے بچے آتے دیکھائی دئے، میں نے اُن کو اپنے پاس بلایا اور نام جاننے کے بعد کچھ سوالات کئے ۔بھائی آپ کہاں رہتے ہو، بچے نے بڑے جزبے سے جواب دیا، پاکستان
میں نے پھر پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے، بچےنےپھر یہی جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے ۔میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔
کیونکہ سوالوں کے وہ جوابات ملے جو ہم پاکستانیوں کے دل کی آواز ہیں ۔

میں نے یہ آزما لیا کہ کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان سے کتنی محبت کرتا ہے چاہے وہ کنڑول لائن کے اُس پار ہو یا اِس پار ۔کشمیر کی غیور عوام پاکستان پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے ۔میرا یقین اور پختہ ہوا کہ وہ دن بہت جلد آئے گا جب مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اٹل حقیقت ہے ۔

پاکستان اور انڈیا کشمیر کے معاملے پر الگ الگ رائے رکھتے ہیں ۔پاکستان کشمیر کو اپنی شاہرگ کہتا ہے تو انڈیا کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے لیکن تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے کشمیر پاکستان کے بہت قریب ہے اور پاکستان کشمیر کا سب سے بڑا وکیل بھی ہے۔
کشمیر کو پاکستان اور انڈیا کے آئین میں خود مختار کی حیثیت حاصل ہے لیکن 5 اگست 2019 کو انڈیا نے آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کر دیا اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کی خودمختاری کی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔

اس آرٹیکل کے ذریعے کشمیر کی ریاست کو ایک مخصوص مقدار میں خودمختاری حاصل تھی۔ اس کا اپنا آئین تھا، الگ جھنڈا اور قانون بنانے کی آزادی تھی۔ لیکن دفاع، خارجہ امور اور مواصلات پر مرکزی حکومت کا حق تھا ۔جو اب اِس آرٹیکل کو ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر کشمیر انڈیا کا حصہ بن چکا ہے اور ریاست کے تمام امور براہ راست نیو دہلی سے کنٹرول ہونگے۔

اِس آرٹیکل کو ختم کرتے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری سراپا احتجاج بن گئے ۔پاکستان جو کشمیریوں کا سب سے بڑا وکیل ہے اِس نے یہ معاملہ ہر فورم پر اُٹھانے کا فیصلہ کیا ۔لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی حاوی رہی۔وہ کام جو تاریخ میں نہیں ہو سکا مودی حکومت نے وہ کر دکھایا اور کشمیر کو مکمل طور پر انڈیا کا اٹوٹ انگ بنا لیا ۔

اِس واقعے کے بعد کشمیر میں امن و امان کے حالات کافی حد تک خراب ہوئے ۔اِسی تناظر میں انڈین حکومت نے کشمیر کے بہت سے علاقوں میں کرفیو لگا دیا اور کشمیریوں کی ایک بار پھر سے آواز دبانے کی ناکام کوشش کی۔پاکستان نے اِن مسائل کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اُٹھایا لیکن پاکستان کی یہ آواز ہمیشہ تقریروں تک ہی محدود رہی ۔اِس حوالے سے آجتک کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔

وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں بڑی دھواں دھار تقریر کی۔ اِن کے چاہنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ اب کی بار شاید کشمیر کے حوالے سے پیش رفت ہو سکے۔لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود آجتک اِس حوالے سے پیش رفت نہیں ہو سکی اور نہ ہی ہم کشمیر کے حوالے سے ہم اپنا بیانیہ منوا سکے۔ کشمیر میں ایک سال گزرنے کے باوجود آج بھی کرفیو نافذ ہے۔آج بھی کشمیر کی پرانی حیثیت بحال نہیں کی جاسکی ۔

یہ ہماری سفارتی سطح پر بہت بڑی ناکامی ہے کہ پچھلے ایک سال میں ہم نے کشمیر کے ایشو پر بہت کھویا ہے۔وہ کام جو ستر سالوں میں کسی پاکستانی حکمران کے ہوتے ہوئے نہیں ہو سکا۔وہ موجودہ دور میں پایہ تکمیل تک پہنچا اور ایک سال سے کشمیر کسی جیل کا منظر پیش کر رہا ہے ۔یہ سب ہونے کے باوجود ہماری ترجیحات آج بھی غیر سنجیدگی کا بدترین نمونہ پیش کر رہی ہیں ۔

پچھلے سال جب انڈیا نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا تو ہم نےکچھ دنوں تک تو وہ کام کیے جن سے نہ کشمیریوں کو آزادی مل سکتی تھی اور نہ ہی کشمیر میں کرفیو ہٹ سکتا تھا ۔کبھی جلسے جلوس منعقد کیے گئے جن کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔کبھی ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔مان لیا یہ باتیں عوامی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ذریعہ تو ہو سکتی ہیں لیکن حکومتی سطح پر اِس طرح کے اقدامات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔

اِس بار بھی 5 اگست کے حوالے سے حکومتی اور عسکری قیادت کے انتظامات باعثِ ندامت ہیں ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان بھر میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک منٹ خاموشی اختیار کرینگے ۔وزیر خارجہ صاحب کو شاہد معلوم نہیں کہ سقوطِ کشمیر ہو چکا ہے اِن اقدامات سے کچھ نہیں بنے گا۔دوسری طرف اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے صرف یہی نہیں ‏پاکستان کے بہت سے اضلاع کی مرکزی سڑک کوکشمیرکےنام سےمنسوب کیا جا چکا ہے۔

یہاں تک کہ ہر گھر کے کھانے بھی کشمیر گھی سے تیار ہو رہے ہیں۔ہم نے کشمیر چورن بھی دھوم دھام سے بانٹا۔ہر سال کی طرح اِس بار بھی کشمیر پر ایک ملی نغمہ تیار ہو چکا ہے۔جو 5 ,اگست کو ریلیز کیا جائے گا۔ہماری ترجیحات ہمیشہ سے یہی باتیں رہیں ہیں جن سے ہم کشمیر کا چورن تو بیچ سکتے ہیں لیکن اِن سے نا ہی کشمیر آزاد ہو سکتا ہے اور نہ ہی کشمیریوں پر ظلم و ستم کم ہو سکتے ہیں. کشمیر کے حوالے سے موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بدتر ہے ۔

نواز شریف دور میں بھی امت مسلمہ کے کئی لیڈرز کشمیر پر بیان داغتے رہتے تھے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے بات بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔جو کشمیر کے حوالے سے ہوا ماضی کی کسی حکومت میں ایسا ہوا؟   موجودہ حکومت نے اِس حوالے سے کہاں تک پیش رفت دکھائی؟  کیا انڈیا نے کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کی؟  ایک سال ہو گیا ہے کشمیر میں آج بھی کرفیو نافذ ہے اِس حوالے سے حکومت کہاں تک کامیاب ہوئی؟؟ ہماری اعلیٰ قیادت کو اِس حوالے سے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ ورنہ کشمیر ایسے ہی سلگتا رہے گا اور ہم نعرے لگاتے رہ جائینگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :