اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری غیرآئینی ہے؟آئین میں نائب وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہیں.آئینی ماہرین

مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیے کل تک آئین ”مقدم“تھا مگر آج وہ غیرآئینی اقدام کی توجیہات پیش کررہی ہیں‘ملک میں ذوالفقار علی بھٹو پہلے نائب وزیراعظم بنے ‘نصرت بھٹو اور پرویزالہی بھی اس عہدے پر فائزرہے.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 29 اپریل 2024 13:47

اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری غیرآئینی ہے؟آئین میں نائب وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہیں.آئینی ماہرین
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 اپریل۔2024 ) مسلم لیگ نون کے قائد میاں نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم مقرر کرنے پر بحث جاری ہے وہ ملک کے چوتھے نائب وزیراعظم ہیں حالانکہ ملک کے آئین میں نائب وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہیں ہے. پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بنے تھے، جب انہیں سات دسمبر 1971 میں اس عہدے پر فائز کیا گیا تاہم ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیر اعظم کے عہدے پر محض دو ہفتوں تک ہی تعینات رہے اور ملک میں سیاسی بحران کے پیش نظر انہیں اسی سال 20 دسمبر کو پاکستان کا شہری صدر مقرر کیا گیا.

مارچ 1989 میںاس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ اور سابق خاتون اول نصرت بھٹو کو ملک کی پہلی خاتون نائب وزیر اعظم مقرر کیا تھابیگم نصرت بھٹو اگست 1990 تک پاکستان کی نائب وزیر اعظم کے طور خدمات سرانجام دیتی رہیں. سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویزالہی جون 2012 میں ملک کے تیسرے نائب وزیراعظم بنے انہیں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے نائب وزیر اعظم نامزد کیا تھا راجہ پرویز اشرف کی حکومت سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنانے سے انکار کر دیا تھا تاہم ان کی برطرفی کے بعد اس وقت حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) نے دیگر مطالبات کے علاوہ پیشگی شرط کے طور پر نائب وزیر اعظم کے دفتر کے قیام کو بھی پیش کیا تھاپرویز الٰہی اس عہدے پر مارچ 2013 تک تعینات رہے تھے.

اسحاق ڈار کے پاس اس وقت وفاقی وزیر خارجہ کا قلم دان بھی ہے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو فوری طور پر تا حکم ثانی نائب وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے سیاسی تجزیہ ڈاکٹر کار حسن عسکری نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم کے طور نامزد کرنے کا مقصد انہیں ”خوش“ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا .

انہوں نے کہا کہ کسی کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ دینے کا مقصد ہی اس شخصیت کو ”محض اہمیت“ دینا ہے اس کے علاوہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنانے کا محرک ان کی نواز شریف کے خاندان سے رشتہ داری ہی ہو سکتی ہے اسحاق ڈار شریف خاندان کا حصہ ہیں جو دوسروں کی نسبت ان کے وزن (اہمیت) میں اضافہ کرتا. آئینی اور قانونی ماہر اور سابق وزیرقانون پنجاب ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ آئین پاکستان، قانون اور رولز میں ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

(جاری ہے)

”وائس آف امریکہ“ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت وزیراعظم کوئی ر±کن قومی اسمبلی ہی بن سکتا ہے لہذٰا سینیٹر وزیِر اعظم نہیں بن سکتا تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک سینیٹر ڈپٹی وزیر اعظم کیسے بن سکتا ہے؟.

سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ نوازشریف اور شہبازشریف کی سیاست مختلف ہے پارٹی کے قائدکی حیثیت سے عام انتخابات کے بعد نوازشریف نے خود کو پنجاب تک محدود کرلیا تھا اور اپنی صاحبزادی کو بطور وزیراعلی صوبہ چلانے کے لیے مدد کررہے تھے تاہم کچھ سیاسی تبدیلیوں کے بعد انہوں نے مرکزی حکومت میں بھی دلچسپی ظاہر کرنا شروع کردی ہے اور اسحاق ڈار ان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی ہیں لہذا انہوں نے اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقررکرواکر مرکزی حکومت میں اپنا عمل دخل شروع کیا ہے.

واضح رہے کہ دنیا میں تقریباً ایک درجن ملک ایسے ہیں جہاں نائب وزیر اعظم کا عہدہ موجود ہے جن میں آسٹریا، انڈیا، فن لینڈ، کینیڈا، ملائیشیا، نیپال‘ نیوزی لینڈ، نیدر لینڈ، جنوبی کوریا، سپین اور برطانیہ شامل ہیں کسی ملک کا نائب وزیر اعظم (ڈپٹی پرائم منسٹر یا وائس پرائم منسٹر) ایک حکومتی وزیر ہی ہوتا ہے جو وزیر اعظم کے عارضی طور پر ملک سے غیر حاضر ہونے پر قائم مقام وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال سکتا ہے.

پاکستان میں نائب وزیر اعظم کے علاوہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں اسی طریقے سے سینیئر وزیر بھی مقرر کیے جاتے ہیں مسلم لیگ نون کے سابق رہنما چوہدری نثار حسین سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے دوران سینیئروزیر رہ چکے ہیں جبکہ ماضی میں صوبوں میں بننے والی ایک سے زیادہ حکومتوں میں سینیئر وزیر تعینات کیے جاتے رہے ہیں. پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رﺅف حسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کا نائب وزیر اعظم بننا درحقیقت نواز شریف کی کابینہ اور اعلیٰ فیصلوں میں واپسی ہے ابھی دیکھنا یہ ہے کہ اسحاق ڈار کو کیا اختیارات دیے جائیں گے مرکزمیں حکمران اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے اس معاملے پر کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وزیر اعظم کے فیصلے پر کسی کو اعتراض ہو گا اور بطور اتحادی جماعت ہم اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم خوش آمدید کہتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ وہ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر تعینات ہوتے یہ بات درست ہے کہ نائب وزیر اعظم کے اتنے اختیارات نہیں ہوتے آئینی ماہرین اورسیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایک طرف آئین کی بالادستی کے نعرے لگاتی ہیں جبکہ دوسری جانب وہ اسی آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتی ہیں مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی اور حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے لیے کل تک آئین ”مقدم“تھا مگر آج وہ غیرآئینی اقدام کی توجیہات پیش کررہی ہیں.

انہوں نے کہا کہ آئین میں کہیں بھی نائب وزیراعظم کا ذکر موجود نہیں حتی کہ ترمیم شدہ حصوں میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا حکمران اتحاد کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی آمریت مخالف ہونے کی دعویدار ہیں مگر ان کا اپنا رویہ آمرانہ ہے ایک سرکاری حکم نامے کے تحت سینیٹ کے چور دروازے سے آنے والوں کو پہلے اہم وزارتیں دی گئیں اس کے بعد نائب وزیراعظم بنانے کے لیے بھی منتخب ایوان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ‘اس سے زیادہ پارلیمنٹ کی بے توقیری کیا ہوسکتی ہے؟.

انہوں نے کہا کہ اصل معاملہ اسحاق ڈار کی معاشی امورکو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوششیں ہیں پہلے انہیں اقتصادی رابط کمیٹی کا چیئرمین مقررکرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا حالانکہ ای سی سی کا چیئرمین وفاقی وزیرخزانہ ہوتا ہے ناں کہ وزیرخارجہ وہ نوٹیفکیشن”مداخلت“کے بعد چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں واپس لینا پڑا اس کے بعد انہوں نے وزرات خزانہ کے معاملات میں مداخلت کی کوشش کی جس پر وزیرخزانہ اورنگزیب کے سرپرستوں نے ان کی گوشمالی کی اب وہ نائب وزیراعظم کی حیثیت سے دوبارہ وزارت خزانہ کے معاملات کوہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے.

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے اراکین کے لیے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی طرح براہ راست انتخابات کا مطالبہ کئی بار سامنے آچکا ہے مگر سیاسی جماعتوں سمیت پوری حکمران اشرافیہ اس چور دروازے کو بند نہیں کرنا چاہتی کیونکہ یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے حالانکہ سینیٹ کے ممبران منتخب ہونے کے لیے کروڑوں روپے کی کرپشن کے نہ صرف الزامات بلکہ ثبوت بھی سامنے آتے رہے ہیں اب اعلی عدلیہ کو چاہیے کو جرات کا مظاہرہ کرئے اور اس معاملے کو بھی دیکھے کیونکہ ہر بار سینیٹ میں پیسے یا طاقت کے زور پر ایسے لوگ ایوان بالا کے رکن بن جاتے ہیں جو عوام میں جائیں تو کونسلر کا الیکشن جیتنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے.

سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف ہمارے معاشی حالات بد سے بدترین ہورہے ہیں اور دوسری طرف ہم نے خصوصی نشستوں کا بوجھ ڈالا ہوا ہے پاکستان جیسا ملک خصوصی نشستوں کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں دنیا کے کتنے بڑے ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت والے ملکوں میں خصوصی نشستیں ہیں؟ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے امریکا سمیت دنیا کی کئی بڑی معیشتوں کو مختلف شعبوں کے ماہرین کو بطور مشیر مقررکرنے کے لیے منتحب ایوان سے منظوری لینا پڑتی ہے کیا وہ خصوصی نشسوں کے ذریعے مرضی کے مشیر مقررنہیں کرسکتے؟اس لیے کہ ان کے آئین میں گنجائش نہیں جبکہ ہمارے ہاں اہم وزارتوں پر نااہل لوگ صرف اقربا پروری کی وجہ سے براجمان ہوتے ہیں.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں