Episode53 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر53 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 اللہ پاک سوچنے کی توفیق دیں تو کائناتِ محبت میں سب عطا ہے۔ آنسو بھی مسکان بھی، صبر بھی وفا بھی، مان بھی، حیا بھی، تسلیم بھی ،رضا بھی، شکر بھی احساس بھی، یاد بھی، ایمان بھی، سجدہ بھی، ایقان بھی، خاموشی بھی، بات بھی، زندگی بھی مرگ بھی، دھیان بھی وجدان بھی، جسم و جان بھی، احسان بھی، آنکھ بھی کان بھی، آنکھ و کان میں پنہاں بصیرت بھی سماعت بھی، عہد بھی پیمان بھی، ربط و ضبط بھی امان بھی، خاکی فطرت سے پرے رحمان کا خاصان ِخاص۔
۔ محبت عطا ہے، کائناتِ محبت میں سب عطا ہے۔ عطا کمائی نہیں جاتی خریدی نہیں جاتی، چھینی نہیں جاتی، سیکھی نہیں جاتی ، عطا تو رب کی نظر کا وہ معاملہ ہے کہ وہ جس روح میں اخلاص دیکھ لے عاجزی دیکھ لے سچائی دیکھ لے اس کو بہانے پر بہانے دیئے جاتا ہے کہ وہ اپنی روح کے اخلاص اسکی سچائی، اس میں پوشیدہ حق کو مزید جِلا بخش دے، اور حقیقت حق کو پا لے، بندے کو ریاضت و مجاہدے کی توفیق مل جائے یہ بھی عطا ہے جسکو لگے میں نے ریاضت و مجاہدہ سے یہ مقام حاصل کیا اس نے رب کی نعمت کا کفر کیا ، کہ اس 'میں' کا خاصہ انا ہے.. جب نگاہ رب سے غافل ہوئی تبھی تو نگاہ میں میں الجھ گئی، جب کہ کائناتِ محبت میں ابتدا بھی عطا ہے اور انتہا بھی عطا ہے۔

(جاری ہے)

نظر کی بات ہے سمجھا جائے تو فنا ہی عطا ہے بقا بھی عطا ہے۔ کائناتِ محبت میں سب عطا ہے الحمدللہ رب العالمین۔
آسمان پہ پرندوں کو غور سے کبھی دیکھا ہے؟
نگاہ کو ایسا'لگتا' ہے
بے سمت ٹھکانوں پر،جستجو میں رہتے ہیں 
آشیاں بناتے ہیں، پر، سفر کرتے رہتے ہیں 
سفر ان پر ہے لازم، مسافتیں چلن ان کا
ان سے نگاہ ہٹاوٴ..گر، بادلوں پہ جا ٹکا ؤ..گر 
حیراں سی جا ٹھہرتی ہے
یہ بے سمت رواں سے ہیں، کبھی یہاں کبھی وہاں پہ ہیں 
دیکھنے میں بے ضرر سے ہیں، پردے ہزاروں اوڑھے ہیں 
یہ نقش ایسے بناتے ہیں ، جو دل میں گھر بناتے ہیں
آسماں سے ہٹ، پھر نگاہ، قدموں پہ جا ٹھہرتی ہے
ایک جہاں یہاں بھی ہے
گر سوچیے تو جانیں گے ، ہم خود کہاں چلتے ہیں؟
یہ جس زمیں پر ہم چلتے ہیں، وہ زمیں بھی خود سفر میں ہے
یہ ہمیں چلائے پھرتی ہے
ہم جس کو روندے پھرتے ہیں ، وہ ہمیں اٹھائے پھرتی ہے
یہ محو اپنے سفر میں ہے ، سفر خوب نبھائے پھرتی ہے
خالقِ حقیقی نے، خوب ہمیں گوندھا ہے
خاک خاک پرتوں میں ، کیا دلکشی سے گوندھا ہے 
ہرپرت اگر عیاں ہو تو، ہم خود پر خود حیراں ہوں تو
زندگی سمجھ میں آتی ہے
تا حدِ نگاہ دیکھو، ہر جا تھمی سی لگتی ہے
حد سے مگر پرے دیکھو، زندگی رواں سی لگتی ہے
زندگی تو چلتی ہے
ناداں ہیں ہم سارے ہی
ہم مر بھی اگر جائیں، نگاہ تھم بھی اگر جائے
ہم چاہیں، چاہے نہ چاہیں ، زندگی نے چلنا ہے
اپنے اپنے محور میں زندگی تو چلتی ہے
زندگی نے چلنا ہے
ہم یہاں مسافر ہیں بے سمت ٹھکانوں کے
بے سمت مسافت نے اک جگہ جا، رکنا ہے
گرد گرد مسافت میں زرق برق حقیقت ہے
گرد سے گھبرانا کیا، یہ سفر کا حصہ ہے 
بیان میں جو سمٹے نہیں یہ عجب ہی قصہ ہے 
مر بھی ہم اگر جائیں 
زندگی تو چلتی ہے، زندگی نے چلنا ہے 
موت تو بہانہ ہے زندگی کے ہونے کا 
اس دِل نشیں بہانے سے پھر بھلا گھبرانا کیا
موت میں زندگی بھی ہے، اک مخفی، امرِربی بھی ہے
سانس جب تک ہے باقی، مالک کی اپنے تابع ہے
ہم خود ہی اگر ہیں غاصب، ہم زندگی نہیں پرکھے
جب زندگی نہیں سمجھے، ہم موت کو کیا جانیں گے؟
ہم نے تو مر ہی جانا ہے، اور مر کر بھی سر جھکانا ہے
گر مر کے بھی سر جھکانا ہے، تو کیوں نہ زندگی میں جھک جائیں
بے سمت مسافت میں راہ اپنی کھو دینا ، زندگی کو کھونا ہے 
کیوں نہ کچھ پل، ہم ٹھہر جائیں
بس اک پل اپنی سمت کا تعین اگرہم کر جائیں
کیونکہ زندگی تو چلتی ہے، زندگی نے چلنا ہے!
اللہ پاک نے بلا وجہ نہیں کہا کہ غوروفکر کرو۔
اس بات سے اسکا مقصد ہمیں سائنسدان بنانا نہیں بلکہ ہمیں ہمارے اپنے فائدے کے لیے اوپر اپنی ذاتِ فانی اور اس رحیم و کریم کی ذاتِ باقی و حق آشکار کرتا ہے۔ تاکہ ہم سراب سے آزاد ہو کر اسکی حقیقت میں جی سکیں۔ کبھی سوچا ہے یہ جو بادل بن بن آتے ہیں۔ کیا ایک بادل بنانا بھی ہمارے اختیار ہے؟ یا کبھی کتنے ہی بادل بن آئیں مگر کیسے بن برسے چلے جاتے ہیں کیا انکا برسناہمارے اختیار میں ہے؟ یہ جو ہوا ایک دم سے تروتازہ کر جاتی ہے کیا اسکا چلنا ہمارے اختیار میں ہے؟ اور پھر یہ حبس کی کیفیت کیا اسکا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں ہے؟ یہ بھی اللہ کے 'کن' سے ہی برسرِ پیکار ہے۔
کائنات اور اس میں عیاں و پنہاں ہر ہر شے ہر ہر ذرہ اللہ کی تلاش اور اس تک رسائی کا کوڈ لیئے ہے الحمدللہ، مگر یہ کوڈ، ڈی کوڈ کرنا ہمارے اپنے اختیار میں نہیں۔ مزے کی بات ہے یہ بھی اللہ کے ہاتھ ہے۔ قرآن میں اسکے واضح احکامات اور استعارے ہیں۔ اور دعا اور نیک عمل اسکی کنجی۔ اور اللہ کی عطا تو بے نیاز ہے وہ جسے چاہے اپنی سوچ دے دے۔ جسے چاہے اپنی فکر دے دے۔
جسے چاہے اپنی لگن دے دے۔ اللہ سے دعا ہے وہ ہم سب کی مغفرت فرمائے، ہمارے لیئے اپنے تک پہنچنے میں آسانیاں فرمائے۔ وہ دوری جو ہم نے خود خود سے پیدا کر رکھی ہے، اس مشکل کو ہمارے لیئے آسان فرمائے تاکہ ہم اپنے پردوں کو سمجھ کر اسکے حجابوں سے محبت رکھ سکیں اللھم آمین۔
ذکرِ خیر محبت سے بادلوں پر رقصاں ہے
تم پر گر عیاں ہے تو.. نگاہء دل سے پڑھو
نقش کہیں رواں ہیں تو، حرف کہیں سجے سے ہیں 
کچھ قیام میں ہیں تو، کچھ سجدے میں گرے سے ہیں 
کچھ کہیں حیراں سے 
کچھ کیف و وجداں میں ہیں 
کچھ نگاہ نازاں میں
 راز کئی سموئے اور مسکرائے بیٹھے ہیں
تم پر گر عیاں ہے تو.. نگاہِ دل سے پڑھو!
 'تغیر' اور 'مستقل' دو عجب اسرار ہیں!
'مستقل' مکمل حقیقت ہے، اور 'تغیر' 'مستقل' کا راز آشکار کرنے والا پردہ! 
محدود نگاہِ قلب والوں کے لیئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ سورج کے ہوتے ہوئے یہ سوچ لیں کہ کبھی رات اندھیرے کے ساتھ آئے گی۔
اور رات والوں کو یہ سوچنے میں دشواری ہوتی ہے کہ ایسے اندھیرے میں صبح ہو گی! خوشی میں غم، اور غم میں خوشی، بہار میں خزاں، خزاں میں بہار، زندگی میں موت، اور موت میں زندگی اپنے اندر یقینی تغیر سموئے ہے۔ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس سردیوں کے موسم میں گرمیوں، اور گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے پھل/میوہ ہوتے تھے۔ حضرت ذکریاعلیہ السلام حیران ہوتے۔
پوچھتے: ''مریم یہ روزی تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ ''وہ جواب دیتیں، ''یہ اللہ کے پاس سے ہے، بیشک اللہ جسے چاہے بے حساب روزی دے''۔
اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السلام کو اولاد سے نوازنا تھا، انہیں دعا کی توفیق دی اور وہ پکار اٹھے، اے میرے رب مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔فقط محبت وہ معجزہ ہے کہ یہ جن پر اپنا راز آشکار کرنا چاہتی ہے، انکو تغیر کی بے ثبات حقیقت سے آشنا کروا کر 'مستقل' کے معجزوں کو سراہنے کی توفیق دیتی ہے۔
ورنہ 'تغیر' کو ثبات سمجھنے والے توغیر ہی میں الجھے رہ جاتے ہیں۔جن پر یہ عطا ہو جائے کہ وہ دن و رات کے 'تغیر' کو 'مستقل' جان لیں اور 'مستقل' پر راضی برضا قناعت و استقلال کا دامن پکڑ لیں، ان کے لیئے زینہ بہ زینہ آسانیوں اور معرفت کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ جیسے دور پار سے کہیں کوئی اپنی سی آواز بہت محبت سے بلاتی ہو۔
کوئی کائنات ہے سجی کہیں، بلائے مجھے ابھی وہیں
وقعت ہے مگر کیا میری! نہیں، نہیں، نہیں میں نہیں
دل تھا کہیں یہیں آس پاس پر اب وہ رہا نہیں کہیں
جو بیاں میں کبھی آ سکیں، کیفیات اب، کہاں رہیں
قوسِ قزح، معجزہء عشق، جب ہو جنبشِ کُن مرمریں
کہاں پا سکیں رمزِ عشق، کہاں عقل بھلا اتنی ذہیں
زیست کی بے مہر پوشاک کو ، آج تیری یاد نے کیا زریں
ہر رنگ عشق سے جڑا، ہر رنگ تمہی سے رنگیں
تیری چاہ نے بدلے مطالب سبھی، نہ آسماں رہا نہ رہی وہ زمیں
میرے خواب تجھ سے سجے ہوئے،میری زندگی تجھی سے حسیں
تیرا ذکر کریں دھڑکنیں، تیری یاد ہے دل میں مکیں
کیا خاک کے ہم ڈھیر تھے، نگہٴ یار نے کیا نگیں
ہو ختم اب یہ تشنگی، بس پہنچے دعا عرشِ بریں
جو کائنات ہے سجی کہیں، وہ بلا لے مجھے ابھی وہیں!
کائنات اللہ کی ہم سے محبت کا ایک بہت خوبصورت پردہ ہے۔
الحمدللہ، اللہ نے اپنی یاد اپنے ذکر کے پردے کائنات کے ذرے ذرے میں سمو رکھے ہیں۔ بس قلبِ بینا چاہیے۔ اور الحمد للہ قلب بینا عطا ہے۔ اس عطا کو پانے کا ایک ذریعہ دعا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ دعا کی توفیق انہی کو دی جاتی جنہیں اللہ نے عطا، عطا کرنی ہو، دعا بذاتِ خود عطا ہے۔ نفس بھی اللہ کا پردہ ہے ،اور یہ ایسا پردہ ہے کہ پڑ جائے تو گمراہ کر دے، ہٹ جائے تو روزِروشن کی طرح اسرارِ کائنات اور محبت کے لطائف آشکار کر دے۔
پھر خامشی بھی بولتی محسوس ہوتی ہے۔بے جان اشیاء ذکر کرتیں سر بسجود نظر آتی ہیں اس بصارت کا اعزاز فقط قلبِ بینا کو عطا ہے۔ روح کی دلکشی کا مقام کثافت سے پاک ہے۔ یہ جتنی ہلکی و لطیف ہے دل کو اتنی راحت ہے۔ یہ جتنی کثیف دل اتنا بوجھل ہے۔ اور دل و روح فقط اللہ کی یاد سے ہلکے اور پاک و صاف ہوتے ہیں۔ انا انہیں بوجھل و تاریک و زنگ آلود کر دیتی ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تاریکی و ظلمت بھی بے مقصد نہیں۔ یہ وہ پردے ہیں جن سے خلاصی کے لئے ہم تڑپ کر اللہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اسی کو تو اللہ کو سپرد کرنا ہے اسی سے تو آزادی مانگ کر اپنا آپ اللہ کی بندگی میں دینا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو وہ قلبِ بینا عطا فرمائے کہ ہم سب اپنے نفس کے حجابات کو سمجھتے ہوئے اس سے بالاتر ہو کر اللہ کے پردوں کے اسرارو رموز سے محبت رکھ سکیں اللھم آمین یا رب العالمین یا ارحم الرحمین۔

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham