Episode 59 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 59 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

سرمد جو معمولی سے فلو کا شکار ہوا تھا، اسے کھانسی اور بخار بھی ہو گیا او ر وہ ایک کی بجائے کئی دن کے لئے بستر پر پڑ گیا، چونکہ خالہ اس کی خیریت پوچھنے کمرے میں آتی رہتیں،کبھی اسے قہوے بنا کر پلاتیں اور کبھی دیسی چوزے کی یخنی… اس لئے میں تکلیف دہ صورت حال میں پھنس گئی، وہ بستر پر قابض تھا اور وہیں سو جاتا اور میں لائبریری والے صوفے پر، جو کہ اس بیڈ پر سونے کے بعد بہت غیر آرام دہ لگتا تھا…سرمد بھی تو کتنے دنوں سے اس پر سو رہا تھا اور اس کے آرام دہ بیڈپر میں قابض تھی- ایک لمحے کو مجھے اس شخص پر رحم آیا جو اس وقت معصومیت سے سو رہا تھا او ر بخار کی حدت سے اس کا سیاہ چہرہ میرون ہو رہا تھا، اس کی رنگت صاف ہوتی تو یہی چہرہ لال ہوتا-
اس کے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے مجھے وہی کراہت سی ہونے لگی-
میں نے اپنے صوفے والے بستر پر آ کر فیس بک کھولی… باقی تصویریں اورتبصرے چیک کرنے کے بعد میں نے پیغامات کھولے-
” یوں آدھے میں گفتگو چھوڑ کر جانا اچھا نہیں ہوتا، کوئی سولی پر ٹنگارہ جاتا ہے! “
” ٹنگا رہے کوئی جو ٹنگنا چاہتا ہے، میں نے کسی سے کہا ہے کہ میں اسے ضرورہر پیغام کا جواب دوں گی؟“ میں نے غصے والی شکل کے ساتھ پیغام بھیجا-
” ناراض ہو گئی ہو کیا؟ “ پیغام آیا-
” ناراض ہونے کے لئے کسی رشتے اور تعلق کی ضرورت ہوتی ہے… میرا تم سے کیا رشتہ ہے؟ “
” میرا تم سے کیا رشتہ ہے ؟ اچھا سوال ہے… دل کے تعلق کو کوئی نام دینا ضروری ہوتا ہے کیا؟ “ سوال آیا ، ” نتالیہ… “ سرمد کی آواز آئی، میں چونکی، وہ بخار میں بھی مجھے پکار رہا تھا، میرا دل کانپنے لگا-
” میں سونے لگی ہوں … “ پیغام بھیج کر میں نے sign out کیا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی، جی میں آیا بھی کہ اٹھ کر جا کر سرمد کو دیکھوں ،کہیں اس کا کمبل ہٹا ہوا نہ ہو، اسے کسی چیزکی ضرورت نہ ہو، مگر حقارت کا احساس ہر احساس پر غالب آ گیا اور میں سو گئی-
ض…ض…ض
خدا خدا کر کے سرمد کا بخار ٹوٹا اور وہ صحت یاب ہو کر دفتر جانا شروع ہوا، میں نے شکر کیا کہ اب دن میں کئی بار اس کا چہرہ دیکھنے سے نجات مل جائے گی- خالہ اب اصرار کر رہی تھیں کہ ہمیں اماں کی طرف جانا چاہئے… سرمد نے بھی خالہ کی بات کی تائید کی- اسی بات کو میں ماننا نہیں چاہتی تھی کہ اماں میری سرمد سے بے نیازی اور لا تعلقی کو فوراً جان جائیں گی اور خوب لعنت ملامت کریں گی… جب تک میں اپنے لئے کوئی محفوظ راستہ نہ چن لیتی مجھے اماں کو اس بات سے بے خبر رکھنا تھا کہ ہمارے مابین کوئی تعلق سرے سے تھا ہی نہیں… نکاح کے تین بولوں کے علاوہ… کچھ اداکاری کر لوں گی اور کچھ… مجھے ایک ترکیب سوجھ گئی-
” عائشہ میں اور سرمد دو دن کے لئے اماں کی طرف جا رہے ہیں ، تم اور ذاکر بھی آ جاتے تو مجھے اور سرمد کو کمپنی مل جاتی… “ میں نے عائشہ کو فون پر کہا-
” ارے مجھے بہت اچھا لگا یہ سن کر… “ عائشہ نے چہک کر کہا، ” سچ پوچھو تو میرا دل خوشی سے بے تاب ہو رہا ہے، تمہیں اور سرمد کو اکٹھے اور خوش دیکھنا بھی میرے لئے عمر کا ایک بہترین تجربہ ہو گا…“ میں نے فون بند کیا اور آنکھیں موند لیں… کتنی خوش ہو رہی ہے عائشہ، جو حقیقت جانتی ہوتی تو اس وقت مجھے ملامت کر رہی ہوتی-
میں نے اپنا دو دن کا سامان پیک کیا اور بابا اور خالہ سے اجازت لے کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر سرمد کے ساتھ بیٹھ گئی- 
” کچھ لے لیں تمہاری اماں کے گھر کے لئے؟ “ سرمد نے سامنے دیکھتے ہوئے سوال کیا-
” کیا لینا ہے؟ “ میں نے روکھے انداز میں کہا، ” کوئی ضرورت نہیں ہے ! “
” ہم پہلی بار ان کے گھر جا رہے ہیں… “
” میں اسی گھر سے آئی ہوئی ہوں اور بتیس سال تک وہیں رہتی رہی ہوں … “ میں نے اسی طرح بے نیازی سے کہا-
” میں تو وہاں پہلی بار جا رہا ہوں اس گھر میں اور وہ بھی بیٹے کی حیثیت سے “ سرمد نے کہا، تو میں نے دل ہی دل میں سوچا، شاید آخری بار بھی-
” اماں کو دامادوں کا کچھ لے کر آنا پسند نہیں… “ اس نے ایک پھل کی دکان کے سامنے گاڑی روکی تو میں نے اسے روکنا چاہا-
” اور مجھے کہیں بھی خالی ہاتھ جانا پسند نہیں… “ کہہ کر وہ گاڑ ی سے اتر گیا، میں نے گاڑی اندر سے لاک کر لی، بیگ سے فون نکالا اور یوں ہی اسے دیکھنے لگی-
” تم نے بتایا بھی نہیں کہ تم نے اس appکو downloadکر لیا ہے… “ نئے انداز سے پیغام تھا-
” تمہیں کیسے علم ہوا؟ “ میں نے حیرت سے پوچھا-
” تم میرے facebook پر ہو تو جب تم نے اس کو download کیا تو مجھے خود بخود نوٹیفیکیشن آگیا کہ میری دوست بھی اس app پر آگئی ہے… “
” ہوں دوست… “ میں نے جواب دیا-
” فیس بک کے سبھی contactsدوست ہی کہلاتے ہیں، چاہے وہ باپ بیٹی بھی ہوں … ہے نا سٹوپڈ بات… ؟ “ پیغام کے ساتھ اس نے مسکراتا ہوا چہرا بھیجا-
” ہاں ہے تو … “ میں نے اس کی تائید کی-
” اور کیا ہو رہا ہے اور کہاں ہے تمہارا beast ؟ “
” شرم کرو… “ میں نے اسے پیغام بھیجا مگر اس ” خوبصورت“ تشبیہ پر میری ہنسی نکل گئی-
” کچھ غلط کہہ دیا میں نے beauty؟ “ شکر ہے کہ وہ مجھے دیکھ نہ رہا تھا جو میرا بلش ہوتا ہوا چہرہ نہ دیکھ سکا-
” یہ نیڈی کیا نام ہوا؟ “ میں نے سوال کیا-
” بہت زیادہ سوال کرتی ہو… جان من تم کمال کرتی ہو… “ اس نے کہا تو میں نے فون آف کر دیا، میرا دل عجیب انداز میں دھڑکنے لگا- کچھ غلط ہو رہا تھا، جانے کون تھا جو مجھے بے راہ روی کی طرف لے جا رہا تھا اور اس وقت کہاں تھا جب اماں رشتے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نڈھال ہو رہی تھیں اور پھر مجھے اس کلوٹے کے پلے باندھ دیا… چلو اب بھی مل جائے تو بر اکیا، میں نے اپنے ذہن میں آنے والی منفی سوچ پر خود کو داد دی-
سرمد پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ اور پھلوں کی ٹوکریاں اٹھائے ہوئے لڑکوں کے ساتھ دکان سے نکلا، میں نے دروازہ کھولا جو میں نے اندر رسے لاک کر لیا تھا، سامان گاڑی میں رکھوا کر سرمد نے اس لڑکے کو کچھ ٹپ دی اور وہ اسے سلام کر کے چلا گیا- گاڑی میں سیٹ سنبھال کر اس نے ایک لال گلاب میری طرف بڑھایا، میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا… ” مجھے اچھا لگا، میں نے سوچا تمہیں پسند آ ئے گا! “ میں نے خاموشی سے پھول پکڑ لیا اور بصد کوشش شکریہ کہہ کر اپنی ہیرے کی قیمتی انگوٹھی کو انگلیوں میں گھمانے لگی-
ض…ض…ض
اماں تو داماد کے صدقے واری جا رہی تھیں… ان کا سب سے چھوٹا داماد اور پہلی بار ان کے ہاں آیا تھا، خوب ہی خاطر تواضع ہو رہی تھی- ذاکر اور سرمد گپیں لگا رہے تھے، عائشہ اماں کے ساتھ مسلسل کھانے کی تیاریوں میں تھی، میں بھی کچن میں ہی چلی گئی-
” تم نے سرمد کو منع نہیں کیا بیٹا، اتنا پھل خواہ مخواہ لے آیا… مجھے دامادو ں کا یوں آنا اچھا نہیں لگتا… “ 
” جی کہا تھا میں نے اسے … کہنے لگا کہ اسے خالی ہاتھ کسی کے ہاں جانا پسند نہیں اور وہ بھی بیٹا ہو کر … “ مجھے اس کے احمقانہ الفاظ پر ہنسی بھی آئی، جہاں کی بیٹی اسے لفٹ نہیں کروا رہی تھی وہاں وہ زبردستی بیٹا بنا پھرتا تھا، اگر دلہن وہ ہوتی ہے جو پیا من بھائے تو دولہا بھی تو وہی ہونا چاہئے نا جو دلہن کے من کو بھائے … 
” یہ تم بات کیسے کر رہی ہو؟ “ اماں نے تیوری چڑھا کر مجھے گھورا، میں نے حیرت سے انہیں دیکھا، کیا میں باآواز سوچ رہی تھی-
” کیوں کیا ہوا ہے؟ “
” یہ کیا بات ہوئی،” اسے“ … اور” کہنے لگا“ …” انہیں “کہہ کر بات کرو اور ”کہنے لگے“ … اماں نے غصے سے کہا تو میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ نکل گیا… ” شوہر کی عزت عورت پر فرض ہے! “
” پہلے میں اسے شوہر تو تسلیم کر لوں اماں … “ میرے منہ سے بات پھسل ہی گئی-
” کیا… کیا کہا تم نے؟ “ اماں چمچہ چھوڑ کر میرے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں، ” ہزار لوگوں کی موجودگی میں نکاح نامے پر دستخط کر کے تم نے اسے شوہر ہی تو تسلیم کیا تھا… اور شوہر کو کس طرح تسلیم کرتے ہیں؟ “ اماں کی ناراضی کے ڈر سے میں نے پینترا بدلا-
” مذاق کر رہی تھی اماں … “ فون پر پیغام کی بیپ سنائی دی، میں نے پرس سے فون نکالا تو سکرین پر جگمگا رہا تھا… 
” بھاگ کیوں جاتی ہو جانم؟ “ میں نے فوراً میسج deleteکیا اور فون بند کر کے کچن سے باہر نکل آئی، ذاکر تنہا بیٹھا تھا، سرمد نماز کے لئے میرے کمرے میں گیا تھا-
” نتالیہ… جاؤ جا کر اپنے شوہر کو دیکھو، اسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو! “ ذاکر کا لہجہ سادہ تھا-
” کیا ہو گیا ہے تم سب لوگوں کو ذاکر… شوہر شوہر کی رٹ لگا رکھی ہے… “ میں نے چڑ کر ٹیلی وژن کا ریموٹ کنٹرول اٹھا کر آواز اونچی کر دی، ذاکر حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا-

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider