Episode 22 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 22 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

کنزیٰ اور خزینہ کے لیے بھی بہت سے رشتے آ رہے ہیں لیکن پپا کا خیال ہے کہ کسی ایک بیٹی کا رشتہ خاندان میں ہو تو وہ اس کے شوہر کو گھر داماد رکھ سکتے ہیں۔ان کی اتنی دولت کو ان کے بعد کسی نہ کسی نے تو منظم طریقے سے سنبھالنا ہی تھا۔تھوڑا عرصہ قبل ہی میری منگنی جمال سے ہوئی تھی میں خود کو دنیا کی خوش قسمت لڑکیوں میں سمجھتی ہوں جن کے والدین کو بیٹیوں کی شادیوں کے سلسلے میں پریشانی نہیں ہوئی۔
رشتے بارش کی طرح ان کے گھر پر برستے ہیں۔دولت ان کے ہر عیب کو ڈھک لیتی ہے لیکن ہم تینوں میں سے کسی میں کوئی نقص نہیں ہے بلکہ حسن کی دولت ہماری اضافی خوبی ہے۔
جمال کا ساتھ مجھے تحفظ کا احساس دلاتا ہے تو اس کا لمس محبت کا ۔۔۔ مما اور پپا نے رسماََہی جمال کے والدین سے سوچنے کا وقت لے لیا تھا ورنہ مجھے علم ہے کہ وہ بھی اس رشتے کو اپنی خوش قسمتی سمجھ رہی تھے خصوصاََ مما جنہیں ڈاکٹری کے پیشے سے عشق ہے۔

(جاری ہے)

وہ شہر کی مشہور گائناکالوجسٹ ہیں اور اپنی بیٹی کو بھی اسی مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں ان کا بڑا داماد معروف ہارٹ سرجن ایسا کہ جسے دیکھ کر لڑکیوں کے دھڑکتے دل تھم جائیں، اس کی نظر انتخاب مجھ پر ٹھہری تھی اور میں اسے دیکھتی تھی تو میرے دل کی دھڑکنیں اور بھی تیز ہو جاتی ہیں۔
ہم دونوں اکثر اکٹھے گھومنے جاتے ہیں اور بے تکلفی کی کافی سرحدیں پار کر چکے ہیں۔
جمال کو شادی کی بے تابی ہے اور مجھے تعلیم مکمل کر کے کچھ کرنے کی لگن۔
”میں بوڑھا ہو جاؤں گا اس طرح تمہارا انتظار کرتے کرتے۔۔۔“ جمال نے لاڈ سے کہا۔
”نہیں بوڑھے ہوتے تم۔۔۔!“ میں ہنسی۔” اور ویسے بوڑھے بھی تو شادی کرتے ہی ہیں ناں۔۔۔۔!“
”تم شادی کے بعد کرتی رہنا جو کچھ تمہیں کرنا ہے۔“ جمال نے ضد کی۔” بچوں کو میں سنبھال لیا کروں گا۔
۔۔۔“
”جمال ۔۔۔۔!“ میں چیخی۔” مر جاؤ گے میرے ہاتھوں سے۔۔۔“
”کیوں یار۔۔۔۔بچے تو آخر ہمارے ہونے ہی ہیں ناں۔۔۔۔“ وہ مسکرا کر بولا۔” میرا صبر نہ آزماؤ ورنہ یہ نہ ہو شادی نہ ہو اور بچے ہو جائیں۔۔۔“
”میں نہیں بول رہی تم سے۔۔۔“ میں ٹھنکی۔
”سوری یار۔۔۔“ اس نے ہاتھ باندھے۔” میں سمجھا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اور تم میری اتنی سی خواہش پر مجھ سے ناراض ہو رہی ہو۔
۔۔۔پھر ایک بار یہ تو کہہ دو کہ تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔“
اس کے اس فقرے سے میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔
###
”ہر گز نہیں چنگیز۔۔۔۔“ میں نے احتجاج کیا۔”اس طرح کے جھوٹے ڈرامے میں،میں اداکاری نہیں کر سکتی۔“
”پلیز صوفی۔۔۔“علی اور روحا نے فریاد کی۔
”کسی صورت نہیں۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو۔
۔۔“میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”کیسا ویسا۔۔۔؟ چنگیز نے جھنجلا کر پوچھا۔
”کوئی حادثہ ہو سکتا ہے چنگیز۔۔۔کرایے کی گاڑی اور۔۔۔“ میں نے اختلاف کیا۔
”میں کوئی پہلی دفعہ تو گاڑی نہیں چلا رہا ہوں گا صوفی۔۔۔“ چنگیز نے کہا۔” تم کئی دفعہ پہلے بھی میرے ساتھ سفر کر چکی ہو۔۔۔“
”اپنی گاڑی اور شہر کی اور بات ہوتی ہے چنگیز۔
۔۔“ میں منمنائی۔
”کیا فرق ہے ہمارے شہر میں اور یہاں میں۔۔۔۔؟ اس نے بحث کی۔
”پہاڑی علاقوں میں تمہارا گاڑی چلانے کا تجربہ کیا ہو گا بھلا۔۔۔“ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔” یہ بہت خطرناک راستے ہیں اور ہمیں کسی بے وقوفی سے گریز کرنا چاہیے۔“
سب لوگ منہ بسور کر بیٹھ گئے، چنگیز نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے برآمدے میں لے آیا۔
۔۔”کیا بات ہے صوفی تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔؟“
”میں ڈر نہیں رہی چنگیز۔۔۔!“ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔” یونہی مجھے احساس ہوتا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہو کچھ غلط۔۔۔“
”یہ تمہارا وہم ہے صوفی۔۔۔“ چنگیز نے کہا۔۔۔۔”یا تو تم کہو کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے۔“
”یہ کیا بے وقوفی ہے چنگیز۔۔۔“ میں جھنجلائی۔۔۔۔” اس میں بھروسے کا کیا ذکر۔
۔۔؟“
”بات بھروسے ہی کی تو ہے۔۔۔یا تو مان جاؤ یا۔۔۔۔“ وہ ذرا سا رکا۔۔۔” یا پھر ایک دفعہ کہہ دو کہ تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔۔۔“ اس کی نظروں میں مایوسی تھی‘ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوا اس نے میرے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
”ایسی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔“ میں نے لگاوٹ سے کہا۔۔۔۔جب ہم ہاتھ میں ہاتھ دیے واپس دوستوں کے گروپ کی طرف مڑے تو انہیں یہ اندازہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی کہ چنگیز مجھے منا چکا تھا۔
۔۔۔یا ہو کا نعرہ بلند ہوا پھر ترکیب پر عملدرآمد کرنے کے طریقے پر غور ہونے لگا۔
###
میں نے امتیازی نمبروں سے امتحانات میں کامیابی حاصل کر لی اور فوراََ ہی مختلف جگہوں پر ہاؤس جاب کے لیے کوشش شروع کر دی اگرچہ مما کی وجہ سے مجھے کوئی مشکل نہیں ہونا تھی۔
جمال نے میری کامیابی پر مجھے ایک انتہائی قیمتی ڈائمنڈ کا بریسلٹ تحفے میں دیا تھا۔
ہم اکٹھے ہی رات کے کھانے کے لیے گئے تھے اور کھانے کے بعد جمال مجھے بریسلٹ پہنانے کے بعد میرے ہاتھ تھامے مجھے اپنی بے تابیوں کی داستانیں سنا رہا تھا میری دھڑکنیں بھی اتھل پتھل ہو رہی تھیں ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی کو جمال جیسے بندے کا ساتھ ملے اور اس کی طرف سے بے تابیوں کا اظہار بھی ہو تو اور کیا چاہیے۔
”اچھا مجھے صرف ہاؤس جاب کر لینے دو ۔
“ میں نے ہتھیار ڈالے۔۔۔” باقی سب کچھ شادی کے بعد کر لوں گی۔۔۔۔اگر تم نے کرنے دیا تو۔۔۔ورنہ میری ساری محنت اکارت جائے گی۔“
”میرا وعدہ ہے تم سے صوفی ، تم جہاں تک جانا چاہو گی میں تمہارا ساتھ دوں گا۔۔۔“ اس نے بے خودی سے کہا۔ ” یہ جمال کا تم سے وعدہ ہے۔“
”آئی لو یو صوفی۔۔۔۔تم نے تو مجھے میری ہی نظروں میں بلند کر دیا ہے۔
“ اس نے میرا ہاتھ دبا کر کہا۔” مجھے ایک سال انتظار کرنا پڑے گا۔“
”بہت جلدی ہے تمہیں۔۔۔“میں ہنسی ۔
”میرا بس چلے تو آج ہی مما سے کہوں کہ تمہارے مما پپا سے بات کریں اور۔۔۔۔“ وہ رکا۔”ہاؤس جاب تم بعد میں کرتی رہنا‘ بچے بھی میں سنبھال لوں گا۔“
”اب زیادہ آؤٹ نہ ہو۔۔۔“ میں نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔” میں نے جتنی رعایت کر دی ہے وہ کافی ہے۔“
”جو حکم سرکار۔۔۔“ جمال نے مسخرے پن سے کہا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider