Episode23 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر23 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

وفا مابینِ من و تو
اللہ سے بڑھ کر باوفا کون؟
#اللہ پاک کو مسکے لگایا کرو… اللہ پاک کو اپنے بندوں کا محبت سے مسکے لگانا بہت پسند ہے!
#جب ہم اللہ ''کو'' مانیں، اللہ ''کی'' مانیں، تب ہم اللہ ''کے'' بندے ہوتے ہیں!
تبھی تو اللہ اپنے بندے کے دل پر سکینہ نازل کرتا ہے، فرشتوں کے ذریعے مدد بھیجتا ہے۔ دل کے تپتے صحرا پر محبت کی ٹھنڈی بارش برساتا ہے۔
بے بس ہوں تو بہترین وکیل ہوتا ہے۔ اپنے بندے کے لیئے مشکل میں آسانیاں بھیجتا ہے۔ دل کو محبت کا مرکز کر دیتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے بندے کا رشتہ عجب ہوتا ہے۔ کبھی خلوت میں جلوت بھر دیتا ہے تو کبھی اشکوں میں مسکان لا سجاتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے بندے کا رشتہ خواہشوں سے پرے رضا کا رشتہ ہوتا ہے۔ صبر، اخلاص، ایقان، امید اور وفا کا غیر مشروط رشتہ ہوتا ہے محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

#اللہ کے بندے ''ہونے'' اور اللہ کے بندے ''بننے'' میں فرق ہے۔اور یہ وہ فرق ہے۔۔ جس کا فرق۔۔بندے کو پڑتا ہے۔۔ اللہ کو نہیں!
#جو 'ایک' کے ہو کر نہیں رہتے۔ وہ..کسی کے نہیں رہتے..!
#انسان سے نبھاہ تو پردہ ہے.. اصل نبھاہ تو اللہ سے ہے.. جو پردے سے باوفا نہیں وہ اللہ سے کیا وفا کرے گا؟ اور وفا کا تقاضا فقط یہی ہے محبوب کی رضا میں راضی رہنا۔
محبت میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر مجاز سے محبت اللہ کے لیئے ہو تو یہ مجازی محبت بھی حقیقی محبت میں ڈھل جاتی ہے۔ جہاں عطا پر شکر، قضاء پر صبر، پھر رفتہ رفتہ قضاء پر بھی شکر، اور ہر حال میں اللہ کی حمد اپنے راضی برضا رہنے کی کیفیات وارد ہونے لگتی ہیں اور راضی برضا رہنا بلا شبہ عطا ہے۔ 
#اللہ کا منکر انجانے میں خود اپنے آپ کا منکر ہوتا ہے۔
حقیقت کو جھٹلانے سے حقیقت کو کچھ فرق نہیں پڑتا، صرف نہ ماننے والے کو فرق پڑتا ہے۔ 
#زندگی اللہ کی امانت ہے اور اگر اسکو جینا چاہتے ہو تو اسکا پل پل جیو.. حاصل وصول کے چکر میں پڑ گئے تو ہر پل بے کل ہو جاے گا اگر حال میں راضی نہیں تو مستقبل پر راضی کیسے رہو گے؟ اگر ماضی پر کڑھتے ہو تو حال میں شکر کیسے کرو گے؟ بس ہر حال میں اللہ کا نام لے کر جیتے رہو کچھ ایسے کہ زندگی بھی کھلکھلا کر کہہ اٹھے آہا۔
۔ کیا ہمسفر پایا ہے!
#وقت سورج کی طرح ہوتا ہے جو آپ ہی کے سائے کو آپ سے جدا کر کے آپکو دکھاتا ہے.. اب یہ آپ کی سوچ/نظر پر ہے کہ آپ اپنے ہی سائے کو بے وفا جان لیں یا اسے وقت کی ایک آزمائش کے طور پر لیں۔ جو آپکا ہی ہو وہ آپ سے بیوفائی کیسے کر سکتا ہے۔ کیا حضرت یوسف علیہ السلام نے معافی مانگنے پر اپنے بھائیوں کو اللہ کے لیئے معاف نہیں کر دیا تھا؟ انا تکبر ہے اور انا کو فنا ہے۔
محبت کو بقا حاصل ہے، محبت اور تکبر یکجا نہیں رہ سکتے۔ اور انا تکبر نہیں تو اور کیا ہے۔ محبت تو بس اخلاص ہوتی ہے۔مسلمان ہونے سے کو ئی مسلمان بن نہیں جاتا، الحمدللہ مسلمان بننے، مسلمان ہو جانے کے لیئے سلامتی کا باعث ہو جانا ضروری ہے۔ جس دل پر محبت کے حکم کی خیر کا ایقان واثق ہو جائے، وہ نتیجہ نہ جانتے ہوئے بھی سکون پا جاتا ہے، کشمکش سے آزاد ہو جاتا ہے، بنا محبت کے ہر حکم جبر لگتا ہے۔
محبت سے ہر حکم خیر بن جاتا ہے، جبر سے خیر کی منزل صبر سے طے کی جاتی ہے جیسے انا سے رضا کا فاصلہ وفا سے طے کیا جاتا ہے۔ 
# انسان! جسکا لفظ ہی انس سے نکلا ہے،جسکی تخلیق ہی محبت کے لیئے کی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محبت اسے نہ چھوئے، محبت اللہ ہے۔ محبت کسی نہ کسی صورت ہر انسان کو چھوتی ہے اب یہ الحمد للہ اسکا ظرف ہے کہ وہ اسکے ساتھ یا در حقیقت اپنے ساتھ کیا کرتا ہے۔
محبت صرف خوشیوں میں نہیں چھوتی محبت درد میں بھی چھوتی ہے۔ اور ایسے میں انسان کا ظرف اس سے وہ کرواتا ہے جسکا وہ حامل ہوتا ہے۔
# بچانا ہے تو سب سے پہلے خود کو اپنے آپ کے شر سے بچاوٴ کہ ہم سے بڑا ظالم کوئی نہیں
 کسی کی مدد کرنی ہے تو سب سے پہلے اپنی مدد کرو کہ ہم سے بڑا مظلوم کوئی نہیں
رحم کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ پر رحم کرو کہ ہم سے بڑا خود پر بے رحم کوئی نہیں!
#جب اپنے ہی غدار ہو جائیں تبھی گھر میں غیر گھس آتے ہیں۔
سانپ کو سوراخ، پانی کو شگاف، اور شر اور دھوکے کو بھی بس ایک اندھا اعتماد چاہیے ہوتا ہے، مگرکب تک؟ کہ مکر تب تک مکر رہتا ہے، جب تک وہ چاہنے والا چاہتا ہے۔ دنیا کے ماکر (چالباز۔ فریبی )سے بڑھ کر مکر (فریب )میں کوئی نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس خیر الماکرین (سب سے بڑھ کر حکمت عملی بنانے والے) سے غافل ہوتا ہے کہ جب اس خیرالماکرین کی تدبیر دنیا کے ماکر کے آڑے آتی ہے تو اس کو اسی کے مکر میں الجھا کر، اسی کا مکر اس دنیاوی ماکر کے منہ پر مار دیا جاتا ہے، حق باطل کے منہ پر باطل کو ایسے ہی کھینچ مارتا ہے، جیسے روشن صبح رات کی ظلمت کو بس اجالے کی ایک کرن سے نگل کر اپنا وجود ثابت کر دیتی ہے، حق ہی غالب ہونے کے لیئے ہے، مایوسی، خوف وسوسے بے وجہ ہے، بات فقط خود کو حق کے ساتھ منسلک کر لینے کی ہے، اللہ پاک ہم سب کو حق میں ضم کر دے اللہ پاک تمام مسلم امہ،تمام جہانوں پر اپنا خاص رحم فضل فرما دے اللھم آمین!
#کسی کے آنسووٴں پر بنائی خوشیوں کے محل کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ریت کے بنائے گھر کو کوئی وقت کے پانی کی تیز لہر پل میں تباہ کر کے رکھ دے۔
یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، ورنہ یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی، ہمارا ہر عمل ہمارا پیچھا کرتا ہے ہمارا ہر لفظ ہماری ہر سوچ، ہمارا خلوص ہمارا دھوکہ، ہماری خوش گمانی ہماری بدگمانی، ہمارا کینہ ہماری بغض، ہمارا صدقہ ہمارا سود، ہماری نیکی ہماری بدی، سب ہمارے پیچھے آ کر رہتے ہیں۔
#آج کے معاشرے میں بظاہر مرد عورت کا دشمن لگتا ہے، مگر دراصل مرد عورت کا دشمن نہیں ہوتا، عورت خود عورت کی دشمن ہوتی ہے، مرد اپنی کمزوری کی وجہ سے عورت کے ہاتھوں خود کو استعمال کرواتا ہے۔
خود پر بھی ظلم کرتا ہے اور اوروں پر بھی۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا، مرد کی بہادری نہیں اسکی کمزوری کی علامت ہے!
#پتہ نہیں انسان اپنی موت کیسے بھول سکتا ہے، ایک ایسی حقیقت جو پل پل اسکی زندگی کا حصہ ہے۔ 
#اس دنیا میں صرف وہ لوگ اپنے اور دوسروں کے لیئے زندہ ہیں جنہیں الحمدللہ، موت اور محبت کی سچائی نے چھو لیا ہو، باقی سب زندہ ہوتے ہوے بھی مردہ ہیں! 
# انسان کو ڈپریشن (پژمردگی)میں لگتا ہے کوئی ہے ہی نہیں اور اگریشن (جارحیت پسندی)میں لگتا ہے کہ صرف میں ہی ہوں، یہ دو ایکسٹریمز انسان کو اس حد پر لے جاتی ہیں جہاں دونوں صورتوں میں وہ اللہ سے غافل ہوتا ہے، کسی سب سے بڑھ کر اپنے کا احساس روح کی اشد ضرورت ہوتا ہے، جو انسان کو انسانیت کے جامے میں رکھ سکے، ورنہ اللہ کے احساس سے غافل بندہ جب دوسروں کو خدا بنا دیتا ہے یا خود خدا بنا جاتا ہے تو اس کی اذیت سب سے پہلے خود کو اور پھر خود سے منسلک دوسروں کو سہنی پڑتی ہے۔
#آزمائش سب پر آتی ہے مگر اللہ کے بندوں پر آئی گئی آزمائش انہیں پہلے سے زیادہ خالص کردیتی ہے، مزید نکھارتی ہے، سنوار دیتی ہے، کندن بناتی ہے، اور مضبوط کر دیتی ہے، اور اس سب میں الحمدللہ ایک اللہ پر یقینِ کامل، توکل، صبر شکر حمد، اور خالص اللہ کے لیئے خلوص ہوتا ہے، اور اس عطا کے پیچھے خود اللہ ہوتا ہے، کہ اللہ اپنے بندوں سے ایسی محبت کرتا ہے کہ انہیں آزماتا تو ہے مگر انہیں آزمائش میں تنہا نہیں چھوڑتا۔
انہیں بے بسی عطا بھی کرے تو اس میں بھی اپنی رحمت و نعمت کا در بند نہیں کرتا بلکہ اور محبت سے اپنا آپ آشکار کرتا ہے، انکے لیئے ہر مشکل میں آسانیوں کا انتظام کرتا ہے انہیں ہدایت سے نواز کر محبت کی حقیقت کا جام عطا فرماتا ہے۔ آزمائش سب پر آتی ہے مگر اللہ کے بندوں پر آئی گئی آزمائش انہیں پہلے سے زیادہ خالص کردیتی ہے الحمدللہ رب العالمین!
#ہم خاصے سکون کا سبب بن سکتے ہیں اگر ہم یہ دیکھنا چھوڑ کر، دوسرے کیا کر رہے ہیں، یہ دیکھنا شروع کر دیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
# جب ہم خود شک و ابہام میں ہوتے ہیں تو ہم ہر شے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
#شیطان کے پیروکار جانے انجانے میں شیطان کی مان کر، اپنے اعمال بیچ کر اس سے دنیا اور آخرت کے لئے آگ اور اذیت خریدتے ہیں، خسارے کا سودا کرتے ہیں، اور ستم تو یہ ہے کہ احساس ہوتے ہوئے احساس تک نہیں ہوتا استغفرللہ
# خواب ہمیں زندہ رکھتے ہیں، جب خواب پورے ہو جائیں ہم مر جاتے ہیں۔
# وقت تو معصوم ہوتا ہے۔تھامنے والے تھامنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور چھوڑنے والے چھوڑنے کے!
#جیسے زندگی کے دھوکے کا غبار موت کی یاد سے ہٹتا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح آخرت کی اہمیت کا احساس زندگی کی قدروقیمت اجاگر کرتا ہے۔ 
# وقت سے بڑھ کر منصف کون؟ اللہ سے بڑھ کر مہربان کون ۔۔ بشرطیکہ ہم عاجزی کرنے والے ہوں.. وقت بھی اللہ کی عطا ہے اور عاجزی بھی۔
”یارِ بے پرواہ سے نبھاہ کر کیا ملے گا،
اے دل تجھے تیری جان جلا کر کیا ملے گا،
کرے ہو سودوزیاں کی بات صاحب،
کہو … تمہیں یہ باتیں بنا کر کیا ملے گا،
بے بس ہو تم، اور بے نیاز ہے وہ،
انوکھی یہ طلب جگا کر کیا ملے گا؟،
ہر الجھن کی بس اِک سلجھن وہی ہے،
جدا اُس سے، الجھن بڑھا کر کیا ملے گا،
ہر آس ٹوٹتی ہے روز میری،
پھر آس اُس سے بندھا کر کیا ملے گا،
امید ُاس آستانے سے بندھی ہے،
جان اُس سے چھڑا کر کیا ملے گا،
وہی وہ ایک ہے ہر شے کا مالک،
الگ خود کو آزما کر کیا ملے گا،
نگاہ اُس کی ہے غالب نگاہ پہ تیری،
نگاہ اُس سے چُرا کر کیا ملے گا،
وہ ہو سامنے، ہو تُو سربسجدہ،
انا کو اس سے لڑا کر کیا ملے گا؟،
تیرے آنسو تکے آغوش اُس کی،
ٹوٹا بھرم بچا کر کیا ملے گا،
کوزہ گر ہے تیری وہ روح تک کا،
کاریگری اپنی دکھا کر کیا ملے گا،
رضا میں ہو جا بس مدغم تُو اُس کی،
تجھے اپنی چلا کر کیا ملے گا،
وہ سراپا راز ہے ایک ان کہی سا،
کیا بتاوٴں اس سے نبھا کر کیا ملے گا،
کر شامل قرب اس کا تو ہر دعا میں،
پھر دیکھ تجھے ہاتھ پھیلا کر کیا ملے گا!“
مجھے خبر ہے اس دن کی جس دن تمہیں میری وفا اور اخلاص کی قدر ہو گی، مگر تمہارے پاس وقت کو پلٹا دینے کی نہ پوری ہونے والی خواہش کے عوض تاسف محسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں ہو گا، مجھے احساس ہے اس دن کا جس دن ایک ملال لازوال تمہیں گھیر لے گا، اصل کی بجائے غیر سے توقع، میرے سمجھانے کے باوجود باوفا کی بجائے بیوفا سے وفا تمہیں ایسا بے وفا بنا چکی ہو گی، کہ تمہارے پاس وفا کو فار گرانٹڈ لینے کے پچھتاوے، اسکی پامالی کا ماتم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا، مجھے آگاہی ہے اس روز کی، جس روز تمہاری بات تمہاری فریاد کوئی نہیں سنے گا، جن کی آغوش میں تم میرے سِوا سمٹے جاتے ہو، جن کو میرے ساتھ تم اپنی وفا میں شریک ٹھہراتے ہو، بلکہ میرے ساتھ کیا مجھ سے بھی ماورا سمجھتے ہو، اس روز وہ سب تمہیں اجنبی بن کر ملیں گے، تمہارے حال سے کوئی غرض نہ ہو گی انہیں، تم جیسے آج مجھ سے جان چھڑاتے ہو وہ اس سے بڑھ کر تم سے اس روز جان چھڑائیں گے، تمہاری داد رسی کو کوئی۔
۔ کوئی بھی نہیں ہو گا، مجھے خبر ہے اس روز تمہیں کیسا دکھ گھیر لے گا، ابھی بھی وقت ہے میری جانب پلٹ آنے کا، سچ کہوں تو خود تمہاری اپنی جانب پلٹ آنے کا،کہ'' ایک ''سے خالص ہونا تمہیں خود تم سے اس جہاں سے خالص کر دے گا۔
 پلٹ آوٴ اس ایک کی طرف جو سچا محرم ، سچا مہربان، سچا رازداں، سچا باوفا، کبھی نہ چھوڑنے والا، ہمیشہ ساتھ نبھانے والا، تمہاری وفا کا سچا حقدار، تمہیں بِن مانگے دینے والا، تمہارے بِن کہے سمجھنے والا ہے، پلٹ آوٴ اس ایک کی جانب جو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے، رجوع کر لو اس ایک سے جس سے فرار ممکن نہیں، کہ جس سے فرار درحقیقت تمہارا خود تم سے فرار ہے، اور اس سے فرار میں کہاں بھلا قرار ہے؟ مان لو اس ایک کے غلبے کو کہ اس کو جھٹلانا تمہارا خود کو جھٹلانے کے مترادف ہے، سونپ دو اس ایک کو اپنا آپ جو تمہاری خود سپردگی کا سب سے زیادہ مستحق ہے، سچے ہو جاوٴ اس ایک کے ساتھ جو دنیا کے ہر کھیل تماشے لہو و لعب دھوکے سراب کو عیاں کر کے تمہارے ساتھ سب سے بڑھ کر سچا اور مخلص ہے، جو ہر ایک سے، سب سے بڑھ کر تمہارا اپنا ہے، جو تمہیں بہت محبت سے تکتا ہے، تمہارے پلٹ آنے کا منتظر، تمہارے لیئے اپنے قاصدوں کو محوِ انتظار کیئے، اپنی محبت کو تمہاری راہ کیئے، تمہارا سب سے بڑھ کر تمہارا اپنا، پلٹ آوٴ… تمہاری مرضی کا سراب کہیں تمہاری جان کا وبال نہ ہو جائے، اپنی مرضی میری مرضی کو سونپ کر میری آغوش میں آ چْھپو…کہ بہر طور آنا تو تمہیں میرے ہی پاس ہے، ہاں ابھی آوٴ گے تو عزت پاوٴ گے، فلاح پاوٴ گے، سکون پاوٴ گے، میرے منظورِ نظر ہو جاوٴ گے، کہ میں بہت محبت سے تمہارا منتظر ہوں، اور اگر جب آوٴ گے جب تمہیں گھسیٹا اور پیشانی کے بالوں سے پکڑا جائے گا، اور تمہیں کوئی جائے فرار نہ ملے گی، تو ذرا تو سوچو مجھے کیسا لگے گا، ہاں مجھے… ہاں میں بے نیاز ہوں، مگر کیا تم آگاہ نہیں کہ تمہیں کس محبت سے تخلیق کیا، تمہیں اپنا بنایا اور تم ایسے ناداں ہو کہ مجھے چھوڑ کر غیر کے ہوئے جاتے ہو، یعنی اپنی ہی خیر کے دشمن ہوئے جاتے ہو… وہ میں ہی تو ہوں جس نے ناپاک کو پاک کے پاس آنے کا ظرف عطا کیا، سو میرے لیئے نہیں اپنے لیئے آ جاوٴ…
”پلٹ آوٴ اس سے قبل کہ تمہارے لیئے۔
۔ بہت۔۔ دیر ہو جائے!،
وَاِلیٰ رَبک فارغب۔۔ وَاِلیٰ رَبک فارغب۔۔ وَاِلیٰ رَبک فارغب!“
”مجھ سے تو تْم دور ہوئے ہو،
خود سے دور کہاں جاوٴ گے؟؟،
لمس کا قرب تو مل جائے گا،
تاثیرِ مرہم کہاں پاوٴ گے؟؟،
جھوٹی خوشی کی ہو گی سازش،
مگر دل میں درد نہاں پاوٴ گے،
مجھ کو تو تم بھول چکے ہو،
خود کو بھول کہاں جاوٴ گے؟؟،
تمہیں واپس ہے اپنی اصل کو آنا،
جاوٴ … جتنا دور جہاں جاوٴ گے!،
وا مِلے گا درِ دل یہ تم کو،
لوٹ کر جب تم یہاں آوٴ گے!،
یہ تھا باوفا اللہ کا اندازِ وفا اپنی بیوفا مخلوق سے!“
کبھی کبھی سوچتی ہوں پروین شاکر کے اس شعر میں کس خوبصورتی سے رجوع کرنے کے حوالے سے اللہ اور بندے کے تعلق کی جانب ایک اشارہ ہے۔
”وہ کہیں بھی گیا.. لوٹا.. تو میرے پاس آیا،
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی،

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham