Episode 42 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 42 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”پیاری اماں…؟
طبیعت بھی ٹھیک ہے میری، یوں ہی ذرا بدہضمی کی شکایت تھی اور بھلا کیا ہو گا۔ مجھے آپ کے شک کا اندازہ ہے لیکن ابھی بعید از قیاس ہے کہ میہر کو بچے پابندی لگتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں اس روز ماں باپ کا بچپن رخصت ہو جاتا ہے اور وہ ابھی مزید کچھ عرصے تک بچہ بنا رہنا چاہتا ہے حرکتیں تو بڑوں والی ہیں لیکن ذہن بچگانہ ہے جس میں سے لالچ ختم ہی نہیں ہوتا…
گھر کی حد تک تو میں نے پابندی لگا لی لیکن گھر سے باہر وہ کیا کرتا پھرتا ہے اسکا مجھے کیونکر علم ہو سکتا ہے، میں نے رینی آنٹی کو کسی حد بتایا تھا کہ اس کی حرکتیں ٹھیک نہیں، انہوں نے تو اپنی ساری ذمے داری میرے سر پر ڈال دی کہ وہ مجھے لائی ہی اس لیے تھیں کہ میں اسے سدھاروں، آپ ہی بتائیے اگر میرے پاس کوئی فن ہوتا تو بھی مہیر جیسے آدمی کو کیوں کر سنوارتی۔

(جاری ہے)

انگریزی اب بولنے کی کوشش کرتی ہوں… ہے تو بہت مشکل لیکن شوق ہے اور ضرورت… میری استاد کہتی ہے کہ میں نے بہت جلد سیکھا ہے… ابھی میری پڑھائی جاری ہے اس کے بعد میں گاڑی چلانا سیکھوں گی پہلے تو سوچتی تھی کہ جب پوری زندگی کا سفر مہیر کے ساتھ گزارنا ہے تو گاڑی کا اسٹیئرنگ اسی کے ہاتھ میں اچھا لگتا ہے لیکن اب میرے لیے زندگی ایسی آسان نہیں رہی مجھے گھر سے باہر نکل کر دیکھنا ہو گا کہ باہر وہ کیا کرتا پھر رہا ہے۔
جانے کب تک اور کس طرح میں اس کے پیچھے بھاگتی پھروں گی… بس آپ دعا کریں کہ اگر میری زندگی اسی کے ساتھ گزرنی ہے تو وہ سدھر جائے اور اگر اسے سدھرنا نہیں تو پھر میری آزمائش طویل نہ ہو۔ میں اپنے دل و دماغ سے بغاوت کر کے، صرف جسم بن کر اس کی بیوی بن کر نہیں رہ سکتی اسے تو شاید میرے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہو۔ اسے قربت کے لیے بہت سی عورتیں میسر ہوں گی… صرف گھر چلانے والی چاہیے تھی جس کے لیے رینی آنٹی کی نظر انتخاب مجھ پر ٹھہری تھی۔
کبھی کبھار میں رینی آنٹی کی دعوتوں میں آنے والی آنٹیوں کی بیٹیوں کو دیکھتی… ان کے ساتھ مہیر کی دوستی اور بے تکلفی دیکھتی تو حیران ہوتی تھی کہ ان میں سے آنٹی نے کسی کو بہو کیوں نہیں بنایا…؟ ان میں سے کسی لڑکی کا مہیر کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا یوں بھی آسان ہوتا کہ وہ مہیر کی طرح اسی ملک میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھیں ان کی تعلیمی استعداد بھی مجھ سے بہتر تھی اور اس ملک میں زندگی کی دوڑ میں وہ فعال تھیں… مالی طور پر بھی مہیر کا ہاتھ بٹا سکتی تھیں جب کہ مجھ میں تو ایسا کچھ نہ تھا لیکن اپنی کم مائیگی کا احساس جلد ہی یہ سوچ کر ختم ہو جاتا ہے کہ مہیر کی زندگی کا ساتھی بننا میری قسمت میں تھا تو کوئی اور کیوں میری جگہ پر ہوتی۔
میں وہی کشف ہوں جو چند دن قبل تک خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکیوں میں سے ایک سمجھتی تھی، میرے لیے زندگی کی سب سے اہم چیز مہیر تھے اور میرا مقصد حیات مہیر کے گرد گھومتا تھا۔ اب مجھے مہیر سے گھن آتی ہے، مجھے وہ کسی ایسے عفریت کی طرح لگتا ہے جو میرے جیسی معصوم اور سادہ لڑکی کو چمٹ گیا ہے، میں اسے کیسے انسان بنا سکتی ہوں جسے اللہ نے انسان بنایا لیکن اس کے اندر حیوانی صفات زیادہ ہیں، وہ شیطان کا آلہ کار بنا ہوا ہے اس کے نفس میں اچھائی اور برائی ناپنے کے کوئی پیمانے نہیں ہیں۔
بجا ہے یہ بات کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی صفات دی ہیں کہ وہ مرد کو راہ پر لگا بھی سکتی ہے اور راہ سے بھٹکا بھی سکتی ہے… لیکن میری عمر ابھی ویسی ہے نہ ہی تجربہ کہ میں اتنی کٹھن راہوں کا سفر کر سکوں۔
اماں… عورت سے تو سوتن بھی برداشت نہیں ہوتی جو کہ شوہر سے دوسری عورت کا شرعی رشتہ ہوتا ہے تو پھر دوسری عورت سے غیر شرعی رشتہ کیوں کر برداشت ہو سکتا ہے، وہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر… اور ایک دفعہ بات کھل جانے پر وہ دیدہ دلیر ہو گیا ہے، اس کی کہانیاں اور اس کے افسانے اب میں بار بار دوسروں کے منہ سے سنتی ہوں… لیکن میں برداشت کرتی ہوں… شاید مجھے اس بات کا گمان ہے کہ وہ سدھر جائے گا… خود میرے اللہ نے فرمایا سورہ نور میں کہ طیب مردوں کے لیے طیب عورتیں اور غلیظ مردوں کے غلیظ عورتیں ہیں، اسی طرح طیب عورتوں کے لیے طیب مرد ہیں اور غلیظ عورتوں کے لیے غلیظ مرد… شاید مہیر غلاظت میں گر گیا ہے… ممکن ہے کہ وہ اندر سے طیب ہو، صاف ہو، پاک ہو، ویسا ہی ہو جیسی میں ہوں کیونکہ اگر میں غلط راہوں پر نہیں میرا عمل غلط نہیں تو مجھے زندگی میں غلط کیوں ملے گا…؟ ضروریہ میری آزمائش ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گی۔
آپ کی کشف“
ض…ض…ض
”حیرت انگیز، انتہائی حیرت انگیز…!“ آفیسر نے میز پر دونوں ہاتھ سختی سے رکھتے ہوئے کہا۔ ”ان چاروں کے متاثرہ اعضا امریکا جا کر بھی بالآخر کاٹ دیے گئے ہیں، وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ اعضا بے جان ہو چکے تھے ان میں خون کی گردش باقی تھی نہ ہی نسوں کی کارکردگی۔“
”بیماری کی نوعیت کا کچھ علم ہوا کہ نہیں…“
”یہی تو حیرت انگیز بات ہے کہ بیماری کی بابت کچھ علم نہیں ہوا ایک یہی کیا ہمارے ہزاروں افسران جانے کس کس نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جن کا ذکر ہمارے ملک کی طبی معلوماتی کتابوں میں بھی نہیں ہے، ان کا علاج اور ان کی دوائیں سب سمجھ سے بالاتر ہیں۔
”کیا یہ بیماریاں نفسیاتی نوعیت کی ہیں…؟“
”کچھ فیصد نفسیاتی امراض بھی ہیں… لیکن زیادہ تر جسمانی امراض ہیں جس میں اعضا کا گل جانا یا ان کی ساخت میں تبدیلیاں واقع ہونا بسا اوقات تشنج جیسی کیفیات بھی ہوتی ہیں۔“
میرے خیال میں اس طویل اور لاحاصل جنگ کے باعث وطن سے ہزاروں میل دور اور ایک مشکل میدانِ جنگ میں ا یسا ناممکن نہیں… ہمارے فوجی موت اور شکست کے خوف سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور نفسیاتی امراض بلاشبہ جسم پر نمایاں اثرات چھوڑتے ہیں۔
”تمہاری طرح ہر ماہرِ نفسیات اسی نقطہ نظر سے ہی سوچے گا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب بیماریاں پُراسرار ہیں، اس میدانِ جنگ کی طرح اور یہاں کے باشندوں کی طرح… یہ لوگ کیسے بے خوف اور بے خطر لڑتے ہیں انہیں موت کی تو پروا ہی نہیں ہے، جانے کیسے پُراسرار لوگ ہیں یہ…؟“ آفیسر نے حیرت سے کہا۔
”اصل میں یہ سارا کمال ان کی برین واشنگ کا ہے… انہیں بتایا جاتا ہے کہ غیر مسلموں کو مارنا ہی جنت کو جانے والی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے… انہیں بتایا جاتا ہے کہ فقط ان کا مذہب دنیا میں سب سے بالاتر ہے اور انہیں ہر اس شخص کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے جو ان کے مذہب کا پیروکار نہیں۔
”یہ تو بہت خطرناک تربیت ہے… کیا ہر غیر مسلم قصور وار ہے اور یہ سب بے قصور…؟“ آفیسر نے سوال کیا۔
”کبھی کبھار میں اپنی حکومت کے فیصلے پر متردد ہوتا تھا کہ انہوں نے ہمیں کیسی جنگ میں جھونک دیا ہے لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ ہم ٹھیک ہے… ہماری حکومت ٹھیک ہے، ہمیں واقعی ان لوگوں کا قلع قمع کر دینا چاہیے جو ہمارے خلاف اتنا بغض رکھتے ہیں۔
”بالکل درست سر… اسی لیے تو یہ قومیں ترقی نہیں کرتیں کہ یہ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہ رہی ہیں، نہ ان کے پاس تعلیم ہے نہ شعور… ان کی سوچیں بھی منفی ہیں۔“
”میں اب انہیں یہ بتاؤں گا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں… اب ہمیں ان کو اپنی طاقت دکھانا ہو گی اور… بھرپور حملے کر کے ان کا نام و نشان مٹانا ہو گا…سارے جھنجھٹ اسی مذہب کی وجہ سے ہیں سو ہمیں اس مذہب کے نام لیواؤں کا خاتمہ کرنا ہو گا…“ آفیسر نے جوش اور جذبے سے میز پر مکا مارا۔
ض…ض…ض
”پیاری اماں…
زندگی کا ہر پل اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ آج مہینوں بعد تھوڑا سا وقت ملا ہے، ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی اب آپ کی کشف خود اتنی مصروف سڑکوں پر گاڑی دوڑاتی پھرتی ہے۔ میں سوچتی تھی گاڑی چلانا شروع کر دی تو پھر مہیر کا پیچھا کر سکوں گی کہ وہ کہاں کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا پھر رہا ہے لیکن میں تمام سوچوں سے بالا ہو گئی ہوں مجھے پروا ہی نہیں رہی مہیر کی… اس نے کون کون سا ظلم مجھ پر نہیں کیا۔
اب وہ گھر میں گاہے بہ گاہے فضول قسم کی لڑکیاں لے کر آتا ہے اور مجھے اس سے غرض نہیں رہی کہ وہ کیا کرتا پھر رہا ہے۔ میں نے گیارہویں جماعت کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے اور اب میں ٹیسٹ کی تیاری کر رہی ہوں۔ میرے اسکول کی طرف سے میرا نام تجویز کیا گیا ہے، مختلف یونیورسٹیوں میں اور کالجوں میں… میرے پرنسپل صاحب نے مجھے دفتر میں بلا کر شاباش دی اور کہا کہ وہ مجھ سے اتنی ذہانت کی توقع نہیں کر رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بن سکتی ہوں… سچ اماں میں تو خوشی سے تقربیاً پاگل ہو گئی تھی۔
مہیر جب شراب کے نشے میں دھت ہوتا ہے تو ایک قسم کا مہیر ہوتا ہے اور جب اس کا نشہ اترتا ہے تو وہ مجھ سے معافیاں مانگتا ہے۔ میں نے تو ایک دن غصے میں کہہ دیا کہ اب مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے، اس دن سے وہ کچھ اچھا بننے کی کوشش کر رہا ہے میں اس کے سب دھوکے سمجھنے لگی ہوں لیکن کشمکش میں اسی لیے ہوں کہ اسے سدھرنے کا موقع دوں… اسلامی مرکز کے انچارج پروفیسر اکرام اللہ خان بھی مجھے یہی کہتے ہیں کہ ابھی مجھے کوئی انتہائی اقدام نہیں اٹھانا چاہیے ابھی میرے قدم اس ملک میں جمے نہیں اور یوں بھی مجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
اسلامی مرکز میں میری بہت تکریم کی جاتی ہے حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے اور مجھے مرکز کی انتظامی کمیٹی میں بھی اہم ذمے داری سونپی گئی ہے۔ یہ سب باتیں میرے لیے تو قابل اعزاز ہیں لیکن ان سے رینی آنٹی یا مہیر کو کیا فرق پڑتا ہے اور کبیر انکل ان کا تو ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہی ہے۔
چند دن قبل طبیعت خراب ہوئی تو مجبوراً رینی آنٹی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی جو انکشاف اس ڈاکٹر نے کیا ہے اس نے تو میرے دل سے مہیر کی رہی سہی عزت بھی کم کر دی ہے، وہ اتنے عرصے سے مجھے وٹامن کے نام پر جو گولیاں کھلا رہا ہے وہ…! بس اماں میں تھک گئی ہوں… اب یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے جب میں نے رینی آنٹی کو بتایا تو وہ قطعی پریشان نہ ہوئیں کہنے لگیں میں جانتی ہوں مہیر کو اتنی جلدی باپ بننے کا کوئی شوق نہیں ہے چند سال وہ اپنی جیون ساتھی کے ساتھ تنہا گزار کر اسے اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے پھر وہ کوئی ذمے داری اٹھائے گا۔
میں تو چند ماہ میں ہی اسے پورے کا پورا سمجھ گئی ہوں۔ اسے چند سال کیوں درکار ہوں گے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے میں حوصلہ ہارنے لگی ہوں اماں…!
آپ کی کشف“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider