Episode 53 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 53 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

” اس کے گھر والوں نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے جلال… “
” خالہ… آپ نے ان کو میری تصویر دی کہ نہیں، میں لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہتا مگر آپ اسے تو میری شکل دکھا دیں…“
” بیٹا اس کے سب گھر والے آئے تھے، میں نے اس کی بہن سے پوچھا کہ اگر اسے تصویر چاہئے تو لے جائے مگر اس نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں… “
” یقین نہیں آ رہا خالہ… جس طرح آپ کہہ رہی ہیں کہ بولڈ سی لڑکی ہے اور کمپیوٹر کی اتنی بڑی فرم میں اتنے اہم عہدے پر فائز… ایسے کیسے بغیر دیکھے شادی کرنے کو تیار ہو گئی ہے؟ “
” تم نے بھی تو میرے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی لڑکی کو دیکھنا چاہا ہے… اسی طرح اسے بھی اپنے گھر والوں کے انتخاب پر اعتماد ہے بیٹا، تم خود ترسی چھوڑو، خوش قسمت ہو تم دونوں !“ خالہ کے تسلی دینے کے با وجود میرے اندر ایک کھٹک سی تھی، کہ کہیں وہ لڑکی مجھے شادی کے بعد دیکھ کر نہ دھتکار دے، مگر یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتا کہ کہ اگر اللہ نے اسے میرے لئے بنایا ہے تو ہی مجھے ملے گی اور اگر وہ میری صورت کو ناپسند کرے گی تو اپنی محبت سے اس کا دل جیت لوں گا میں…میں نے معاملہ کلی طور پر اللہ پر چھوڑ دیا اور اپنے روشن مستقبل کی دعائیں کرنے لگا!
ض…ض…ض
” میرے خیال میں ایک دفعہ لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کروانا ضروری ہے اماں … “ ناعمہ کی آواز تھی-
” ہوں … “ اماں نے سینے کی گہرائی سے ہنکارا بھرا-
” ایسا نہ ہو کہ بعد میں ہمیں الزام دے … “ سلمیٰ نے کہا-
” مجھے تو لڑکا اچھا لگا ہے ویسے… “ اماں نے کہا، ” تمہارا کیا خیال ہے شہزاد بیٹا؟ “ اماں نے سب سے بڑے داماد سے پوچھا-
” اچھا ہے لڑکا اماں ، قابل ہے، ذہین ہے، سمارٹ ہے، اچھا کاروباری ہے اور تعلیمی ریکارڈ بھی نتالیہ کی ٹکر کا ہے … “ وہ رکے، ” دیکھ لیں … اگر آپ کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور آپ مطمئن ہیں تو … “ انہوں نے ادھورا جواب چھوڑ دیا-
” ویسے جیسی وہ ہے، اس لحاظ سے یہ رشتہ بہت اچھا ہے، اس سے اچھے کی توقع کرنا فضول ہے … “ ذاکر نے کہا، ” عمر بھی نکلتی جا رہی ہے اس کی اور کوئی گلفام تو اترنے سے رہا اس کے لئے … “
” اب اتنی بری بھی نہیں ہے ہماری بہن… “ سلمیٰ لاکھ مجھ سے پرخاش کھاتی تھی مگر ذاکر کے منہ سے میرے بارے میں ” تعریفی “ الفاظ سن کروہ رہ نہ سکی- میں ہمہ تن گوش اپنے کمرے سے یہ ساری گفتگو سن رہی تھی- 
” تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو… “ عائشہ میرے پاس چلی آئی تھی، ” اتنا بڑا گھر ہے کہ مجھے اپنا گھر چھوٹا لگنے لگا، لڑکا انگلینڈ سے پڑھا ہوا، کئی قسم کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اس نے… تمہاری ٹکر کا لڑکا ہے پیاری… “
” پیاری… ہونہہ!!“ میں نے طنز سے کہا، ” ان یہ بھی بتا دو کہ اس لڑکے میں عیب کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مجھ جیسی عام سی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے؟ “
 ” تم عام نہیں ہو نتالیہ… “ عائشہ نے میرا ہاتھ تھام لیا ، ” تم میں وہ خاص بات ہے جو ہم باقی بہنوں میں سے کسی میں نہیں ہے…“
” اشتہاروں کی زبان نہ بولو عائشہ… مجھے حقیقت بتا دو، جیسی بھی ہے… “ میں نے دل کڑا کے کہا-
” یقین کرو، کوئی بڑی بات نہیں ہے… بس ذرا لڑکے کا رنگ دبتا ہے… ہمیں لگا شاید کیونکہ ہم سب گورے ہیں اور وہاں بیٹھے ہوئے ہم زیادہ ہی گورے لگ رہے تھے… “
” مگر ا س کے ماں باپ تو اتنے صاف رنگ کے تھے؟ “ میں نے حیرت سے کہا-
” اس کے سوا کوئی اور بات نہیں جو ہم لوگ اعتراض کر سکیں… “ عائشہ نے کہا، ” اور تم چاہو تو میں تمہیں کسی نہ کسی طرح اس لڑکے سے ملوا بھی دیتی ہوں ؟“
” نہیں ٹھیک ہے… اگر تم اتنی تسلی دے رہی ہو تو ٹھیک ہی ہو گا… “ میں نے ہولے سے کہا، ” کوئی تصویر بھی تو نہیں کھینچ کر لائیں تم!!“
” کوئی موقع ہی نہیں ملا… سب لوگ وہاں تھے اور صاف لڑکے کو علم ہو جاتا کہ میں اس کی تصویر کھینچ رہی ہوں… اگلی دفعہ کوشش کروں گی، پکا وعدہ!“ 
ض…ض…ض
وہ تو وعدہ کر گئی مگر وہ اگلی بار آئی ہی نہیں اور میں ایک بڑی سی تقریب میں نکاح کے دو بولوں میں بندھ کر سرمد کی ہو گئی، تمام تقریب کے دوران سرمد کو دیکھنے کا موقع ہی نہ ملا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ ہی نہ سکے تھے، تمام وقت وہ حاضرین محفل کے ساتھ مصروف رہے - ہماری شادی کی تقریب شہر کی یادگار اور اہم تقریبات میں سے ایک تقریب تھی… نہ صرف میرا بلکہ سرمد کا بھی حلقہء احباب وسیع تھا، کاروباری دنیا کے لاتعداد شرکاء تھے- مہمان رخصت ہونا شروع ہوئے تومجھے اسی فائیو سٹار ہوٹل کے ایک سوئیٹ میں پہنچا دیا گیا جو خاص ہماری شب عروسی کے لئے بک کروایا گیا تھا اور اس کی سجاوٹ دیدنی تھی-
میں نے اچھی طرح کمرے کا جائزہ لیا، سرمد یقیناً لوگوں کو رخصت کر کے آتے سو میرے پاس کافی وقت تھا، میں نے خود کو آئینے میں دیکھا، مجھے خود یقین نہ آ رہا تھا کہ میں اتنی پیاری لگ رہی تھی-میں نے اپنا لباس اور زیورات وغیرہ درست کئے… اور جب کافی دیر گزر گئی تو اس دبیز صوفے کے ایک طرف گھونگھٹ کاڑھ کر بیٹھ گئی، یہ میرے مزاج کے بھی خلاف تھا اور آج کل کی روایا ت کے بھی مگر سوچاکہ جس نے شادی سے پہلے نہ دیکھنے کی شرط رکھ دی تھی، اسے اب بھی ترسا ترسا کر شکل دکھاؤں گی… 
” کیا میری شکل ایسی ہے کہ میں کسی کو ترسا ترسا کر دکھاؤں …
کیا وہ میری شکل دیکھ کر بھاگ تو نہیں جائے گا؟“ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ایک اہم مقام پر پہنچ کر بھی اپنی کم صورتی کے کمپلیکس کا عفریت مجھے سر اٹھا کر جینے نہ دیتا تھا… میں جانتی تھی کہ لوگ مجھ سے ڈرتے بھی تھے اور احترام بھی کرتے تھے اور اس کی وجہ تھی میری اپنے مقام پر اہمیت اور میرے اختیارات… مگر ایسا نہ ہوا تھا کہ کوئی مجھے دیکھتا تو ا سکے دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہوتیں- جس عمر میں میری باقی بہنیں بیاہی گئی تھیں ،میری اس عمر کو بیتے بھی پندرہ سولہ برس بیت چکے تھے، اب ان کے بچے میرے کاندھوں کو چھوتے تھے اور مجھے اب تک کوئی اظہار محبت سننے کو نہ ملا تھا…
چلو… آج سن ہی لیں گے!! میں نے دھڑدھڑاتے دل کو تسلی دی-
ض…ض…ض
اپنا آپ، اپنا گھر اور اپنے گھر کے مکین… سب کو دان کر دیا تھا اس نے مجھے، میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی، دل کی دھڑکنیں قابو سے باہر ہو رہی تھیں ، اس نے اپنی جیب سے ہیرے کی قیمتی انگوٹھی نکالی تھی، مجھے گھونگھٹ کی اوٹ سے اس ڈبیہ کے کھلنے پر اس ہیرے کی خیرہ کن چمک دکھائی دی، کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی اور پس منظر میں ہلکی موسیقی، میں نے انگوٹھی پہننے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور نظر اٹھا کر اس ہاتھ کو دیکھاجو مجھے انگوٹھی پہنانے کو بڑھا تھا، مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا…میرا ہاتھ ان ہاتھوں میں سیاہ بادلوں میں چھپے چاند جیسا لگ رہا تھا-مجھے کرنٹ لگا، اور میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اس سے زیادہ کی میری سکت نہ تھی، میرا وجود کپکپانے لگا… چند لمحوں میں میں نے خود کو سنبھالا اور اپنا ہاتھ آگے کر دیا، اس نے جلدی سے انگوٹھی پہنائی…
پھروہ یوں صوفے سے اٹھا جیسے اسے کسی نے ڈنگ مار دیا ہوا اور میری سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی… کیا ہواتھا میرے ساتھ، اتنا بڑا جھوٹ… اتنا بڑا دھوکہ… کیوں چھپایا تھا سب لوگوں نے مجھ سے اس حقیقت کو؟ میں رات بھر نزع کے عالم میں صوفے پر بیٹھی رہی اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ…اس نے مجھے دیکھ کر کیا سراہنایا جھٹلانا تھا، میں ہی اس کے نظارے کی تاب نہ لا سکی تھی-کاش میں اسی وقت اماں کو کال کر کے بلاتی اور ان سے پوچھتی کہ کیا قصور تھا میرا کم شکل ہونے میں کہ انہوں نے مجھ سے اتنا برا انتقام لیا تھا-
وہ شاید سو رہاتھا… میں رو رہی تھی اور ایک کمرے میں ہم دو نفوس، ایک شرعی رشتے کی ڈور میں بندھے ہوئے … دنیا کی گویا دو انتہاؤں پر تھے، ہم نے ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھا تک نہ تھا، مجھ میں تاب نہ تھی اور اس میں طلب… میں نے بہت دکھی کر دیا تھا اس کو مگر اس میں میرا کیا قصور تھا، دھوکہ ہی ایسا ہو اتھا میرے ساتھ!!

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider