Episode24 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر24 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

یہاں فرق فقط اتنا ہے کہ ہم اللہ کے پاس لوٹ کر نہیں… لْٹ کر جاتے ہیں۔ کیا کِیا جائے… ہم بے وفاوٴں کی حدِ برداشت ہی بہت بڑھ گئی ہے جناب !تم پاک ہو یا ناپاک ہو۔۔ خاک ہو یا راکھ ہو!۔۔ اپنے پاک۔۔ خاک۔۔ راکھ۔۔ ناپاک ہونے کے حجاب میں نہ آنا، وہ اتنا پاک ہے جسے چْنتا ہے اسے پاک کر دیتا ہے۔۔ سو جہاں ہو، جیسے ہو۔۔ دھتکارے گئے ہو، اپنائے گئے ہو۔۔
۔ اْسے اپنا آپ سونپ دو۔۔۔ دنیا تمہیں پرفیکٹ چاہے گی۔۔ مگر اْس کا محبت بھرا دامن تمہاری شکستگی پر اور دوڑ کر تمہیں گلے لگائے گا۔۔ دنیاکی نگاہ تمہیں شرائط پر قبول کرے گی۔۔ اور وہ ایک۔۔ تمہیں کسی بھی غرض سے پرے گلے لگا لے گا، اپنا بنا لے گا۔۔ تھام لے گا۔بس ایک بار۔۔۔۔ اپنے لیئے ہی سہی۔۔۔۔ اْس اللہ مہربان کی طرف آ ؤ تو سہی، ایک بار ہی سہی رجوع کرو!وَاِلیٰ رَبّکَ فَارْغَبْ!
ہمیں ہمارے راز کو ماں کے رحم میں بھی ڈھانپا گیا، اور قبرمیں بھی ڈھانپ دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

جو 'تب' رحم میں ہمارے راز کا محرم تھا،اور جو 'جب' ہماری قبر میں ہمارے راز کا محرم ہو گا. بس وہی اب بھی ہمارا محرم ہے. دھیان رکھنا ضروری ہے، دنیا کا التباس کہیں محرم راز، محرم جاں سے غافل نہ کر دے، اور ہم بے وفا نہ ہو جائیں!اللہ کی جگہ ہماری زندگی میں کوئی نہیں لے سکتا۔ مگر جانے ہم کیوں انجان ہیں کہ ہم اللہ کو اپنی زندگی میں اسکی جگہ نہیں دیتے، اور ہم نادان خسارے میں ایک خلا ء کی اذیت میں گرفتار رہتے ہیں۔
زندگی کے کچھ شدت کے رشتوں میں کچھ احساس رب کے احساس کا بہانہ لیئے آتے ہیں، ہر پردہ ہر ذرہ اسی کے احساس کا پتہ تو دیتا ہے، ہم ہی ہیں جو نا آشنا رہتے ہیں، پردوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں، کبھی سوچا ہے کہ ہم اللہ کے احساس سے کتنا غافل رہتے ہیں،مگر اس کے باوجود وہ تو تغافل نہیں برتتا، لاتعلق نہیں ہوتا، اور دنیاوی رشتے میں،جہا ں اکثر ہمیں رب کا حکم بھی ہو کہ نبھاوٴ تو ہم بس ذرا سے تغافل پر اپنی انا کے ہاتھوں لاتعلقی چْن لیتے ہیں، سو ،جو تم پر تمہارے رب کی جانب تمہارا تغافل تم پر عیاں کر دے، اور تمہیں رب کی جانب رجوع کا بہانہ دے دے ، تو رب کے کْن سے جاری و ساری کسی کے تغافل کو بھی دْعا دو الحمدللہ!
دراصل ازل سے انسانوں میں وفا کا مادہ بھر دیا گیا ہے، یہی تو وہ شے ہے جو متحرک رکھتی ہے، تلاش میں بھٹکائے رکھتی ہے، سکون کی جستجو کوبکو ستائے پھرتی ہے۔
مسلہ درپیش تب ہوتا ہے جب لوگ وفادار کی بجائے بے وفا سے وفا کر بیٹھتے ہیں. اب وفا تو ویسے ہی آزمائش ٹھہری اب سوچیے جب وہ تعلق بیوفا سے ہو تو؟ ہمارا شعور اس بات سے کسی حد تک آشنا ہے کہ ہمیں اس سے محبت سے زیادہ اُس کی ضرورت ہے، ہم مختلف حاجتوں کے لیئے اس کا در کھٹکھٹاتے ہیں،روتے ہیں چیختے چلاتے ہیں، اگر ہم محتاج ہیں تو وہ اپنی صفت غنی کے پردے میں محبت سے ہمارا منتظر ہے، اگر ہم گناہگار ہیں تو وہ التواب کا یقین دلائے ہماری راہ تک رہا ہے، اگر ہم کمزور اور بے بس اور تنہا ہیں تو وہ ولی، قوی، جبار کی صفات کو منکشف کیئے دیتا ہے۔
ہماری ضرورتوں کے پردے میں وہ اپنی تمام صفات ہمارے لیئے محبت سے لیئے بیٹھا ہے، اب وہ ،ودُود سب سے زیادہ رحمن رحیم ہماری ہی بہتری کے لیئے، ہمارے ہی بہتر وقت کے لیئے اپنی جانب سے بہترین فیصلے کرتا ہے، مگر ہمارے ادراک ایقان ایمان کی کمی، ہمیں اس کی حمد کی بجائے سوال اٹھانے پر لے آتی ہے، مایوسی شکووں اور اداسیوں کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے، اب یہاں اگر ہمیں اس سے محبت ہو، تو یہ محبت اس کے ہر فیصلے میں ہماری رضا اسکی رضا میں ضم ہونے کی صور ت میں خودسپردگی بن کر جھلکے گی۔
 
محبت اللہ کی تلاش ہے، انسان کے ادراک سے بھی پرے، انسان کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ کا متلاشی ہے، مگر اس پر یہ تلاش اپنے وقت پر عیاں ہوتی ہے، سکون کی تلاش دراصل اللہ کی تلاش ہے. ہم سکون چاہتے ہیں، فرض کیجیے کسی کو شراب میں مزہ و سکون ملنے لگے، اب پہلی بات تو وہ اللہ سے بیوفائی کر بیٹھا. دوسرا وفا بھی بیوفا سے کر بیٹھا، ویسے سوال ایک اور بھی تو ہے ناں کہ کیا کوئی بیوفا وفا کر سکتا ہے؟ وفا تو اللہ کی صفت ہے، اور جس میں اسکا سچا پرتو ہو وہ باطل صنم کو پاش پاش کرتا سچے اللہ، سچی محبت کی طرف آ جاتا ہے۔
لیکن اگر اس کو بھٹکنا مقصود ہو تو تا حیات وہ اس دلدل میں مبتلا بھی رہ سکتا ہے استغفراللہ۔ مگر کچھ لوگ ماشا اللہ بلیسڈ ہوتے ہیں انھیں واقعات اور نتائج آزار بن کر ستانے لگتے ہیں، سزا نظر آنے لگتے ہیں زندگی میں اللہ سے دوری، رشتے بکھرنے لگتے ہیں، تعلق ٹوٹنے لگتے ہیں، ذمہ داریاں فراموش ہو جاتی ہیں۔حادثات ہونے لگتے ہیں۔ اللہ چاہے تو ان پر انکی نگاہ کھول دیتا ہے الحمدللہ۔
سزا عطا کا بہانہ ہوتی ہے اگرکسی پر جھوٹے خدا مثلاً شراب کی حقیقت منکشف ہو جائے، کہ وہ بلک کر اپنے اصل مالک حقیقی کو پکار لے۔ اور خدا کے بندے تو وہی ہیں جو بار بار خدا کو پکارتے ہیں، سو اس سکون کی تلاش انہیں اصلی منبعء محبت کی جانب لے آتی ہے۔
”اے اللہ میرے… اے مالک میرے!،
تیری امید سے رہوں جانفزا … تیرے احساس سے رہوں دل نشیں ،
تیری لگن تیرا قرب ہو …تیری آس تیرا ساتھ ہو،
 تیرا سکون ہو میرے ہم نشیں …ورنہ دل یہ بیابان ہو!“
اللہ سراپا وفا ہے، اور اللہ سے وفا احساس تقویٰ ہے، جس سے محبت ہوتی ہے اس کے ہونے کااحساس ہر ہر پل ہوتا ہے، تو تقوٰی درحقیقت اللہ کے ہونے کااحساس ہے۔
جو یہ اپنی نیت، قول، عمل، فعل نتیجے تقدیر سعی سے مانتا ہے جانتا ہے کہ۔۔۔ اللہ ہے۔۔۔ وہ متقی ہے، جو اس احساس سے سرشار ہے وہ اپنی حقیقت اپنی فلاح کو جان گیا اپنے نفس سے آگاہ ہو گیا۔ تقوی اللہ کاامید و بیم سے مزین محبت بھرا احساس ہے۔ تقوٰی اللہ کے لیئے پرہیزگاری ہے۔ تقوٰی صبر ہے، شکر ہے تقوٰی محبت ہے۔ تقوٰی من و تو کے مابین فرق مٹا دینے والا وہ احساس ہے جہاں بندے کی روح اسکا جسم رب کے رنگ میں رنگا محبت بھرا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔
تقوٰی نہ ہونا اللہ کے ہونے کے احساس سے غفلت ہے۔ تقوٰی دور اندیشی ہے، عاقبت اندیشی ہے تقوٰی والے دنیا اور آخرت کی حقیقت روزِ حشر کی اہمیت اور اصلی مالک یوم الدین کے احساس سے غافل نہیں بلکہ اچھے سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ یہ دنیا عجب ہے یہاں سارا سامان ہے ہر طرح کے فسق و فجور کے اڈے ہیں، کسی جلوت میں کسی خلوت میں ہر سامان موجود ہے، بات اندر کے اس احساس کی ہے کہ جہاں جب اللہ پاک کے ہونے کا احساس آ جائے تو زندگی موت آخرت آسان اور پرہیزگار ہو جائے۔
پھر انسان کے سامنے سب ہو بھی تو وہ اس سے پرہیز کرے جس سے منع رہنے کو کہا جائے، جیسے کسی ذیابیطس کے مریض کو اس بات کا احساس ہو کہ اسکی صحت اللہ کی عطا کردہ امانت ہے اور وہ خود صرف نفس کے لالچ میں آکر زیادہ میٹھا کھا کر خود پر ظلم کر سکتا ہے تو وہ اپنی صحت کے لیئے میٹھا کھانے سے پرہیز کرے حالانکہ میٹھا سامنے موجود ہو۔ پرہیز کرنے میں تقوٰی میں اپنی ہی خیر ہے، اللہ کو کیا فرق پڑے گا اگر ہم تقوٰی والے ہوں تو، وفا والے ہوں تو!تقوٰٰی بلاشبہ اپنی خیر اللہ کی خوشنودی کے لیئے روح میں اترا وہ رنگ ہے جو جب اپنے رنگ میں رنگ لے تو رنگِ واحد رہ جاتا ہے۔
گناہ چننا اللہ سے دوری چننا ہے۔ نفس کاپرہیز اللہ کے احساس سے ملواتا ہے۔
شرک سے پرہیز ظلم سے پرہیز، غیبت حسد سے پرہیز ،حرام، تکبر، گناہ سے پرہیز،حق بات کی ہٹ دھرمی سے پرہیز،نفسانی بے جا لذات سے پرہیز،اللہ سے ہٹ کر خواہشات کی پیروی سے پرہیز،اللہ کے ہونے کے احساس کی غفلت سے پرہیز،برے اخلاق سے پرہیز،اخلاق رزائل سے پرہیز۔کچھ کاموں کا چھوڑنا بذاتِ خود کچھ کاموں کا کرنا ہوتا ہے، گناہ چھوڑتا بذات خود نیکی کرنا ہے، اللہ کے لیئے ایسے کاموں کا چھوڑنا، پرہیز کرنا جو اللہ کو پسند نہیں۔
ایسے کاموں کو کرنا جو اللہ کو پسند ہے تقوی ہے۔ اور یہ سب راز ہے یہ فقط اللہ جانتا ہے کہ کون کتنا پرہیز گار ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے لیئے خالص تقوٰی عطا فرما دیں اللھم آمین۔
”عجب سراب در سراب ہے، یہ زندگی اے چارہ گر،
گر ملے معجزہء عشق، مرگ و زندگی آسان ہو،
ٍٍٍسفر نہ تھمے جو چل پڑے، نہ رکے کہیں جو نکل پڑے،
تیری صدا رہے میرے کوبکو، تیری رضا میرا ایقان ہو،
نگاہ میں بسے تو جابجا، دل میں تیرا ہی نقش ہو،
توکل میرا، سبب میرا، بس اک تو میرا سامان ہو،
حوصلے، جو تھے ناتواں، تجھ سے ملے ہوئے جاوداں،
تیری خیر ہو میرے رہنما، ہر دھڑکن تیرا احسان ہو،
دوئی تجھ سے نہ کروں سدا، یہ کرم سدا رہے عطا،
تو دعا میری، تو بھرم میرا تو دین میرا، تو ایمان ہو،
تْو کیف ہو تْو وجد ہو، تْو یقیں میرا، تو گمان ہو،
تْو کشف میرا تْو الہام ہو، تْو وفا میری، وجدان ہو،
ستم کبھی جو تْو کرے، کرم اسے میں سمجھ سکوں،
مجھے دے کبھی محبتیں، تْو بھرم میرا تْو مان ہو،
تیری راہ میں ہوں قربان میں،کبھی عشق کا تْو جام دے،
گر صحرائے زندگی میں ہوں تنہا کبھی تو تُو میرا سائبان ہو،
تیرے جلوے ملیں مجھے ہر جگہ، دیکھوں کبھی جو ارض و سما،
نگاہ و دل میں غیر نہ بس سکے، بس اک تو میرا رحمان ہو،
میری سوچ بنے شکر تیری، میری دھڑکنوں میں حمد ہو تیری،
میرا عمل ہو سنت تیری، میرا قلب تیرا قرآن ہو،
تُو میرا آسرا، میری بندگی، تو فخر میرا تُو میری شان ہو،
تُو ہی اول ہو میرے رازداں، توْ آخر میرا، تُو میری آن ہو،
تُو آنچل ہو میرا پاکباز میں تجھے اوڑھ رہوں گوشہ نشیں،
تُو پردہ میرا تو بھرم میرا تو خلوت میری، ہر جا براجمان ہو،
میرے اختیار میں نہ رہوں میں کبھی، میرا اختیار ہو تو بس اک توہی،
تُو عقل میری، تو سکینت میری، تو دعا میری عشق ایقان ہو،
تیرے لفظوں کی بنوں روشنی، تیرے قلم کی میں نکھار ہوں،
ہوں قلب میں چھپے تیرے رمز و راز، اور تو میرا جزدان ہو،
تجھے ڈھونڈا کیئے سب سربسجود، درونِ دل تُو دنیا کو ملے،
تُو عرش دل پر ہو محبت سے جلوہ نما ہر دل پر تیرا احسان ہو،
تیری آغوش میں ملے سکونِ قلب، محبت کی عطا ہوں تجلیاں،
میرے دل پہ تُو اپنا ہاتھ رکھ، ریگزارِ دل یہ نخلستان ہو،
اے اللہ میرے، رب دو جہاں تو ہمیں تھام لے تو ہمیں چھوڑ نہ،
ہے دعا میری تیرا کرم بڑھے تیرا فضل اور کل جہاں ہو،
اپنے محبوب ﷺ کی دے حْب ہمیں، راضی برضا ہوں ہم سبھی،
نہ تجھ سے ہوں ہم غافل کبھی، تو ہماری خیر ہو، تو امان ہو،
ہم فانی ہیں، تو ہے باقی کریم، ہم کچھ نہیں تو ہے سب رحیم،
ہر سراب سے ہمیں نکال دے، ہمارا یقین تیرا ایقان ہو!،
اللھم آمین!“
اللہ قادرِ مطلق ہے چاہے توکیا نہ کر دے، مگر یہ اس کا ہم پر کرم ہے کہ وہ ہم پر رحم کرتا ہے، وہ ہماری خیر کا خواہاں ہے۔
قرآن کریم میں بارہا اسکی رحمت اور اس کے عذاب کی سخت وعید سنائی گئی ہے۔پھر اُسی نے فرمایا کہ اس کی رحمت اُس کے غضب پر غالب ہے، تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اس کی رحمت کو فارگرانٹڈ لیتے رہیں۔بات یہ نہیں کہ ہم اُسکی رحمتوں کو، اسکی نعمتوں کو فارگرانٹڈ لیتے ہیں، بات تو یہ ہے کہ اپنی خیر کے خود ہی دشمن بنے ہوئے ہیں، ایسا کر کے ہم اللہ کا نہیں اپنا نقصان کرتے ہیں۔
”یہ تو تم شکر ہی کرو کہ ہم مصلحتاً رہے مہر بلب،
ہم کچھ کہتے تو زمیں شق، کرتے تو،آسماں چاک کرتے،
ناداں ہے تو، تو نے دیکھا ہی نہیں غضب اپنا،
برق گراتے تیرے آشیاں پر، کرتے تو جہاں خاک کرتے،
نہ مچاتے واویلے، نہ ہی دیتے دردر دہائیاں،
ہم کرتے تو ایک ہی بار خس کم، جہاں پاک کرتے،
یہ جو ہماری عنایتیں لئے پھرتا ہے توجاگیروں سی،
اگر کرتے تو ہر حق سے، ہم تجھے عاق کرتے،
گر جانتے..کیا کھو رہے ہو کیا کما رہے ہو،
تم کرتے کچھ نہ کرتے ہاں اِک نوحہ الم ناک کرتے،
جانے کس بات کا زعم ہے کس عمل پر ہے نازاں تو،
ہم کرتے تو پل میں سارے حساب تیرے بیباق کرتے،
عاجزی و توبہ ہے رازِ تزکیہء نفس،
ہے ہمارا ہی تصرف، ہم جسے چاہیں اسے پاک کرتے“
اللہ سراپا وفا ہے۔
ہماری بے وفائی ہماری بد اعمالیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم سے محبت سے نبھاہ رہا ہے۔ہم اس کو چھوڑ کر مخلوق پر تکیہ کیئے رہتے ہیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں کیا ہم واقعی صحیح کرتے ہیں؟اگر بچہ اپنے والدین کو چھوڑ کر باہر کسی سے مانگنے جائے تو یہ والدین کی غیرت پر تازیانہ بن کر لگتا ہے۔تو اللہ جو کہ رب العالمین ہے۔ اس کو کیسا لگتا ہو گا جب ہم اسے چھوڑ کر مخلوق پر توکل کرتے ہیں۔
ہم اس سے منسوب ہیں۔ اور ہمارا یہ حسب نسب تاحیات، تامرگ، تا ممات ہماری پہچان ہے۔ اللہ ہماری پہچان ہے۔ ہم اللہ کی پہچان ہے۔ مگر یہ پہچان فقط نگاہِ محبت واضح کرتی ہے۔ 
اس نے تو ہر پر پردے میں خیر رکھ دی۔اکثر جب ہم مخلوق سے بے وفائی کا زخم اٹھاتے ہیں۔ تو اللہ ہم پر ہماری بے وفائی کا پردہ عیاں کرتا ہے۔ جب کوئی تم سے بے وفائی کرے تو یہ سوچنا کہ اگر مخلوق کی بے وفائی آشکار نہ ہو تو رب کی وفا کیسے آشکار ہوتی، اور اس بیوفائی کا بدلہ لینے یا اس کی سزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑنے سے پہلے یہ تو ضرور سوچنا کہ تم خود اللہ سے کتنے باوفا ہو؟پھر اس شخص کے لیئے بیشک دل کی کیفیت کا معاملہ وہ نہ رہے مگر انشاء اللہ تمہارے دل سے اپنے اور اسکے لیئے معافی اور ہدایت کی دعا نکلے گی۔
۔!یہ اللہ کا رحم ہے،ہم سے محبت ہے کہ ہم پر یہ عیاں ہو جائے کہ ہماری حقیقت فقط اللہ ہے ،باقی تو فقط پردے ہیں اس تک پہنچنے کے، کچھ اسکی وفا کو مخلوق کی بیوفائی کے پردے میں پاتے ہیں تو کچھ اسکی وفادار مخلوق سے نبھا کر۔ کوئی باوفا یا بیوفا اپنی صنف سے نہیں ہوتا، کوئی وفا دار یا بے وفا اپنے ظرف سے ہوتا ہے، اور ظرف عطا ہے الحمدللہ۔۔!جو خود سے باوفا ہوتا ہے وہ اللہ سے باوفا ہوتا ہے، جو اللہ سے باوفا ہوتا ہے وہ خود پر ظلم نہیں کرتا رہتا کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے اسکے رب کو یہ پسند نہیں کہ اسکا بندہ خود پر ظلم کرے۔
اللہ نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا، بے شک جو خود پر دوسروں پر ظلم کرتا ہے اللہ اس پر رحم نہیں کرتا کہ اللہ نے فرما دیا وہ ظالمین سے محبت نہیں کرتا۔ 
”باوفا ہونا بھی تو تیری ہی ذات سے منسلک ٹھہرا،
گرہوں تجھ سے بیوفا، تو بیوفا اپنی ذات سے ہوں!“
الحمدللہ رب العالمین اللہ کا کرم ہے اس نگاہ پر جو مخلوق سے ہوتی خالق پر کھل جائے!
الحمدللہ،وہ اللہ ہی تو ہے جو کسی کو آپکی خیر کا وسیلہ کرتا ہے۔
کوئی آپ کو دے اور آپ اس کو دیکھتے کہیں سبحان اللہ۔ میرے اللہ نے کس طرح اپنے بندے کو میری خیر کا وسیلہ بنا کر بھیجا۔ کسی سے دکھ ملے تو دل کہہ اٹھے الحمدللہ۔ انسان سے توقع تو لگائی ہی نہیں جاتی، کہ ایاک نعبد وایاک نستعین اسی بات کا تو اقرار ہے کہ اللہ میں تیری بندگی اختیار کرتا ہوں اور تجھ ہی سے ہر مدد کی امید رکھتا ہوں اور رکھوں گا۔
میری ہر توقع فقط تو ہے۔ تو میرا ایک واحد معبود ہے، یہ جو میرا دل یہ جو ایک میری متاع ہے یہ جو ازل سے تیرے قبضے میں ہے میں اسے ہر ہر لحظہ بخوشی سر بسجود تجھے سونپتا ہوں۔ اس پر تیرا اختیار ہے، تو اسے اپنی طرف ویسے راغب رکھ جیسے تو چاہتا ہے اور بھلا تجھ سے بہتر کون ہے جو اپنے بندے کا بھلا چاہتا ہے۔
کسی سے بیوفائی ملے تونگاہ مخلوق کی اذیت کی بجائے اللہ رحمان کی وفا پر کھل جائے کہ کیسا باوفا ہے وہ، الست بربکم۔
قالوا بلیٰ کے لمحہء اقرار کے باوجود، جو ہر ہر پل روح کے ویرانوں میں گونجتا رہتا ہے، میں اس سے کیسے نظریں چرائے، کان بند کیئے پھرتا تھا، اپنی ہی خیر و سکون کا دشمن بنا، اپنی وفا غیر کو سونپے، اصلی حقدار کو محروم کیئے کیسے بدمست پھرتا تھا میں،کیا ہی خوب ہواکہ اس مخلوق کے ہاتھوں ایسی دل شکستگی ہوئی سبحان اللہ۔ ورنہ تو جانے استغفراللہ ایسے ہی مر جاتا، اپنی وفا اپنی سوچ اپنی دن رات اپنے ہر ہر پل کا محور اس غیر کو کیئے میں اپنے مدارِ حقیقی سے کیسے غافل تھا، یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ میری آنکھ کھل گئی الحمدللہ۔
مخلوق میں کسی کی عیب جوئی دیکھ کر تعجب ہو توآنکھ اس ایک ستار العیوب پر کھل جائے کہ کیا ہی خوب ہے وہ میرا غفار الذنوب وہ میرا ستار العیوب جو ایسی محبت سے مجھے تھامے ہوئے ہے کہ کیا ہی یہ دنیا کے بْت کسی کو تھامیں۔ کوئی ہے اس جیسا، نہیں بالکل نہیں اس جیسا کوئی نہیں کہیں نہیں!کیا ہی خوب ہے وہ میرا رازداں کہ جو میرے اتنے عیب دیکھ کر پھر مجھے اپنے حضور اشک بہانے کی توفیق دے دیتا ہے، مجھے کسی کے سامنے عریاں نہیں کرتا، ڈھانپ لیتا ہے، معاف کرتا ہے، میرے اشک چومتا ہے، مجھے گلے لگاتا ہے۔
 
واقعی۔۔۔۔!!!
اس ایک کی تلاش جانے کہاں کہاں لے گئی، اور پھر میری ہر تلاش واپس ایک تیرے ہی مدار میں ڈال گئی، روح کی اصل ضرورت بھی تو ایک اس کی محبت ہے، ایک غیر مشروط وفا، وہ ناقابل بیان روح کو کیف بخشتا محبت کی پاکیزگی سے معطر احساس جس کے لیئے روح جیسے ازل سے پیاسی ہو۔۔
”میری روح کو تلاش ہے ۔۔ جس مرہم کی،
تیرا لمس۔
۔ ناآشنا ہے۔۔ اس تاثیر سے!!“
دنیا کے محبوب کے پیچھے بھاگو تووہ اور دور بھاگتے ہیں، آپ ان کے تعاقب میں ہانپ جاتے ہیں مگر وہ محبت کے سائے، محبت کی سیرابی کی تلاش بس اپنی تشنگی ہی بڑھاتا چلا جاتا ہے، مگر ایک وہ ہے اور ہاں وہ ایک ہی تو ہے جو بس میں اسکاسوچوں بھی تو وہ خیال بن کر روح میں جلوہ گر ہو جاتا ہے، خیال سے کب احساس بن جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا میں اس کی جانب ایک قدم دوڑاوٴں تو وہ دس قدم آگے آتا ہے میں اس کی جانب چل کر جاوٴں وہ دوڑ کر مجھ تک آتا ہے، کیا ہے کوئی ایسا سچا محبوب؟ نہیں ہو ہی نہیں سکتا ایسا غیر مشروط سچا محبوب۔
۔ وحدہ لا شریک لہ!
”سچ پوچھوں تو کیا جچتا ہے؟،
جو زبان اللہ نے دی اسی زبان سے اللہ کو شکوہ؟،
جو مال اللہ نے دیا اسی مال کی اللہ کے لئے بخیلیت؟،
جو دنیا اللہ نے دی اسکو اپنے نفس کے تابع کرنا؟،
جو ہاتھ پاوٴں آنکھیں اللہ نے دیے اس کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرنا؟،
جو نفس اللہ نے دیا اس پر اللہ کی بجائے خواہش کی حکمرانی؟،
جو عطا اللہ نے دی اسکوامانت کی بجائے جاگیر سمجھنا؟،
جو عقل اللہ نے دی اس سے اللہ پر ہی سوال اٹھا دینا؟،
جس حرام سے ہمیں دور رہنے کو کہا ہو اسی میں وقتی ہی سہی راحت ڈھونڈنا؟،
جس شیطان کو اللہ نے ہمارا دشمن قرار دیا اسی سے اللہ کے خلاف دوستی لگانا؟“
جن نبی العالمین صل اللہ علیہ وآلہ واصحاب وبارک وسلم کی اتباع میں ہماری دو جہاں کی فلاح ہے۔
۔ ان ہی کے طرز عمل کو زندگی سے خارج کرنا؟کیا جچتا ہے؟اور پھر ہم کہتے ہیں ہم بیوفا تو نہیں!
ہم اللہ سے غافل ہیں مگر اللہ اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے، محبت یہی تو ہے ناں کہ انسان ایک لحظہ بھی محبوب سے غافل نہ ہو، ہاں وہ ایسا ہی تو ہے میں سو بھی جاوٴں مگر وہ جاگتا رہتا ہے، رات کے پچھلے پہر اپنے قاصدِ خاص سے ندا کرواتا ہے کہ کیا مجھے کچھ چاہیے؟ وہ ہمہ تن گوش رہتا ہے، میری پکار کی آس لیئے، کہ مجھے کچھ چاہیے تو نہیں۔
مغفرت، کوئی خواہش، کہیں میرے دل کو اسکی یاد سے سکون کی خواہش تو نہیں، اسکی محبت کا بیکراں احساس کچھ بھی۔۔ ایک پل بھی غافل نہیں، اونگھ سے نیند سے بے نیاز، ہر ہر پل ہماری ہی خیر کے لیئے مصروف۔ کبھی مخلوق دے اورپھر احسان جتائے تو کیسے پل میں آنکھ ُاس ایک پر جا کھلتی ہے کہ۔۔ ہاں ایک وہ ہے ،دیئے جاتا ہے ،دیئے جاتا ہے اور جتاتا بھی نہیں، اور ایک میں ہوں، لیئے جاتا ہوں، لیئے جاتا ہوں اور یاد تک نہیں رکھتا، آج اس مخلوق کے احسان جتانے نے مجھ پر کھول دیا کہ وہ۔
۔ وہ کیسا غنی کیسا کریم ہے الحمدللہ رب العالمین!
کبھی مخلوق کے دل میں آ پ کے لیئے محبت کا احساس ابھرے تو بھی نگاہ کیسے خالق پر جا ٹکتی ہے کہ کون ہے اس کے سوا جو کسی کے دل کو اپنے کْن سے آپکی جانب موڑ دے، اور اس میں الفت بھر دے؟ اسکو آپ کے لیئے سراپا دعا سراپا رضا و وفا کر دے، محبت رب کی ہر عطا میں سب سے خوبصورت عطا ہے توکون ہے جو اپنے خزانوں میں سے آپ پر بنا کسی مطلب کہ اپنے خزانے نچھاور کرے؟ بے شک وہ اللہ ہی تو ہے جو کسی کے دل میں آپ کے لئیے ایسی نرمی بھر دیتا ہے الحمدللہ رب العالمین!! کبھی آپکے دل میں کسی کے لیئے محبت کا احساس ابھرے تو دل کیسے بحضورِ رب سربسجود ہوتا ہے کہ اس خالق و بزرگ و برتر نے دو جہاں کے سب سے قیمتی تحفے کے لیئے آپ کے دل کو چْنا، کیونکہ محبت تو اسی دل میں آسکتی ہے ناں جو خالص ہو اب وہ محبت خواہ مخلوق کی ہو یا خالق کی۔
مجاز بھی تو حقیقت کا پردہ ہی ہے ناں، گر صبر شکر و حمد و ذکر کے دھارے کھول دے، اور پھر دوئی کیسے اکائی میں ضم ہوتی ہے انسان کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا یہ واردات جن دلوں پر گزرتی ہے اللہ ان زبانوں کو شاید اس راز کے بیاں سے ہی قاصر کر دیتا ہے۔ بے شک خالص محبت رب کی عطائے عظیم ہے اللہ پاک ہم سب کو عطا فرمائے اللھم آمین!
جس کو آپ سے محبت ہوتی ہے، وہ آپ کی جستجو میں رہتا ہے۔
کیا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ہمارا سچا خواہاں؟ہماری ایک توبہ سے اسکو ایسی خوشی ملتی ہے کہ کیا ہی کسی کو ملتی ہو، دنیا کے محبت والوں کی آپس میں جدائی ہو جائے تو اپنی محبت کو اس لیئے واپس چاہتے ہیں، کہ انکو اس کے بنا زندگی بے مقصد، بے رنگ بے کیف لگتی ہے مگر اللہ آپ کو واپس پلٹتا دیکھ کر اس لیئے خوش ہوتا ہے کہ اس میں آپکی خیر ہے۔ ہمارے اس تک پلٹ جانے میں اسکو کیا فائدہ یا نقصان ہے مگر اسے اپنی پرواہ نہیں اس بے نیاز سچے برحق سائیں کو تو ہماری ہی پرواہ ہے۔
دنیا کیسے اپنی وفا جتاتی ہے مگر ایک وہ ہے خاموش، بنا جتائے، اپنی وفاکو اپنا عمل کیئے، اپنی زمین کو ہمارے قدموں تلے پھیلائے،آسمان کو سر پر چادر ساتانے، ستاروں کو اسکی زیب و زینت بنائے، کبھی بارش کے ذریعے زندگی پھونکتا، کبھی ہوا کے ذریعے احساس جگاتا، کبھی سورج کے ذریعے روشنی پھیلاتا تو کبھی چاند سے باتیں کرنے کے وجہیں دیتا، دنیا کے رشتوں سے زندگی کی خوشیاں سجاتا، اپنی یاد کے بہانے بھی خود ہی دیتا وہ ایک اصل سراپا باوفا رب۔
۔! 
”میری آنکھوں سے گر دیکھو اُس کو،
تو تمہیں اس سے محبت ہو جائے!“
الحمد للہ ایک مومن کا سعیء مستقل اور صبرِ جمیل سے عجب تعلق ہے اس تعلق کی گرہ اللہ پر امیدِ کامل اور یقینِ واثق سے بنتی ہے۔ اس کے سفر میں اتار چڑھاوٴ، آزمائشیں اور توکل کے بعد آسانیاں ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تو کبھی انکو نہیں چھوڑتا جو اسکو چھوڑے بیٹھے ہیں، پھر جو اللہ کو ہی واحد سہارہ کیئے ہو۔
ان کو اللہ کیسے چھوڑے گا۔اللہ اپنی سنت اپنی محبت نہیں بدلتا الحمدللہ! کوئی ہے اس سے زیادہ وفا نبھانے والا؟ سبحان اللہ، خوب ہے وہ نگاہ جو مخلوق سے ہوتی خالق پر کھل جائے، پھر مخلوق سے نہ کوئی گلہ رہے نہ رنج نہ ملال نہ ازحد توقع نہ بہت زیادہ گمان، اگر مخلوق کے ہاتھوں کوئی بھی متعلقہ احساس نہ ہوتا، تو آنکھ کیسے اس ایک پر کھلتی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم! اللہ اپنی مخلوق کو ہنستا بستا رکھے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس ایک کے حضور سچے دل روح جسم و جان سے ہر ہر پل سربسجود رہیں اللہ سے بڑھ کر باوفا کوئی نہیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے لیئے باوفا ہونے اور رہنے کی توفیق دے اللھم آمین!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham