”ٹونٹی20ورلڈکپ“فتح کا عزم لیے پاکستانی ٹیم لندن پہنچ گئی

T20 World Cup Pakistani Team England Pohanch Gaye

روایتی حریف بھارت کے خلاف3 جون کو اوول میں وارم اپ میچ میں جوڑ پڑیگا ممبئی حملو ں کے بعد پیدا ہونیوالی پاک بھارت کشیدگی نے کھیل کے میدانوں میں بھی تناؤ پیدا کردیا دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیو ں کی عزت و توقیر کی خاطر یونس خان الیون کو ہر صورت میں بھارت کو ہرانا ہوگا

پیر 1 جون 2009

T20 World Cup Pakistani Team England Pohanch Gaye
اعجازوسیم باکھری : دوسرا آئی سی سی ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ 5جون سے انگلینڈ میں شروع ہورہاہے جس میں شرکت کیلئے پاکستان کی 15رکنی ٹیم ہفتے کی صبح لاہور سے لندن روانہ ہوئی اور اُسی روز دوپہرکے وقت جیت کا عزم دل میں لیے برطانوی سرزمین پر اترگئی۔پاکستانی ٹیم پہلے ورلڈکپ کے مقابلے میں اس بار چندبڑی تبدیلیوں کے ساتھ دوسرے ورلڈکپ میں شرکت کررہی ہے ،شعیب ملک کی جگہ یونس خان قومی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جبکہ گزشتہ ورلڈکپ میں فاسٹ باؤلر محمد آصف پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے اور اُس نے بہترین بولنگ کی تھی جس کی بدولت پاکستان فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن اس بار قومی ٹیم میں نہ تو محمدآصف ہیں اور شعیب اختر تو ویسے بھی اب اپنے کیرئیر کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں اوراُن کی عدم شرکت تو اس ٹورنامنٹ میں یقینی تھی ،ایسی صورتحال میں پاکستان کی اگر بولنگ پاور کو دیکھا جائے تو ماضی کے مقابلے میں اس بار کمزور محسوس ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

ان حالات میں تمام ترذمہ داری عمرگل ،شاہد آفریدی اور سعید اجمل پرعائد ہوتی ہے کیونکہ راؤافتخار اور سہیل تنویر ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں حریف ٹیموں کے خلاف زیادہ موٴثر ثابت نہیں ہونگے ۔کیونکہ سہیل تنویر کواگر پہلے ادوار میں کامیابی ملی تو وہ صرف اور صرف اُس کے انوکھے بولنگ ایکشن کی وجہ سے ملی جس کو سمجھنے میں بڑے بڑے بیٹسمین بھی ناکام رہے لیکن لگاتار اُس کا سامنا کرنے کے بعد اب اُسے اور اُس کے خفیہ ہتھیاروں کو پڑھاجاچکا ہے جس کے پیش نظر سہیل تنویر سے زیادہ اچھی پرفارمنس کی توقع نہیں ہے اور جہاں تک رہی بات راؤافتخار انجم کی، تو میری نظرمیں وہ ہمیشہ ایک اوسط درجے کے باؤلر رہے ہیں جس پر زیادہ انحصار کرنا شاید اچھی بات نہیں ہوگی ۔

البتہ ہاں! وہ پارٹنرشپ توڑنے میں ماہرہیں اور ماردھاڑ کے وقت کم رنز دیتے ہیں لیکن ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں جہاں ہراگلی گیندکو چھکے کیلئے کوشش کی جاتی ہے میرے خیال میں راؤافتخار زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہونگے۔قومی ٹیم مینجمنٹ شعیب اختر کی عدم شرکت پرراؤافتخار کی جگہ اگر لاہور سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے وہاب ریاض کو موقع دیتی تو ممکن ہے کہ وہاب راؤافتخار کے مقابلے میں زیادہ موٴثر ثابت ہوتے لیکن اس بات میں کتنا حقیقت ہے یہ فیصلہ تو ورلڈکپ کے آغاز کے بعد ہی ہوگا کہ ہمارا بولنگ اٹیک کیاکاکردگی پیش کرتا ہے۔

ورلڈکپ کا باقاعدہ آغاز5جون سے ہورہا ہے تاہم اس سے قبل ورام اپ میچ کھیلے جائیں گے جہاں پیر کے روز پاکستان اورجنوبی افریقہ کے مابین پہلا پریکٹس میچ کھیلا جائیگا جبکہ 3جون کوپاکستان اپنے روایتی حریف بھارت کے خلاف اوول کے مقام پر وارم اپ میچ کھیلے گا۔پاک بھارت وارم اپ میچ آئی سی سی کی خصوصی ہدایت پر کھیلا جارہاہے جہاں میچ کی تمام آمدنی لبرٹی چوک میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے متاثرین کے لواحقین کو دی جائیگی۔

گوکہ یہ ایک وارم اپ اور چیرٹی میچ ہے لیکن ممبئی حملوں کے بعد پیدا ہونیوالی ٹیشن سے پاکستان اور بھارت کے مابین جو تناؤپیدا ہوچکا ہے یقینی طور پر وہ اس میچ بھی نظر آئے گا اور میں چاہتا ہوں یہ تناؤ ہرصورت اور ہرحال میں نظر بھی آنا چاہئے کیونکہ ہم نے ممبئی حملوں کے بعد بھارتی حکومت کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے اور ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ کس طرح بھارت نے اپنے فوجی طیارے پاکستانی سرحدوں پر اڑائے اور پاکستانی بارڈرپر فوجیں تعینات کیں۔

ایسے حالات میں ہمیں غیریت مندی کا ثبوت پیش کرنا چاہئے کیونکہ بھارت نے لگاتار تین ماہ تک پاکستان کی غیریت کو للکارہ اور پوری دنیا میں پاکستان کو رسوا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔گوکہ ہم ہمیشہ اس بات کا شورمچاتے رہتے ہیں کہ کھیل کو سیاست سے دور رہنا چاہئے لیکن تمام پاکستانی بھارت کے خلاف میچ کو جنگ کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کوئی بھی پاکستانی بھارت کے ہاتھوں شکست قبول نہیں کرتا اور ویسے بھی پہلے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے فائنل میں ہمیں بھارت سے شکست ہوئی تھی جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں ،ان تمام باتوں کے پیش نظر قومی ٹیم کو بھارت کے خلاف اس وارم اپ میچ کو وارم اپ میچ کی بجائے انٹرنیشنل معرکہ تصور کرناچاہئے اور کسی بھی صورت میں رعایت نہیں برتنی چاہئے۔

پاکستانی ٹیم میں بھارت کو شکست دینے کی اہلیت آج بھی موجود ہے گوکہ بظاہربھارتی ٹیم زیادہ مضبوط ہے لیکن اگر جذبے سے کھیلا جائے تو زمبابوے نے بھی گزشتہ ورلڈکپ میں آسٹریلیا کو رونددیا تھا ۔پاکستانی ٹیم کو یہ میچ جوش و جذبے کے ساتھ کھیلنا چاہئے اور جیت سے کم کسی بھی چیز پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔جہاں تک قومی ٹیم کی سپورٹ کی بات ہے توپوری دنیامیں موجود پاکستانی لوگ اپنی ٹیم کیلئے دعاگوبھی ہیں اور جیت کی توقع بھی رکھتے ہیں لہذا یونس خان اینڈ کمپنی کوبھارتی ٹیم کو ہرصورت میں شکست دینی چاہئے تاکہ پاکستانیوں کو بار بار شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پاکستان سے باہر رہنے والے قارئین کے بقول جب بھی پاکستان کوبھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی رسوائی سہنا پڑتی ہے ۔ایسے میں یونس خان الیون کو اپنے پاکستانی بھائیوں کی عزت و توقیر کی خاطر کسی بھی صورت میں بھارت کو لازمی شکست دینا ہوگی پو ری قوم کو پاکستانی ٹیم سے بھر پورتوقعات اور امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے کہ ہماری ٹیم اس بارانگلینڈ میں گزشتہ ورلڈکپ کے فائنل میں ہونیوالی غلطیوں کا ازالہ کریگی اور عالمی چیمپئن کی صورت میں واپس لوٹے گی ۔

مزید مضامین :