Episode 21 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 21 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”ہے۔۔۔۔کالج کا ٹرپ جا رہا ہے مری اور بھوربن۔۔۔۔تین دن کا قیام ہے۔۔۔“طلال بتا رہا تھا۔
”سو بورنگ۔۔۔“میں نے ناک چڑھائی۔۔۔۔”ہر سال وہی گھسے پٹے ٹرپ وہی دیکھی بھالی جگہیں۔۔۔۔میں تو نہیں جا رہی۔۔۔“
”کم آن یار ۔۔۔۔“فیض نے میری منت کی۔ ”یوں تو نہ کرو۔۔۔۔چلو اکٹھے انجوائے کریں گے۔“
”مجھے انجوائے کرنے کے لیے اتنا دور جانے کی ضرورت نہیں۔
۔۔“میں نے بے زاری سے کہا۔” کوئی بھی نہ جاؤ یہیں کوئی پروگرام بنا کر انجوائے کر لیتے ہیں۔“
”یہاں وہ مزہ نہیں آتا۔۔۔“علی نے چپک کر بیٹھی روحا نے کہا۔”دن کو جو مرضی کرو رات کو گھر تو جانا ہوتا ہے۔“
”مان جاؤنا صوفی۔۔۔!“ سب مجھے منانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں اپنی ضد سے ایک انچ نہیں ہٹ رہی تھی سب کے تھوبڑے سوج گئے تھے۔

(جاری ہے)

”میرے ساتھ تو تم کبھی ٹرپ پر نہیں گئیں ناں۔۔۔۔!“ چنگیز نے کہا۔
”میری خاطر چلو۔۔۔“ اس کے الفاظ میں تو کچھ نیا نہیں تھا مگر اس کی نظر میں جانے کیا تھا کہ میں نے مسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور اقرار میں سر ہلایا تو ہرا کا بلند نعرہ کاریڈور میں گونج اٹھا۔
”تھینک یو۔۔۔!“ چنگیز نے جھک کر میرے کان میں سرگوشی کی۔
سیماب ،فیض کے گھٹنے پر سر رکھے نیم دراز تھی۔
”سرگوشیاں نہیں چلیں گی دوستو۔۔۔“ سیماب نے احتجاج کیا۔
”ہر بات سب کے سامنے کرنے کی نہیں ہوتی۔۔۔“ چنگیز نے مسکرا کر کہا۔
”یہ فاؤل ہے۔“ روحا چلائی۔”ہمیں بتاؤ چنگیز نے کیا کہا ہے۔
”پاگلو۔۔!بالکل پاگل ہو رہے ہو۔۔۔“ چنگیز ہنسا۔”میں نے تو صرف تھینک یو کہا تھا۔“
”جھوٹ چٹا سفید جھوٹ۔
۔۔۔“فیض نے کہا۔
”ایمان سے۔۔۔“ چنگیز نے کہا۔”صوفی کی قسم۔۔۔“ اس پر میرا بلش کر جانا بالکل قدرتی تھا۔
”ویسے ہے بڑا بورنگ، اتنی سردی میں اور بھوربن جانا۔۔۔“میں نے کہا۔
”بہت مزہ آئے گا۔۔۔“علی نے کہا۔
”تین دن کا دن رات کا ساتھ ہم بہت سے گیمز ساتھ لے کر جائیں گے اور کھانے پینے کی چیزیں۔۔۔۔ خوب مزہ کریں گے۔
”کالج ٹرپ کی پابندیوں میں مزہ کیا آئے گا۔۔۔۔کبھی اپنا علیحدہ ٹرپ پلان کریں گے۔“ طلال نے کہا۔
”ہم جائیں گے کالج ٹرپ کے ساتھ مگر یوں جائیں گے جیسے ہم علیحدہ ہی جا رہے ہیں۔“ علی نے مشورہ دیا۔
”کیا اپنی گاڑیوں پر۔۔۔؟“ روحا نے سوال کیا۔
”ارے نہیں ۔۔۔۔ بس دیکھتی جاؤ تم لوگ کہ ہم کس طرح اس ٹرپ کو یادگار بنا دیں گے۔
۔۔“علی نے چٹکی بجا کر کہا۔
###
ہم چار لڑکیوں کو ایک کمرا ملا جبکہ ہمارے دوستوں نے بھی ایک کمرہ لیا اگرچہ کمرا ہمارے کمرے سے کافی دور تھا اساتذہ بھی ٹرپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور بھوربن پہنچ کر ہوٹل کے ہال پر چائے پر جمع ہوئے تو ٹرپ کے ساتھ سنیئر ٹیچر نے ہمیں ضابطہ اخلاق اور احتیاطی تدابیر وغیرہ سمجھا دی تھی۔
”کوئی اکیلا کہیں نہیں جائے ‘ بڑے گروپوں میں نکلیں۔
جنگل کی طرف کوئی بھی نہ جائے،بے شک بڑا گروپ ہو،کسی سے لے کر کوئی چیز نہ کھائیں،گھومنے پھرنے نکلیں مگر غروب آفتاب تک ضرور واپس آ جائیں۔اپنی شرارتوں سے کسی کا نقصان نہ کریں۔کسی سے لفٹ نہیں لیں اور خصوصاََ لڑکیاں،اکیلی لڑکیاں ہوٹل میں بھی احتیاط کریں۔سونے سے قبل اپنے کمرے کے دروازے اندر سے اچھی طرح لاک اور بولٹ کر لیں۔“
ہم ہر سال کی طرح سنتے اور دوسرے کان سے اڑاتے رہے کیونکہ ساری ہدایات کے باوجود ہماری شرارتیں اور مہم جوئی ہوتی رہتی تھی۔
چائے کے بعد سب نے اپنا اپنا سامان کمروں میں سیٹ کیا، ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ہم ہوٹل کے سنوکر روم میں جمع ہو گئے اور کھیل کے ساتھ ساتھ اپنے اگلے پروگرام ترتیب دینے لگے۔
رات کو ہم پورا گروپ اور ہمارے اور بھی بہت سے کلاس فیلوز ڈانس فلور پر بانہوں میں بانہیں ڈالے تھرک رہے تھے،جذبات میں تلاطم اور اجسام میں حرکت لیے ایک دوسرے کے وجود کو محسوس کرتے علی اور روحا کچھ زیادہ ہی بے باکی کا مظاہرہ کر رہے تھے پھر ہم نے فیض اور سیماب کو ہال سے بانہوں میں بانہیں ڈالے باہر نکلتے دیکھا۔
چنگیز کی بانہوں کا حلقہ میرے گرد کافی تنگ ہو گیا تھا،آخری گانے پر ہم ہولے ہولے ہلکورے لیتے ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھے‘ میوزک بند ہو گیا تھا اور جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔
ہماری کلاس میں ایسی پارٹیاں اور گیٹ ٹو گیدر ہوتی رہتی ہیں اس لیے ہم انہیں معیوب نہیں سمجھتے تھے چنگیز ابھی تک مجھے بانہوں کے حلقے میں لیے ہوئے تھا۔
”ڈانس ختم ہو چکا ہے چنگیز۔۔۔“
”مگر میرا دل تو ابھی تمہاری قربت سے بھرا نہیں۔۔۔۔“ چنگیز نے مخمور لہجے میں کہا۔
”لگتا ہے نشے میں ہو۔۔۔۔“ میں ہنسی۔
”ہاں ، نشہ ہی تو ہے تمہارے ساتھ کا۔۔۔۔“ چنگیز نے مجھے بانہوں میں بھینچ لیا کسی کی توجہ ہم پر نہ تھی کیونکہ ارد گرد سب اسی طرح کے مناظر تھے۔ علی اور روحا سب سے بے نیاز بے تکلفی سے سر عام ۔
۔۔۔ رات دیر سے ہم اپنے اپنے کمروں میں لوٹے اور آنکھوں میں سہانے سپنے بسائے سو گئے۔ میں بھی خوابوں اور خیالوں میں چنگیز کے ہمراہ رہی تھی اس کے لمس کی یاد ہی میرے دل کی دھڑکنوں کو بے قابو کیے دے رہی تھی لگتا تھا کہ چنگیز نہ ہو تو شاید جینا بھی مشکل لگنے لگے گا۔
###
جمال کے گھر سے رشتہ آیا تو غیر متوقع نہ تھا،مما نے مجھے رشتے کی بابت بتایا تو میری رائے بھی اس بارے میں پوچھی۔
”سوچ سمجھ لو۔۔۔۔پھر جواب دینا۔۔۔“ میرے والدین بہت روشن خیال ہیں اور ان کے ہمارے ساتھ تعلقات بہت دوستانہ ہیں۔”کوئی جلدی نہیں تم جمال سے ملو دو چار دفعہ۔اس سے بات چیت کرو ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرو اور پھر تمہیں جمال اچھا لگنے لگے تو بتانا۔۔۔“
”مما۔۔۔!“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”اگر آپ کو اور پپا کو ٹھیک لگتا ہے تو۔
۔۔“
”میری جان۔۔۔“مما نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
”مجھے پتا ہے میرا بیٹا ہم پر اعتماد کرتا ہے اور تم تو میرے لیے یوں بھی بہت خاص ہو۔۔۔۔میرے خوابوں کی تعبیر۔۔۔!“
”آئی لو یو مما۔۔۔۔“میں نے مما کے گال کا بوسہ لیا۔
”آئی لو یو ٹو جان۔۔۔“ مما نے مجھے پیار کیا۔”لیکن بیٹا تم سمجھ دار ہو‘ عاقل اور بالغ ہو، مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھتی رہی ہو۔
۔۔۔بسا اوقات بچوں کی آپس میں پسندیدگی پروان چڑھتی ہے۔“
”نو مما۔۔۔“میں نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا۔
”کلاس فیلو تو دوست ہوتے ہیں اور ہم انہیں اس نظر سے کب دیکھتے ہیں۔۔۔؟ زندگی بھرکی رفاقت کے لیے ہمیشہ ماں باپ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔“
”مجھے تم پر فخر ہے بیٹا۔۔۔“مما نے کہا۔۔۔”پھر بھی جب تک ہم جمال کے گھر والوں کو جواب نہیں دیتے تم سوچ لو۔
۔۔“مما تو یہ کہہ کر میرے کمرے سے نکل گئیں اور میری آنکھیں جمال کے سپنے بننے لگیں۔۔۔۔کسی بھی لمحے کوئی بھولی بسری یاد بھی مجھے اس کی نہ آئی جس کے ساتھ کبھی میں نے دل کی دھڑکنوں کو بے ربط ہوتے محسوس کیا تھا۔
# # #
”آج کوئی مزیدار سا ایڈونچر نہ کیا جائے۔۔۔“ علی نے ڈائننگ روم میں ناشتا کرتے ہوئے شوشا چھوڑا۔
”مثلاََ۔
۔۔۔؟ “ میں نے ابرواچکائے۔
”بہت کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔۔“علی نے کہا۔”صرف ہم آٹھ ہوں گے اور کچھ مختلف سا۔۔۔۔“
”کچھ وضاحت تو کرو۔۔۔؟ “ علینہ نے چڑ کر کہا۔علی کو یونہی تہمید باندھ کر بات بے بات تجسس بڑھانے کی عادت تھی۔
”چلو تم سب اپنا اپنا آئیڈیا پیش کرو۔۔۔دیکھتے ہیں کس کے آئیڈیے میں جان ہے۔“ علی نے کہا اور ہم سب دل ہی دل میں کچھ نہ کچھ سوچنے لگے۔
”یہاں پر تو میرے دماغ پر بھی برف جمع ہو گئی ہے،اس لیے اس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔“ روحا نے کہا۔
”ہیں۔۔۔۔؟“ علی نے اداکاری کی۔”کیوں جھوٹ بولتی ہو روحا۔۔۔تمہارے پاس دماغ ہے ہی کب۔۔۔“ ہم سب کی ہنسی نکل گئی۔
”ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔“ روحا بھی حاضر جواب تھی۔”دماغ ہوتا تو تمہارے ساتھ۔۔۔۔“ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”کیا میرے ساتھ۔۔۔؟“ علی نے اس کی طرف قدرے جھک کر کہا وہ بلش کر گئی۔
”کچھ نہیں۔۔۔!“ اس نے کہہ کر چہرہ باہر کی طرف کر لیا گویا باہر کا نظارہ کر رہی ہو۔
”مال روڈ پر گھومنے چلتے ہیں کہیں سے تکے کباب لے کر کھاتے ہیں۔“ طلال نے کہا تو علی فوراََ ہنس دیا۔
”پہلوان جی کبھی کھانے پینے کے علاوہ بھی کوئی آئیڈیا دے دیا کرو۔
۔۔“ علی نے اس کی بھاری جسامت پر صاف چوٹ کی۔
” چلو جنگل کی طرف نکل کر آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔۔۔“ فیض نے خیال پیش کیا۔
”اور کوئی درندہ جنگل سے نکل آیا تو اس سے آنکھ مچولی کھیلنا پڑے گی۔“ علینہ نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔۔۔” ویسے بھی سر نے خاص طور پر جنگل کی طرف جانے سے منع کیا ہے۔“
”باہر برف کی اتنی دبیز تہ ہے۔۔۔“ میں نے کپکپانے کی اداکاری کی۔
۔۔۔” میں تو ایسے ہی باہر نہیں نکل سکتی۔“
”تو پھر ہوٹل کے کاریڈور میں بیٹھ کر لڈو کھیلتے ہیں۔“
”یہ تو بہت بورنگ آئیڈیا ہے۔“ روحا نے منہ بنایا۔
”تمہارے جیسے تھکے ہوئے دوستوں کے ہمراہ تو شاید یہ بھی نہ ہو سکے۔۔۔“ علی بسورا۔
”تم کیا سوچ رہے ہو چنگیز۔۔۔؟“ سیماب نے خاموش بیٹھے چنگیز کو مخاطب کیا۔ ”کچھ بول نہیں رہے۔
”تم بھی تو اس وقت سے اب بولی ہو۔۔۔“چنگیز نے مسکرا کر کہا۔۔۔”میں تمہارے بولنے کا ہی انتظار کر رہا تھا۔“
”اوہو بھئی۔۔۔۔!“ علی نے سیٹی بجائی۔” تم نے صوفیہ سمجھ کر اس طرح بات کی ہے یا پھر دونوں پٹا رکھی ہیں۔“
”بکواس بند کرو تم۔۔۔۔!“ چنگیز خان نے علی کو ڈانٹا۔” ہر وقت دماغ پر جانے کیا کیڑا سوار رہتا ہے تمہارے۔
”میرا خیال ہے کہ ہم مطلب کی بات سے ہٹ رہے ہیں۔۔۔“ روحا نے علی کے ہاتھ پر طمانچہ مارا۔
”میرے پاس ایک اچھوتا آئیڈیا ہے مگر۔۔۔“ چنگیز رکا۔
”کیا۔۔۔۔کیا ہے۔۔۔۔جلدی بولو۔۔۔“ ہم سب نے بے چینی سے پوچھا۔
”ذرا سا مشکل کام ہے۔۔۔“ چنگیز نے بھر پور تجسس پھیلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا نہ بتاؤ۔۔۔“ میں نے منہ پھلا یا۔
”کم آن۔۔۔۔“ اس نے میرا ہاتھ تھاما۔۔۔”تم ناراض نہیں ہو‘ بتاتا ہوں۔۔۔۔مگر اس کے لیے ہم سب کو مل کر اداکاری کرنا ہو گی۔“
”ہم سب تیار ہیں۔۔۔۔!“ سب نے ہم آواز ہو کر کہا۔۔۔۔”جلدی بتاؤ۔“ میرا ہاتھ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ ہمیں ترکیب بتا رہا تھا جس سے ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider