ہائی جیکنگ

اتوار 11 اکتوبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

دنیا میں ہائی جیکنگ کے تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ ہائی جیکنگ کے ذریعے اغوا کاروں نے مضبوط سے مضبوط حکومت سے بھی اپنے مطالبات منوائے ہیں۔ جن کی سب بڑی مثال یہ ہے کہ جب بھارتی جہاز کے اغوا کے بعد بھارت نے اغوا کاروں کے مطالبے پر مولانا مسعود اظہر کو چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان کے بھی جہاز ہائی جیک ہوئے۔ جن میں مشہور زمانہ الذوالفقار تنظیم کے جانب سے کیا گیا جہاز ہائی جیک تھا۔

ان تمام ہائی جیکس میں اغوا کار جہاز کے اندر موجود تھے۔مگر ہمارے انوکھے ملک کی انوکھی تاریخ میں ایک جہاز ہائی جیک کا الزام زمین پر موجود لوگوں پر لگا۔ اور یہی نہیں بلکہ پہلے انہیں اس ہائی جیک پر سزا ہوئی اور بعد میں سزا سے بریت بھی ہوئی۔
12 اکتوبر 1999 کو پاکستان کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ ملک کے آرمی چیف جنرل مشرف کو ریٹائر کر کے لیفٹیننٹ جنرل ضیاء بٹ کو آرمی چیف تعینات  کرینگے۔

(جاری ہے)

جنرل مشرف اس وقت آرمی چیف کی حثیت سے سری لنکا کے دورے پر تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے دن کا آغاز ایک عام دن کے حیثیت سے کیا اور وہ صبح ملتان کے دورے پر چلے گئے۔ ملتان سے واپسی پر انہوں نہ جنرل ضیاء بٹ کو وزیر اعظم ہاؤس بلایا اور اُنہیں کہا کہ وہ اُنہیں آرمی چیف بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف پرویز مشرف سری لنکا سے وطن واپسی کے لیے پی ائی اے کی فلائٹ پی کے 805 سوار تھے۔

جنرل مشرف کے مطابق ان کے اسٹاف سیکرٹری نے اُنہیں کان میں آکر بتایا کہ پائلٹ آپ کو کیبن میں بولا رہا ہے۔ پرویز مشرف جب کیبن پہنچے تُو پائلٹ نے انہیں بتایا کہ جہاز کو پاکستان میں لینڈنگ کی اجازت نہیں مل رہی۔ اور کنٹرول ٹاور نے پائلٹ سے کہا ہے کہ وہ جہاز کو ممبئی، مسکت، ابو ظہبی یا بندر عباس لے جائے۔ پرویز مشرف نے پائلٹ سے کہا کہ جہاز بھارت تو انکی لاش پر ہی جائے گا۔


پرویز مشرف کے لیے ریٹائر ہونے کی خبر اُن کے لیے کوئی نئی خبر نہیں تھی۔اُنہیں یہ اندازہ پہلے سے ہو چکا تھا۔ اس لیے پرویز مشرف نے بھی کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملکر اس قسم کی صورت حال سے لڑنے کے لیے ایک جامع پلان تیار کر رکھا تھا۔ اب صرف ان ساتھیوں کو یہ خبر ملنی تھی اور کارروائی شروع ہو جانی تھی۔ خبر ان میں سے ایک ساتھی تک ایسے پہنچی کہ جنرل عزیز دفتر سے واپسی پر گھر پہنچ کر جوتے اُتار ہی رہے تھے کہ جنرل ضیاء بٹ کی اہلیہ جنرل عزیز کے گھر پر شوہر کے آرمی چیف بننے کی مٹھائی لے کر آئی۔

جنرل عزیز کو جیسے ہی پتہ لگا انہوں نہ اپنے دفتر کی طرف دوڑ لگائی اور پلان پر عمل درآمد شروع کر دیا۔پرویز مشرف کا جہاز تقریباً 1 گھنٹہ ہوا میں معلق رہا اور پرویز مشرف کے مطابق جب جہاز نے لینڈ کیا تو اس میں صرف سات منٹ کا فیول باقی تھا۔
وزیر اعظم میں اس دن ایک حل چل تھی۔ میاں صاحب کی ملتان واپسی کے بعد انہوں نے قوم سے خطاب کے لیے تقریر لکھوائی اور اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے ڈیفنس سیکرٹری کو فون ملایا۔

ڈیفنس سیکرٹری اس وقت نیم بیہوشی کی حالات میں سو رہے تھے۔کیوں کہ انہوں نہ انڈوسکاپی کرائی تھی۔ ان کی اہلیہ نے انہیں جگانے سے انکار کیا مگر وزیر اعظم کے دباؤ کی وجہ سے سیکٹری ڈیفنس کو جگایا گیا اور انہیں فلفور وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے کی ہدایت دی گئی۔ وزیر اعظم کی تقریر نشر ہونے جارہی تھی۔ اور سیکٹری ڈیفنس وزیر اعظم سے بحث کر رہے تھے کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم کو مہنگا پڑسکتا ہے۔

وزیر اعظم نے سیکٹری کو آرڈر نکالنے کا حکم دیا۔اور آرمی چیف کی مطلی کی خبر چلا دی۔ اب قانونی اعتبار سے حکومت کو پہلے آرڈر نکالنا چائیے تھا پھر میڈیا کے ذریعے اعلان کرانا چاہئے تھا۔ مگر ترتیب الٹی کرنے کے وجہ سے کھیل الٹا ہوگیا۔ آرڈر کے نہ آنے تک مشرف ہی آرمی چیف تھے اور انکے ساتھیوں کے پاس یہ شاندار موقع تھا کہ وہ آرڈر نکلنے سے پہلے پہلے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

حکومت کی اس جلد بازی کے وجہ سے آرڈر نہ نکل سکا اور اسی دوران  مشرف کراچی لینڈ کر گیا۔
کراچی لینڈنگ کے بعد مشرف کو ابھام تھا کہ کور کمانڈر کراچی انہیں لینے آیا ہے یا گرفتار کرنے آیا ہے۔ پرویز مشرف کا ابہام تب دور ہوا جب اس نے گاڑی پر آرمی چیف کے پروٹوکول والا جھنڈا دیکھا۔ وزیر اعظم ہاؤس کو سیل کر دیا گیا اور جب کور کمانڈر راول پنڈی وزیر کی گرفتاری کے لیے وزیر ہاؤس گئے تُو اُنہیں یہ خبر ملی کہ وزیر اعلی پنجاب واش روم میں چھپے ہوئے ہیں۔

واش روم کا دروازہ جب کھولا گیا تو شہباز شریف اپنے بھائی کی تقریر کو کسی طریقے سے تلف کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بھائی کے کتنے وفا دار ہیں اور نون سے ش نکلنے میں کتنی سچائی ہو سکتی ہے۔
پرویز مشرف نے رات دیر قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے مطلق حیران کن بات یہ ہے کہ اس خطاب کے دوران پرویز مشرف نے جو اس اس جی کی جو جیکٹ پہنی تھی وہ پرویز مشرف نے ایک سپاہی سے ادھار لی تھی۔

اور اس جیکٹ کے نیچے انہوں نے سادہ لباس پہن رکھا تھا۔ پرویز مشرف کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے غیر قانونی طریقے سے پہلے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لیا اور پھر اُنہیں بھی غیر قانونی طریقے سے ہٹانے کے کوشش کی۔ کسی بھی آرمی چیف کے تقری کا اختیار وزیر اعظم کے صوابدید پر ہوتا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم کے ایکشن کو چیلنج تو عدالت میں کیا جاسکتا ہے لیکن ملک پر قبضہ کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

موجودہ دور حکومت میں بھی جب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا معاملہ عدالت میں آیا تو سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے بیان دیا کہ یہ وزیر اعظم کا حق ہے کہ وہ کسی کو بھی آرمی چیف بنائے۔ اس سلسلے میں انہیں عدالت یا کسی اور کی روکاوٹ نہیں ہونی چائیے۔پرویز مشرف اپنی کتاب میں اس واقعے پر فخر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ کتنا قانوناً صحیح تھا اسکا جواب اب بھی ایک معمہ ہے۔ جہاں تک بات ہے ہائی جیکنگ کی تو اگر ایک منٹ کے لیے مشرف کی کہانی کو سچ مان بھی لیں۔تو اس صورت میں اگر جہاز کریش کر جاتا تو اس سے  صرف میاں نواز شریف کی حکومت ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کی پھانسی بھی یقینی ہو جاتی۔ اس لیے وزیر اعظم سے اس قسم کی حرکت کی اُمید لگانا مشکل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :