Episode17 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر17 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 کائنات عجب راز ہے، اس ایک کی پہچان لیئے، اپنے اندر بہت سے راز سموئے،بہت پردے سمیٹے۔۔۔ تہہ در تہہ۔۔ ہر ذرے میں کائنات ہے اور ایک نقطے میں سما جائے تو کبھی ساری کائنات ذرہ سی لگتی ہے۔ کبھی جو ہوا تمہیں چھوئے۔۔ تو سوچنا کہ یہ احساس کیسے ہوا، کس نے یہ ہوا چلائی؟ کبھی جب سورج کی روشنی تم تک پہنچے تو سوچنا کہ کون ہے اسکے پیچھے؟ کس کا کرم ہے تمہاری ذات پر؟ کبھی جب تمہارا دھیان تمہاری دل کی دھڑکن پر جائے تو سوچنا کہ کون ہے جو اس کو دھڑکا رہا ہے، اچھا ابھی یہ جو لفظ پڑھ رہے ہو اسکے پیچھے کون سی ذات ہے جو مجھ سے یہ لکھوا رہی ہے اور تم سے پڑھوا رہی ہے، وہ کون سی ذات ہے جو اپنی یاد اس بہانے سے تمہیں دے رہی ہے، کبھی قدم اٹھاتے ہوئے چلتے اپنے قدموں کی جانب دیکھنا کہ کس کے کرم سے تم نے چلنا سیکھا؟ کون سہج سہج اس سفر میں تمہارے ساتھ ہے؟ یہ جو تم بول سکتے ہو کس نے تمہیں بولنا سکھایا؟ کبھی چڑیا کو سننا اسکی آواز میں کیا ہے، کس نے اس معصوم کو چْنا، اسکو اتنی خوبصورت آواز دی ، اچھا بس یہ سوچنا کس کے کرم سے ابھی تم یہ سوچ رہے ہو، کہ یہ کس کا کرم ہے کہ تم اسکو سوچ سکتے ہو، کتنا ہی کچھ ہے جو تم میں اور کائنات میں نظامِ خود بخود کے تحت ہو رہا ہے، تمہاری پلکیں جھپکنا، گرم آگ پر ہاتھ کا پیچھے کھینچ لیئے جانا ، مگر کون سی ذات ہے جس نے یہ نظامِ ہستی یہ نطامِ خودبخود کو اتنی سمجھ اور حکمت و محبت سے بنایا۔

(جاری ہے)

 
اللہ ہر نفس کا والی و متعالی ہے ، وہ التواب الرحیم ہے،غفور الکریم ہے،سب کامحافظ، سب پر مہربان، اس کا رحم اس کے ہر پردے میں جھلکتا ہے۔ کبھی یہ اس صورت میں بھی آتا ہے، کہ بندہ جو اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور اپنی بربادی کی راہ چُنتا ہے تو اللہ پاک اسے دنیا کی نگاہ میں بظاہر سزا دے کر واپس رجوع کا، اسکی خیر کا بہانہ دیتے ہیں۔
اب نگاہ میں خیر ہو تو یہ معاملہء محبت عیاں ہو۔یہاں ہرذرے کا، ہر نفس کا اللہ سے اپنے اپنے انداز میں تعلق ہے۔کچھ ڈھونڈ لیئے جانے کی آرزو میں گُم ہوئے جاتے ہیں، تو کچھ گم ہو کر راہ پا جاتے ہیں،کچھ اس سے عاجزی سے منسلک ہیں، کچھ حق ومان سے،کچھ خفگی سے،کچھ گلے شکوے سوالوں میں اپنا تعلق جتاتے ہیں،کچھ سراپارضا، وفا ہو جاتے ہیں، توکچھ سراپا دعا ہو جاتے ہیں۔
”میرا آب سراب نہ کر سائیں،
میرا خواب عذاب نہ کر سائیں،
سائیں تو جیسا چاہے ویسا کر،
محبت کا باب خراب نہ کر سائیں،
تیرے تجربوں کو تیری دنیا ہزار،
 میرا شوق خونآب نہ کر سائیں،
میری التجا فقط تُو یہ سن لے،
پھر عرض مستجاب نہ کر سائیں،
راہِ عشق میں بخوشی جو گم ہوا،
اس مغوی کو بازیاب نہ کر سائیں،
رکھ اپنی آنکھیں پیمانے میں،
میرے اشک شراب نہ کر سائیں،
ہاں تو واحد مجھ کو کافی ہے،
بیشک دنیا احباب نہ کر سائیں،
پلا دے اشک ِعشق صبر والا،
آبِ زمزم تیزاب نہ کر سائیں،
لے دے اپنے پن میں سارے مان،
 تکلف میں آپ جناب نہ کر سائیں ،
تو اپنی رضا میں راضی رکھ،
مجھے مجھ میں بیتاب نہ کر سائیں،
کھو جائیں اور خود کو بھی ملے نہیں،
تو ہمیں ایسا نایاب نہ کر سائیں،
مانا بہت ہیں تیرے ستم ظریف،
رحم والے کمیاب نہ کر سائیں،
ہٹا دے میرے پردے مجھ سے ہی،
مجھے اپنا حجاب نہ کر سائیں،
میں تیری ہوں، تُو مجھے اپنا رکھ،
مجھے غیر کا باب نہ کر سائیں“
اللہ نے ہمیں اپنا بنایا، اپنے لیئے بنایا، اللہ کا ہمیں بنانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا بس اپنی پہچان؟ اللہ کو کسی تعریف کی کیا ضرورت اسکے لیئے اسکے ملائکہ ہی کافی تھے، یہ تو بندوں ہر اسکا کرم ہے کہ وہ اسکی تعریف میں اسکی معرفت کو پا کر اپنی حقیقت سے آشنا ہو جائیں، اپنے لیئے فلاح پا جائیں، جب بندہ دوسروں کی تلاش سے خود تک پہنچتا ہے تبھی تو رب خامشی، بے بسی لاچارگی کے پردوں میں اس پر اپنا آپ آشکار کر کے اسے اسکی خودی عطا کرتا ہے الحمدللہ، اور تب انسان کو اپنے کچھ نہ ہونے کا احساس، اسے اللہ سے منسلک اسکے بندے ہونے کا احساس سچی نعمت عطا کرتا ہے الحمدللہ رب العالمین!
”تمہارا ذکر ہوتا ہے،
میں چنچل ہو سی جاتی ہوں،
تپش میں ٹھنڈی ہوا جیسے،
اچانک چل سی پڑتی ہو،
بادِ صبا مجھے یکدم آ کر چھوتی ہو،
جیسے اندھیری رات ہو بہت،
اور تارے دمکتے ہوں،
جیسے ہونٹوں پر اک خواہش،
آ … آ کر مچلتی ہو،
جیسے جگنو ٹھہرتے ہوں،
جیسے بادل اترتے ہوں،
جیسے قوسِ قزح نکھرتی ہو،
جیسے کلیاں چٹکتی ہوں،
جیسے دل بیاباں سا ہو،
اور گلِ گلزاراں سا ہو جائے،
جیسے حبس چھایا تھا،
اور ابرِ باراں سا ہو جائے،
جیسے بادل کا ہر ٹکڑا،
تمہارا نام لکھ لائے،
جیسے بارش کا ہر قطرہ،
آ کر مجھ پر برس جائے!،
کبھی سوچا ہے وہ کیوں چاہتا ہے کہ تم خود کو جانو اسکو پہچانو، بھلا اسے کیا ضرورت، کبھی سوچنا اس میں تمہارا کیا بھلا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ تم خود کو جانو، اسے پہچانو، راز تو بس یہ ہے کہ وہ اس لیئے چاہتا ہے کہ تم اسے پہچانو کہ خود کو جان کر اسکو پہچان کر ہی تو تم خود کو پہچانو گے، خود کو پاوٴ گے۔
اس کی پہچان بنو گے۔ کبھی اپنے ساتھ بیٹھ کر دیکھا ہے صرف اپنے ساتھ؟ اپنے آپ کو محسوس کر کے دیکھا ہے؟ اس خوشبو کو اپنے اندر اتار کر دیکھا ہے جو ہوا ساتھ لیئے پھرتی ہے؟ اپنی سوچوں کو اپنے لیئے احترام لیئے محسوس کیا ہے؟ اپنے آپ کو ایسے تھام کر دیکھا ہے کہ پھر کسی اور کے تھامنے کو ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو؟ کہ کسی ایسے ان دیکھے نے تھاما ہوا ہے جو شکستگی میں بڑھ کر جوڑ دیتا ہے، کوئی ہے جو ساتھ ہے، کوئی ایک ہے جو ہر ہر لحظہ تھامے ہوئے ہے، نبھا رہا ہے، ٹوٹنے پر تو اور محبت سے تھام لیتا ہے، یہ احساس صرف تب میسر آتا ہے جب الحمدللہ اپنے آپ کو رب کی ادائے کْن فیکون محسوس کر لیا ہو۔
جب اپنا ناتا رب سے استوار ہوا ہو، جب تنہائی کسی تنہائی سی نہیں بلکہ ایک معصوم سی محبت کا احساس لیئے جلوت سی ہو، جب چڑیا کی آواز بس چہچہاہٹ نہیں بلکہ سراپا حمد و ثنا لگے، جب اپنا آپ بھی ایک عطا بیش بہا سا لگے۔
 اور ایسے میں رب پر ٹوٹ کر پیار آ جائے کہ اس نے آپ کو اپنے لئے اپنی کائنات کے لیئے کتنی محبت سے بنایا، اور اگر اتنی محبت اس نے آپ کے لیئے چنی، کہ جس کا احساس ابھی صحیح معنوں میں آپ کے ادراک کی سرزمین پر اگ رہا ہے ابھی مکمل اگا تک نہیں، تو وہ خود بذاتِ خود کیسی محبت ہو گا؟ کوئی جام لٹاتا ساقی؟ آنکھوں میں محبت کا سمندر لیئے کوئی محبوب؟ ہر خطا درگزر کر کے محبت سے بانہوں میں بھر لینے والا کوئی بہت سب سے اپنا؟ یہ احساس دل کی بستی میں تبھی سماتا ہے جب دل کی بستی ہی اسے سونپ دی جائے، جب اس کو ہر انا بغض، حسد، توقع، نفرت غم و غصہ ہر میل کچیل سے پاک صاف کیا جائے، اس پر خود احتسابی کی کھدائی کی جائے، جب اس دل کی اشکوں سے آبیاری ہوئی ہو، جب اس پر عاجزی کی مٹی ڈالی جائے، اور جب اس پر خود سپردگی کا بیج بو دیا جائے، جب دل آزمائش کے کیل کانٹوں کو صبر و حمد و شکر سے سہے، جب خزاں بہار میں استقامت و صبر حمد و شکر کے ذریعے رضا میں راضی رہا جائے الحمدللہ تب رضا کا پھل پھول نصیب ہوتا ہے۔
اپنے ساتھ سکون صرف تبھی نصیب ہوتا ہے جب بِنا کسی سودو زیاں کے احساس کے اپنا آپ اس بنانے والے محبوب کو سپرد کر دیا گیا ہو! 
”جو لکھا نہیں جو سنا نہیں … بتا!،
تجھے کیسے لکھوں میں وہ بیاں،
وہ میرا رب ہے وہ میرا مہرباں،
وہ میرے ساتھ ہے میرا محرمِ جاں،
وہ میری طرز ہے وہ سخن میرا،
وہی درد ہے وہی مسیحا میرا،
وہ میری آس ہے وہ یقیں میرا،
وہ میرا انتظار ہے وہ گمان ہے،
وہ میرا کیف ہے.. وجداں ہے،
وہ میری نبض وہ میری جان ہے،
وہ میری آن ہے وہ میری شان ہے،
اس سے جدا ہوں تو میں کچھ نہیں،
اس کی بنوں تو اسی کی دان ہوں،
میں ہوں اس کی عجب ادائے کن فکاں،
جیسے اگربتی میں سلگے آتش فشاں،
وہ میری آگ ہے وہ میرا نور ہے،
وہ میرے پاس ہے کہاں وہ دور ہے،
وہ میرا ناز ہے میں ہوں اس کی ادا،
وہ میرا راز ہے کیوں کروں اسے عیاں،
وہ میرا اشک ہے وہ مسکان میری،
وہ میرا قرار ہے رحمت میری،
وہ ایمان میرا تو مسلمان ہوں،
اس سے دور خود سے انجان ہوں،
وہ میرا آئینہ میں اس کا عکس ہوں،
اس کے ساز پر میں سراپا رقص ہوں،
جسے اس نے چنا، میں وہ شخص ہوں،
میں اس کا مان، میں اس کا نقش ہوں،
امانت ہوں میں، میں ہوں جوابدہ،
جلوہ ہوں میں، میں ہی طور ہوں،
نشان ہوں میں عجب دستور ہوں،
امتحاں ہوں پر بے قصور ہوں،
کوئی دیا، کبھی شب فجور ہوں،
جیسی بھی ہوں اس کی ضرور ہوں،
وہ راحت ہے گر میں دردسے چور ہوں،
وہ قلم میرا میں اس کی سطور ہوں،
جو نہیں حرام وہ خوشہء انگور ہوں،
وہ شوق میرا میں شوق وفور ہوں،
گر وہ سنگ ہے تو میں تنہا نہیں،
 میں وہ کٹھن رہ ہوں جو عبور ہوں!“

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham