Episode19 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر19 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 محبت بحرِ وحدت ہے۔ اللہ محبت ہے وہ ایک عرشِ بریں پر بیٹھا اپنے علم سے اپنے کْن سے ہر جا بہت محبت سے.. اللہ جلوہ نما ہے.. ہر طرف وہ ہے.. وہ بے نیاز ہے.. سب اس سے ہیں وہ کسی سے نہیں۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں.. وہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں.. اس کا 'کن' بھی اس کا ہے اس کا'کن' بھی اس سے جدا نہیں۔ ہمم۔۔ ''وفا ''۔۔ اللہ نے ہم سے وعدہء وفا لیاتھا.. یہ کہہ کر ''الست بربکم'' کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟ اور ہم نے، میں نے آپ نے ہم سب نے اقرار کیا تھا قالوا بلیٰ، کہ کیوں نہیں (بیشک تو ہمارا مہربان رب ہے).. سو یہ وعدہء وفا ہم سب کے لاشعورمیں ہے۔
ہماری روحوں میں، ہمارے ضمیر میں رکھا گیا ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے بھی قبل محبت کا ذائقہ چکھ چکا ہے، سو اس دنیا میں اس کو اس کی خواہش.. اللہ کی تلاش رہتی ہے..!
انا '' وہی آزمائش ہے جو ہم سب کے اندر رکھ دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

یہ انا اس ''میں '' سے متعلق ہے جسے ابلیس حکمِ الہی کی تکمیل کے بیچ یہ کہہ کر لایا تھا کہ ''میں؟ آگ سے بنا ہوا اور اس مٹی کے پیکر کو سجدہ کروں؟'' اس 'میں' نے جھکنے سے سربسجود ہونے سے انکار کیا تھا، پھر کجا یہ کہ حکم عدولی کی، وہ ہٹ دھرمی پر آ گیا اور بندوں کو بھٹکانے کا چیلنج کر بیٹھا.. اب ایک طرف وعدہء وفا ہے دوسری جانب آزمائشِ انا ہے، تو جو انا کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں وہ بیک وقت اللہ کو معبود نہیں مان سکتے ناں.. تو یہ جفا ہو گئی.. جفا کے بعد بھی فنا یقینی ہے..مطلب.. مرنا تو ہے.. اگر خدانخواستہ عالمِ جفا میں مر گئے تو یہ بھی فنا تو ہے اس دنیا سے..مگر..پھر.. استغفراللہ ۔

اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی انا کو مرنے سے پہلے اللہ کے سامنے جھکا دیں، کیونکہ انسان کی بندگی اسکی رب اور رب کی رضا کے سامنے جھکے رہنے میں ہے۔ اگر وہ نہ جھکے توکیا نادان کو لگتا ہے کہ وہ جھکایا نہیں جائے گا۔۔ قرآن میں فرمانِ الہٰی ہے کہ روزِ حشر انہیں جھکایا جائے گا، پیشانی کے بالوں سے پکڑا جائے گا ، اور وہ مانیں گے کہ بے شک ہم ظالمین ہیں ہم مجرمین ہیں..ہمیں بس ایک بار واپس جانے کا موقع دیا جائے۔
مگر ایسا کہاں ممکن ہو گا اللہ کہے گا تمہیں دوبارہ بھیجا جائے تم تب بھی ایسا ہی کرو گے استغفراللہ۔
ہم دنیا میں اللہ، اللہ کی رضا کے سامنے نہیں جھکتے تو اسکی وجہ فقط یہ ہے کہ ہمارے دل سے اللہ کی یاد، محبت ،موت، قیامت، آخرت کی یاد محو ہے، محبت سب کو چھوتی ہے مگر سب بقدرِ ظرف محبت کے بحرِ ظرف میں بہتے ہیں۔ کچھ خوف کے مارے آگے نہیں جا پاتے،کچھ کوئی ملال لیئے واپس آ جاتے ہیں۔
کچھ کی کیسی آزمائش کچھ کی کیسی آزمائش۔ سرخرو وہ ہے جو اسکی رضا کے لیئے سب قربان کر دے۔ یہاں تک کہ ایک روایت کے مفہوم مطابق اس روز جب مجرمین اور انکے گرو کو عذاب کا حکم دے گا تو وہ ایک دوسرے کے لیئے بدتر عذاب مانگیں گے کہ اس کو ہم سے زیادہ دیجیے۔ پھراللہ ان مجرمین اور شیاطین کے سامنے جامِ رضا میں ڈوبے اپنے کچھ متوالوں کو بلائے گا۔ اور انہیں حکم دے گا کہ تم جہنم میں کود پڑو، تو وہ یہ تک نہیں پوچھیں گے کہ کیوں باری تعالیٰ ہمارا قصور؟ وہ ،جو تیری رضا وہ قبول ہے، کہ مصداق جھومتے جھومتے جہنم کی جانب چل پڑیں گے سبحان اللہ! 
ان متوالوں کو محبوب کے قرب تک کی خواہش کی ہوس نہیں ہو گی ،یعنی اللہ کے قرب تک کی خواہش ، اسکی اللہ کی رضا کی خواہش پر غالب نہیں ہو گی، انہیں صرف اپنی محبوب کی رضا درکار ہو گی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
۔کیا ہی خوب عطا ہے الحمدللہ رب العالمین، تو اللہ کے نیک بندوں کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ کے نام سے انکا دل لرز جاتا ہے پگھل جاتا ہے، سر بسجود ہو جاتے ہیں۔۔ مگر ہمارا دل۔ اللہ بس ہمیں معاف کر دے، ہمیں توفیق دے کہ ہم مرنے سے پہلے اللہ کے لیئے اپنی انا کو مار دیں اپنا دل اپنا سر روح سب اسکے لیئے جھکا دیں، اللہ ہمیں اپنی رضا میں راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے دو جہاں میں راضی ہو جائے اللھم آمین۔
”نہ ہے آرزو وصلِ یار کی، نہ گلہ ہے اُس کے ہجرسے،
اِک مقام ِعشق پرعجب کیفِ راضی برضا دیکھا،
 محبت ہے ناں؟ تو بس .. نبھاتے ہی جائیے، 
کہاں کس نے معاملہء محبوب ِجزا سزا دیکھا،
ہجر میں اس مسیحا کے ایک ایسا بھی لمحہ آیا ہم پر،
جہاں دیکھاہم نے اسے دیکھا، ہر جاء، ہر لحظہ دیکھا،
ایسی اذیت پسندی، کہ تیرے ستم میں بھی،
اے ہوشربا اے دلربا، ہائے، انجانا مزہ دیکھا،
بے اختیاری جب جب کی ہے تیری ذات نے طاری،
زندہ تھے مگر خود میں اِک عالم ِنزع دیکھا،
سماعتوں میں آنکھیں اسکی، آنکھوں میں خوشبو اسکی،
ہوش و خرد سے ماورا، خود کو ادا، کبھی قضاء دیکھا!“
محبت انسان کے دل پر، اُس کی روح پر اتری وہ وحی ہے، جو اس کو اُس کے کچھ نہ ہونے، رب کے سب ہونے کا پتہ دیتی ہے۔
محبت زمانے کے سب مفہوم بدل دیتی ہے۔ محبت وہ نگاہ عطا کر دیتی ہے کہ جس نگاہ میں جلوہء محبوب آسماتا ہے۔ پھر یہ آنکھ بس محبوب کی ہو جاتی ہے۔بس وہی دِکھاتا ہے بس وہی دِکھتا ہے۔اُسی کے رمز ہوتے ہیں، اُسی کے رمز عیاں ہوتے ہیں،وہی راز رکھتا ہے وہی راز کھولتاکرتا ہے۔بندہ چلتا ہے وہ چلاتا ہے۔ اُسی کی رضا سے، اسی کی رضا میں رگوں میں لہو دوڑتا ہے، وہ چاہے تو اسے رواں کر دے، وہ چاہے تو اسے سرد کر دے، جامد کر دے۔
 
”تیری خامشی تیری ہی گفتگو،
میں رہوں کہیں نہیں، ہو تُو ہی کوبکو،
ہوں الجھی میں اپنے حجاب سے،
کر کبھی بے حجاب، آ میرے روبرو“
جب دل بے اختیار پکار اٹھے۔۔اللہ تو کہاں ہے؟ تو شاید یہ وہی لمحہ ہوتا ہے، جب دل .. دل سے لا الہ الا اللہ کہہ اٹھتا ہے، اس پکار میں ایک سوال، لاچارگی، بے بسی، شکستگی، خالی پن، کچھ بھی ہو، مگر کچھ ہی لمحوں میں سوال کے پردے میں یہ یقین اور محبت بھری پکارسب سے بڑھ کر اس سکون کو مزید جِلا ودیعت کرتا ہے کہ جس کو دل بلک کر پکار رہا ہے، اس پکار کی توفیق بھی اسی ایک کی عطا ہے۔
پھر دوری، تنہائی اور اکیلے پن کا احساس جیسے ایک لمحے میں اسکی رحمت کی آغوش میں سکون پا جاتا ہے، بس ایک پکار، اور وہ اپنی رحمت کا جلوہ لیئے ہمارا ہی تو منتظر ہے الحمدللہ اس سفر میں ہمیں ساری زندگی کسی ایک آئینے کی تلاش ہوتی ہے،اور یہ تلاش ہمارے اندر رکھ دی گئی ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں آپ عکسِ حقیقی دیکھ سکیں،آپ جیسے ہیں خود کو ویسے قبول کریں، ہر شے سے بے نیاز آپکا حقیقی عکس۔
اس ایک آئینے کی تلاش میں ہم جانے کہاں کہاں بھٹکتے ہیں، کبھی لگتا ہے جیسے خواری ہاتھ آئی۔۔ کبھی ایسے جیسے اپنے خدوخال ابھر کر سامنے آئے، کبھی جیسے خود سے ہی محو ہو گئے، کبھی اس میں جیسے کائنات میں جھلکنے لگے، مرکز کہیں اور نہیں بلکہ ہمارے ہی دل کے نہاں خانوں میں ہوتا ہے، جوں جوں دھند اور غبار چھٹتا ہے، ویسے ویسے اصل چہرہ جھلکتا ہے، اور پھر ایک دن دیدار ہو جاتا ہے،جب اصلی صورتِ یار آپ کے دل میں جھلکتی ہے جس نے آپ کو بہت محبت سے اپنے لیئے پیدا کیا۔
 
”تم میرا آئینہ ہو ،
اور میں ..تم میں،
خود کو دیکھ رہی ہوں..!،
 سو تمہیں اللہ چاہیے؟،
اللہ کی تلاش میں ہو؟،
تو اپنی انا کے پردے سے نکلو،
بس اللہ کی رضا کے متلاشی ہوجاوٴ،
وہ اپنی رضا کے پردے میں ہے،
اللہ کی رضا میں راضی رہو،
نہیں راضی رہا جاتا، تو راضی رہنا مانگو،
اللہ چاہے تو.. اللہ تمہیں مِل جائے گا،
ویسے تو اس کی چاہ کی طلب مل جانا بھی درپردہ اس کو پانا ہے!“
مگر ہاں.. اللہ کو حاصل، لاحاصل کی قید میں نہ رکھنا، کہ اسکی ذات ہر قید سے آزاد ہے، اسکی محبت دل کے سمندر میں محصور کسی نقطے سا تبھی دھڑکتی ہے جب دل کل عالمین کا ظرف رکھتا ہو، جہاں دل کم ظرفی میں آیا، تمہیں اس سے محو کر دیا جائے گا۔
پتہ ہے وہ کیسا ہے.. اگر وہ درد میں اپنی پکار کی طلب دیتا ہے تو دعا میں بھی وہی جھلکتا ہے، ایک ان کہاایک انجانا، نا قابلِ بیان سا رشتہ، کہ اس کو بس ایک پل کو سوچو تو جیسے ساری تکلیفوں کو راحت مل جائے، اور پھر تکلیف کا، درد کا بھی دل سے شکریہ نکلے، کہ اگر یہ راستہ نہ ملتا تو اسکا احساس کیسے ہوتا.. دل کیسے بے اختیار کہہ اٹھتا.. اللہ ہے ناں.. 
”گر نازِ مان و ہمسفر ہے تو سفر سے رہے پھر کیسا ڈر؟،
گر ہمسفر اتنا خوب ہو تو منزلوں کی ہو بھلا کسے فکر!“
سو بس وہ مجھے کافی ہے۔
طلب مل جانا بھی عطا ہے، صرف منزل پر پہنچنے کی فکر تو ہوس ہے، محبت کا راستہ وہ راستہ ہے کہ اسکے ہر ہر راستے پر چھپی ہوئی منزل ہے، اسکی آزمائشوں میں چھپی ہوئی آسانیاں ہیں، اسی کی تکلیفوں میں راحت ہے، اگر راستہ اللہ کا راستہ، محبت کا راستہ ہے، تو کیا کہنے اس سفر کے، کہ جس سفر میں ہمسفر اللہ ہے..تو جب ساتھ وہ ہے جس کے لیئے چل رہے ہیں تو کیسی 'میں'؟
”میں خود میں تجھے، اتر کر ڈھونڈوں،
تیرے نقش پا میں اپنی نظر ڈھونڈوں،
اداسیوں کے تپتے جھلستے صحرا میں،
ہر سُو تیری ہنسی کا مسکراتا ابر ڈھونڈوں،
گر پاوٴں میں تجھے جابجا پاوٴں خود میں،
گر ڈھونڈوں میں تجھے در بدر ڈھونڈوں،
تجھے سوچوں پھر سوچ نہ پاوٴں کچھ بھی،
موج میں تیری اتروں تجھے لہر لہر ڈھونڈوں،
یاد تیری تھاموں تو تھاموں متاع جاں سی،
خود کو بھولوں پھر ادھر ادھر ڈھونڈوں،
تجھے محسوس کروں ہر حرف دعا میں اپنی،
پھر زمیں و آسماں میں تجھے اکثر ڈھونڈوں،
اپنا پتہ تیرے پتے پر پاوٴں اکثر،
اپنی تلاش میں نکلوں تجھے نگر نگر ڈھونڈوں!“
کیسی عجب بات ہے ناں!ہمیں لگتا ہے اللہ کو ڈھونڈنے کے لیئے پتہ نہیں کیا کیا کرنا ہوتا ہے کہاں کہاں جانا پڑتا ہے دراصل تو اس نے اپنی پہچان، اپنے قرب کے لیئے ہمارے پیمانہء ظرف کے مطابق سب اسباب ہمیں ہما ری زندگی کے انہی روزوشب میں عطا کر رکھا ہے، مگر ہماری وہ نگاہ جس میں ہم پر یہ عیاں ہو، وہ کھلے تب ناں کہ وہاں حکمت آشکار بھی کی جائیں تو بس احساسِ شکر ہی بڑھتا ہے۔
سراب باہر کوئی معروضی حقیقت نہیں رکھتا، سراب ہمارے اندر ہوتا ہے۔ ہم محبت کی جس ازلی تلاش میں اس سراب کو سیرابی سمجھتے ہیں، دراصل وہ قدرت ہی کے نظام کے تحت ہمارے لیئے، ہمیں آزمانے کے لیئے، پیاس کی شدت بڑھانے کے لیئے، خلاء کا احساس آشکار کرنے کے لیئے، اور چلچلاتی دھوپ میں کسی سائے کی خواہش لیئے ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔ سراب کو، خود کو یا قدرت کو قصوروار کہنے سے کچھ حاصل نہیں۔
شکر تو بس اس بات کا کرنا ہے کہ اس سراب نے اپنی اور ہم پر ہماری حقیقت واضح کر دی۔ اور زندگی کے اس سفر میں اپنے سچے محرم کو پکار اٹھنے کی ہمت عطا کر دی۔ ہم اگر صرف یہ سوچ لیں کہ سیرابی کا نظر آنے والا یہ منظر عطا ہے، یہاں اگر پانی مل گیا، سیرابی ہو گئی تو اللہ کا شکر اور اگر یہ محض التباس ہے تو اس پر اللہ کے لیئے صبر،توبس یہی بات ہمارے لیئے حقیقی آسانی کا باعث بن سکتی ہے ان شاء اللہ۔
اللہ کی محبت میں ہار نہیں ہوتی۔ جسے دنیا ہار سمجھے بھی، وہ بھی عطا ہوتی ہے۔ اس کی تلاش کے سفر ایسے ہی ہوتے ہیں جہاں سفر میں بھٹکنا ہی سفر کا آغاز ہے! اسکی تلاش انسان کی پور پور میں ہے۔ جس سے کچھ لوگ نا آشنا ہی چلے جاتے ہیں پھر ان کے اعضاء چلا چلا کر کہیں گے کہ ہمارے ہونے کا حق کیسے ادا نہ ہوا! ہمیں کیوں اس تلاش میں سرگرداں نہ کیا جس کے لیئے ہماری تخلیق ہوئی؟ اور ناآشنا انسان جو زندگی میں 'میں' اور 'اختیار' کے سراب میں مبتلا' رہا اس وقت بے بسی کی اس انتہا پر ہو گا کہ کاش وقت واپس پلٹے اور وہ اپنی تلاش میں سرگرداں ہو سکے! اور کچھ، جو آشنا ہوتے ہیں وہ تو بس حیرت کے باعث خاموش ہی رہ جاتے ہیں، کچھ کو ، اور کچھ پر وہ عیاں کر دیتاہے، کچھ کے دلوں پر نہاں ہی رکھتا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے وہ، وہ کرتا ہے، اور اسکی تلاش میں سارا مزہ اسی امر میں ہے کہ اس کی چاہت میں مزہ آ جاے۔
۔ اور یہ مزہ بھی عطا ہے!
”نہیں چاہیے مجھے کوئی بھی عقل،
کہ تیری مصلحتوں کو سمجھ سکوں،
مجھے کیف دے تو اپنے عشق کا،
تیرے رمزِعشق میں، میں بندھ سکوں“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham