ادائے محبت(کُن فیکون!)
#کائنات کا راز ذرے میں ہے، ذرے کا راز محبت میں ہے۔
محبت کا راز کن فیکون میں ہے۔ اور کن فیکون کا راز اللہ ہے!
موسٰی بھی بذریعہ کن فیکون.. اور فرعون بھی!
#جب جلوہء کن فیکون ہر شے میں نظر آنے لگے تب ہجر، وصال، خیر، شر، عطا، قضا سب کے مفہوم بدل جاتے ہیں الحمدللہ، کائنات کے ذرے ذرے میں کائنات نہاں ہے۔ یہ آشکار صرف ان پر ہوتی ہے۔
جو اپنے اندر کی کائنات سے آگاہی کے سفر میں ہوتے ہیں۔
# دل نہ کسی سے بھرتا ہے ..نہ کسی سے خالی ہوتا ہے
#نہ خود کسی پر اڑتا ہے ..نہ خود کسی سے ہٹتا ہے
#بس ..کُن فیکون ہو جاتا ہے..!
#جب ہم ایک بار 'ہو' گئے تو اب ہم 'ہو' گئے، اب ہم شکمِ مادر کیا زندگی کیا، قبر کیا عالمِ برزخ کیا جنت کیا دوزخ کیا، سب میں اسکی نگاہ میں ہیں..یہ لحد، مہد، زندگی سب دنیا کا پردہ ہے، کہ اب تو ہم 'ہو' گئے، اللہ ہمارے اس 'ہونے' میں ہمیں ہمارا 'کچھ نہ ہونا' اور سب سے بڑھ کر 'اسکا سب ہونا' دکھاتا رہے، ہماری نگاہ کو خود پر کھول دے، کہ عافیت فقط اسی میں ہے۔
(جاری ہے)
#نفس خیر و شر کی کشمکش ہے، نفس وہ ہے جو انسان پر ایک عطا ہے، جو بلا شبہ آزمائش ہے، اسی پردے میں اللہ نے اپنی وہ خوب پہچان رکھی ہے جسے محبت عیاں کرتی ہے!
#اللہ کے پردوں کا احترام کرو گے تو اللہ کو پاوٴ گے۔ اللہ کے بہت پردے ہیں، ان پردوں کے بہت رنگ ہیں، وہ صرف نور میں نہیں جھلکتا اسکا ایک پردہ تاریکی بھی ہے۔ وہ صرف خیر و ثواب میں آشکار نہیں ہوتا وہ انکے ساتھ بھی ہے جو گناہ و معصیت کی دلدل میں ڈوبے ہیں، وہ بس صبح کا رب نہیں وہ شام کالی رات کا رب بھی ہے، تفریق کرو گے تو جدا ہو جاوٴ گے ضم کرو گے تو رضا ہو جاوٴ گے۔
عطا تو بہرحال عطا ہے، سوال اٹھاوٴ گے تو رسوائی اٹھاوٴ گے سر جھکاوٴ گے تو راز پاوٴ گے!
# دوسروں کے عیوب پر اور دنیا کے مظالم پر تقاریر کرنے سے زیادہ بہتر کیا یہ نہیں کہ ہم سب سے پہلے اپنی ذات پر رحم کریں؟ انجانے میں دوسروں پر ظلم کر کے ہم خود کو ظالم بنا رہے ہیں اور خود پر ظلم کر رہے ہیں ..کیوں نہ ہم پہلے اپنی اصلاح کر لیں۔ یقین جانیے، اس حبس بھرے ماحول میں بارش کی پہلی بوند ہم ہیں!
#جب تک ہماری نگاہ دوسروں میں اٹکی رہتی ہے تب تک ہماری نگاہ خود پر عیاں نہیں ہوتی، اور جب ایک بار نگاہ خود پر عیاں ہو جاے تو الحمدللہ یہی نگاہ اللہ تک لے جاتی ہے۔
”نہ کسی کے دل کی ہوں جستجو،
نہ کسی کی روح کا قرار ہوں،
جسے کوئی پڑھ کے بھی نہ سمجھ سکا،
میں وہ تحریر پرسرار ہوں،
نہ ہوں روشنی نہ ہی چاشنی،
نہ ہی دیپ نہ ہی بات ہوں،
میں چراغ وہ جو جلا نہیں،
ہوں وہ راگنی جو سنی نہیں،
نہ دہن میں ہوں نہ زبان میں،
میں قلم میں ہوں میں کتاب میں،
نہ ہوں آزردہ نہ ہی شاد ہوں،
نہ ہوں منتظر نہ برباد ہوں،
نہ ہوں کیفِ وصلِ جان من،
نہ ہی سوزشِ ہجراں ہوں میں،
نہ پژمردگی کی میں داستاں،
نہ ہی کیفِ مژگاں ہوں میں،
نہ میں بے کلی نہ میں بے بسی،
نہ میں درد ہوں نہ میں بے کسی،
نہ ہی دن ہوں نہ میں رات ہوں،
نہ ہی صبح نہ میں شام ہوں،
نہ ہوں قیدی اپنے قفس کی،
نہ ہی ظالم کوئی صیاد ہوں،
نہ مریض ہوں نہ طبیب ہوں،
نہ دور ہوں نہ قریب ہوں،
گر جستجو تو ہوں بے پناہ،
گر ہوں آئینہ تو ہوں جابجا،
عکس ہوں تو ہوں بکھرا ہوا،
گر ہوں آبلہ تو ہوں کف پا،
گر راس ہوں تو ہوں دردِ جاں،
گر گیت ہوں تو ہوں پھیلا ہوا،
گر راز ہوں تو ہوں سمٹا ہوا،
گر عطر ہوں تو ہوں مہکا ہوا،
ہوں ساز تو ہوں مضطرب،
گر آس ہوں تو ہوں دربدر،
گر ناز ہوں تو ہوں بے بہا،
ہُوں صدا تو ہُوں ہر نگر،
گر مان ہوں تو ہوں شکستہ پا،
گر شوق ہوں تو ہوں بپھرا ہوا،
گر حال ہوں تو ہوں آشفتہ پا،
گر نالہ ہوں تو ہوں بے صدا،
نہ ہوش ہوں نہ مے نوش ہوں،
نہ خودی ہوں نہ ہوں بے خودی،
نہ ہی عرض ہوں نہ محال ہوں،
نہ جال ہوں نہ کمال ہوں،
نہ سوچ ہوں نہ خیال ہوں،
نہ ہجر نہ میں وصال ہوں،
ہوں خواب تو حیراں ہوں میں،
ہوں خواہش تو پریشاں ہوں میں،
ہوں بے قرار تو ہوں برقرار،
گر قرار تو میں آزار ہوں،
ہوں خزاں مگر بہار ہوں،
نہ ختم نہ انتظار ہوں،
نہ اسم نہ میں تلوار ہوں،
نہ برف ہوں نہ ہی منجمد،
گر برگ ہوں تو حصار ہوں،
گر سوز ہوں تو سلامت ہوں میں،
گر ہوں مستقل عبادت ہوں میں،
ہوں میں تہہ بہ تہہ، باحجاب ہوں،
میں ہوں بے کلی، دلِ بے تاب ہوں،
کسی امید کا ساماں ہوں میں،
ہوں گل تو گلستاں ہوں میں،
گر خار تو بیاباں ہوں میں،
گر پھیلوں تو ہوں سائباں،
بکھروں تو لامکاں ہوں میں،
میں ہوں کیفیت میں کرب ہوں،
میں نشاط ہوں میں طرب ہوں،
ہوں وہ اشک جو بہا نہیں،
وہ درد ہوں جو کہا نہیں،
کبھی عنایتوں سے بھری ہوئی،
کبھی خود سے بے نیاز ہوں،
نہ آنسو نہ میں مسکان ہوں،
نہ میں کیف نہ وجدان ہوں،
کبھی کھلکھلاہٹوں سے ہوں گونجتی،
کبھی اک صدائے بے نوا ہوں میں،
کبھی ربط ہوں تو ہوں ٹوٹتا،
گر ضبط ہوں تو ہوں مہر بلب،
گر بیان ہوں تو ہوں بیکراں،
گر راز ہوں تو میں ہوں نہاں،
نہ میں ہست ہوں نہ میں مست ہوں،
نہ میں مرگ ہوں نہ حیات ہوں،
نہ نفی ہوں نہ میں اثبات ہوں،
نہ خرد ہوں نہ میں جنون ہوں،
میں قلب ہوں میں درون ہوں،
گر رقص ہوں تو ہوں مبتلا،
ساکت ہوں تو ہوں مجسمہ،
نہ مرسل ہوں میں نہ ملائکہ،
میں تشنگی میں تلطف بے بہا،
نہ اخلاص ہوں نہ تضاد ہوں،
نہ بندی نہ میں آزاد ہوں،
کرم ہوں تو بے حساب ہوں،
ستم ہوں تو لاجواب ہوں،
میں محبت ہوں تو میں ہوں عطا،
میں کفر ہوں تو میں ہوں سزا،
کبھی سجدوں میں بلکتی دعا کوئی،
کبھی ساکت کوئی ادا سی ہوں،
مہک ہوں تو میں بکھری ہوئی،
حیا ہوں تو ہوں سمٹی ہوئی،
چڑیا ہوں تو میں چہکی ہوئی،
چُپ ہوں تو میں بے زباں ہوں،
گر ظاہر تو میں رنگ ہوں،
گر بت ہوں تو میں سنگ ہوں،
موم ہوں تو میں پگھلی ہوئی،
کبھی پتھروں سے بھی سخت ہوں،
نہ چھپی نہ ہی عیاں ہوں میں،
اک موجِ بے طرح ہوں میں،
اب تو ہی بتا مجھے اے ہم نفس،
میں ہوں مگر میں ہوں نہیں،
میں نہیں اگر تو میں ہی ہوں،
میں ہوں اگر تو کیا ہوں میں،
میرے ہم نفس میں کیا کہوں،
میں خاک ہوں کہ چاک ہوں،
اپنے گوندھنے والے کمہار کا،
محبت بھرا شاہکار ہوں میں،
خوب گوندھنے والے رب کا،
ایک رازِ دلربا ہوں میں،
اپنے رب کی لوح محفوظ میں رقم،
اُس کی ادائے کُن فکاں ہوں میں!“
ہم ادائے کن فیکون ہیں! ہمارا ہونا ہماری آزمائش ہے ہمارا راہ پر قائم و دائم رہنا ہمارا صدقہ ہے۔
ہمارا نفس ہماری 'نظر' ہمارا امتحان، اور اگر یہ سنور جائے تو یہ یہی ہماری آسانی ہے۔ ہم ہی مشکل ہیں ہم ہی آسانی ہیں! ہم خود میں الجھ کر خود سے، خدا سے دور ہو جاتے ہیں خود میں سلجھ جائیں تو ہر الجھن سلجھ جاتی ہے، پھر خدا شہ رگ سے نزدیک تر محسوس ہوتا ہے. اللہ نے تو ہمیں بہت محبت سے محبت کے لیئے بنایا ہے ہم خود اپنی خواہشوں کے ہاتھوں خود کو ارزاں کر دیتے ہیں! ہم ہی دنیا ہیں ہم ہی آزمائش ہم ہی راہ ہیں ہم ہی گمراہ۔
ہماری دنیا ہم سے شروع ہو کر ہم پر ختم ہوتی ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پیدا ہونے سے پہلے بھی تھے اور ہم مرنے کے بعد بھی کسی طور رہیں گے۔ ہماری ابتدا بسم اللہ ہے، ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی لوح محفوظ میں بہت محبت سے رقم ہیں. اور ہم نے اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے!
اس کائناتِ کُن فیکون میں ہر ذرہ بقدرِ ظرف کائناتِ محبت کو جگمگا رہا ہے۔
کوئی بجھ کر کسی کی روشنی کا سبب بن رہا ہے توکوئی کسی سے روشنی مستعار لے کر جگمگا رہا ہے، کوئی سراسر تاریکی کا باعث بن کر روشنی کی ضرورت کو اجاگر کر رہا ہے، تو کوئی سراپا روشنی جگمگاہٹ لیئے جل رہا ہے۔ دل روشن ہے تو ہر جا روشنی ہے، اندھیرا بھی قرب کا راز لیئے ہے ۔دل تاریک ہے تو سورج بھی پژمردگی کا افسانہ لگتا ہے، محبت ہجر و وصل سے ماورا وہ عطا ہے جہاں ہجر و وصل دراصل معاملہء ا نا ہے.. اور رضائے محبوب د راصل محبت ہے۔
الحمدللہ ہر وہ اشک رب کے کْن سے رواں معجزہء قوسِ قزح ہے جو بارگاہِ محبت میں رب کی عطا سے عاجزی و خودسپردگی لیئے محبت کی ایک جھلملاتی کرن سے چمک اٹھا ہے۔ اشکِ چشم زرخیزیء دل کی وہ علامت ہے جہاں فقط محبت کی حکومت ہے، یہ اس صحرائے دل کا خاصہ ہے جہاں یہ اشک کسی شدت کی تشنگی میں رحمت و محبت کے چشمہ ء آب زمزم سے پھوٹتے ہیں اور صحرائے دل کے بیابان کو نخلستان کیئے جاتے ہیں، یہ معجزہ ہر اس روح پر رحمتِ خاصانِ خاص ہے جہاں محبت موجزن ہے کبھی یہ اشک احساسِ ندامت میں سرشار ہیں، کبھی تحفہِ مغفرت میں، کبھی احساسں ہجر انہیں آبشاروں سا روا کیئے ہے تو کہیں عطیہء وصل انہیں سجدہِ شکر میں رحمتِ باراں سا کھلکھلاہٹ عطا کیئے ہے۔
الحمدللہ رب العالمین۔جیسے کچھ لوگوں کو آب زمزم پاک کرتا ہے شفا دیتا ہے ایسے ہی کچھ لوگوں کے اشکوں میں اللہ نے وہ تاثیر رکھی ہوتی ہے کہ وہ آب زمزم کا سا عمل کرتے ہیں، بات فقط روح کی سچائی دل کے اخلاص کی ہے۔ خالص اشک عاجزی کا وہ ذکر ہے جہاں محبوب کی حمد میں لسان محوِ ذکر نہیں بلکہ خود جذبات محوِ حمد و ثنا ہوتے ہیں یہ اس سے بھی بالا روح کی لطافت کا وہ مقام ہے جہاں دل کو ہر کثافت سے پاک کیا جاتا ہے اور محبت کو ہر ہر پل کسی مقدس صحیفے سا اتارا جاتا ہے۔
”سلام پاکیزہ دل کی حسیں اے چشمِ تر تجھے،
تیری روانی میں دل نے ہزاروں معجزے دیکھے!“
جیسے ہمارے حواس سے پرے ایک دنیا ہے ویسے ہی ہمارے لفظوں سے پرے ایک دنیا ہے، جہاں روح کا راج ہے، جہاں دل بولتا ہے دل سنتا ہے. اشک ہنستے ہیں، رنگ بولتے ہیں، جہاں کیف جیتا ہے، الہام رہتا ہے، اعتبار سانس لیتا ہے، گمان زندہ رکھتا ہے، ظاہری اسباب سے پرے مسبب الاسباب کی دنیا.. سرابوں میں سیراب کی دنیا .. وفا نبھاتی، ہر پل ہنستی مسکراتی دنیا، محبتوں کی معصوم دلکش خالص دنیا، بچوں سی مسکان لیئے کھلکھلاتی شرارتی دنیا، زمان و مکاں سے ماورا، نیند میں جاگتی، خواب میں ہنستی، ایمان و ایقان سے مزین جگمگاتی دنیا، چڑیوں سی، اڑان بھرتی، چہچہاتی دنیا ..کسی نابینا کے لیئے بینائی کی دنیا،ناممکن میں ممکنات کی دنیا، مشکل میں آسانیوں کی دنیا.. ..قوس قزح کے جھولے میں دمکتے ستاروں کی دنیا ..تتلیوں کے جھرمٹ میں جگنووٴں کے قافلوں کی دنیا، دنیا جس کی خواہش ہم سب میں ہے .. ہم میں ہماری دنیا.. راہ دکھاتی، ہاتھ تھام چلاتی دنیا، وہ دنیا جو ہم سب میں ہے، مگر ہم سے پرے ہے، ہمارے حجاب کی وجہ سے حجاب کی دنیا، کوئی چھپائے ہوئے ہے، کوئی بسائے ہوئے ہے، کوئی تلاش میں ہے، کوئی قلاش ہے، کوئی سفر میں ہے، کوئی آشنا ہے اور کوئی نا آشنا۔
۔ الحمدللہ، کن سے فیکون کی معجزاتی دنیا!
تو کون کہتا ہے یہاں معجزے نہیں ہوتے،تحیر کی،حمد کی، محبت کی نگاہ میسر ہو تو نظر آئے کہ آنسو معجزہ ہیں، ان کے بعد لبوں پر کھل اٹھنے والی ہنسی معجزہ ہے، دعا معجزہ ہے ، اس دنیا میں کھل جانے والی، حیران حیران سی اپنے اطراف نگاہ دوڑاتی نگاہ معجزہ ہے. اپنی 'میں' کا کچھ نہیں ہونے کا احساس معجزہ ہے. پھر اپنے کچھ نہیں ہو کر 'اس سب کے' کچھ ہونے کا احساس معجزہ ہے۔
پاوٴں تلے بچھی زمیں، سر پر چادر سا تنا آسماں معجزہ ہے. زخم معجزہ ہے مرہم معجزہ ہے، بیقراری معجزہ ہے، انتظار معجزہ ہے. امید معجزہ ہے، احساس معجزہ ہے، خود سپردگی معجزہ ہے، محبت معجزہ ہے، آتی جاتی سانس معجزہ ہے، نیند معجزہ ہے، بیداری معجزہ ہے،بادل معجزہ ہے، بارش معجزہ ہے، قوس قزح معجزہ ہے، زندگی معجزہ ہے موت معجزہ ہے. عطا معجزہ ہے۔
دن میں چھپی شام، شام میں پنہاں رات، رات سے پھوٹتی، سحر، سحر سے چمکتا دن، پتوں کا شجر سے گر جانا، پھر پھولوں کا کھل جانا معجزہ ہے، سورج کا اپنی ذات سے اہلِ زمیں کو روشنی دینا، چاند کا ساری رات تنہا اجالا کرنا معجزہ ہے.. عطا معجزہ ہے۔ بندے کے اندر اس خلاء کا احساس، جو اسے بے ا ختیار اس کے اصل مکین کو پکارنے کے لیئے محسوس کروایا جاتا ہے، معجزہ ہے. رفیقِ اعلیٰ کو پکارنا معجزہ ہے، رفیق اعلیٰ کا ہماری شہ رگ سے نزدیک ہونا معجزہ ہے۔
”میں معجزہ ہوں .. تم معجزہ ہو .. یہاں سب معجزہ ہے،
یہ کائنات .. کائنات نہیں .. یہ کائنات .. معجزہ ہے!“
کائناتِ ربانی میں ہر شے با مقصد ہے، ہر شے کے ہو جانے کے پیچھے ایک خوب ''کن'' ہے، جو پردے میں ہے۔ جو فیکون میں جھلکتا ہے۔ اس ؛کُن؛ کے پردے میں جو ذاتِ حقیقی ہے بس وہی ذات ہے جو چاہتی ہے کہ تمہارا دل سکون پائے اور سکون اس نے اپنی یاد میں رکھا ہے۔
اب اسکی یاد ہم عام سے بندے پردوں میں کرتے ہیں۔ کبھی ہماری خواہش پردہ ہوتی ہے، کبھی کوئی انسان، کبھی بیماری کبھی مال جان، کوئی آزمائش، کبھی کچھ کبھی کچھ، ہم جتنا خود پردوں میں ہے وہ بھی ہم سے اتنا ہی پردوں میں ہے، نبی کریم ﷺ وہ واحد محبوب ہستی، جنہیں اللہ پاک نے اپنے دیدار کا شرف بخشا، بلاشبہ وہ اپنے نفس کے پردوں سے ماورا تھے۔ مجھے نفس کے پردوں میں ایکٹو اور(Passive ) کی سب سے خوبصورت مثال محبت میں ملی، جہاں ہم کچھ نہیں اور وہ محبوب سب کچھ ہو جاتا ہے الحمدللہ رب العالمین !
”وہ ہنساتا ہے… میں ہنستی ہوں،
وہ رلاتا ہے…میں روتی ہوں،
وہ دکھاتا ہے …میں دیکھتی ہوں،
وہ چلاتا ہے …میں چلتی ہوں،
وہ سلاتا ہے …میں سوتی ہوں ،
وہ جگاتا ہے…میں جاگتی ہوں،
وہ رزق دیتا ہے… میں کھاتی ہوں،
وہ دل دھڑکاتا ہے…یہ دل دھڑکتا ہے،
وہ زخم دیتا ہے …میں اسے پکارتی ہوں،
وہ مرہم رکھتا ہے… میں مسکراتی ہوں ،
وہ مسکراہٹ عطا کرتا ہے… میں کھلکھلاتی ہوں،
وہ توفیق دیتا ہے …میں اس کا شکر ادا کرتی ہوں،
وہ چاہتا ہے میں اسے یاد کروں… میں اسے یاد کرتی ہوں،
وہ سوچ عطا کرتا ہے…میں سوچتی ہوں،
وہ پھولوں میں خوشبو مہکاتا ہے… پھول مہکتے ہیں ،
وہ رنگوں میں رنگ بھرتا ہے… رنگ نکھرتے ہیں ،
وہ اپنے جلوے دکھاتا ہے …میں دیکھتی ہوں،
وہ لفظ دیتا ہے، لکھواتا ہے …میں لکھتی ہوں،
اس نے زندہ رکھا ہے…میں زندہ ہوں،
وہ موت دے گا…میں مر جاؤں گی،
وہ جِلا بخشے گا…میں جِلا پاوٴں گی،
وہ محبت نازل کرتا ہے… اس دل پر محبت اترتی ہے… یہ دل محبت کرتا ہے ،
میں کچھ نہیں… اللہ سب ہے!“
یہ لفظ جو تم تک آنکھوں کے ذریعے پہنچ رہے ہیں، جو تمہاری دانش کا در کھٹکھٹائے یا دل میں اترے یا کسی سوچ کا در وا کرے، تمہیں اس ذات کے بارے میں سوچنے پر لے جائے یا صرف لفظوں میں ہی رکھ لے۔
ان سب کے تم تک پہنچنے میں بھی ایک ؛؛کن؛؛ کارفرما ہے، کبھی ستاروں کو غور سے دیکھا ہے۔ رات کی تاریکی میں کون ہے وہ ذات جس نے بے شگاف آسمان کو ان جگمگاتے ہیروں کی کنیوں سے روشن کیا؟ یہ ستارے جو ایک اشارہء کُن پر صدیوں سے اپنے کام پر مامور ہیں، مسافروں کو منزل کا پتہ دیتے ہیں، آسمان کی زینت کا سامان ہیں۔ اور کبھی اگر کوئی شر ، اللہ کی حد میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش بھی کرے تو کسی باڈی گارڈ کی طرح اپنی ذات سے بے نیاز اس پر کسی میزائل کی طرح جا گرتے ہیں ،خود فنا ہو جاتے ہیں مگر اپنے کام سے غافل نہیں ہوتے، یہ بھی اللہ کے کُن سے ہے سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
اللہ کے ہر کُن میں خیر ہے۔ پریشانی، اناکی نگاہ میں ہوتی ہے، ورنہ اللہ تو انسان کے لیئے آسانیاں ہی کرتا ہے، کبھی کبھی ہماری محدود نگاہ ہمیں اس بات کا اندازہ تک نہیں لگانے دیتی کہ رب کے کس 'کْن' میں کیا خیر ہے، اللہ بندوں کے، مخلوق کے پردوں میں ہماری نگاہ خود پر کھولتا ہے، کبھی وہ دروازے پر آنے والے سائل کی شکل میں ہم پر وہ راز عیاں کرتا ہے کہ 'دینے' میں کیا راحت ہے، 'دینے میں' کیسے ''دینے والے'' تک بات جا پہنچتی ہے، اور 'لینے والا' کس 'خیر' کا وسیلہ بن کر آیا ہے، کبھی کوئی'سیکھنے' آئے تو کیسے 'سکھانے والے' تک کا راز ملتا ہے، یہ سارے راز عیاں تب ہوتے ہیں جب بندہ اس ''میں'' سے آزاد ہو جو بندے کو نہ دینے دیتی، نہ سکھانے دیتی، نہ عطا سنبھالنے دیتی نہ عطا کی قدر و شکر کرنے دیتی!حقیقت تو یہ ہے کہ 'میں' سے آزاد ہونا بھی اللہ کی عطا ہے!
کائناتِ محبت، کْن فیکون کا بہت خوبصورت راز سموئے ہے جیسے پانی اور زمین کی مثال لیجیے۔
پانی بھی ادائے کْن فیکون ہے، پانی اپنے اندرعجب بھرپورزندگی رکھتا ہے.بحکم باری تعالٰی، پانی کچھ نہ ہونے کوحتیٰ کہ موت کو زندگی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ آسمان کی چیزیں اپنے جھلملاتے عکس میں زمین پر لا دکھا سکتا ہے الحمد للہ. پھر آپ اس عکس میں چاہیں بظاہر سا کت چاند کو چنچل سا دیکھ لیں، خواہ بادلوں کی ہلچل کو دیکھ لیں، ستاروں کی جھلمل کو دیکھ لیں۔
یہ بارش کی صورت آسمان سے رب کے کن سے فیکون معجزہ سا برستا ہے.خشک مردہ زمین میں ایک جان سی ڈال جاتا ہے۔کہیں پھول کھل اٹھتے ہیں، کہیں فصلیں لہلہا جاتی ہیں، کہیں زندگی نمو پاتی ہے سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ آسمان اور زمین کا ملن یہ محبت سی بارش کرواتی ہے. بالکل ویسے ہی جیسے دعا، اللہ اور بندے کا ملن کرواتی ہے !
’دعا میں پانی اشکوں سا بہہ جائے ...پانی ہے..معجزہ ہے،
آسمان سے زمین پربارش سا برس جائے .. پانی ہے ...معجزہ ہے،
دونوں میرے رب کے صدائے کُن سے فیکون ہوتے ہیں،
دونوں وصال کرواتے ہیں الحمدللہ!‘
پانی خدا کے کْن کا عجب اسرار ہے، اللہ نے اسکو بڑی توفیق دی ہے اگر اللہ چاہے تو یہ کچھ نہیں سے کچھ ہونے کا معجزہ کروا دیتا ہے پھر وہ بارش کا ہو یا جھیل کا، آنکھ کا ہو یا سمندر کا.آب ِزمزم ہو یا تشنگیء کربلا، آبِ کوثر ہو یا.. پانی..اشکوں کی صورت بہے تو مردہ دل زندہ کر دے۔
رحمت باری تعالیٰ کا دریا موجزن کر دے، عرش الہی جا پہنچے۔ بارش کی صورت برسے تو مردہ زمیں زندہ کر دے۔ آب زمزم کی صورت پھوٹے تو بلکتی سسکتی پیاس سیراب کر دے۔ کربلا کی تشنگی بڑھا دے توآب کوثر کا جانشین بنا دے۔ فبای الا ربکما تکذبن
”الحمدللہ رب العالمین،
کْن فیکون کے راز کے دروں انا کا راز ہے،
ہو اور ہو جا.. کا درمیانی وقفہ/تاخیر میرے نزدیک انا ہے ،
میرے نز دیک کْن اللہ کا ارادہ ہے اور فیکون تکمیلِ ارادہ ہے!،
اسی وقفے میں انسان آر یا پار ہوتا ہے۔
اللہ پاک نے حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو مگر ابلیس نے انکار کر دیا.. ابلیس میرے نزدیک انا ہے، اسکی 'میں' اللہ کے ارادے کے آڑے آئی.. اسی طرح انسان جب اللہ کی رضا و قضا کے آڑے آتا ہے چاہے اپنے صدمے غم و غصے سے یا اپنی انا سے وہ اس صورت اللہ کے آڑے آتا ہے اور یہ وہ چیلنج ہے جو ابلیس نے لیا تھا کہ وہ اسکے بندوں کو بھٹکائے گا، اور بیشک یہ ازلی حقیقت ہے کہ اللہ کے لیئے کچھ دشوار نہیں کہ وہ جب کسی شے کو کہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے، مگر چونکہ یہ آزمائش لازم ہے کہ آر یا پار کیا جائے ..سو .. ابلیس اور ابلیس کے پیرو اپنی انا کے ہاتھوں اس 'ہو جا' اور 'ہو جانے' کے آڑے آتے ہیں!
جیسے احکامات کے حوالے سے چھوٹی سی مثال ہے کہ کوئی سائل آیا۔
اب اللہ کا حکم ہے تم اپنے مال سے خیرات کرو مگر بندے کے بقدرِ ظرف عطائی فیصلے کا اختیار ، ابلیس و نفس کی سازبازی بندے کو اس حکم سے حکم عدولی یا کوتاہی کروائے گی۔ واللہ اعلم۔ اللہ پاک ہم سب کی انا و نفس کو اپنے تابع کر لے اور ہم سب کو اپنی خالص محبت عطا فرما دے اللھم آمین ایک حقیقت تو یہ ہے کہ..
اسکی عطا…ادائے کن فیکون کے بنا ،:میں:کی کوئی ادا ممکن ہی نہیں۔
اللہ 'ہے '… اللہ نے انسان کو 'کِیا'(بذریعہ کْن)!
”اللہ ذات ہے… انسان وجود ،
وجود فانی ہے… ذات باقی،
خالق باقی ہے… مخلوق فانی،
وجود… ذات کا محتاج ہے،
ذات …وجود کی محتاج نہیں،
تم مخلوق کو کیسے جھٹلا سکتے ہو؟،
جب رب کی پہچان مخلوق میں ہے،
مخلوق کو جھٹلانا …خود کو جھٹلانا ہے،
خود کو جھٹلانا…رب کو جھٹلانا ہے،
رب کو جھٹلانا…خود کو جھٹلانا ہے!،
کچھ نہیں سے کچھ ہونے والے وجود کی ساری حقیقت یہ ماننے میں پوشیدہ ہے کہ دراصل وہ اپنے رب کے سامنے کچھ نہیں،کچھ بھی نہیں۔
خودشناسی، بے بسی کی حدوں سے شروع ہوتی ہے، بے بسی سے گھبراتے نہیں، تنہائی اور بے بسی خدا کو پکار اٹھنے کے لیئے بہت خوبصورت لوازمات ہیں اور خدا شناسی کا سفر اس بے بسی کو اللہ کے سپرد کرنے سے، خود کو خدا کی ادائے کن فیکون جاننے سے شروع ہوتا ہے!
' 'اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو، زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اِس پر پانی برسایا،یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے، اور پھول جاتی ہے۔
یقیناً جو خدا اِس مری ہوئی زمین کو جِلا اٹھاتا ہے، وہ مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے، یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ' '(القرآن، سورة حم السجدہ، آیت 39!)
قرآن کا ہر لفظ ہر آیت مبارکہ بہت گہرے رمزلیئے ہے، کبھی بظاہر پڑھ کر بھی ظاہر نہیں ہو پاتے، کبھی رب چاہے تو ظرف جتنی وسعت کے بمطابق عطا کر دی جاتی ہے، یہ آیت مبارکہ جیسے عورت اور مرد کی جانب اشارہ کرتی محسوس ہوتی ہے، بظاہر زمین و بارش کا رشتہ ہے مگر درحقیقت مرد و عورت کا رشتہ بھی تو ایسا ہی ہے۔
عورت کے مجاز کا محور ازل سے مرد کے گرد ہے اور پانی زندگی کا استعارہ، ایک نئی زندگی کو جنم دینے والا۔ سونی خشک بے جان سی زمین، اور اللہ کی رضا سے پاک رشتے میں، ناپاک پانی کیسے خاک کے جنم کا باعث بنتا ہے، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے، زندہ ہو جاتی ہے، زندگی و فرحت پھیلا دیتی ہے۔الحمدللہ،بحکمِ الہٰی زمین و بارش کا وصل ایک نئی زندگی یا مردہ سی زندگی کو زندہ کرنے کا سبب بنتا ہے، عورت کی اصل، اسکی حقیقت بلاشبہ اللہ ہے، یہی حقیقت ہے مگر یہ بھی اللہ کی ہی رضا ہے کہ اسکی زندگی کس طرح اپنے مرد کی اطاعت کے گرد رقصاں ہو اور وہ درپردہ اس پردے کے بہروپ میں کس اصل روپ کے گرد رقصاں ہے، یہی اس کی زندگی کے زندہ رہنے کا سبب بنتا ہے۔
# بلا شبہ اللہ مْردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔
عقلِ محدود، قصہء حزن و غم تو یہی کہتا ہے کہ جو مر گیا، وہ اب کہاں زندہ ہو گا، جو مسکراہٹ چلی گئی اب وہ کہاں لوٹ پائے گی، مگر یہی سوچ تو نادانی ہے، ہٹ دھرمی پر آ جاؤ تو اللہ کی رحمت اسکی نعمت کا کفر، اسکی بے پایاں عنایتوں کو محدود جاننے کی غلطی ہے۔وہی حی القیوم، المحی الممیت ہی تو ہے جو اپنے کْن سے، کچھ نہیں سے کسی کو زندہ کرتا ہے پھر اس زندہ کو مارتا ہے اور پھر اسکو زندہ کرتا ہے۔
بظاہر لگتا ہے سب خودبخود ہو جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے، وہ جو یہاں مر گئے انہیں روزِ حشر روزِ آخرت ملائے گا۔ جن کو جنت عطا ہو ان کا ساتھ ابدی کر دے گا، ایسا نہیں کہ جو آیا، وہ رہ ہی گیا یا جو گیا وہ گیا اور پھر چلا ہی گیا، یہ صرف ایک انسان کے لیئے نہیں ، یہ ہر لمحے ہر ذرے کے لیئے ہے، جو شے بھی اس کے ' کُن 'سے وجود میں آ گئی اب وہ خالق سے عطا ہوتی ایک پراسس میں داخل ہو گئی، ہوتے ہوتے وہ یا اس کے وفاداروں میں شامل ہو گئی یا جفاکاروں میں۔
مگر اب وہ ہو گئی ،جب تک اللہ چاہے!
# یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
ساتھ ہی یہ حقیقت اللہ کے قادر مطلق ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اللہ کسی منطق یا اسباب کا پابند نہیں، وہ جیسے چاہے اپنی بادشاہت کے جلوے دکھا سکتا ہے کہ عقل انسانی طاق پر دھری کی دھری رہ جائے، جیسے ضروری نہیں کہ ہر بارش کے قطرے سے زمین جی ہی اٹھے اور ضروری نہیں کہ زمین بارش ہی کے قطرے سے جی اٹھے!وہی وہ ایک خالق مصور قادرِ مطلق ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فقط اپنے کْن سے 'کچھ نہیں' سے ایک جیتے جاگتے وجود کا معجزہ، اپنی محبت بھری نشانیوں میں سے ایک نشانی بنایا۔
(عقل تابع ہو تو محوِ حیرت رہتی ہے، سرکش ہو تو بپھر اٹھتی ہے، سو ،یہی ہوا ماننے والے ایمان لے آئے، ابلیس کے پیروکار اپنی ہٹ دھرمی اور تکبر کے سبب شیطان کے پیرو اور اپنے دشمن ہو گئے۔ )
ہر ناپاکی سے پرے حضرت مریم علیہ السلام پاکیزہ عورتوں میں سے وہ مثال ہے جن پر اللہ پاک نے اپنی پاک محبت کی روح ، اپنی نصیحت بھری معجزاتی نشانیوں میں سے ایک نشانی، اپنے قاصد خاص روحِ امین کے ذریعے پھونکوائی، اور پاکیزہ عورت نے بحکمِ رب اس روح کو جنم دیا جو رب کی امانت میں امینوں کے امین رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اپنی ذات میں محبت کا وہ معجزہ ہیں کہ جنہیں اللہ پاک نے خود بنایا الحمدللہ رب العالمین!رمز فقط اتنا ہے اسکی محبت اسکاکلام محدود نہیں، اسکے استعارے محدود نہیں جس کا جتنا ظرف ہے اسکو وہ وہاں نظر آتا ہے، اللہ پاک ہمیں اپنی ذاتِ رحیمی سے محبت کے لیئے وسعتِ قلب اور ظرفِ محبت و اخلاص عطا فرمائیں اللھم آمین!
کسی کی 'میں' عطا نہیں کر سکتی، عطا جہاں سے ہوتی ہے وہ ، وہ معاملہء کْن ہے جسکا راز وہ مالک جانتا ہے جو اس کْن پر اختیار رکھتا ہے، عطا نہ ہو تو آنکھ سے نظر کیسے آئے، عطا نہ ہو تو قلب کو حضوری کیسے نصیب ہو، عطا نہ ہو تو دعا کیسے ہو، عطا نہ ہو تو وفا کیسے ہو، عطا نہ ہو تو توفیقِ نیکی کہاں سے آئے، عطا نہ ہو تو شر سے بچنا کیسے نصیب ہو، عطا نہ ہو تو طلب کیسے ملے، تلاش کیسے ملے، جستجو کیسے بڑھے، عطا نہ ہو تو سجدہ کیسے ہو، عطا نہ ہو تو یاد کیسے ملے، عطا نہ ہو حْب کیسے ملے، عطا نہ ہو تو رقت کیسے طاری ہو، عطا نہ ہو تو اشک کیسے آئے، عطا نہ ہو تو فراق کی یخ بستگی میں بھی شعلہء عشق کیسے بھڑکے، عطا نہ ہو تو تاثیر کہاں سے آئے۔
عطا نہ ہو تو شفا کیسے ملے، عطا نہ ہو تو بصیرت کیسے ملے، عطا نہ ہو تو…سب عطا ہے، وہ سراپا وفا اپنی عطا کے راز میں ہے اللہ محبت ہے اور الحمدللہ کائناتِ محبت میں سب عطا ہے۔پانی ہو آگ ہو،بیج ہو ، لفظ ہو، زمین ہو، چیونٹی ہو، بات ہو،کھانا ہو، نماز ہو، انسان ہو یااحسان ہو یا قرآن ہو، تاثیر اللہ کے ہاتھ ہے تاثیر اللہ کے کْن سے ہے۔ اخلاص والوں کے ہاں تاثیر ہے اخلاص رب کی عطا ہے الحمدللہ.. اللہ پاک ہمیں خالص کر دے اپنی محبت عطا فرماے اللھم آمین۔