Episode16 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر16 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

محبت عطا ہے، کائناتِ محبت میں سب عطا ہے۔ آنسو بھی مسکان بھی، صبر بھی وفا بھی، مان بھی، حیا بھی، تسلیم بھی رضا بھی، شکر بھی احساس بھی، یاد بھی، ایمان بھی، سجدہ بھی، ایقان بھی، خاموشی بھی، بات بھی، زندگی بھی مرگ بھی، دھیان بھی وجدان بھی، جسم و جان بھی، احسان بھی، آنکھ بھی کان بھی، آنکھ و کان میں پنہاں بصیرت بھی سماعت بھی، عہد بھی پیمان بھی، ربط و ضبط بھی امان بھی، خاکی فطرت سے پرے رحمان کا خاصان خاص.. محبت عطا ہے، کائناتِ محبت میں سب عطا ہے۔
عطا کمائی نہیں جاتی خریدی نہیں جاتی، چھینی نہیں جاتی، سیکھی نہیں جاتی ، عطا تو رب کی نظر کا وہ معاملہ ہے کہ وہ جس روح میں اخلاص دیکھ لے عاجزی دیکھ لے سچائی دیکھ لے اس کو بہانے پر بہانے دیئے جاتا ہے کہ وہ اپنی روح کے اخلاص اسکی سچائی، اس میں پوشیدہ حق کو مزید جِلا بخش دے، اور حقیقت حق کو پا لے، بندے کو ریاضت و مجاہدے کی توفیق مل جائے یہ بھی عطا ہے جسکو لگے میں نے ریاضت و مجاہدہ سے یہ مقام حاصل کیا اس نے رب کی نعمت کا کفر کیا، کہ اس 'میں' کا خاصہ انا ہے.. جب نگاہ رب سے غافل ہوئی تبھی تو نگاہ میں میں الجھ گئی، جب کہ کائناتِ محبت میں ابتدا بھی عطا ہے اور انتہا بھی عطا ہے۔

(جاری ہے)

نظر کی بات ہے سمجھا جائے تو فنا ہی عطا ہے بقا بھی عطا ہے۔ کائناتِ محبت میں سب عطا ہے الحمدللہ رب العالمین۔ 
محبت روح کی زندگی ہے، کہہ لیجیے یہ روح کو زندہ رکھتی ہے، مجاز.. وہ سیڑھی ہے جس سے انسان کبھی منہ کے بل گرتا ہے، کبھی ایک جھٹکے سے اوپر کا سفر طے کر لیتا ہے، اگر جذبہ اخلاص سچا ہے تو ودیعت کرنے والا، اوپر آنے والے کو تھام کر لے آئے گا، اور نیچے منہ کے بل گرنے والے کو بھی سچے آنسووٴں کی پاکیزگی عطا کرتا اور تیزی سے اوپر لے آئے گا۔
محبت کے سفر میں سب سفر لازم ہیں ، اس میں بھی دن و رات صبح و شام کی آزمائش ہے، اس میں تھکن آرام، عروج زوال کی آزمائش ہے، اس میں خیر و شر کی آزمائش ہے، ذلت عزت کی آزمائش ہے، ہاں مگر یہ آسمانی جذبہ زمینی کثافتوں سے پاک ہے، جب قوم بنی اسرائیل کو من و سلوٰی میں سکون نہیں ملا اور انکی ناشکری انہیں زمینی ترکاریوں کی جانب لے آئی تو ان پر منکشف ہوا کہ انہوں نے کیا ناشکری کر ڈالی، اسی طرح انسان اگر حسد بغض گلہ شکوہ، ناشکری، بے صبری، غیبت میں داخل بھی ہو جاے اور پھر رہنا ہی چن لے تو وہ محبت سے خود سے اللہ سے دوری چن لیتا ہے!
محبت بری نہیں ہوتی، کیونکہ یہ اللہ کی سب سے بڑی اور بے حد خوبصورت عطا ہے محبت مثلِ آئینہ ہے جس میں ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں، اب اگر ہم تکلیف دہ عکس دیکھ لیں تو غالبا ًہماری ہی انا کی کوئی پرت ہے جو ہمیں ایک قدم اور آگے آ جانے کا پرتو دکھا رہی ہے، اللہ محبت ہے۔
کہ اسکی صفات کی محبت اسکی ذات کی آشنائی سے لبریز ہوا جاے،جو غالباً اب چاہتا ہے کہ خود کو پاک صاف شفاف کیاجائے، معاف کیا جائے، صلہ رحمی کی جائے، درگزر سے کام لیا جائے، احسان کیا جائے، شکر کیا جائے، حمد کی جائے، صبر کیا جائے، بظاہر سزا میں درپردہ عطا ڈھونڈی جائے۔ مگر جو بھی ہے، الحمدللہ کہتے راضی رہا جائے، اور اسکی متعین کردہ منزل کی جانب سعی کامل جاری رکھی جاے۔
دل پر سراسر اختیار اللہ کا ہے، پھر دل خود بخود نہ کسی پر رکتا ہے، نہ کسی سے ہٹتا ہے، نہ کسی سے بھرتا ہے نہ کسی سے خالی ہوتا ہے، بس کن فیکون ہو جاتا ہے، اسی کن فیکون کے پردوں میں جذبوں کی دنیا بسی ہے، اسی غم خوشی کے پرے قانع اور راضی برضا رہنے کا راز پنہاں ہے۔
”محبت شکوہ نہیں ہوتی،
محبت عادت نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت فطرت ہوتی ہے،
محبت بد گمان نہیں ہوتی،
محبت پریشان نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت دھیان ہوتی ہے،
محبت انا نہیں ہوتی،
محبت جھگڑا نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت سجدہ ہوتی ہے،
محبت حساب نہیں ہوتی،
محبت کتاب نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت بے نیاز ہوتی ہے،
محبت حبس نہیں ہوتی،
محبت موسم نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت ازل تا ابد ہوتی ہے،
محبت تنہا نہیں ہوتی،
محبت شکستہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت فتح ہوتی ہے،
محبت نحیف نہیں ہوتی،
محبت ناتواں نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت طاقت ہوتی ہے،
محبت غافل نہیں ہوتی،
محبت کاہل نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت جاوداں ہوتی ہے،
محبت مردہ نہیں ہوتی،
محبت افسردہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت شہیداں ہوتی ہے،
محبت فنا نہیں ہوتی،
محبت بقا نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت محبوب ہوتی ہے،
محبت بحث نہیں ہوتی،
محبت ضد نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت رضا ہوتی ہے،
محبت تھکن نہیں ہوتی،
محبت پژمردہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت حرارتِ جاں ہوتی ہے،
محبت فتنہ نہیں ہوتی،
محبت فساد نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت آداب ہوتی ہے،
محبت ہوس نہیں ہوتی،
محبت عریاں نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت لباس ہوتی ہے،
محبت رنجش نہیں ہوتی،
محبت سازش نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت آخرش ہوتی ہے،
محبت تکلیف نہیں ہوتی،
محبت اذیت نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت راحت ہوتی ہے،
محبت سزا نہیں ہوتی،
محبت دغا نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت وفا ہوتی ہے،
محبت آنسو نہیں ہوتی،
محبت مسکان نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت شکر ہوتی ہے،
محبت قابض نہیں ہوتی،
محبت حاسد نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت دعا ہوتی ہے،
محبت ادلہ نہیں ہوتی،
محبت بدلہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت ماورا ہوتی ہے،
محبت جادو نہیں ہوتی،
محبت شعبدہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت معجزہ ہوتی ہے،
محبت کذب نہیں ہوتی،
محبت کرب نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت حق ہوتی ہے،
محبت حزن نہیں ہوتی،
محبت ملال نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت صبر ہوتی ہے،
محبت آہ نہیں ہوتی،
محبت شکوہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت توکل ہوتی ہے!،
محبت حاصل نہیں ہوتی،
محبت لاحاصل نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت قناعت ہوتی ہے،
محبت گمراہ نہیں ہوتی،
محبت بے راہ نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت ہدایت ہوتی ہے،
محبت 'میں' نہیں ہوتی،
محبت 'تم' نہیں ہوتی،
محبت ہونے پہ آئے تو،
محبت 'محبت' ہوتی ہے!“
محبت بہتے پانیوں سی ہے، زندہ، یہ تعفن کا شکار نہیں ہو سکتی، یہ وہ پانی ہے کہ اگر رک بھی جائے تو بھی اس کانتیجہ عطا کی صورت ہی آئے گا، کیونکہ یہ گمان میں سنورتی ہے.. یہ بربادی میں بھی آبادی کا گمان رکھتی ہے، محبت نیک گمان ہوتی ہے۔
اللہ پاک نے جسکو مجاز کے دروں حقیقت عطا کرنی ہو، اسے محبت آزماتی ہے، اللہ کے دیئے پر راضی ہونے پر اور نہ دئیے پر راضی ہونے پر اسکی آزمائش ہوتی ہے، انسان اکثر نادان ہے، نہ دئیے پر تو دور.. دئیے پر بھی راضی نہیں ہوتا، مخلوق تو پرتو ہے، پردہ، بہروپ، اصل روپ تو کسی اور کا ہے، ہماری زندگی میں محبت آ جائے تو لگتا ہے ہم جی اٹھے، چلی جائے تو لگتا ہے ہم مر گئے یا مر جائیں گے، حالانکہ وہ مجاز بھی اسکے کْن سے ہی آیا اسی کے کْن سے مردہ زمین پر بارش سی محبت برسی اور زندگی کی فرحت دوڑ گئی۔
اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں۔ وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے، وہی جِلا بخشتا ہے۔ اور ہم اپنی ان کیفیات کو کسی مجاز سے منسوب کر ڈالتے ہیں، سو دراصل تو یہ اللہ کا کْن ہے جو بس اپنی رضا کے پردے میں آزماتا ہے کہ رضا بہت بڑی عطا ہے، جس کو اللہ نے یہ عطا کرنی ہو۔ اس سے اس کا سب لے کر اسے بس دیتا ہی ہے، ہاں دنیا کی نظر میں شاید وہ لینا ہو، مگر محبت کی نگاہ جانتی ہے کہ نگاہِ دنیا سے ماورا محبت سودوزیاں سے بے نیاز کیسی عطا ہے، کہ اگر اسکا ظرف عطا ہو تو، یہاں محبوب مجازی ہو یا حقیقی، یہاں محبت ہجر میں نہیں ہوتی، وہ ہجر میں بھی وصل کے رمز سے آشنا ہوتی ہے، محبت جانتی ہے ہجر کا مطلب ہی محبوب سے غفلت ہے، مگر ہم سمجھ نہیں پاتے اور بہروپ کے دئیے نہ دئیے میں الجھ جاتے ہیں، جبکہ رب تو اپنی مخلوق اپنے کْن کے پردے میں ہم پر اپنا پردہ اپنی رضا کا پردہ کھولنے کا بہانہ دیتا ہے، سو جس کا جتنا ظرف ہوتا ہے وہ وہاں تک رب کے کْن اسکی رضا کہہ لیجیے رب کو پا لیتا ہے اور جتنا اسکو جانتا ہے وہ یہی کہتا ہے میں اسکو نہیں جان سکتا کہ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ چاہتا ہے!
”میری پیاس کو تُو سمجھ کبھی،
ہو ختم تشنگی، دے اپنا جام دے،

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham