Episode 10 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 10 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

برآمدے میں قدموں کی آہٹ سن کر اس کے دماغ نے تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ تیزی سے اپنے بستے سمیت پرنسپل کی بڑی سی بھاری میز کے نیچے گھس گئی۔ اس نے اپنی سانس بھی روک لی تھی کوئی اندر آیا تھاآنے والے نے کوئی بتی نہیں جلائی تھی۔
اس نے کمرے سے ملحقہ باتھ روم کے کھلے دروازے سے اندر جھانکا تھا پھر اس نے کھڑکیوں کے پردے برابر کیے تھے۔
کمرے میں مزید اندھیرا ہو گیا تھا رومی کا ننھا سال دل لرز رہا تھا اب آنے والے کے قدم اسی میز کی طرف تھے جس کے نیچے رومی چھپی ہوئی تھی، رومی نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ کہیں اس کے منہ سے چیخ کی آواز نہ نکل آئے۔ وہ جو کوئی بھی تھا آ کر پرنسپل کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا رومی مزید سمیٹ گئی، کپڑوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ چوکیدار تھا خمیسو یا شعبان؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا دونوں کے یونیفارم کا رنگ ایک ہی تھا کرسی پر بیٹھے بیٹھے آنے والے نے دونوں طرف کی درازیں چیک کیں کہ وہ لاک تھیں پھر اٹھ کر کرسی کو گھسیٹ کر واپس میز کے ساتھ لگا دیا۔

(جاری ہے)

کمرے کی نیم تاریکی میں روشنی کا تاثر ابھرا اور پھر دروازہ بند ہو گیا رومی کے کانوں میں دروازے کے تالے میں چابی گھمانے کی آواز آئی اس نے سمٹی ہوئی ٹانگیں پھیلا لیں اور ہاتھ سے کرسی کو ہٹا کر وہ باہر نکلی پھر یہ سوچ کر دبکی رہی کہ کہیں وہ کمرے میں واپس نہ آ جائے۔ 
انتہائی کم عمر ہونے کے باوجود اسے علم تھا کہ اسے اس بند کمرے میں اس ملازم کی موجودگی میں خود کو چھپانا تھا کیونکہ ان کی استانیاں بھی انہیں بچوں کی معصومیت کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں اور اس کی مما بھی… مما کا خیال آتے ہی اسے یاد آیا کہ مما نے صبح ہی کہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہ ہو تو کال کر کے بتا دے مما پپا اسے آ کر لے جائیں گے اس سے قبل تو مما نے کتنی ضد کی تھی کہ وہ اسکول ہی نہ جائے وہ خود ہی ضد کر کے آ گئی تھی کیونکہ چھٹیوں سے قبل اسکول کا آخری دن اپنے اندر خوشگوار ہنگامے لیے ہوئے ہوتا تھا۔
استانیاں اس روز پڑھانے کے موڈ میں نہیں ہوتی تھیں، آپس میں کارڈ اور تحائف کا تبادلہ ہوتا، کلاس میں نظمیں اور گیت گائے جاتے وہ بھلا اس سارے لطف سے کیوں محروم رہتی اس لیے ضد کر کے وہ اسکول آئی تھی پپا نے بھی مما سے کہا تھا کہ اسے اسکول جانے دیں۔ گھر پر رہ کر اس کا موڈ خراب ہی رہے گا۔
###
خمیسو نے باقی کمروں کے دروازے بھی بند کیے اور پرنسپل کے دفتر کے علاوہ باقی چابیاں شعبان کے حوالے کر کے شعبان سے کہا وہ تیار ہو کر اسکول کے عقبی گیٹ کو بند کرتا ہوا نکل جائے گا۔
اس نے شعبان کو تاکید کی تھی کہ وہ خاص طور پر تمام استانیوں کے جانے کا انتظار کرے اور وائس پرنسپل کو یہ نہ بتائے کہ خمیسو اسکول خالی ہونے کا انتظار کیے بغیر چلا گیا ہے۔
”تم فکر ہی نہ کرو میں ان سے یہی کہوں گا کہ تم اسکول میں ہی ہو!“ شعبان نے اسے تسلی دی۔ ”تم نکلو تاکہ روشنی روشنی میں ہی گھر پہنچ جاؤ…“
”فوراً بھی نکلوں تو شام ہو جائے گی، تین تو بج رہے ہیں!“ خمیسو نے کہا۔
”ابھی تین کہاں بجے ہیں!“ شعبان نے ہنس کر کہا۔ ”اصل میں تو ابھی دو ہی بجے ہیں…“ خمیسو احسان مندی کے جذبے سے شعبان سے بغلگیر ہوا اور اسے کہا۔
”اپنا وعدہ یاد رکھنا شعبان لالہ!“
”کون سا وعدہ؟“ شعبان نے حیرت سے کہا۔
”مجھے دبئی بلانے کا…“ خمیسو نے ہنستے ہوئے کہا اور دونوں دوست بہ آواز بلند ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگانے لگے لیکن فوراً ہی کھسیا گئے کیوں کہ اسٹاف روم سے کچھ استانیاں نکل کر گروپ کی شکل میں ادھر ہی آ رہی تھیں خمیسو، شعبان سے ہاتھ ملا کر عمارت کی پچھلی جانب چل دیا۔
###
اپنی چیخوں کی آواز سے اسے خود بھی خوف آنے لگا۔ اس کی چیخوں سے اسے لگا چھپکلی اور بھی تیزی سے دیوار پر حرکت کر رہی تھی۔ اسے نقاہت بھی محسوس ہو رہی تھی اس نے اپنی چیخوں پر قابو پانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور بالکل ساکن ہو کر بیٹھ گئی۔ چھپکلی تیز رفتاری سے چھت کی طرف گئی اور پھر دیواروں ، دیواروں پر ہی گھومتی ہوئی بند کھڑکی کی طرف آئی۔
کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے وہ وہاں سے باہر نہ نکل سکی۔
وہ خوفزدہ نظروں سے اس کمرے میں تیزی سے حرکت کرتی چھپکلی کو دیکھ رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ اس نے ذرا سی بھی حرکت کی تو دیوار سے چپکی ہوئی چھپکلی اس پر آ گرے گی۔ اس کا ننھا سا ذہن کسی بھی قسم کی تدبیر لڑانے سے قاصر تھا اس میں یہ سوچنے کی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ اس چھپکلی کو مار سکتی ہے۔
اس کا حلق بھی خشک ہو رہا تھا مگر اس کی پانی والی بوتل خالی ہو چکی تھی اور واش بیسن کی پانی والی ٹونٹی یا لوٹا بھرنے والی ٹونٹی سے پانی پینے کو اس کی طبیعت ہی نہیں مان رہی تھی مسلسل موشن کی وجہ اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے اور کمزوری کی وجہ سے وہ خود کو اٹھنے کے قابل بھی نہیں پا رہی تھی۔
###
ثوبان نے جب اسکول کے باہر گاڑی روکی تو ساڑھے چار بج رہے تھے اسکول کے باہر گیٹ پر تالا پڑا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
تو گویا اسکول خالی ہو چکا تھا اس نے تھوڑی دیر سوچا اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑا تاکہ گھر جا کر ڈائری سے نمبر لے کر پرنسپل کو فون کر کے چیک کرے۔ راستے میں ہی اسے کوئی اور خیال آیا تو اس نے نتاشا کے گھر جانے کا راستہ اختیار کیا۔ کئی دفعہ وہ رومی کو نتاشا کے گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔
نتاشا اس وقت سو رہی تھی اس کے پپا نے رومی کے پپا کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود نتاشا کو جگانے چلے گئے۔
اتنی دیر میں ملازم ثوبان کے لیے تازہ پھلوں کا ٹھنڈا جوس لے کر آ گیا تھا، ٹھنڈا جوس بھی اس کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ نتاشا جب ڈرائنگ روم میں آئی تو معلوم ہو رہا تھا کہ وہ تھکی ہوئی بھی تھی اور گہری نیند سے جگائی گئی تھی اس کے بیٹھتے ہی ثوبان نے بے چینی سے پوچھا۔
”بیٹا! آپ کے علاوہ رومی کی اور کون سی سہیلیاں ہیں؟“ یہ تو اسے علم ہی ہو چکا تھا کہ رومی، نتاشا کے گھر پر نہیں تھی۔
”بس ہم دونوں ہی ہیں انکل! اور کوئی بھی نہیں ہے…!“ نتاشا نے وثوق سے کہا۔
”جب آپ اسکول سے آئیں تو رومی کہاں تھی اور کیا کر رہی تھی؟“ ثوبان نے سوال کیا۔
”ہم دونوں گیٹ کے نزدیک ہی بنچ پر بیٹھے تھے…“ نتاشا نے جیسے ذہن پر زور دے کر یاد کیا۔ ”وہ مجھے اپنے بیگ کے پاس بٹھا کر ٹوائلٹ گئی تھی اور پھر واپس آ گئی تھی جب میں نکلی تو وہ بنچ پر ہی بیٹھی تھی…“
”اور بچے بھی تھے کیا؟“ نتاشا کے پپا نے پوچھا۔
”بہت سے بچے تھے…“ نتاشا نے کہا۔
”اور ٹیچرز… پرنسپل؟“ ثوبان نے فوراً سوال داغا۔
”ٹیچرز بھی اسکول میں ہی تھیں… پرنسپل تو آج اسکول آئی ہی نہیں!“ نتاشا نے سادگی سے کہا۔
”نعیم صاحب!“ ثوبان نے نتاشا کے پپا سے کہا۔ ”آپ براہِ کرم مجھے وائس پرنسپل کا نمبر دے سکتے ہیں؟“
”کیوں نہیں…! بلکہ آپ ریلیکس رہیں اور یہیں سے فون کر لیں۔
“ نعیم نے کہا۔ اسی وقت ثوبان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اس نے فوراً جیب سے موبائل نکالا اور اس کی اسکرین پر جگمگانے والے نام کو دیکھ کر بے چینی میں مبتلا ہو گیا۔
###
رومی کو جب یقین ہو گیا کہ اب کمرے میں کوئی آنے والا نہیں ہے تو وہ میز کے نیچے سے نکلی، باہر نکل کر اپنا بستہ بھی باہر کھینچا اور نیم تاریکی میں باتھ روم کے دروازے سے آنے والی روشنی کی مدد سے اس طرف چلی۔
بستہ اس نے کندھے پر ڈال رکھا تھا اسی طرح باتھ روم میں گئی اور شکر کیا کہ باتھ روم صاف تھا فرش خشک تھا اور ٹوائلٹ سیٹ بھی اسکول ٹوائلٹ کی نسبت صاف تھی، ٹوائلٹ رول بھی تھا اور لوٹے میں پانی بھرا رکھا تھا اگرچہ اسے لوٹے کے استعمال کی عادت نہ تھی کیونکہ اس کے گھر میں مسلم شاور لگا ہوا تھا۔ باتھ روم کی ظاہری حالت سے مطمئن ہو کر وہ اندر داخل ہوئی۔
دروازے پر اوپر یا نیچے کوئی بولٹ نہ تھا صرف ایک تالا تھا جو دروازے کے درمیان میں تھا اس نے لیور گھما کر تالا پورا زور لگا کر بند کیا انتہائی ضبط کی وجہ سے اس کو پسینہ بھی آ رہا تھا اس نے اپنا بستہ فلش کی ٹنکی کے اوپر رکھا اور فطری تقاضے سے مجبور ہو کر فوراً بیٹھ گئی لوٹے کو استعمال کرتے وقت اس نے آدھا پانی فرش پر بھی گرایا اور کچھ اپنے اوپر بھی۔
فلش کر کے اس نے اپنا حلیہ درست کیا اور پھر ٹوائلٹ پیپر کی مدد سے پہلے فرش اور پھر ٹوائلٹ سیٹ کو اپنی عادت کے مطابق خشک کیا واش بیسن کی ٹونٹی سے پانی قطروں کی صورت آ رہا تھا تاہم اس نے کچھ لوٹے والے پانی اور کچھ اسی قطرہ قطرہ پانی کی مدد سے ہاتھ صابن سے دھوئے، اپنے بستے سے بوتل نکال کر اس نے منہ لگا کر پانی پیا۔ بوتل کے وزن سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسمیں تھوڑا ہی پانی بچا تھا اس کے جسم کا کچھ پانی تو دستوں کی صورت میں ضائع ہو چکا تھا اور کچھ پسینے سے بہہ رہا تھا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider