Live Updates

سندھ اسمبلی، آئندہ مالی سال 2018-19کے باقی 9ماہ کے صوبائی بجٹ پر عام بحث چھٹے روز بھی جاری رہی

واٹر کمیشن کی مہربانی ہے کہ اس نے کراچی اور حیدرآباد کے لئے پینے کے صاف پانی کی کچھ اسکیمیں بجٹ میں شامل کرائی ہیں، کنورنویدجمیل سندھ کے لوگ گٹر کا پانی پی رہے ہیںپینے کے پانی سے کلورین کی مدد سے انڈسٹریل ویسٹ ختم نہیں کیا جاسکتا،حلیم عادل شیخ کا اسمبلی اظہار خیال

ہفتہ 29 ستمبر 2018 22:15

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 ستمبر2018ء) سندھ اسمبلی میں ہفتہ کو آئندہ مالی سال 2018-19کے باقی 9ماہ کے صوبائی بجٹ پر عام بحث چھٹے روز بھی جاری رہی ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر کنور نوید جمیل نے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ واٹر کمیشن کی مہربانی ہے کہ اس نے کراچی اور حیدرآباد کے لئے پینے کے صاف پانی کی کچھ اسکیمیں بجٹ میں شامل کرائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 247 ارب کاجو ریونیو قومی خزانہ کو ملتا ہے اس کا نوے فیصد حصہ کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ بجٹ میں سے کراچی کی کئی اہم اسکیمیں نکالی گئی ہیں۔پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کے چیلنج کا سامنا ہے ،سول ہسپتال۔ جناح اور این آئی سی وی ڈی وفاقی حکومت نے بنائے ہیں۔ تعلیم کے لئے 208 ارب روپے رکھے گئے ہیں ،کراچی میں بڑی تعداد میںبچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

(جاری ہے)

بیشتر سرکاری اسکولوں میں باتھ روم۔ صاف پانی اور پنکھے کی سہولیات نہیں ہیں۔ جان بوجھ کر یہ سہولیات نہیں دی جارہی ہے تاکہ یہ بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں چلے جائیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کچھ تو بجٹ کا حصہ کراچی پر خرچ کیا جائے تاکہ یہ کالونی نہ لگے۔ آج پورا کراچی پیاس سے تڑپ رہا ہے۔ کے فور منصوبہ 2004 منظور ہوا تھا اور 2013میں شروع کیا گیا۔

واٹر ٹینکر پیپلزپارٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے لوگ پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ کراچی میں ہر سال پانچ سو ارب کا پانی بکتا ہے۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے ایک حصے کو ایک دن اور دوسرے حصے کو دوسرے دن پانی فراہم کیا جائے۔کنور نوید نے کہا کہ کراچی میں ہر سال پانچ ارب روپے کا پانی فروخت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین ہزار سے زاہد افسران نیب کیسز میں ضمانت پر ہیں۔ کوئی ایسا ادارہ نہیں بچاجس پر آڈیٹر جنرل نے تحفظات کا اظہار نہ کیا ہوا۔ تمام اداروں میں بد انتظامی اور بدعنوانی کی شکایت موجود ہیں۔ محکمہ خوراک میں 50 ارب کی بے ضابطگیوں کی شکایت آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ نئی بھرتیوں کے لئے حکومت نے بجٹ میں بڑی رقوم رکھی ہیںلیکن ہم پوچھتے ہیں کہ ہم کالونی والے کہاں کھڑے ہیں۔

2015میں آصف زرداری کو کہا تھا کہ 2لاکھ 9ہزار افراد کو نوکریاں دی گئی ہیںلیکن ان میں سے ایک بھی اردو پشتو اور پنجابی شامل نہیں تھا۔ کنور نوید نے کہا کہ جب بھائیوں میں مساوات نہ ہو تو بیچ میں دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔اسمبلی میں اپنی برتری کی طاقت سے ہمیں کب تک دبائیں گی ۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ آئندہ کراچی میں پانی پر فسادات شروع ہوسکتے ہیں۔

پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنا کر معاملے کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ ڈسٹرکٹ اے ڈی پی میں 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ بجٹ کراچی کے چھ اضلاع میں کم اور دیگر اضلاع پر زیادہ خرچ ہوں گے۔ جبکہ روینیو کا نوے فیصد حصہ کراچی سے وصول کیا جاتا ہے۔صوبائی وزیر توانائی امتیازشیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 30دنوں میں وفاقی حکومت نے 16 یوٹرن لئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کا مستقبل روشن ہے اورتھر پورے پاکستان کو بجلی فراہم کریگاافغانیوں اور بنگالیوں کی آبادکاری کا اعلان کرکے سندھ کے زخموں پر نمک چھڑکا گیااگر ہماری قیادت پر انگلیاں اٹھائینگے تو مجبوراجواب دینا پڑیگا۔انہوں نے کہا کہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجٹ پیش کرنے پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈرحلیم عادل شیخ نے اپنی بجٹ تقریر میںتھر اور کوہستان کی طرح ملیر کے دیہی علاقوں کو بھی قحط زدہ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے دعوی کیا کہ تھر کے تمام آر او پلانٹس بند پڑے ہیںحالانکہ ان پر اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایشیاکا سب سے بڑا آر او پلانٹ بھی سنا تھا کوئی جیلانی نام کا شخص اربوں کھا گیا۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ کے لوگ گٹر کا پانی پی رہے ہیںپینے کے پانی سے کلورین کی مدد سے انڈسٹریل ویسٹ ختم نہیں کیا جاسکتا،وزیراعلی صاحب! پینے کے پانی میں انڈسٹریل ویسٹ شامل کرنے کے زمہ دار صنعتکاروں کو جیل میں ڈالیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ دو روز پہلے اسی ایوان میں سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا اقبالی بیان دیاگیا،پی پی رکن نے ایوان میں تسلیم کیا کہ ووٹ خریدا گیاتھا،اب بتاو کہ ووٹ کس نے خریدا کس سے خریدا انہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی کی عزت بچائیں اور ووٹ خریدنے بیچنے والے کانام سامنے لائیں۔لاڑکانہ شہرکا بھی بیڑہ غرق کردیاگیا،ملیر میں لیاری طرز کی گینگ وار شروع کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملیر میں قدیمی گوٹھ مسمار کردئیے گیے ہیں۔راو انوار کو ہم نے ایس ایس پی نہیں لگایا تھا،ملیر سے ریتی بجری کون نکال رہاہی انہوں نے کہا کہ عمرکوٹ ضلع میں ڈسڑکٹ اسپتال نہیں جبکہ جنرل اسپتال میں انکوبیٹرز ہیں نہ ایمبولینس موجود ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ گڈاپ اور بن قاسم کے پسماندہ دیہاتوں کو آفت زدہ قراردیاجائے ۔ان کا کہنا تھا کہ274 ارب روپے کی بے ضابطگی رپورٹ ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سندھ کے لوگ گٹر کا پانی پی رہے ہیں،لاڑکانہ دادو,حیدرآباد میں گدلا پانی فراہم کیاجارہاہے جب صاف پانی دس سال میں نہ دے سکے وہ حکومت اور کیا کریگی صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار شاہ نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی زمینوں پر قبضے کی بات تو کی گئی مگر منی بیگم کی زمین پر قبضے کی بات بھول گئے ،دو بھائیوں نے منی بیگم کی سولہ ایکڑ زمین صرف بیانہ دیکر ہتھیالی ۔

اس وقت منی بیگم بے چاری گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔انہوں نے کہا کہ محمد خان جونیجو کے دورمیں ٹیچرز کے بلینک آفرآرڈر تقسیم کئے گئے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں،وزیرتعلیم تعلیمی نظام کو کیسے ٹھیک کری عوام نے تعلیمی نظام کو اون نہیں کیاسندھ میں 66 لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے سید سردارشاہ کا کہنا تھا کہ تہذیب ہماری پہچان ہے ،ہم اس کوپرانا پاکستان کہتے ہیںسندھ کی تہذیب پر ہمیں فخر ہے ۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ سی ڈی اے نے موہن جودڑو اورہڑپہ کی تہذیب کو گٹرنالوں پر پرنٹ کردیا ہے ،اس طرح سندھ کی تہذیب کی تذلیل کی گئی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تعلیم وسیاحت کے صوبائی معاملات پر ٹاسک فورس بنارہے ہیں،عمران خان تھر کے لیے اعلان کرتے تو خوشی ہوتی ۔انہوں نے کہا کہ ملک کو کاسمیٹک سرجری کی نہیں نیورو سرجری کی ضرورت ہی.ملک کو بیٹسمین نہیں اسٹیٹسمین چلاسکتا ہے ،نیا پاکستان گاڑیاں اور بھینیسں بیچنے سے نہیں بن سکتا۔

سردار شاہ نے کہا کہ بھینسوں کی فروخت سے حاصل ہونیوالے چند لاکھ روپے ہی تھر والوں کو بھیج دیتے ،تھر والے روکھی سوکھی پر بھی خوش ہوجاتے ہیںسردار شاہ نے کہا کہ : نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی کی رپورٹ ہے کہ 2060 میں کراچی نہیں ہوگا،اگر کراچی کو قبرستان بناناہے توکالا باغ ڈیم بنائیں۔صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وفاقی بجٹ میں سندھ کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا،سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں بہت کام کیا ہے ۔

آج کراچی میں مصنوعی دل لگانے کے آپریشن ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں حزب اختلاف کی تعریف کی ضرورت نہیں پر تنگ نظری نہ کریں۔ ناصر حسین شا ہ نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی ایک شاندار منصوبہ ہے ،سستے ترین اسٹنٹس مریضوں کو ڈالے جاتے ہیں ،سندھ کے اسپتالوں میں سستی سہولت دی جارہی جسکا اعتراف چیف جسٹس کرچکے ہیں جبکہ پنجاب میں مہنگے اسٹنٹس کا اسکینڈل سامنے آیا. ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے امراض قلب کے اسپتال میں دل کی تبدیلی کے آپریشن ہو رہے ہیں ۔الیکشن میں پیسوں سے ووٹ خریدنے کا الزام لگایا گیا. پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے پیسے کس کے پاس زیادہ تھے ۔امداد پتافی کے پاس پیسے زیادہ تھے یا اس کے مقابلے میں آنے والے کے پاس زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ بدین کے ملاح کے پاس پیسے زیادہ تھے ۔اسماعیل راہو کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے ۔

بدین کی تین سیٹیں پیپلزپارٹی کے شیروں کے پاس ہیں۔کراچی کے لیے 204 اسکیمز پر رواں سال 44 ارب روپے مختص کیے ہیں.انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں 90ارب روپے اخراجات کی باتیں مفروضہ ہیں کیونکہ 2008 سے 2017 تک لاڑکانہ پرصرف 28 ارب روپے خرچ ہوئے ۔ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی ادارے ایم کیوایم کے کنٹرول میں رہے ہیں،اتنی خرابیاں ہیں تو اسکے ذمہ دار بھی یہ ہیں،ہم اپنے حصے کی سزابھگتنے کو تیار ہیں آپ اپنے حصے کی سزا بھگتیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ادارے ایم کیواام نے خراب کیے ہم ٹھیک کرناچاہتے ہیں۔صوبائی وزیربلدیات سعید غنی نے کہا کہ کے ڈی اے اربوں روپے کمانے والا ادارہ تھا کے ڈی اے کو سٹی ناظم کے ماتحت کرکے تباہی پھیری گئی ، انہوں نے کہا کہ کچرہ اٹھانے کا کام ضلعی میونسپل کارپوریشنز درست نہیں کر رہی تھیں ،اس وقت بھی مصطفی کمال نے بھی کچرہ اٹھانے کا کام اٹھانے کے معاملے پر وفد چین بھیجا تھا ،اس وقت بھی کچرہ اٹھانے کا نظام بالکل درست نہیں لیکن بہتر ہوا ہے ،ضلع وسطی اور کورنگی میں اب بھی کچرہ پڑا ہوا دکھایا جا سکتا ہے ،اس عید الاضحی پر ملک کے دیگر حصوں کی نسبتا کراچی میں آسائشیں اٹھانے کا کام بہتر طریقے سے ہوا۔

سعید غنی نے کہا کہ ہماری حکومت کے دس برسوں میں کراچی 192 ارب روپے دئیے گئے ہیں ۔کچھ دوست کہتے ہیں کراچی کو اس کے حصے کی رقم نہیں ملتی ۔اس وقت کراچی میں 204 اسکیمیں چل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پورے ملک اور سندھ کے لئے نیب کا معیار الگ ہے ۔سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے ،اگر کسی نے بھی جرم کیا ہے اس کو برابری کا سلوک کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومتیں جادو گنڈوں اورتعویز سے نہیں ملی ہیں بلکہ عوام منتخب کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کتا پالنہ اچھا عمل ہی. میرے گھر میں جگہ نہیں ورنہ میں ضرور پالتاجس پر اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ وفادار جانور ہے ۔انہوں نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ شیروکا نام لینے پر پی ٹی اراکین شورمچانا شروع کرتے ہیں۔سعید غنی نے کہا کہ کل جس طرح اور جس انداز میں بیٹیوں کی تصاویر دکھا کر جملے کسے گئے ،ہم بھی جواب اسی انداز میں دے سکتے ہیں ۔

مگر ہماری یہ روایت نہیں ہے اللہ نہ کرے کسی کی قیادت پر وہ وقت آئے جو ہمارے اوپر آیا ،ہمارے قائدین نے جانیں دی ہیںاگرہمیں حکومتیں ملی ہیں تو کارکنوں کی قربانوں اور سعید غنی نے کہا کہ نااہل ترین نے وزیراعظم ہاوس میں ایک ااجلاس کی صدارت کی ،اس اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر بھی تھے اور وہ سائیڈ میں بیٹھے تھے ۔انہوں نے کہا کہ ڈی پی او پاکپتن نے معافی نہیں مانگی اتو اسکو سزا ملی ،سپریم کورٹ میں وزیراعلی پنجاب نے معافی مانگی ،اگر ایسا وزیراعلی سندھ کرتا تو کی ردعمل ہوتا سعید غنی نے کہا کہ ہماری قیادت کے خلاف جعلی اکاونٹس کی تحقیقات 2014میں ہوچکی ہیں،الیکشن سے پہلے اچانک پھر یاد آیا کہ ان اکاونٹس کی تحقیقات کرنی ہے جعلی اکاونٹس کیس کی جے آئی ٹی کے نام بشیر میمن نے دئیے ،سمجھ نہیں آتی کہ این آر او کیس دوبارہ کس طرح شروع ہوگیا 11سال جیلیں کاٹنے کے بعد عدالتیں بری کردیں تو مخالفین بیگناہ نہیں مانتے ۔

وزیربلدیات نے کہا کہ این آر او میں 8 ہزار کیسز بندہوئے باقی لوگوں کو بلاکر بھی تو پوچھیں۔انہوں نے کہا کہ بلاول ھاوس میں ٹینکرز سے پانی جاتا ہے ، ،فری ٹینکرز سروس بند ہے ، صرف ان مقامات پر ڈپٹی کمشنرز کو پانی جاتا ہے جہاں پانی نہیں ہے ، ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کہ دور میں پانی کی کمی کہ خلاف احتجاج کی اجازت بھی نہیں تھی۔سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے بجٹ پر بڑے دلچسپ انداز میں اظہار خیال کیا ان کی تقریر کے دوران ایوان میں قہقہے بلند ہوتے رہے اور پورے ایوان کا ماحول زعفران زار ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے ہر الزام پیپلزپارٹی کو دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پھسلتے خود ہیں اور پانی پھینکنے کا الزام پیپلزپارٹی پر لگا دیتے ہیں۔ سابق وزیراعلی نے کہا کہ کسی زمانے میںہمارے پاس ایک جیپ تھی جو 1908 ماڈل کی تھی ،ہم تھر گیے تو ہمارے پاس کھٹارا اور حلیم عادل کے پاس جدید گاڑی تھی۔قائم علی شاہ نے کہا کہ انکے خان صاحب پچاس ارب روپے کا اعلان کرگئے ۔

وہ اب آپ لوگ (پی ٹی آئی والے ) لیکر آو ہماری تو جوتیاں گھس گئیں۔سابق وزیراعلی قائم علی شاہ نے اپنے تقریر میں کئی سندھی محاوروں پکو بھی استعمال کیا جس پریوان میں زبردست تالیاں بجائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اپوزیشن کے دوست بھول گیے کہ ہم 29 قتل کیسز میں گرفتار تھے ،آصف زرداری پر ایک کیس یہ بنایاگیاکہ ٹانگ پربم باندھا تھا ،جج نے کہا کہ اگر بم بندھا ہواتو وہ چل کیسے رہا تھا جج نے پوچھا کہ پھر بندھا ہوا بم کہاں گیا انہوں نے کہا کہ تھر پرجیکٹ بی بی شہید نے شروع کیا تھا، اگر بے نظیر بھٹو صاحبہ کے پروجکٹ بند نہ کئے جاتے تو آج ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوچکی ہوتی، تھرکول پروجکٹ سے سندھ کے ساتھ ملک بھر کو فائدہ ہوگا،قائم علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں قائم ٹراما سینٹر جیسا کوئی ادارہ اگر پنجاب میں مل جائے تو میں استعفی دے دوں گا،قائم علی شاہ نے کہا کہ آصف علی زرداری کی ذہانت ہے کہ انہوں نے مفاہمت کی سیاست کی جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو تیسری مرتبہ حکومت ملی ۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی روشنیاں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لوٹائی ہیں، وزیراعظم نواز شریف نے کراچی کے امن کیلئے 12 ارب دینے کا اعلان کیاتھا، وزیراعظم نے مجھے کپتان بنایا.۔انہوں نے کہا کہ اٹھاریوں ترمیم کبھی رول بیک نہیں ہوگی یہ ترمیم ہمارے لیئے نہیں پوری ملک کیلئے ہے ،آصف علی زرداری نے اپنی اختیارات ایوان کو دیئی.۔انہوں نے کہا کہ نوکریاں ہم نے دی آپ تو ابھی تک صرف باتیں کر رہے ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات