Episode 45 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 45 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

کرب اور درد کی منازل طے کر کے میں نے ایک اور گل تھوتھنے بچے کو جنم دیا۔ مہیر کا رویہ اس بچے کے ساتھ تقریباً درست ہی تھا جتنا وہ بڑے بچوں سے کھینچتا تھا اتنا ہی وہ اس بچے کی طرف دھیان دیتا تھا۔ اس کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹا تھا اور میں مصروف ہوتی تو اسے سنبھال بھی لیتا تھا اس بچے کا نام بھی اس نے خود شہیر رکھا تھا جب کہ بڑے بچوں کا نام عبداللہ اور عبدالرحمن میں نے خود رکھے تھے۔

میں نے دو ایک بار مہیر سے اپنے خطوط واپس مانگے لیکن وہ ہر دفعہ ٹال دیتا تھا میں کسی ایسے موقع کا انتظار کرنے لگی جب اس کا مزاج اچھا ہو اور میں اس سے پھر درخواست کروں۔
رینی آنٹی، شہیر کی محبت میں کھنچی چلی آتیں ہر دفعہ وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی کھلونا لے کر آتیں میرا دل کٹ جاتا۔

(جاری ہے)

”آنٹی بڑے دونوں پوتوں کے لیے آپ دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے…؟“ میں کہے بنا نہ رہ سکی۔
”میں نے آپ کے سامنے قرآن پر قسم کھائی تھی…“ میں نے منت کے انداز میں کہا۔
”قرآ ن کو تم لوگوں نے مذاق بنا دیا ہے، اسلامی مرکز میں تم لوگ قرآن کی تدریس کی آڑ میں کیا اڈا چلا رہے تھے؟“ رینی آنٹی طنز سے بولیں۔
”وہ سب جھوٹ تھا آنٹی…! سب غلط بیانی… ایسا کچھ نہیں ہو رہا تھا وہاں۔“ میری آواز بلند ہونے لگی۔
”اپنی اونچی آواز نیچی رکھو، تم ابھی اتنی تیز نہیں ہوئیں کہ ہمیں بے وقوف بنا سکو۔
تم نے میری ہمدردی کا یہ صلہ دیا کہ میرے معصوم بچے کو ہی دھوکا دیا۔“
”آنٹی پلیز… آپ میری بات کا یقین کریں…“ میں نے منت کی… ”آپ تو میری ماں کو بھی جانتی ہیں۔“
”ضروری نہیں کہ ہر بیٹی اپنی ماں کا پرتو ہو… آج کل کی لڑکیاں ہمارے وقتوں کی لڑکیوں سے بہت تیز ہیں، یوں بھی تمہارے جیسی لڑکیوں کو جب اپنی اوقات سے زیادہ ملنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ اسی طرح پر پرزے نکالتی ہیں…“ میں تصویر حیرت بنی ان کے ارشادات سن رہی تھی۔
”میں بے قوف تھی جو تمہاری شکل پر بے چارگی دیکھ کر دھوکا کھا گئی… اور یہی سمجھی کہ ویسی ہی ہو گی جیسی کہ نظر آتی ہو…“
”میں تو ویسی ہی ہوں جیسی کہ آپ کو نظر آئی تھی…“ مجھے فوراً غصہ آ گیا۔ ”لیکن آپ لوگ ویسے نہیں ہیں جیسے کہ آپ نظر آتے ہیں میری ماں آپ کی صورت سے دھوکا کھا گئیں اور آپ کی منت سماجت سے وہ بے چاری پریشان ہو گئیں انہوں نے اپنی بیٹی کو قربان کر دیا… آپ کی نسلوں کو سنوارنے کی خواہش کی تکمیل میں انہوں نے اپنے جگر کا ٹکڑا دار پر چڑھا دیا۔
“میں کہہ کر بلک بلک کر رونے لگی۔
ض…ض…ض
دہاڑ سے دروازہ کھلا میں گہری نیند سے جاگی اور صورت حال اور محل وقوع سمجھنے کی کوشش کی۔ میں اپنے ہی کمرے میں سو رہی تھی مہیر دوسری طرف کروٹ کیے لیٹا ہوا تھا… شہیر بے بی کاٹ میں تھا، کمرے کے دروازے میں مجھے ایک سے ز یادہ ہیولے نظر آئے شاید میں کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔
”مہیر…!“ میں نے ہولے سے پکارا اور پھر ہاتھ بڑھا کر مہیر کو جھنجھوڑا وہ کسمسا کر مڑا اور پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کون ہو تم لوگ…؟“ وہ بلند آواز سے بولا۔
”تمہارا نام…؟“ گرج دار آواز میں سوال کیا گیا۔
”مہیر احمد…!“
”باپ کا نام۔“
”کبیر احمد…!“ مہیر نے جواب دیا۔
”یہ خاتون کون ہیں…؟“
”میری بیوی کشف النساء…؟“ مہیر نے فوراً کہا۔
”آپ لوگ کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے باہر آ جائیں۔“ وہی گونج دار آواز آئی۔
”مگر آپ لوگ کون ہیں اور میرے ہی گھر میں کس طرح آپ یوں غیر قانونی طور پر داخل ہو کر مجھ پر رعب جما رہے ہیں…؟ میں نے اس پر احتجاج کرتا ہوں…“ مہیر بلند آواز سے بولا۔ ”میں اسی ملک کا ایک شہری ہوں اور اس بات پر میں اپنی حق تلفی محسوس کرتا ہوں۔“
”کرتے رہو…“ وہی آواز آئی۔ ”قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلوم ہوتا کہ کس کے گھر میں کس طرح داخل ہونا ہے…“ آخر میں اس نے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
”پولیس…“ مہیر کی آواز میں حیرت تھی، بغیر کوئی جواب دیے وہ لوگ دروازے کے سامنے سے ہٹ گئے، میں یہی سمجھ رہی تھی کہ مہیر کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہے اسی لیے ہمارے گھر تک بلکہ نصف شب کے وقت یوں ہمارے بیڈ روم میں پولیس کا پہنچنا… کپڑے تبدیل کر کے میں نے بڑی سی چادر سے خود کو ڈھک لیا، مہیر مجھ سے پہلے نیچے جا چکا تھا میں بچوں پر ایک نظر ڈال کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی، مہیر باورچی خانے کے پاس خاموشی سے کھڑا تھا تینوں آنے والے گھر کی مختلف چیزوں کو دیکھ رہے تھے، کوئی کتابوں کو، کوئی دروازوں کو اور کوئی الماریوں کو، میں خاموش کھڑے مہیر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔
”کچھ بتایا انہوں نے کہ کیوں آئے ہیں…؟“ میں نے سرگوشی میں پوچھا۔
”نہیں…“ مہیر نے مختصر جواب دیا۔
”کیا ان کے پاس یوں ا س طرح ہمارے گھر آنے اور تلاشی لینے کے وارنٹ ہے…؟“ میں نے پھر سوال کیا
”ظاہر ہے کہ ہو گا…؟“ مہیر کی سرگوشی میں بھی غصے کا تاثر نمایاں تھا، ورنہ یہ کوئی پاکستان کی پولیس تو نہیں۔“
”بہت معلومات ہیں جیسے تمہیں پاکستان کے بارے میں۔
“ میں نے تپ کر کہا کوئی پاکستان کے بارے میں یوں بات کرے میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
”آپ دونوں آپس میں انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہ کریں۔“ ایک آدمی نے دہاڑ کر کہا تھا۔
”اگر یہ پولیس والے ہیں تو یہ وردیوں میں کیوں نہیں ہیں…؟“ میں نے سوال انگریزی میں کیا تھا لیکن آواز قدرے آہستہ تھی… ”تم ان کی شناخت تو چیک کرو…“
”آپس میں سرگوشیاں نہ کریں۔
“ وہی آواز آئی۔ ”بلکہ آپ دونوں ایک دوسرے سے فاصلے پر ہو کر بیٹھ جائیں۔ آرام سے بیٹھیں… اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھیں۔“ کہنے والے کے لہجے میں دبدبہ تھا اور مذاق کا عنصر بھی ہم دونوں اس کی ہدایت کے مطابق بیٹھ گئے میں نے سوچا کہ کوئی بات کروں پولیس والوں سے ہی کچھ پوچھوں لیکن اپنی ازلی بزدلی کے باعث اندر سے خوفزدہ تھی تبھی ان میں سے ایک آدمی باورچی خانے سے باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں خالی کاغذوں میں لپٹے کچھ پیکٹ تھے جن پر ڈاکٹر کشف النساء لکھا ہوا تھا۔
 
”یہ کیا ہے…؟ اور کیا آپ ڈاکٹر کشف النساء ہیں…؟“ سوال کیا گیا۔
”مم… میں کشف النساء ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے پیکٹ ہیں۔“ میں ہکلائی… ”میں خود ان پیکٹوں کو پہلی دفعہ دیکھ رہی ہوں…“ یہ بات میں نے پورے اعتماد سے کی تھی۔
”ہم کافی عرصے سے تم پر نظر رکھے ہوئے تھے… ہمیں اطلاع ملی تھی کہ تم اسلامی مرکز کی آڑ میں ہمارے ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔
تمہارے خلاف دہشت گردی، منشیات کی ترسیل اور اہم دستاویزات کی نقل و حمل کے مقدمات درج ہیں اور اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ پاکستان میں تین سال تک تم ایک مذہبی انتہا پسند گروپ سے منسلک رہی ہو…“ اس کی باتوں سے میرے سر پر دھماکے ہو رہے تھے اور وجود میں زلزلے آ رہے تھے… میں اس وقت کسی آسرے کی تلاش میں تھی… میں انتہائی بے بسی سے مہیر کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”مجھے اپنے شوہر کے قریب بیٹھنے کی اجازت دیں…“ میں صرف اتنا ہی کہہ سکی… ان کی طرف سے انکار کر دیا گیا۔ میں نے مدد طلب نظروں سے مہیر کو دیکھا اس کے انداز میں لاتعلقی سی تھی… ”آپ بے شک میرے شوہر سے پوچھ لیں… میرے خلاف یہ ایک سازش ہے۔ یہ سب مجھ پر الزامات ہیں۔“
”ان الزامات کی صحت کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے تمہارے شوہر کا نہیں۔
“سختی سے کہا گیا۔ ”ہم تمہیں گرفتار کر کے ساتھ لے جائیں گے… اور تمہارے شوہر پابند ہوں گے کہ وہ اس شہر سے کہیں باہر نہیں جا سکتے… ہمیں اس بات کا یقین بھی کرنا ہے کہ تمہارے ساتھ ان سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں…“
”گرفتار…؟“ میں ہذیانی انداز میں چیخی۔ ”آپ لوگ ایسا نہیں کر سکتے… کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔ مہیر تم میرے شوہر ہو، امریکی شہری ہو… میں بھی امریکی شہری ہوں… میرے کچھ حقوق ہیں… مجھے اس طرح گرفتار نہیں کیا جا سکتا… مجھے کسی وکیل سے…“ میری بات ادھوری ہی رہ گئی اور ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر مجھے میری گرفتاری کے وارنٹ دکھائے، میں نے خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا۔
”مہیر… تم ہی کچھ کرو…“ میں نے لجاجت سے کہا۔
”تم سے تو تمہارا شوہر بہتر ہے… تم تو امریکی شہری کہلانے کی حقدار ہی نہیں ہو، تمہارا شوہر امریکی شہری ہے تو کم از کم اس نے امریکا سے وفادار ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے تمہاری سرگرمیوں کے خلاف اس نے شکایت کر کے ثابت کیا ہے کہ امریکی کہلانے کے حقدار وہی ہیں جو امریکا سے مخلص ہیں اور وہ امریکا کے خلاف کسی کو دہشت گردی میں ملوث نہیں ہونے دیں گے خواہ ان کی تمہارے جیسی خوب صورت اور چالاک بیوی ہی کیوں نہ ہو…“
”مہیر… تم ایسا نہیں کر سکتے…“ میں آنسوؤں کے ریلے پر قابو نہ پا سکی… ” مہیر تم جانتے ہو تم نے غلط کیا ہے اپنا مدعا تم نے میرے سر ڈال دیا ہے… تم بھی پھنس جاؤ گے مہیر، انہوں نے تمہیں پابند کر دیا ہے کہ تم کہیں جا نہیں سکتے… ایک طرف تمہاری وفاداری کو سراہ رہے ہیں… اس جال میں تم خود بھی پھنس جاؤ گے مہیر جو تم نے میرے لیے بچھایا ہے۔
”شٹ اپ…“ انتہائی حقارت سے مہیر نے کہا۔
”تم پھر کسی اور زبان میں بات کر رہی ہو…؟“ اس آدمی نے غصے سے کہا۔
”دیکھئے آفیسر…! میں آپ کو حقیقت بتاتی ہوں…“ میں نے ایک لمحے میں فیصلہ کر لیا کہ مجھے مہیر کے غلط کاروبار کے بارے میں ان کو بتا دینا چاہیے اگر اس نے اعلان جنگ کر دیا تھا تو پھر مجھے بھی اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل تھا۔
محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔
”اب تمہیں جو بھی بتانا ہے چل کر عدالت میں ہی بتانا…“ دو آدمی مجھے گھسیٹنے لگے۔
”چھوڑو مجھے…“ میں دہاڑی ”ہاتھ مت لگاؤ مجھے… تمیز کے دائرے میں رہو…“ میں نے مزاحمت کی۔ ”مجھے ایک بار اپنے بچوں کو دیکھنا ہے۔…“ وہ اسی طرح گھسیٹتے ہوئے مجھے باہر لے آئے۔ مجھے یوں بچوں سے ملنے بھی نہیں دیا گیا اور میں گاڑی میں ”قید“ ہونے تک مہیر کو مدد کے لیے پکارتی رہی۔“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider