Episode 29 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 29 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

ض…ض…ض
نجمہ کے لیے کرن ابھی تک اس ننھی سی بچی جیسی تھی جس نے ابھی اس کی گود سے اتر کر پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا۔ خالہ صغریٰ کی باتیں سن کر بھی وہ اسے ان کے داماد عبدالقادر کی بدنیتی کا اور بھی پکا یقین ہو گیا تھا۔ کرن جانے کیسے روکی سوکھی کھا کر بھی کڑوی بیل کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھی اور اب نجمہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ گھر پر ہی بیٹھ جائے اور کرن کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لے مرغی کی طرح۔
”ایک تو غریبوں کے گھروں میں بیٹیاں پیدا ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو یوں اتنی جلدی جوان نہ ہوں۔“ نجمہ رات بھر اسی طرح کی باتوں کو سوچتی رہی۔ پر کرن سے بات کرنے کے لیے اسے کوئی سرا درکار تھا جو مل نہیں پا رہا تھا۔
رات بھر جاگتی رہی تھی اس لیے صبح تک اس کا بدن تھکاوٹ سے چور تھا۔

(جاری ہے)

اٹھ کر کام پر جانے کی بھی سکت نہ تھی۔ کرن اب گھر پر ہوتی تھی کیونکہ وہ میٹرک کر چکی تھی اور اس سے آگے پڑھنے کا نہ کرن کو شوق تھا نہ نجمہ میں سکت۔

”اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ فوری طور پر کرن کی شادی ہو جائے۔“ نجمہ یہی سوچ رہی تھی لیکن اس مقصد کے لیے سب سے اولین نمبر پر ایک لڑکے کی ضرورت ہوتی ہے، عورت جیسی بھی ہو، غریب ہو یا امیر اور اپنی زندگی جیسی بھی گزاری ہو، اپنی بیٹی کے لیے بہترین بر چاہتی ہے۔ا پنی زندگی کی تکالیف، آز مائشوں اور مشکلات کا سایہ بھی اپنی بیٹی کی زندگی پر پڑتا ہوا نہیں دیکھ پاتی۔
”میں شاید بہت مصروف ہو گئی ہوں…“ اس نے سوچا۔ ”مجھے کرن کو گھر پر تنہا چھوڑنے سے قبل زمانے کی اونچ نیچ سمجھنا چاہیے تھی۔“ تاہم اس نے مزید سوچا کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا تھا اور اگر کرن کے قدم خالہ صغریٰ کے کہنے کے مطابق غلط راہوں پر پڑ بھی گئے تھے تو اسے روکا جا سکتا تھا، اسی لیے اس روز اس نے بستر ہی نہ چھوڑا، یہاں تک کہ کرن نے آ کر تشویش سے اسے دیکھا اور پوچھا۔
اس کی طبیعت کی ناسازی کا سن کر ااس نے ماں کو دودھ پتی بنا کر ساتھ کیک رس دیے۔ اس کے پاس بیٹھ کر اس کے کندھے دبانے لگی۔
”کرن بیٹا، تم سے ایک بات کرنا تھی۔“
”جی اماں؟“ وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
”بیٹا! جب میں گھر پر نہ ہوں تو چھت پر نہ جایا کرو اور…“ نجمہ رک گئی کہ اسے سمجھ نہیںآ رہا تھا کہ بات کیسے کرے… کیسے اس سے پوچھے کہ کیا کوئی لڑکا چھت پر آتا تھا۔
کرن کی سوالیہ نظریں ماں کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور نجمہ کی زبان ماں اور بیٹی کے درمیان مضبوط رشتے کی نزاکتوں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔
”اور کیا اماں؟“ کرن نے پوچھا۔ ”میں تو کبھی چھت پر نہیں جاتی، جب تم گھر پر نہ ہو۔ کسی نے کوئی بات کی ہے کیا؟ کیا خالہ صغریٰ نے کچھ کہا ہے؟“
اب نجمہ کیا بتاتی؟ خالہ صغریٰ نے اس کے چھت پر جانے کی تو بات ہی نہیں کی تھی۔
انہوں نے تو اسے بتایا تھا کہ کوئی چھت کے راستے اس کے گھر میں اترتا تھا اور اتنی بڑی بات بیٹی سے پوچھنے کی وہ خود میں ہمت ہی نہیں پا رہی تھی۔ ”کیا کوئی ہمارے گھر میں چھت کے راستے آتا ہے؟“ لرزتے ہوئے لہجے میں وہ پوچھ ہی بیٹھی۔
”محلے کے بچوں کی پتنگیں کٹ کر ہمارے صحن میں آ جائیں تو وہ چھت سے کود کر لینے آ جاتے ہیں۔“ کرن نے بتایا تو نجمہ شرم سے گڑ گئی۔
وہ جانے کیا سمجھ بیٹھی تھی۔ ”اور جو رات کو ہی کرن سے پوچھ لیتی تو نیند تو سکون سے آتی۔“ اس نے اپنی سوچ پر خود کو کوسا۔ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور سوچا کہ خالہ صغریٰ کو بھی بتائے گی۔
تبھی چھت پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ نجمہ کا دل اس طرف سے مطمئن تھا کہ کوئی کبوتر باز ہو گا یا پھر پتنگ باز لیکن کرن کے انداز میں گھبراہٹ تھی، وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
نجمہ کا چونک جانا فطری تھا۔
”کیا بات ہے کرن؟“
”وہ کچھ نہیں، میں دیکھتی ہوں جا کر چھت پر کہ کون ہے؟“ اس کے انداز میں تیزی تھی۔
”رہنے دے بیٹی! میں نے ابھی تجھے یہی سمجھایا ہے کہ جوان بیٹیاں چھت پر جاتی اچھی نہیں لگتیں۔“ نجمہ نے اسے روکا اور تبھی سیڑھیوں سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔
”میں دیکھتی ہوں کون ہے؟ تو لیٹی رہ اماں تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
“ کرن نے عجلت میں باہر نکلتے ہوئے کہا نجمہ اس کے پیچھے بستر سے یوں اٹھی جیسے کسی بچھو نے ڈنک مار لیا ہو۔
”کرن فارغ ہو گئی تو کام کاج سے؟“ سب سے نچلی سیڑھی پر کھڑا ہوا وہ لڑکا یقینا فیضی ترکھان کا بیٹا خورشید تھا… کرن کے پیچھے کمرے سے نمودار ہوتی نجمہ کو دیکھ کر وہ ایک پل میں غائب ہو گیا۔ نجمہ اپنا کلیجہ تھام کر رہ گئی۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ کرن کو پکڑ کر پیٹ ڈالے اور چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ اس کے گھر پر نقب پڑ رہی تھی مگر اس میں بدنامی کس کی تھی۔
اپنی چیخوں اور اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش میں اسے لگا جیسے اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔
”کون تھا یہ اور کیوں آیا تھا؟“ نجمہ اب بھی اس خوش فہمی میں تھی کہ کرن کہے گی کہ وہ اس کو نہیں جانتی اور نہ ہی اس سے قبل کبھی دیکھا تھا اس کو… مگر یہ نجمہ کی خوش فہمی ہی رہی۔
”خورشید نام ہے اس کا اماں!“ کرن کے الفاظ نے نجمہ کو ہوا میں معلق کر دیا تھا۔
اس میں سکت ہی نہیں رہی تھی کہ وہ اس سے اگلا سوال کرتی کہ وہ کیوں آیا تھا۔ کرن کے لہجے میں وثوق نے نجمہ کو بہت سے ایسے سوالا ت کے جوابات بھی دے دیے تھے جو اس نے پوچھے ہی نہ تھے۔
”کب سے آ رہا ہے یہ ہمارے گھر؟“ نجمہ کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی غصہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ غصے میں اس کی آواز بلند تر ہوتی جا ئے گی پھر بھی وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی۔
ماں کے تیور دیکھ کرکرن خاموش رہی۔ ”اس کے بعد یہ بے غیرت میرے گھر آیا یا تو چھت پر گئی تو میں نہ تجھے زندہ چھوڑوں گی اور نہ اسے…“
”مگر وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اماں!“ کرن نے ہمت کر کے وہ بات کہہ ہی دی جسے سن کر نجمہ سن ہو کر رہ گئی تو گویا پانی اس کے سر سے بہت بلند ہو چکا تھا۔ وہ باہر کی فکروں میں مبتلا رہی اور اپنے ہی گھر سے غافل ہو گئی۔
جوانی تو دیوانی ہوتی ہے اورا س کی بیٹی پر جوانی کب آئی، اس کی اسے خبر نہ ہوئی۔ خبر ہوئی تو اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
ض…ض…ض
کرن اندر کمرے میں سو رہی تھی اور نجمہ باہر برآمدے میں بے خواب آنکھوں سے چھت کو گھور رہی تھی۔
”واہ اوپر والے! غریب کے گھر بیٹی کا رشتہ بھی بھیجا تو بدنامی کی گٹھڑی میں بندھا ہوا۔“ وہ سوچ رہی تھی۔
”جانے فیضی کی بیوی اور خورشید کی ماں مراداں اس رشتے پر راضی ہو گی کہ نہیں؟“ اس نے یہ ہرگز نہیں سوچا کہ لڑکا کیسا ہے، کیا کرتا ہے… جب بات بدنامی کی سرحدوں کو چھو رہی تھی تو اس کا کسی مناسب طریقے سے انجام پا جانا ہی اس کی خواہش تھی۔
خواب تو وہ بھی بیٹی کے حوالے سے بڑے بڑے دیکھتی تھی لیکن اسے معلوم تھا ان خوابوں کی تعبیر کبھی غریبوں کا مقدر نہیں ہوتی۔
رات بھر وہ منصوبے بناتی اور بگاڑتی رہی۔ خالہ صغریٰ ہی اسے امید کی اکلوتی کرن نظر آ رہی تھیں، انہی سے بات کرے گی کہ وہی اس کو راہ سجھائیں۔ اب اپنے منہ سے بول کر تو کبھی بھی خورشید کے ماں باپ سے رشتہ بھجوانے کا نہیں کہہ سکتی تھی۔ ایک بار سوچا کہ خورشید کے ماں باپ سے ملے اور انہیں بتائے کہ ان کا بیٹا کیسے اس کی بیٹی کو ورغلا رہا تھا… مگر کچھ سوچ کر چپ ہو گئی… جب اپنا سکہ ہی کھوٹا ہو تو انسان دوسرے سے کیا کہے؟
کرن کو سمجھانے کا ارادہ کیا کہ اس لڑکے سے کہے سیدھے سبھاؤ رشتہ بھیجو اور اگر نہیں تو یہ سلسلہ بند کر دے۔
صبح اٹھتے ہی کرن کی توقع کے بالکل برعکس اٹھ کر تیار ہو کر اپنے کام کے لیے چل پڑی۔
”دروازہ بند کر لینا کرن؟“ باہر نکلتے ہوئے اس نے آواز لگائی۔ ”اور بیٹا میں نے ساری زندگی بے حیائی نہیں کی۔ مجھے یقین ہے کہ تم بھی شریف ماں کی شریف بیٹی ہونے کا ثبوت دو گی۔“
کرن سر جھکائے کھڑی تھی۔
”اسے کہو اگر شادی کرنی ہے تو شریفوں کی طر رشتہ لے کر آئے ورنہ اپنے بڑھتے ہوئے قدم روک لے۔
“ کرن کا چہرہ چمکنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ خورشید اس سے شادی ہی کرناچاہتا تھا۔
ض…ض…ض
دن بھر کرن جلے پیر کی بلی کی طرح گھر میں گھومتی رہی۔ وہ انتہائی پرجوش تھی کیونکہ اسے اپنی ماں کا عندیہ مل گیا تھا۔ وہ خورشید کا انتظار کرتی رہی مگر مایوسیوں کے بادل چھائے رہے اور خورشید طلوع نہ ہوا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود جا کر خورشید کو یہ خوشخبری سنا کر آتی۔
اسے معلوم تھا کہ خورشید کی ماں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ خورشید جب سے ایک دفتر میں چپڑاسی لگ گیا تھا اور گھر میں اوپر کی آمدنی سے حالات بہتر ہوئے تھے تب سے اس کی ماں کے خیالات بلند تر ہو گئے تھے جہاں پر کرن جیسی لڑکی کا شائبہ تک نہ تھا۔
خورشید ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ وہ اپنی ماں کو منا لے گا۔ اس روز سے قبل تو کرن کو اپنی ماں کے راضی ہونے کا یقین نہ تھا اور اب اپنی ماں کی طرف سے ہری جھنڈی کا اشارہ مل گیا تو تو اسے لگا کہ منزل تک پہنچنے کی آدھی مسافت طے ہو گئی تھی۔
اس کے خیالوں میں قوس قزح کے سارے رنگ اتر آئے تھے۔ اس کا روم روم گنگنا رہا تھا اور پھر محلے کی مسجد سے بار بار کوئی اعلان ہونے لگا۔
شام کو نجمہ لوٹی تو کرن شدت سے اس کی منتظر تھی، اسے بتانے کے لیے دن بھر مسجد میں جو اعلان ہوتا رہا تھا کہ اس بستی کے تمام مکینوں کو ایک ہفتے کے اندر اندر یعنی اگلے اتوار تک گھر خالی کر دینا تھے کیونکہ وہ سب ناجائز تجاوزات تھیں اور سرکاری حکم کے مطابق اس سرکاری زمین پر تعمیر شدہ غیر قانونی مکانات مسمار کیے جانے والے تھے۔
ض…ض…ض
اس سے قبل کم از کم نجمہ اس بات کی فکر سے ہر طرح آزاد تھی کہ اس کے سر کی چھت بھی چھن سکتی ہے۔ بیس برس قبل جب فاضل اسے بیاہ کر لایا تھا تو اسی کھولی میں دو سو روپے مہینہ کرایے پر رہتا تھا۔ ہرسال یہ کرایہ بڑھتا رہا اور پھر ایسا دن بھی آیا کہ نجمہ اس کھولی کا آٹھ سو روپے مہینہ کرایہ دینے لگی پھر جب فاضل نے اسے طلاق دے دی تو ٹھیکیدار نے اسے پیشکش کی کہ وہ اس گھر کو خریدلے۔
اس میں ایک کمرے کا ہی سہی مگر گھر خریدنے کی سکت کہاں تھی مگر ٹھیکیدار نے خود ہی اسے قسط وار رقم ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس صور ت میں اسے کرایے سے زیادہ رقم ادا کرنا تھی مگر یہ تسلی تو تھی کہ دس برس میں گھر اس کا ہو جاتا۔ اس بات کو پانچ برس گزر چکے تھے، ٹھیکیدار کو گھر خریدنے کے لیے رقم کی ادائیگی شروع کرنے سے قبل اس نے محلے میں بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا۔
سبھی لوگ ٹھیکیدار کی اس پیشکش کو قبول کر رہے تھے اور اپنی سہولت کے مطابق ماہانہ قسط مقرر کر رہے تھے۔ تب نجمہ نے پندرہ سو روپے ماہوار کی قسط مقرر کی اور باقی سب کی طرح باقاعدہ اسٹامپ پیپر پر دستخط کیے اور اس کی اصل نجمہ کے پاس محفوظ تھی جبکہ اس کی نقل ٹھیکیدار کے پاس تھی۔ جب سے گھر کی طرف بے فکری ہوئی تھی اس کے بعد نجمہ نے باورچی خانہ اور غسل خانہ بھی پکا کروا لیا تھا۔
برآمدے کو لوہے کی جالیاں لگوا کر بند کر دیا تھا گھر نہ صرف محفوظ ہو گیا تھا بلکہ مکھی اور مچھر کی کھلے عام آمدورفت سے بچت ہو گئی تھی۔
اور اسے کرن بتا رہی تھی کہ ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا تھا۔ نجمہ کی تو مانو جان ہی نکل گی۔ کیسے ایک ایک پائی جوڑ کرا سے نے گھر کی حالت سنواری تھی، ساتھ ساتھ اس کی ماہانہ قسط کی ادائیگی کی تھی اور اس کے علاوہ کرن کا جہیز بھی بنا لیا تھا اور کسی اچھے رشتے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔
رشتہ تو کیا آتا اس سے قبل ہی اس کے دماغ پر ایک نئی فکر سوار ہو گئی تھی۔
بغیر کچھ کھائے پئیے وہ اسی طرح چادر لے کر گھر سے باہر نکل گئی۔ محلے کے کئی گھروں میں گھومی، ہر شخص اسی فکر اور اسی پریشانی میں مبتلا تھا۔ ٹھیکیدار سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا لیکن سب لوگوں نے آپس میں یہی طے کیا تھا کہ وہ گھر خالی نہیں کریں گے اور پوری قوت سے مزاحمت کریں گے۔
نجمہ نسبتاً مطمئن ہو گئی اور گھر لوٹ آئی۔ کرن کے اصرار پر اس نے کھانا زہر مار کیا اور پھر کرن سے کہا کہ وہ اسے ایک کپ چائے بنا کر دے ۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ وہ بے خیالی سے کرن کو گھور رہی تھی۔
”کیا بات ہے اماں؟“ کرن نے حیرت سے ماں کو دیکھا۔
”کچھ بھی نہیں۔“ وہ آہستگی سے بولی۔ دل ہی دل میں وہ سوچ رہی تھی کہ کس طرح کرن سے پوچھے کہ خورشید آیا تھا مگر جھجک مانع آ گئی اور وہ پوچھتے پوچھتے رک گئی۔
کرن شش و پنج میں تھی کہ شاید ماں اس پر کوئی شک کر رہی ہے۔
”اب ہم کیا کریں گے اماں… کہاں جائیں گے؟“
”تو نہ پریشان ہو… ہم یہیں رہیں گے۔ کوئی بھی گھر خالی نہیں کر رہا، سب یہیں رہیں گے… بس اب ایک ہی فکر ہے کہ جیتے جی تجھے تیرے گھر کا کردوں… میری تو گزر ہی گئی ہے روکھی سوکھی… پر میں تجھے یوں اپنی طرح دھکے کھاتے نہیں دیکھ سکتی…“ نجمہ کے لہجے میں شفقت اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
”تو اکیلی رہ جائے گی اماں؟“ کرن کے حلق میں آنسوؤں کے گولے سے پھنسنے لگے۔
”ماؤں کے تو یہی مقدر ہوتے ہیں۔“ نجمہ دکھی لہجے میں بولی۔ ”جو کوئی رب سوہنا ایک بیٹا دے دیتا تو میرے آنگن میں بھی بہو آتی، پوتے پوتیوں کی قلقاریاں ہوتیں… مگر… جوا س کی رضا…“ کرن خاموش ہی رہی۔ یہ بھی تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ اماں اس آنگن میں نواسے نواسیوں کی قلقاریاں بھی تو گونجیں گی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider