Episode 13 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 13 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

ثوبان لرزتے قدموں سے آگے بڑھا اس کی چشم تصور اپنی بیٹی رومی کو جس حالت میں دیکھ رہی تھی وہ سوہان روح تھا، اسے لگا کہ وہ جو قدم آگے رکھ رہا ہے وہ پیچھے کی طرف آ رہا ہے اس کے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے پھر بھی وہ خورشید کے کمرے کے دروازے کے وسط تک پہنچ گیا اندر استری اسٹینڈ پر رومی کا بلاؤز پھیلا ہوا تھا… کمرے میں ایسا کچھ نہ تھا جو وہ سوچ رہا تھا۔

ایک چارپائی، ایک میز، ایک کرسی اور ایک استری اسٹینڈ… میز پر فقط ایک لیمپ اور قرآن مجید تھا اور ایک کونے میں ٹرنک پر کروشیے کا بنا ہوا رومال ڈال کر اس پر ریڈیو رکھا تھا اور ریڈیو پر بھی جھالروں والا رومال تھا۔ ریڈیو پر فلمی گانے ہلکی آواز میں لگے ہوئے تھے ثوبان کو لگا کہ اس کا جسم بالکل ہلکا ہو گیا ہو، اپنی معصوم بچی کو اس کمرے میں دیکھتا تو شاید وہ صدمے سے مر ہی جاتا تبھی گیٹ پر لگی ہوئی اطلائی گھنٹی کی آواز آئی تو وہ چونکا اور خورشید کے کواٹر سے نکل کر گیٹ کی طرف چلا۔

(جاری ہے)

وہ سمجھا کہ خورشید واپس آیا ہو گا، اپنے دھیان میں گیٹ کھولا اور سامنے صائمہ کی امی کے ڈرائیور توفیق کو دیکھ کر یوں چونکا جیسے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔ ”کیوں آئے ہو… توفیق؟“ اس کے منہ سے اچانک پھسلا۔
”رومی بی بی کو لینے آیا ہوں جی!“ اس نے مسکرا کر اپنے دانتوں کی نمائش کی۔ ”صائمہ بی بی نے کہا میں جا کر اسے لے آؤں۔“
”وہ… وہ تو گھر پر نہیں ہے۔
“ ثوبان بے دھیانی میں بولا۔
”تو کہاں ہے جی؟“ توفیق نے پھر سوال کیا
”وہ اپنی سہیلی کے گھر گئی ہے۔“ ثوبان کویکلخت جواب سوجھا۔ ”تم جاؤ میں خود ہی اسے لے کر آ جاؤں گا۔“ توفیق واپس اپنی گاڑی میں جا بیٹھا اسے دور سے خورشید آتا دکھائی دیا۔ اس نے گاڑی لے جا کر خورشید کے بالکل قریب روکی، دونوں بڑے تپاک سے ایک دوسرے سے ملے، توفیق نے خورشید سے پوچھا کہ اتنی بوتلیں کس لیے لے کر جا رہا ہے۔
”صاحب کے کوئی مہمان آنے والے ہیں!“ خورشید نے مختصراً کہا۔
”کوئی خاص مہمان لگتے ہیں یار؟“ توفیق نے آنکھ دبا کر کہا خورشید خاموش رہا اسے عادت ہی نہیں تھی یوں غیر ضروری باتوں کی ٹوہ لینے کی جبکہ توفیق نہ صرف ایسی باتوں میں متجسس رہتا تھا بلکہ قیافے لگانے میں بھی ماہر تھا۔
”بیگم صاحبہ اور صاحب کی کوئی جھڑپ ہوئی ہے کیا؟“ توفیق نے پھر پوچھا۔
”نہیں تو…!“ خورشید نے وثوق سے کہا۔ ”صبح تو دونوں خوش خوش تھے پھر صاحب، بیگم صاحب کو خود اسپتال لے کر گئے۔“
”تو پھر ثوبان صاحب نے اپنا بیٹا بھی نہیں دیکھا اور رومی بی بی کو بھی اسپتال نہیں بھیج رہے۔“ توفیق نے جیسے خورشید کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”ماشاء اللہ بیٹا ہوا ہے بیگم صاحب کے ہاں، اللہ صحت والا کرے۔“ خورشید نے خلوص سے کہا۔
”رومی بیٹا تو گھر پر نہیں ہیں میں تو یہی سمجھا کہ وہ اپنی دادو کے ہاں ہوں گی۔“
”مجھے تو لگتا ہے کوئی گڑ بڑ ہے؟“ توفیق نے پھر آنکھ میچ کر کہا۔
###
”مما… پپا…“ وہ زیرلب بڑبڑا رہی تھی۔
”اللہ میاں!“ وہ پھر فریادی ہوئی۔ ”کسی کو میری مدد کے لیے بھیج دے۔“ خود کو وہ بے بسی کی انتہا پر محسوس کر رہی تھی۔ اندھیرے کے پر کسی عفریت کے بازوؤں کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور اس مختصر سے کمرے سے کئی طرح کے جانداروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ایک صرف اسی کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
”کیا مما اور پپا مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے؟“ اس نے سوچا۔ ”اگر ڈھونڈ رہے ہیں تو پھر تو مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔“ اس نے خود کو تسلی دی۔
کہنیوں کی مدد سے اس نے اپنے جسم کو کھینچ کھینچ کر دیوار کے قریب کر لیا تھا۔ اتنی کوشش میں وہ درد کی کئی انتہاؤں کو چھو چکی تھی، اس کے اعصاب بھی جواب دے گئے تھے۔
اس کے بعد خفیف ترین جنبش کی بھی اس میں سکت نہ تھی اسے دور سے مختلف آوازیں آ رہی تھیں لیکن کھڑکیاں دروازے بند ہونے کی وجہ سے کمرا اس وقت ساؤنڈ پروف بنا ہوا تھا اور اس میں تازہ ہوا کی آمد و رفت کے لیے بھی کوئی روزن نہ تھا۔ ہمت کر کے اس نے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ اس کا وجود دو حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔
###
گھر کے اندر آ کر ثوبان نے گھر کے نمبر سے میڈم عنبرین کو کال کی تو اسے کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں ملی وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بے دھیانی میں ہی ٹی وی کا بٹن آن کر دیا تھا۔
اس کا دھیان ہرگز اس طرف نہیں تھا وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اس نے دوبارہ میڈم عنبرین کا نمبر ملایا اور ان سے سوال کیا کہ وہ پولیس میں رپورٹ درج کرائے۔
”ہرگز نہیں ثوبان صاحب!“ میڈم عنبرین نے کہا۔ ”ہمیں اب یہ سوچ لینا چاہیے کہ ممکن ہے رومانہ کسی حادثے کا شکار ہو گئی ہو…“
”کس طرح کا حادثہ…؟“ ثوبان گھبرا کر جلدی سے بولا۔
اس کی نظر ٹی وی اسکرین کی طرف اٹھی جہاں پر اس وقت حیدرآباد کے قریب کسی بس کے ریلوے پھاٹک پر خوفناک حادثے کی تفصیل بتائی جا رہی تھی۔ ”آپ کا مطلب ہے ایکسیڈنٹ؟“
میری مراد ہے کہ…“ میڈم عنبرین بولیں۔ ”مجھے لگتا ہے کہ اسے اغوا کر لیا ہے۔“ ثوبان کے قریب ہی جیسے بم پھٹا۔ اس کے پورے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔
”اسے کوئی کیوں اغوا کے گا؟“
”آپ ایک متمول آدمی ہیں ثوبان صاحب! اور بچے عموماً تاوان ہی کے لیے اغوا کیے جاتے ہیں!“ میڈم عنبرین نے کہا۔
”اگر آپ پولیس میں رپورٹ کریں گے تو اغوا کنندگان رومانہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔“
”لیکن مجھ سے کسی نے ابھی تک تاوان کے لیے رابطہ بھی نہیں کیا۔“
”ابھی دیر ہی کتنی گزری ہے ثوبان صاحب!“ میڈم عنبرین نے کہا۔
”آپ کو لگتا ہے کہ کوئی دیر نہیں ہوئی… اب رات کے دس بج رہے ہیں… میری بیٹی تقریباً آٹھ گھنٹے سے لاپتا ہے اور کسے دیر کہتی ہیں آپ…؟“ ثوبان بپھر اٹھا۔
”اس وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔“ میڈم عنبرین کا لہجہ عجیب سا تھا۔ ”یہ صرف رومانہ کی سلامتی ہی کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اسکول کی نیک نامی کا بھی مسئلہ ہے۔“
”بھاڑ میں گئی آپ کے اسکول کی نیک نامی…! میں جا رہا ہوں پولیس اسٹیشن!“ ثوبان دہاڑا۔ ”اور میں رپورٹ بھی آپ ہی لوگوں کے خلاف درج کراؤں گا۔
“ یہ کہہ کر ثوبان نے فون پٹخ دیا۔
###
اسے تو اندازہ نہیں تھا مگر گرنے سے غالباً اس کے ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی۔ اسی لیے جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے اندازہ ہوا کہ کبھی اس طرح اٹھ کر بیٹھ نہیں سکے گی۔ اس کا نچھلا دھڑ پتھر کی سل کی طرح سرد اور بھاری ہو رہا تھا اور سر کی چوٹ سے بھی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اسے تو صرف درد محسوس ہوا تھا لیکن اس حرکت کی کوشش کی انتہا سے اس کے سر کے زخم سے پھر خون رسنے لگا تھا۔
درد و کرب اور خوف کی انتہا تھی کہ سسکیاں بھی بے آواز نکل رہی تھیں فقط یہ ہوا تھا کہ اس کا سر اب اس ٹونٹی کے نزدیک تھا جس سے اس کے سر پر چوٹ لگی تھی اس سے ٹپکتا ہوا پانی وہ کوشش کر کے کسی نہ کسی طرح پی سکتی تھی وہ ہاتھ ٹونٹی کے نیچے رکھتی اور جب تک وہ منہ تک پہنچاتی اس میں بمشکل ایک یا دو قطرے پانی ہوتا۔
”ایک کوا پیاسا تھا۔
جگ میں تھوڑا پانی تھا
کوا لایا کنکر
پانی آیا اوپر
کوے نے پیا پانی
ختم ہوئی کہانی!“
وہ جیسے سرگوشیوں میں دو تین برس قبل یاد کی ہوئی یہ نظم پڑھنے لگی اس کو اپنی سرگوشیوں سے بھی خوف آ رہا تھا وہ کیا تدبیر کرتی کہ پانی پی سکتی۔
”کوا کیسا سیانا پرندہ تھا…!“ اس نے سوچا۔ ”مگر میڈم کہتی ہیں کہ انسان سب سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے بھی کوئی تدبیر کرنی ہو گی۔“
”کاش…!“ اس نے سسکی لی۔ ”میں کس طرح ایک بتی جلا سکوں ”گھپ اندھیرے کی وجہ سے تو انسان کی صلاحیتیں ویسے ہی کم ہو جاتی ہیں اور کمزوری بھی غلبہ پانے لگتی ہے۔ نیند تھی یا غنودگی جس نے پھر رومی کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔
###
سی ایل آئی پر دن کے ڈھائی بجے کے بعد کی کالیں چیک کرتے ہوئے ثوبان نے ایک ایسا نمبر نوٹ کیا جو اس کے لیے بالکل نیا تھا اور اس نمبر سے کئی کالیں آئی تھیں اس کے علاوہ کچھ کالیں صائمہ اور کچھ اس کی امی کے موبائل کی تھیں۔ نتاشا کے گھر سے اس وقت کے بعد کی کالیں تھیں جب وہ اس کے گھر سے اٹھ کر وائس پرنسپل کے گھر گیا تھا۔
میڈم عنبربن کو اس نے دھمکی دی اور غصے سے فون تو بند کر دیا مگر فوراً اسے خیال آیاکہ اسے خود پر قابو رکھنا ہو گا اور جذباتی ہو کر کوئی بھی قدم اٹھانے سے رومی کو نقصان پہنچ سکتا تھا، وہ چونکہ گھر پر نہیں تھا گھر سارا بند تھا اسے یقین تھا کہ اگر رومی کو کسی نے اغوا کیا ہے تو اغوا کنندگان نے اس کے گھر کے نمبر پر ہی رابطہ کیا ہو گا۔
عموماً ایسے مجرمان موبائل ٹیلی فون پر رابطہ نہیں کرتے کیونکہ اس سے پکڑ لیے جانے کا امکان ہوتا ہے۔
سی ایل آئی سے چند نمبر نوٹ کرنے کے بعدا س نے سب سے پہلے وہ نمبر ڈائل کیا جس سے سب سے زیادہ کال آئی تھی۔ دیر تک گھنٹی بجتی رہی مگر کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ ثوبان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اس نے دوبارہ اور سہ بارہ کئی بار نمبر ڈائل کیا مگر جواب ندارد… اسے یقین ہو گیا کہ وہی اغوا کنندگان تھے۔
ا س نے ٹیلی فون انکوائری کا نمبر ملایا اور انہیں یہ نمبر لکھ کر پوچھا کہ نمبر کس کا تھا؟
”دیکھیں سر! ہمیں اس طرح دوسروں کی شناخت کسی کو دینے کی اجازت نہیں ہوتی…!“ آپریٹر نے کہا تھا۔
”پلیز یار! میرے لیے یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے!“ ثوبان نے التجا کی۔ ”میری معصوم بیٹی…“ اس کے حلق میں گولے سے پھنسنے لگے اور آواز نہ نکل سکی۔
”آپ مجھے اپنا نام اور شناختی کارڈ نمبر دیں…“ آپریٹر نے کہا۔ ”میں دیکھتا ہوں کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔“ ثوبان نے اپنا نام اور شناختی کارڈ نمبر لکھوایا آپریٹر نے اسے ہولڈ کرنے کو کہا اور تھوڑی دیر میں اس کی آواز آئی۔
”ہیلو! آپ لائن پر ہیں کیا؟“
”ہاں… ہاں!“ ثوبان نے بے تابی سے کہا۔ وہ ہمہ تن گوش تھا۔
”یہ عائشہ فیملی ہسپتال کے ایک کمرے کا نمبر ہے۔“ آپریٹر کے بتانے پر ثوبان کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ صائمہ اس سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider