”پاکستان سینئر کرکٹ ٹیم اپنی جونیئر ٹیم سے کچھ سیکھے“

Pakistan Senior Cricket Team Apni Junior Team Se Kuch Sekhe

سینئرزکو آسٹریلیا میں ذلت آمیزناکامیاں،جونیئرزنے ورلڈکپ کے فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا پاکستانی سٹارز کو آئی پی ایل میں عدم شمولیت کا غم بھلا دینا چاہئے،وہ آسٹریلوی ٹیم سے سیکھنے نہیں جیتنے گئے تھے

منگل 26 جنوری 2010

Pakistan Senior Cricket Team Apni Junior Team Se Kuch Sekhe
اعجازوسیم باکھری: پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں آسٹریلیا کے دورے پرہے اور تاحال ٹیم پے در پے شکستوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔پہلے لگاتارتینوں ٹیسٹ میچز میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب ابتدائی دونوں ون ڈے میچز میں بھی پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا کرناپڑاہے۔ایک طرف آسٹریلیا میں قومی ٹیم کے کھلاڑی اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہیں آسٹریلیا کے ہمسایہ ملک نیوزی لینڈ میں جاری انڈر19ورلڈکپ میں پاکستان جونیئرٹیم نے بھارت سمیت تمام حریفوں کو روندکر فائنل تک رسائی حاصل کرلی ہے۔

کوارٹرفائنل میں بھارت کے خلاف پاکستان نے ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کی اورمشکل حالات میں جونیئرکھلاڑیوں کا حوصلہ اور دلیری قابل دیدی تھی۔

(جاری ہے)

جس جوانمردی کے ساتھ جونیئرز ٹیم نے بھارتی ٹیم کو زیر کیا وہ قومی سینئر ٹیم کیلئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے کیونکہ سینئرٹیم کے کھلاڑی آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے یوں نظرآتے ہیں کہ جیسے سہمے ہوئے ہیں یا آسٹریلیا جوکہ ورلڈچیمپئن ٹیم ہے ،کا خوف دل میں بیٹھا ہے،مگردوسری جانب بھارتی ٹیم بھی انڈر19ورلڈکپ کی دفاعی چیمپئن تھی لیکن پاکستانی جونیئرکھلاڑیوں نے بھارتی ٹیم کے خوف میں مبتلاہونا تودرکنار انہیں اہمیت دینا بھی گوارا نہیں کیا اور شکست سے دوچار کرکے گھرواپسی کا ٹکٹ تھمادیا۔

پاکستان کی جونیئرٹیم کی انڈر19ورلڈکپ میں کارکردگی کی جتنابھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن دوسری جانب سینئرٹیم کی کارکردگی پرجتناافسوس کیا جائے وہ بھی کم ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کرکٹ کو جگہ ہنسائی کا مرکز بنادیا ہے بلکہ ملکی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ٹیسٹ سیریز میں جس طرح ٹیم کو ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اُس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ شاید قومی ٹیم ٹیسٹ سیریز میں ہونیوالی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ون ڈے میچز میں کچھ بہتر کھیل پیش کریگی لیکن ون ڈے سیریز میں تو ٹیسٹ میچز سے بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

برسبین میں ہونیوالے پہلے میچ میں اگر بیٹسمینوں نے اچھا سکور کیا تو باؤلرز نے آسٹریلیا کیلئے ہدف تک رسائی کو مشکل بنانے کیلئے کوئی خاطرخواہ کارکردگی پیش نہیں کی اور دوسرے ون ڈے میچ میں شاید سڈنی گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے پاکستانی کرکٹرز کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ یہی وہ گراؤنڈ تھا جہاں رکی پونٹنگ الیون نے یوسف الیون کو تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار کیا ،ون ڈے میچ میں وہی ذلت آمیز شکست تحفے میں ملی جس طرح ٹیسٹ میچ میں ملی تھی۔

شاید پاکستانی ٹیم نفسیاتی مریض بن چکی ہے جس گراؤنڈ پر ایک میچ ہار جائیں وہاں دوبارہ جیت کیلئے کئی سال تک انتظارکرنا پڑتا ہے۔لیکن پاکستان ٹیم کا ماضی ایسا نہیں تھا، ماضی میں ٹیم کو جس گراؤنڈ پر شکست ہوا کرتی تھی ٹیم اُسی گراؤنڈ پر حریف کا حساب چکتا کرکے واپس آتی تھی لیکن آج ایسا نہیں ہوتا۔ آج دوربھی تبدیل ہوچکا ہے اور کھلاڑیوں کے مزاج سمیت سوچ میں تبدیلی آچکی ہے، آج کے کرکٹرز ملک کی بجائے اپنی ذات کیلئے کھیلتے ہیں، اگر انہیں ملک کی عزت مقصود ہوتی اور اُن کا اولین مقصداگرپاکستان کرکٹ کی ترقی اور بھلائی اور ٹیم کی جیت ہوتاتو پاکستان اب تک آسٹریلیا میں ایک نا ایک میچ ضرور جیت چکا ہوتا۔

لیکن مجال ہے کہ قومی کرکٹرز کو ملک کی عزت کا خیال ہو۔ایسے کھلاڑیوں نے ملک کی عزت کا کیا خاک خیال رکھنا ہے جنہیں پیسے سے پیار ہو، چاہے وہ اپنی اور ملک کی بے عزتی کی صورت میں بھی کیوں نہ ملے۔آئی پی ایل کا ایشوہی دیکھ لیں، جب انہیں گزشتہ آئی پی ایل میں شامل نہیں کیاگیا تھا حالانکہ وہ ساؤتھ افریقہ میں ہوئی تھی لیکن اس کے باجود للت (موذی) مودی نے کھلانے سے انکار کردیا تھا مگر اس کے باوجود ہمارے کھلاڑیوں پر آئی پی ایل کا تیسرا ایڈیشن کھیلنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی بھوت نے پہلے انہیں خوشی کے مارے اچھا نہیں کھیلنے دیا اور جب آئی پی ایل انتظامیہ نے بے عزت کرکے کھلانے سے انکار کردیا تو اب شاید بھوت اترنے کی وجہ سے ہوش ٹھکانے نہیں آرہے یا پھر آئی پی ایل نہ کھیلنے کا صدمہ کھلاڑیوں کی اچھی کارکردگی میں رکاوٹ بنا ہوا۔

کپتان محمد یوسف کو چاہئے کہ وہ اپنے اداس کھلاڑیوں کی دلجوئی کریں اور انہیں بتائیں ، سمجھائیں اور سیکھائیں کہ خدا کیلئے ملک کیلئے کھیلیں۔لیکن معذرت کے ساتھ یوسف صاحب کیابتائیں گے ، اُن کا اپنا دامن کونسا صاف ہے ۔انہوں نے بھی تو پیسے کی خاطر ملکی کرکٹ کو چھوڑ کر آئی سی ایل جانے کو ترجیح دی تھی اور وہاں جب مال ملنا بند ہوگیا تو پاکستان کی یاد آنے لگی اور باغی کھلاڑیوں کیلئے اعجازبٹ صاحب نے ”ریڈ کارپٹ رسپشن“پہلے سے ہی تیار کررکھا تھا اور یوں موصو ف کو واپسی کا موقع ملا اور حالات نے پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا ۔

لیکن بطور کپتان یوسف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو کچھ سمجھائیں کہ وہ آسٹریلیا میں پاکستان کی آفیشل ٹیم کے ساتھ ٹور پر آئے ہیں کسی ٹرپ پرنہیں کہ لاپرواہی سے شارٹس کھیل کر آؤٹ ہوجاتے ہیں ۔ قارئین:یونس خان کو بھی دوبارہ ٹیم میں شامل کرنا ٹیم کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوسکا، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ خان صاحب ٹیم کو جوائن کرینگے تو ٹیم کے حالات تبدیل ہوجائیں گے جیسے سڈنی ٹیسٹ میں کامران اکمل کے ہاتھوں چار کیچز ڈراپ ہونے کے بعد چند مفاد پرستوں نے شور مچایا تھا کہ کامران کی کرکٹ ختم ہوچکی ہے ، سرفراز احمد کو ٹیم میں شامل کیا جائے تو پاکستانی ٹیم جیت کے ٹریک پرواپس آسکتی ہے ۔

پھر ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں ہم سب نے دیکھا کہ سرفراز احمد کو شامل کیا گیا لیکن وہ پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں کامیابی کیا دلاتا دونوں اننگز میں10رنز بھی نہ کرپایا ۔سرفراز کے بعد مفاد پرستوں نے شور کیا کہ فواد عالم اور یونس خان کو ون ڈے ٹیم میں شامل کیا جائے ، فواد کو تو شاید حسب روایت بغیر کھیلے گھر واپس آنا پڑے مگر خان صاحب لگاتا ر دونوں ون ڈے میچز میں ٹیم کا حصہ تھے لیکن نتائج میں تبدیلی نہیں لاسکے۔

پاکستانی ٹیم اتنابری نہیں ہے جتنا اسے قرار دیا جاتا ہے ، اگر کراچی اور لاہور کی سیاست اور تعصب پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے تو یہ ٹیم اپنی جونیئر انڈر 19ٹیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بڑے سے بڑے حریف کو چت کرسکتی ہے۔ قومی ٹیم کے سٹارز کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اُن کو ہوش سنبھالنے کیلئے آسٹریلیا یا ساؤتھ افریقہ کی نہیں اپنی جونیئر19ٹیم کی مثال دی جارہی ہے۔

مزید مضامین :