Episode 18 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 18 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

 ننھے سے بچے کو گود میں لے کر سلاتے سلاتے وہ خود بھی اونگھ گئی تھیں حالانکہ یوں کرسی پر بیٹھے انہیں کہاں نیند آتی تھی اور پھر پوتی اور بہو کی پریشانی نے تو ان کاسکون اور آرام سب چھین لیا تھا۔ سوتے میں ہی رومی کی آواز سن کر وہ ہڑبڑا کر جاگیں۔ اس نے انہیں پکارا تھا۔
”دادو…! دادو…!“ اور وہ پھیلتے ہوئے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگیں۔
چند لمحوں تک ان کے حواس نے کام ہی نہیں کیا، انہیں سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ تھیں کہاں اور گود میں لپٹا ہوا بچہ کون تھا۔ یہ بچہ جو رومی کی فوٹو کاپی کی طرح تھا۔ گول سا چہرہ، کھڑی ناک اور چھوٹے چھوٹے گلابی ہونٹ۔ چہرے پر کسی سنجیدہ آدمی کی طرح کا تاثر۔ انہوں نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر لیمپ جلایا اور آہستگی سے اٹھ کر بچے کو کاٹ میں لٹا دیا۔

(جاری ہے)

صائمہ کے پلنگ کی طرف گئیں تو وہ سدھ بدھ سے بے نیاز سوئی ہوئی تھی اگر صائمہ نے بھی انہیں نہیں پکارا تھا تو پھر انہیں کس کی آواز آئی تھی۔ وہ سٹپٹا گئیں۔ ”کہیں یہ بچہ ہی تو نہیں بول پڑا؟“ وہ سوچنے لگیں۔ ”اگر صائمہ بولتی بھی تو وہ دادو کیوں کہتی بھلا۔“ دنیا میں آج کل کئی طرح کی کرامات اور حیرت انگیز بچوں کی پیدائش کے بہت سے واقعات رونما ہو رہے تھے۔
وہ یہی سوچتی ہوئی کاٹ کی طرف بڑھیں۔
”یقینا ہمارے گھر میں کوئی خاص کرامات والا بچہ پیدا ہوا ہے۔“ وہ کاٹ میں بے خبر سوئے ہوئے بچے کو غور سے دیکھنے لگیں جس کے سینے سے خرخراہٹ کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ قریب ہو کر سننے کی کوشش کرنے لگیں کہ شاید ابھی انہیں کوئی بامعانی آواز سنائی دے جائے۔ یک دم وہ چونک کر سیدھی ہو گئیں۔
ان کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے اور وہ نفرت سے بچے کی طرف دیکھ کر بڑبڑائیں۔
”منحوس کہیں کا… جانے کیسا بچہ ہے آتے ہی ماں اور بہن کی جان کے درپے ہو گیا ہے۔“
###
منور نے ثوبان کو کندھوں سے تھام لیا۔ ”حوصلہ کرو یار اور بالکل مایوس نہ ہو، کوئی تعاون کرے یا نہ کرے… میں خود اس تفتیش میں دلچسپی لوں گا اور تمہارے مجرم کو زمین کی تہوں سے بھی نکال کر لانا پڑا تو لاؤں گا، خواہ کوئی کتنے ہی اثرورسوخ والا ہی کیوں نہ ہو۔
”بہت پڑھتا ہوں اس طرح کے بیانات ہر روز اخباروں میں۔“ ثوبان جھنجھلا کر بولا۔ ”پولیس والوں کے بھی اور سیاست دانوں کے بھی۔ انہیں ہمارے مسائل سے کتنی واقفیت ہے اور ان کے حل سے کتنی دلچسپی، میں سب جانتا ہوں، آپ بھی مجھے جھوٹی تسلیاں مت دیں۔ مجھے اپنے مجرم کو خود ہی پکڑنا ہو گا۔“
”ارے نہیں یار…! اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔
میری بات پر یقین کرو۔“ منور نے ثوبان کے کندھے تھپکتے ہوئے کہا۔ ”میں اپنے گھر اس وقت جاؤں گا جب تمہارا بلکہ ہم سب کا یہ مسئلہ حل ہو گا۔“ ثوبان احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہو کر منور کے گلے لگ گیا۔
”میڈم آپ ہمیں اپنی پرنسپل کے گھر کا پتا بھی دے دیں، ٹیلی فون نمبر اور اپنے دونوں چوکیداروں کے رابطے۔“ منظور نے کہا۔ ”اس کے علاوہ مجھے آپ کے اسکول کے اسٹاف اور بچوں کے ٹیلیفون نمبر بھی چاہیے ہوں گے۔
”یہ سب کس لیے؟“ عنبرین نے حیرت سے کہا۔ ”اور پرنسپل کے پوچھے بغیر…“
”دیکھئے میڈم!“ منور نے ذرا سختی سے کہا۔ ”اگر آپ اپنے اسکول کی نیک نامی کے بارے میں متفکر ہیں اور چاہتی ہیں کہ اس معاملے کی تشہیر نہ ہو تو پھر ہماری ہدایت پر عمل کریں اور ہمیں ہمارے طریقے سے کام کرنے دیں۔“
”میں پرنسپل صاحبہ سے پوچھ کر…“ میڈم عنبرین نے بولیں۔
”آپ صرف انہیں اطلاع کر دیں اور میری مطلوبہ معلومات مجھے دے دیں۔ میں اس معاملے میں اب ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتا۔ پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو چکا ہے۔“
عنبرین وہیں بیٹھ کر پرنسپل کا فون ملانے لگی اور ان سے مختصراً بات کر کے اجازت لی۔ ثوبان اور منور کو اندازہ ہوا کہ میڈم عنبرین پہلے سے پرنسپل کو تمام معاملات سے آگاہ کر چکی تھی۔
فون بند کر کے اس نے منور سے کہا۔ ”میں آپ کو پرنسپل صاحبہ کے گھر کے ایڈریس کے سوا سب معلومات فراہم کر دیتی ہوں۔“
”ان کے گھر کا ایڈریس کیوں نہیں…؟“ حیرت سے منور نے پوچھا۔
”وہ انہوں نے منع کیا ہے…“ ہچکچاتے ہوئے عنبرین نے جواب دیا۔
”مگر کیوں؟“ منور نے پھر دہرایا۔
”رہنے دیں منور بھائی۔“ ثوبان نے غصے سے کہا۔
”میرا دیکھا ہوا گھر ہے، میں آپ کو لے چلوں گا، میں گیا تھا ان کے گھر دس بارہ سال قبل۔“
”مگر انہوں نے تو حال ہی میں اپنا گھر تبدیل کیا ہے اور اتفاق سے مجھے بھی علم نہیں ہے کہ ان کا نیا گھر کس علاقے میں ہے۔“ میڈم عنبرین نے کہا۔ ”صرف اسکول کے چوکیداروں کو اس بات کا علم تھا کیونکہ وہ ایک ویک اینڈ پر ان کے گھر کا سامان نئے گھر میں منتقل کرنے کے لیے گئے تھے۔
”انہوں نے گھر کیوں تبدیل کیا؟“ ثوبان نے فوراً کہا۔ ”ان کا تو پرانا گھر بھی بہت اچھا تھا۔“
”میں نہیں جانتی جناب۔“ عنبرین نے کہا۔ ”میڈم اپنے ذاتی معاملات پر ہم میں سے کسی کے ساتھ گفتگو نہیں کرتیں۔ وہ اپنی ذات میں الگ تھلگ رہتی ہیں۔“
”ایسے مجرموں کا اپنی ذات میں الگ تھلگ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔“ ثوبان بڑبڑایا تھا لیکن اس کی بڑبڑاہٹ اتنی واضح تھی کہ اسے منور اور عنبرین دونوں نے ہی سنا تھا۔
###
پوتے کے بارے میں اپنی سوچ پر وہ خود کو ہی ملامت کرنے لگیں۔ ”کیسی جاہل عورتوں جیسی سوچ ہے میری…!“ خود کی ہی سرزنش کرتے ہوئے وہ کہنے لگیں۔ ”اس معصوم کا اس میں کیا قصور؟ ٹھیک ہی کہتی ہے صائمہ! وہ بے چاری تو خود اسپتال میں پڑی تھی۔ ہم سے ہی غفلت ہوئی…“ پھر انہیں یاد آنے لگا کہ کیسے گھر آ کر ثوبان ان کے ڈرائیور توفیق پر چیخا تھا اور وہ وہ جو بیچ بچاؤ نہ کرواتیں تو ثوبان تو اسے مار ہی ڈالتا۔
جانے کیسے ثوبان کے ذہن میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا تھا کہ توفیق نے رومی کو اغواء کر لیا تھا۔ یہ بھی شکر ہے کہ جب رومی اکو اسکول سے لینے گیا تو گھر کے اندر کام کرنے والا لڑکا شمسی بھی اس کے ساتھ ہی تھا اور اسی نے بتایا کہ جب وہ اسکول گئے تو رومی اسکول میں نہیں تھی۔
”کہیں ایسا تو نہیں کہ توفیق اور شمسی نے آپس میں پروگرام بنا کر کوئی گڑبڑ کی ہو؟“ ان کے ذہن میں انوکھی سی سوچ آئی۔
”سچ کہتے ہیں کہ جس کی چیز گم ہوتی ہے اس کا ایمان بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ وہ ہر ایک پر شک کرتا ہے اور ہر شخص اسے اپنا مجرم لگتا ہے۔ ”شمسی اور رفیق میں تو چوبیس میں سے بیس گھنٹے آپس میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔“ جتنا سوچتی جا رہی تھیں اتنا وہ ابہام اور وسوسے کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔
”جانے رومی کس حال میں ہو گی؟“ انہوں نے سوچا۔ ”اسے تو رات کو بتی جلا کر سونے کی عادت ہے اپنے باپ کی طرح… جانے جن ظالموں نے اسے اغوا کیا ہے، ان کا سلوک اس معصوم سے کیا ہو گا؟“ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
انہیں اپنے اردگرد رومی کی آوازیں محسوس ہو رہی تھی اور کبھی رومی کی خوشبو اور لمس اپنے اطراف میں محسوس ہو رہا تھا۔
”رومی! دادو کی جان! میں تمہیں کہاں ڈھونڈوں؟ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ہے؟ اللہ تمہاری عزت کی حفاظت کرے… اللہ تمہیں سلامت رکھے۔“ آنسو ہچکیوں میں تبدیل ہوئے اور پھر وہ باقاعدہ آواز سے رونے لگیں۔ بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر شاید انسان رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔
###
ثوبان نے پولیس اسٹیشن جا کر بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تو ساتھ ہی منور نے راتوں رات ایک تفتیشی ٹیم کو اپنے ایک ذمے دار انسپکٹر کی نگرانی میں شعبان اور خمیسو کے گاؤں روانہ کر دیا اور انہیں تاکید کی کہ وہ شعبان کو ساتھ لے کر آئیں نیز خمیسو کے گھر کے حالات بھی چیک کر کے آئیں۔ ثوبان کو ساتھ لے کر وہ حیدرآباد کے اس اسپتال میں گیا جہاں حادثے کے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ تھا۔
انہیں یہ چیک کرنا تھا کہ کہیں خمیسو رومی کو اغوا کر کے ساتھ تو نہیں لے جا رہا تھا اور وہ بھی بس میں حادثے کا شکار ہو کر خدانخواستہ…
لیکن اچھی طرح چھان بین کرپے بھی مایوسی ہوئی۔ بس کا کنڈیکٹر بھی زندہ تھا اور خمیسو کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر بھی ان دونوں نے تصدیق کی تھی کہ خمیسو بس میں اکیلا ہی سوار ہوا تھا اور یہ کہ کوئی بھی ایسا آدمی نہیں تھا، نہ ہی کوئی رومی کے حلیے کی بچی اس کے ساتھ تھی۔
وہاں سے مایوس ہو کر واپس کراچی لوٹے۔
منور نے فون کر کے میڈم عنبرین سے پوچھا تھا کہ کیا انہوں نے اسکول کے تمام کلاس روم اور باتھ روم وغیرہ چیک کر لیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سرونٹ کوارٹرز کے علاوہ انہوں نے سب کمرے چیک کر لیے تھے۔ اسکول کی تلاشی کا وارنٹ بھی نکلوایا گیا اور پرنسپل سے بات کر کے ان سے ملاقات کا وقت بھی طے کر لیا گیا۔
اگلے ہی روز ثوبان اور منور پرنسپل کے گھر پر تھے۔ وہ بہت شفقت سے ثوبان اور منور سے ملیں اور اس پریشانی سے نجات کی دعا دی۔ وہ بھی اپنے طور پر چیک کروا رہی تھیں۔
”اگر ہمیں شعبان چوکیدار کے مل جانے کے بعد بھی رومی کا کوئی سراغ نہیں ملا تو پھر ہمیں اپنی تفتیش کو کوئی اور رخ دینا پڑے گا۔“ منور نے کہا۔ ”میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا ہے… شاید آپ اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکیں۔
”پوچھو بیٹا!“ پرنسپل صاحبہ بولیں۔
”کلاس میں یا پھر اسکول میں کسی بچے سے رومانہ کا کوئی جھگڑا، تعلیمی مقابلہ یا کسی قسم کا کوئی ایسا اختلاف جو بڑھ کر کدورت بن جائے؟“ منور نے سوال کیا۔
”رومانہ تو بہت ہی نرم مزاج، بھولی اور پیاری بچی تھی بیٹا…!“ ان کا اتنا کہنا ہی تھا کہ ثوبان غصے سے اٹھ کھڑا ہوا، پرنسپل صاحبہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
”آپ نے غور کیا منور بھائی؟“ ثوبان طیش سے بولا۔ ”کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ منور نے حیرت سے پوچھا۔
”انہوں نے رومی کو ”تھی“ کہا ہے۔“ وہ جوش سے بولا۔ ”ہے“ نہیں۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ میرا اندازہ کلی طور پر غلط تو نہیں ہے۔“
”ہوں!“ پُرخیال انداز میں منور نے کہا اور سوچا کہ واقعی کیوں انہوں نے لفظ تھی کا استعمال کیا ہے۔
”میڈم! آپ وضاحت کریں گی کہ آپ نے ”تھی“ کیوں کہا ہے۔“
”وہ…! وہ!“ پرنسپل صاحبہ سٹپٹا کر ہکلانے لگی تھیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider