Episode 22 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر22 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 محبت وہ عطا ہے جو انسان سے اس کا سراب لے کر ُاس کو اُس کی حقیقت دیتی ہے۔یہ انسان کو اس کی اپنی ذات کے رب کے عطا کردہ اثاثوں سے روشناس کرواتی ہے۔ جس کو عجز و خود سپردگی سے مزین نگاہ محبت کی عطا سمجھتی ہے۔ محبت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ اللہ کے فیصلوں کے سامنے دل جھکانے میں آسانی کرواتی ہے، اور انا کا سب سے بڑا وار یہی ہے کہ یہ اللہ کے فیصلوں کے سامنے تن کر کھڑا کرواتی ہے۔
محبت یا انا اپنے اپنے ظرف پر مجبور ہے، اب انسان جو ان دونوں کی کشمکش میں الجھا رہتا ہے، مانگ لے تو اللہ سے محبت مانگ لے، اور یہ انا کے جال میں آجائے تو انا اسکو تن کر کھڑا کر دے تو دعا بھی نہ مانگے۔ انا بذاتِ خود طاقتور نہیں انسان کے اپنے اندر کا جھکاوٴ اپنے اندر کی کمزوری اسکو انا کا مغوی بناتی ہے، کہاں کوئی جواز باہر ہوتا ہے؟
”دعا بھی محبت ہے،
دعا بذاتِ خود عطا ہے!،
 محبت آمنا و صدقنا ہے،
محبت محبوب کے اشارہء کُن پر لبیک ہے،
محبت میں تسلیم ورضا ہی جامِ محبت ہوتا ہے!“
پھر وہ چاہے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پلایا جانے والا زہر ہو، یا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سجدے میں شہادت... حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عین حالتِ نماز میں ان پر ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے حملہ ہونا ہو، اور زخمی ہو کر مسلسل دو دن اذیت سہہ کر جامِ شہادت نوش کرنا ہو، یا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا صلیب پر چڑھا دیا جانا ہو یا، حضرت مریم علیہ السلام جیسی پاکیزہ دوشیزہ کا بن بیاہی ماں بن جانا ہو، یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے ساتھ اپنے شیر خوار بچے کو بے آب وگیاہ صحرا میں تنہا چھوڑ آنا ہو یا بس ایک خواب کے اشارے پر اپنے جگر گوشے کو قربانی کے لیئے چھری تلے لٹانا ہو! حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی چالیس روزہ محاصرے میں باغیوں کے ہاتھوں شہادت ہو یا نبی کریم ﷺ کا محبوبِ خدا ہوتے ہوے بھی ہر طرح کے دکھ کرب اذیت کا ہر ہر آزمائش کا صبر و شکر سے سامنا ہو، یا اپنے سارے کنبے کو اپنے جان سے پیارے نواسوں کو اسلام کی راہ میں قربان کر دینے کے پیغام پر پی لیئے جانے والا جامِ صبر ہو...
محبت آمنا و صدقنا ہے
محبت محبوب کے اشارہء کُن پر لییک ہے
محبت میں تسلیم ورضا ہی جامِ محبت ہوتا ہے!
”محبت خاص ہوتی ہے!،
ہاتھ اٹھیں دعاوں میں … نگاہ جب جھلملاتی ہو ،
محبت آس ہوتی ہے … محبت خاص ہوتی ہے،
سہارا باقی نہ رہ جائے … ساتھی جب بچھڑ جائیں،
سانچہء امید ِجاناں میں … یہ تب بھی پاس ہوتی ہے،
محبت خاص ہوتی ہے،
صحرا میں ابر کی صورت … ویرانے میں اجالا سی،
درد کتنا ہی گہرا ہو … محبت راس ہوتی ہے ،
محبت خاص ہوتی ہے،
کبھی الہام کی مانند … کہیں یہ کشف ووجداں سی،
رگوں میں لہو سی دوڑتی … دلوں پر وحی سی اترتی ہے ،
محبت خاص ہوتی ہے،
کبھی برسے یہ ساون سی … ہنستی مسکراتی سی،
روح معطر کر جائے … محبت احساس ہوتی ہے،
محبت خاص ہوتی ہے!“
 ایک محبت اللہ کے لئے ہوتی ہے سچی، خالص، اور پاکیزہ محبت! اور ایک محبت نفس کے لئے ہوتی ہے اذیت ناک۔

(جاری ہے)

دراصل محبت تو بس ایک ہوتی ہے،جو حقیت، سچ اور ایک عطا ہوتی ہے۔ ہم جب بھی نفس کے نام پر سراب میں آنے کو محبت کا نام دیتے ہیں، تواکثر ملنے والی اذیت کی وجہ سے ہم محبت کے منکر ہو جاتے ہیں. ایک غلطی پر ایک اور غلطی کرتے ہیں.آنکھیں خود بند رکھتے ہیں، ظاہر ہے ٹھوکر لگتی ہے، اور پھر اس ٹھوکر اور تکلیف کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں. یقین سے خالی خود ہوتے ہیں، شک دوسروں پر کرتے ہیں، اور اصلیت نظر آنے پر بھی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں، حقیقت کی تلخی سے بچنے کے لئے اس اصلیت کو خود ساختہ جھوٹے جواز کا لباس پہناتے ہیں. اور پھر الزام اس معصوم لفظ محبت کو دیتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں اورہمیں محبت کی سچی چاشنی چکھنے کی توفیق دیں اللھمّ آمین!
محبت بے طلب والوں کو نہیں ملتی، مگر جن کو محبت اپنی طلب دے دے، ان کو لا طلب کروانا بھی محبت کا ہی خاصہ ہے!محبت ازل سے پاک ہے، مگر جس پر نگاہ کر دے، اسکے لیئے دلدل میں جانے کا ظرف بھی رکھتی ہے۔ اور اس کو دلدل میں سے نکال کر پاک کرنے کی، اپنا بنانے کی ہمت بھی رکھتی ہے۔
کیونکہ جس کو جسکی جستجو ہوتی ہے، اسکی سعی بھی اس کے لیئے ہی ہوتی ہے۔ محبت کْن کہے تو فیکون کر دے، مگر یہ جستجو یہ سعی یہ سب فقط انسان پر اْس ربِ محبت کی عطا، اس انسان پر اس کا ظرف منکشف کرنے کے بہانے ہیں۔
محبت اور ضرورت دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہاں اللہ کی ضرورت سب کو ہے۔ سب اذیت میں، اذیت سے بچنے کے لیئے بے ساختہ اللہ اللہ کر اٹھتے ہیں۔
مگر اللہ سے محبت کچھ اور ہی چیز ہے۔ کچھ بہت ماورا، شاید بیان سے باہر۔ اس محبت میں تو، دنیا کی نظر میں انسان اذیت میں بھی ہو تو اسے وہ اذیت نہیں لگتی۔ بلکہ محبت والے اس میں بھی صبر و شکر و حمد کے بہانے تلاش لیتے ہیں۔ وہاں صبر کرنے کے لیئے حکمت سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ وہاں محبت میں تسلیم ورضا ہی جامِ محبت ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے نے آجکل محبت کی ارزانی یہ کی کہ ہوس کے لیئے دو طرفہ تعلق تو دور، ایک طرفہ جذبات کو وقتی ہوس جنون، کشش، دل لگی، یا کچھ بھی کو محبت کا نام دے دیا، جس میں لوگ جنون میں آکر قتل تک کر ڈالتے ہیں، عزتوں کا احساس نہیں رکھتے، کائناتِ محبت میں اس طرح کی محبت کا کوئی وجود نہیں،بظاہر یکطرفہ محبت، محبت کا سراب ہو سکتی ہے، ہوس جنون، ضد، کشش، لگاوٴ، دل لگی یا کچھ بھی ہو سکتی ہے، محبت نہیں! محبت دوئی میں ابھرتی ہے اور وحدت کے سمندر میں جا کر ضم ہوتی ہے۔
اور وحدت کا سمندر یکطرفہ نہیں ہوتا۔ وحدت وہ حقیقت ہے جس کی کوئی اطراف، کوئی رخ محدود نہیں، وحدت عجب اکائی ہے جو ہر ہر جا جلوہ نما ہے۔
کائناتِ محبت میں ہوس زدہ نام نہاد یکطرفہ محبت کا کوئی وجود نہیں، محبت رب کی عجب عطا ہے، یہ جس دل کو اپنا مسکن چْن لے، اسکو پہلے طلب سے آشنا کروا کر خواہش کے بْت سے بے نیاز کرواتی ہے۔ دل کو محبت کا خانہ کعبہ بناتی ہے، انا، سزا، جزا، ریا، سے بے نیاز کرواتے کرواتے رضا کرواتی ہے۔
یکطرفہ، محبت نہیں، یکطرفہ تو، انا ہوتی ہے، جو اپنی 'میں' میں الجھی ایک طرف ہو کر رہ جاتی ہے۔ تبھی تو دل تشویش، بے سکونی، اور ہوس میں ہی رہ جاتا ہے۔ محبت عجب ہوتی ہے حیران کْن، محبت اطراف بدل دیتی ہے، اطراف کا مطلب بدل دیتی ہے ہر جا محبوب ہوتا ہے، وقت آزمائش ہوتا ہے، کشش، ہوس، اور محبت سب آزمائش میں نکھر کر سامنے آتیں ہیں، محبت لحظہ بہ لحظہ روح میں اتر آنے والی قوسِ قزح ہوتی ہے، جو ماند نہیں پڑتی ٹھہر جاتی ہے، جس سے وجود جگمگا اٹھتا ہے، قوسِ قزح... زمین و آسمان میں سجی معجزاتی روشنی، جہاں پانی اور آگ کا ملاپ ہوتا ہے، کہ خوبصورت روشنی بنتی ہے، محبت تو سکون ہوتی ہے، یہ ایک عجب آئینے سے آپکو ملواتی ہے جہاں آپ پر آپ کی ذات منعکس و آشکار ہوتی ہے۔
آپ خود کو دیکھنے لگتے ہیں، پھر ایک وقت آتا ہے آپ کا محبوب آپکا آئینہ ہو جاتا ہے۔ 
”تم میرا آئینہ ہو
اور میں تم میں،
خود کو.. دیکھ رہی ہوں!“
'یکطرفہ نام نہاد محبت'کسی خبط کی طرح ہوتی ہے جو نڈھال کر دیتی ہے، تھکا دیتی ہے، جبکہ محبت میں تو یاد ہی تازہ دم کر دیتی ہے، محبت اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور یہ احساس روح کو ودیعت ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔
انا کا یکطرفہ تعلق پاک روح کے لیئے بوجھ کی مانند ہوتا ہے، جسے جلد یا بدیر معدوم ہونا ہے اگر محبت نے دل میں بسنا ہے تو اسے پہلے دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے۔ یکطرفہ 'میں'محبت میں تب ڈھلتی ہے جب یہ رضا کے سمندر میں ضم ہو جاتی ہے۔
محبت اللہ کی تلاش ہے۔ ایک فرمان کے مفہوم کے مطابق اللہ خود اپنے بندوں کو کہتا ہے: مومن مومن کا آئینہ ہے، مومن مومن کے لیئے محبت ہے، اسکے لیئے مصیبت میں آسانی، تو جب انسان مومن بنانے کے لیئے چْن لیا جاتا ہے تو نہ نہ کرنے کے باوجود محبت بڑے وثوق سے آ براجمان ہوتی ہے، اور انا کو اپنا تخت چھوڑنا پڑتا ہے، بالکل ویسے جیسے بحکمِ خدا حضرت سلیمان علیہ السلام کے کہنے پر بلقیس کا تخت انکے محل میں پہنچا دیا گیا۔
جب انسان کو مومن بنانے کے لیئے چْن لیا جاتا یے تو اس پر باطل کی سراب کی حقیقت آشکار کی جاتی ہے، کہہ لیجیے لا الہ ا لا ٌ اللہ ٌ کی حقیقت منکشف ہونے کے لیئے سب جھوٹے معبودوں کو پاش پاش ہونا پڑتا ہے، اسے محبت کی بھٹی میں رہنا پڑتا ہے جو دنیا کی نگاہ میں بظاہر نمرود کی لگائی ہوئی آگ کی مانند ہے مگر اسکی حقیقت و تاثیر دل والے خلیل جانتے ہیں کہ کیسے وہاں محبوب کے فرشتے پسینہ تک پونچھنے آ جاتے ہیں اور کس طرح آگ کو ٹھنڈی ہو جانے سلامتی والی بن جانے کا حکم دے دیا جاتاہے۔
آزمائش ایک لٹمس پیپر ہے... محبت کا گیٹ وے... انا کانٹا چھانٹی کرتی ہے۔ جو انا کو جھکا دیں وہ محبت کے دروازے میں آجاتے ہیں جو انا کو تھامے رہ جائیں محبت کے دروازے ان پر بند ہو جاتے ہیں۔ محبت سمیٹنے کو تیار ہوتی ہے مگر یہ اتنی خالص ہے کہ اسکا ظرف فقط خالص ہی سہار سکتے ہیں۔ 
محبت کو جھٹلانے سے محبت جھوٹی نہیں ہو جاتی، جیسے انا کے ہوس زدہ یکطرفہ تعلق کو محبت کہنے سے یہ تعلق محبت نہیں ہو جاتا، محبت وحدانیت کا وہ سمندر ہے جس میں دوئی ضم ہوتی ہے، پہلے یہ وجود کی دوئی یعنی انا اور انسان کی دوئی ہوتی ہے، جب انسان اس وجود کی دوئی سے نکلتا ہے تو اپنا آپ آئینے کو سپرد کرتا ہے تب وہ واحد کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔
کائناتِ محبت میں یکطرفہ محبت کا کوئی وجود نہیں، محبت تو جس جا دیکھو اس جا ہوتی ہے، تم جس طرف بھی رخ کرو محبوب کو جلوہ نمادیکھو گے،ایک طرف تو محدود کرتی ہے، سو یہ تو محبت کے نام پر سراسر سراب ہوا، محبت تو اطراف سے ماورا ہے زمان و مکان سے ماورا۔ زمانے کی نگاہ میں یکطرفہ محبت عجب مسخ شدہ شکل ہے کہ کسی کو اسکی محبت نہیں ملی تو شدید مثالوں میں اس نے خود کشی کی کوشش کی یا کر لی، قتل کر لیا، وغیرہ میری نظر میں یہ محبت نہیں یہ انا ہے۔
کہ محبت تو اللہ کی عطا ہے محبوب کے حصول سے بے نیاز اسکی خوشی اسکی رضا میں راضی برضا اپنے اللہ کی رضا میں سربسجود رہتی ہے، سو محبت کی طرف ایک نہیں کیونکہ یہ اس ایک واحد رب کی طرف سے آتی ہے جو ہر طرف سے بے نیاز و ماورا ہے۔ سو محبت ہر جا اپنا محبوب دیکھتی ہے۔
ایسے ہی ایک خیال سا آتا ہے کہ اگر ہم اس محبت کو دیکھیں جو چلیں بظاہر یکطرفہ ہے کہ آپکے محبوب کو آپ سے محبت نہیں وہ کسی اور کے ساتھ راضی اور آپ اسکی خوشی میں راضی رہو اور صبر کرو، اللہ کے حوالے کر دو، تو میرا خیال بار بار اللہ کی جانب جاتا ہے کہ اللہ سے بڑھ کر تو یکطرفہ محبت پھر شاید کوئی کر ہی نہیں سکتا، وہ کیسے اپنے بندوں کو چنتا ہے انہیں بناتا ہے، ان میں روح پھونکتا ہے سماعت بصارت، دل ہاتھ پاوٴں، سب عطا کرتا ہے اور پھر فقط شکر مانگتا ہے اور وہ بھی ہمارے ہی لیئے کہ شکر کریں گے تو ہمیں اور دے گا، اپنی پہچان، رب کی معرفت ملے گی، کہ اس میں ہمارا ہی بھلا ہے کہ اسکو کیا ضرورت کہ ہم اسکی تعریف کریں ہم کریں نہ کریں وہ تو سراسر تعریف کے لائق ہے ہماری تعریف سے اسکی تعریف میں اضافہ نہیں ہو گا وہ تو بے نیاز ہے۔
اس میں بھی ہماری ہی فلاح ہے کہ ہم جتنی اسکی تعریف کریں اتنا اسکے قریب ہوں گے، تو کیسی بے غرض محبت ہے اسکی کہ ہم اس سے غافل بھی ہوں، وہ ہمیں ہماری فلاح کے لئیے بار بار حی علی الفلاح کہہ کر بلائے اور ہم اپنے نفس کے ہاتھوں نہ جائیں، اور جائیں بھی تو مارے باندھے جائیں ۔
حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رو ایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرما یا :
اللہ تعالیٰ ارشاد فر ما تے ہیں : ”ابن آدم نے مجھے جھٹلا یا حالانکہ اسے اس با ت کا حق نہیں پہنچتا تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ اسے اس بات کا بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔
اس کا مجھے جھٹلا نا تو یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکیں گے !جیساکہ مجھے پہلے پیدا کیا! حالانکہ پہلی مر تبہ پیدا کر لینا دوسر ی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں تھا! اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں۔نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی میں کسی سے جنا گیا ہوں اور نہ ہی میرا کوئی ہمسر ہے!“۔
(بخاری۔ نسائی)
 بے شک ہم بیوفا الست بربکم قالوا بلٰی کا وعدہ بھلائے آج اس دنیا نفس و خواہش کے دھوکے میں مبتلا ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ کوئی خوشی آ گئی تو جائے گی نہیں، غمی آگئی تو اب کبھی ہنس نہیں سکیں گے، حالانکہ اُس نے فرما دیا کہ وہی ہنساتا ہے،وہی رلاتا ہے اور ہم نادان اِس کو مجاز سے منسوب کرتے ہیں۔ہمارا، ہمارے جذبوں کو،ہمارے لمحوں کو معبود بنا دینے کے باوجود،اس سب کے باوجود وہ ہمیں نوازے جاتا ہے، بنا جتائے، وہ ا لصبورہے واقعی اس سے بڑھ کر صبر کسی کا نہیں، اسی کی مخلوق اس کا بیٹا بناتی ہے استغفراللہ۔
۔ مگرالحمدللہ، اللہ انہیں بھی نوازے جا رہا ہے۔
پھر اللہ ہماری ہی بھلائی کے لیئے کبھی ہمیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہے کہ یہ اس کے وہ خالص بندے ہیں جن سے وہ کسی یکطرفہ معاملے میں نہیں بلکہ محبت کی آگ ادھر بھی جل رہی ہے کہ مصداق اسی کی تلاش میں ہیں خواہ کسی اور پردے میں ہی سہی۔ جو اس دنیا میں اسکے پاس دل کے سرکے سجدے سے نہیں جاتے، وہ روزِ آخرت پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹے جائیں گے۔
یا اللہ ہمارے اعمال کو اپنے لیئے خالص فرما، ہمیں مرنے سے پہلے وہ ایک ہی دل روح سر جسم کا سجدہ دے دے کہ جس سے تو ہم سے راضی ہو جائے، اے اللہ تو بے نیاز ہے تیری رحمت تیرا وعدہ ہے اللہ ہم تجھ سے اسی رحمت کی امید کرتے ہوئے مانگتے ہیں کہ ہمارے دل کو اپنی محبت کے لیئے کھول دے ہم پر کرم کر دے ہمیں توفیق دے ہم تجھ سے تیری رضا میں راضی ہو جائیں اے اللہ ہم سے ہم سے راضی ہو جا!
کتنی عجیب بات ہے ناں کہ ہم کہیں اے اللہ ہمیں توفیق دے ہم تجھ سے راضی ہو جائیں، ہم تیری رضا میں راضی ہو جائیں۔
واقعی یہی سچ ہے اگر ہم اللہ سے راضی ہوں تو ہم اس کے ہر اچھے برے فیصلے عطا جزا سزا سے راضی ہوں دل کی خوشی سے سربسجود رہیں، مگر ہم یہ دعا تو مانگتے ہیں کہ اللہ تو ہم سے راضی ہو جا۔ مگر یہ دیکھنا قطعی بھول جاتے ہیں کیا ہم بھی اللہ سے راضی ہیں؟ اگر راضی ہیں تو ہماری زندگی میں کوئی غم کوئی غصہ کوئی ملال رنج حسد کینہ بغض نہیں ہو گا، ہم ہر ہر پل شکر کی کیفیت میں رہیں گے کہ اس نے ہمیں بہترین بنایا ہمارے لیئے بہترین چْنا۔
کیا یہ کم نہیں کہ اس نے ہمیں سوچا اور پھر سوچ کر کچھ عطا کیا۔
محبت دیکھنی ہے تو ابابیل کو دیکھ لیجیے، اللہ کی محبت میں ہاتھی والوں کو تباہ کر کے اپنے ہونے کا حق ادا کیا۔وہ فاختہ محبت ہے اس کے انڈے محبت ہیں، جس نے اللہ کے 'کُن' سے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم کے د شمنان کو دھوکے میں مبتلا کر دیا۔وہ مکڑی محبت ہے، اسکا جالا محبت ہے، جس نے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وازواجہ وبارک وسلم کے دشمنان کی ضعیف العقلی پرنام نہادمنطق کا ایک اورپردہ ڈالا. بھلا عشق اور نام نہاد عقل کہاں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
وہ درد، محبت ہے جو ساری رات یارغار ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے پاوٴں پر بخوشی سہتے رہے کہ کہیں ان کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ او صحابہ وبارک وسلم کے آرام میں خلل نہ پڑے سبحان اللہ۔وہ اونٹنی قصوا محبت ہے جو فراق یارصلی اللہ علیہ و آ لہ وازواجہ وا صحابہ وبارک وسلم میں کھانے پینے سے بے نیاز ہو گئی اور ہجر میں اپنی جان سے گئی سبحان اللہ۔
وہ چاند محبت ہے جوایک اشارہ محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وازواجہ وا صحابہ وبارک وسلم پر دو ٹکڑے ہو گیا۔کائنات، کائنات کا ذرہ ذرہ محبت ہے. کیونکہ یہ سب محبت سے بنایا گیا ہے، محبت کے لئے بنایا گیا ہے. یہ سب ایک پل بھی تو محبت سے غافل نہیں، پھر جانے ہم کہاں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔اللہ کے لئے محبت ہماری آسانی ہے. دوسروں کے لئے اللہ کی راہ میں کی جانے والی آسانی محبت ہے، اللہ پاک ہمیں اپنے لئے دوسروں کے لئے آسانی کرنے کی، اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، اللہ پاک ہم سب کے لئے دو جہاں میں آسانیاں فرمائیں اللھم آمین۔
محبت کی راہ میں سراب باہر کوئی معروضی حقیقت نہیں رکھتا، سراب ہمارے اندر ہوتا ہے۔ ہم محبت کی جس ازلی تلاش میں اس سراب کو سیرابی سمجھتے ہیں، دراصل وہ قدرت ہی کے نظام کے تحت ہمارے لیئے، ہمیں آزمانے کے لیئے، پیاس کی شدت بڑھانے کے لیئے، خلاء کا احساس آشکار کرنے کے لیئے، اور چلچلاتی دھوپ میں کسی سائے کی خواہش لیئے ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔
سراب کو، خود کو یا قدرت کو قصوروار کہنے سے کچھ حاصل نہیں۔ شکر تو بس اس بات کا کرنا ہے کہ اس سراب نے اپنی اور ہم پر ہماری حقیقت واضح کر دی۔ اور زندگی کے اس سفر میں اپنے سچے محرم کو پکار اٹھنے کی ہمت عطا کر دی۔ ہم اگر صرف یہ سوچ لیں کہ سیرابی کا نظر آنے والا یہ منظر عطا ہے، یہاں اگر پانی مل گیا، سیرابی ہو گئی تو اللہ کا شکر اور اگر یہ محض التباس ہے تو اس پر اللہ کے لیئے صبر،تو بس یہی بات ہمارے لئیے حقیقی آسانی کا باعث بن سکتی ہے ان شاء اللہ۔
محبت صنف کے بندھن میں نہیں با ندھی جا سکتی، یہ جذبہ تو اگر پتھروں پر بھی نازل ہو تو وہ موم ہو کر محبوب کے سامنے سجدے میں گر جاتے ہیں.محبت ملکیت نہیں امانت ہوتی ہے . سکون تب تک ہی میسر ہے جب تک ہم محبت کو امانت اور عطا سمجھ کر اس سے محبت سا سلوک کریں. احساسِ ملکیت کئی منفی جذبوں کو پیدا کرتا ہے ؛ حسد، عدم تحفّظ، کنٹرولنگ اور سب سے بد ترین جذبہ خدا کے ہوتے ہوئے خود خدا ہونے کا احساس.. استغفراللہ !کیونکہ احساسِ ملکیت جواب دہ ہونے کے احساس کو ختم کر دیتا ہے. اور مالک تو صرف ایک ہی ہے ، جو روز حشر کے انتظار میں ہے۔
محبت کی قدر کیجیے یہ عرش والے کی طرف سے ایک عطا ہے، عرش والے تک لے جانے کی ایک سیڑھی۔ محبت ایسی نماز ہے جس کے فرض خود سپردگی، سنّت احترام اور نفل محبوب کی خوشی اور رضا ہے ، جس دن ہم محبت کو اپنی ملکیت سمجھ لیں ، محبت اس دن ہم سے چھوٹ جاتی ہے ہمیں تہی داماں کر کے وہاں چلی جاتی ہے جہاں اس سے امانت سا سلوک روا رکھا جائے، کیونکہ اس نے اس کائنات کو جگمگا کر تو وہیں پلٹنا ہے ناں ...جہاں سے وہ آئی ہے!
محبت امید ہوتی ہے۔
محبت قربانی ہو سکتی ہے مگر محبت قتل یا خودکشی پر نہیں لے کر جاتی. یہ تو آپکو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے میں ہمت عطا کرتی ہے، اللہ پاک کی رضا ہمیں خوش دیکھنے میں ہے راضی برضا دیکھنے میں ہے وہ سچ میں ہمیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں! یہ ہم ہوتے ہیں جو اپنے نفسوں پر ظلم کر کے اذیت خریدتے ہیں اور شکوے شکایتیں اللہ پاک سے کرتے ہیں! جب ہم بضد ہو جائیں کہ اللہ کی نہیں مانیں گے تو پھر اللہ پاک ہماری رسی کچھ عرصے کے لئے ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں کہ جاوٴ اور دیکھ لو۔
ہم اللہ کا نام استعمال کرتے ہیں کرب میں رہنے کے لئے..خود ساختہ اذیت میں رہنے کے لئیے.. اللہ کے لئے ہم نے فلاں شے قربان کی، مگر ہماری جزا کہاں ہے؟ بھلا محبت میں جزا کا لالچ کہاں ہوتا ہے! یہ تو تجارت نہیں ہو گئی؟ محبت تو بس رضا میں سر جھکانے کا نام ہے! اسکا لینا بھی عطا، اسکا دینا بھی عطا اسکا نہ دینا بھی عطا سب عطا ہے۔
محبت قربانی لیتی ہے۔
اورجو قربانی دیتے ہیں وہ کبھی جتاتے نہیں یاد نہیں کرواتے۔ کیا کبھی کوئی ذبح بکرا اٹھ کر شکوے کرتے دیکھا؟ جس دن شکوہ ختم ہو گیا اس دن اصل قربانی ہوتی ہے. قربانی سے قرب ملتا ہے. صبر قرب دیتا ہے! جب قربانی ہوتی ہے تو بقا کے لئے فنا ہوتی ہے! یہ الگ بات ہے محبت میں بقا کی خواہش کے لئے فنا نہیں ہوتی .. رضا کے لئے ہوتی ہے۔ ویسے قربان تو وہ کریں ناں جو ہمارا ہو! یہاں تو ہم اپنے نہیں، ہم خود کسی کی امانتہیں، توکوئی کیا ہمارا ہو! سب اللہ کا ہے اور اللہ کے پاس پلٹنے کے لیئے! خواہ وہ ہم ہوں، یا کوئی بھی عطا۔
دراصل دل ایک عجب کائنات ہے، محبت میں اسکی بقا کیلئے، اس کا سب موسموں سے گزرنا لازم ہے. خواہ وہ ہجر کا ہو یا وصال کا، خوشی کا ہو غم کا، بہار کا ہو خزاں کا، ان سب سے گزر کر یہ معصوم قناعت میں جلا پاتا ہے، قضا میں، رضا میں مسکراتا ہے۔ غم میں صبر، خوشی میں شکر.آہستہ آہستہ محبت اسے غم خوشی سے بے نیاز قناعت میں زندہ کر دیتی ہے۔ قانع دل مومن کا دل ہوتا ہے، جو ہر حال میں ہر حال سے بے نیاز اللہ پاک کا شکر کرتا ہے، راضی برضا رہتا ہے الحمدللہ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی رضا میں راضی رہنے کی توفیق دے اپنی اپنے محبوب ﷺ کی خالص محبت عطا فرماے اور ہم سے دو جہاں میں راضی ہو جائے اللھمّ آمین!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham