Episode 64 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 64 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

 ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی میں گھڑیاں گن رہی تھی کہ کب ملازم کام ختم کر کے واپس جائیں اور کب میں کمرے میں جا سکوں-
” ذرا تمہارا فون چاہئے… “ سرمد نے میرے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا، ” بابا کو کال کرنا تھی اور میرے فون کی انٹر نیشنل ڈائلنگ میں کوئی مسئلہ آ رہاہے… “ 
” اس وقت تو بہت دیر ہو چکی ہے … “ میں نے تاویل دی، میں اپنا فون اس کے ہاتھ میں نہ دینا چاہتی تھی کہ فون آن ہو اور کہیں نیڈی کا پیغام آ جائے تو میری چوری پکڑی جائے گی-
” بابا اسی وقت فارغ ہوتے ہیں، میں ہر روز اسی وقت پر تمہارے سامنے ان سے بات کرتا ہوں! “
” وہ … “ مجھ سے کوئی جوا ب نہ بن پڑاا ور میں نے فون سرمد کے ہاتھ میں دے دیاا ور دل ہی دل میں ورد کرنے لگی کہ اس کا پیغام نہ آئے- سرمد کی بات کے دوران میں ہمہ تن آنکھ بن گئی تھی، جونہی اس کی کال ختم ہوئی میں نے اپنا فون اس سے لیا اور سر درد کا بہانہ کر کے اٹھ گئی-
” میں چائے بنوا دوں تمہارے لئے؟ “ سرمد نے نرمی سے پوچھا یا کچھ اور جو تمہیں اچھا لگتا ہو!
” just leave me alone “ میں نے تقریبا چیخ کر کہا، ” جو مجھے اچھا نہیں لگتااسے دیکھنے پر مجبور نہ کرو تو کافی ہے… تم نے تو … “ میں ادھوری بات کہہ کر وہاں سے چلی، مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ اس کے سیاہ چہرے کا رنگ کیا ہوا ہو گا! 
ض…ض…ض
اتنی نفرت کرتی ہے وہ مجھ سے… میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہتے کہتے رک گئی تھی، اس نے بھی اپنے چیخنے کے بعد کچن کے دروازے پر نمودار ہونے والے ملازم کر دیکھ لیا تھا اور اسی کی خاطر کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی- میں جان گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی تھی- وہ مجھ سے جان چھڑانا چاہتی تھی، وہ مجھے ناپسند کرتی ہے اور میرا چہرہ اسے برا لگتا ہے، چہرے سے بڑھ کر اس نے مجھے جانا ہی کب ہے؟ ظاہری حسن پرست… میرے اتنا کچھ کرنے کے باوجود اس کے ماتھے کے بل نہیں ہٹتے، مجھے دیکھ کر جھوٹی مسکراہٹ تک نہیں اس کے لبوں تک آتی- ان دنوں میں بھی کہ جب ہم گھر میں اکیلے تھے، مجھے اتنا رومانوی لگتا کہ ہم دونوں گھر میں تنہا اور ایک دوسرے کے اتنے قریب… میں نے پہلے ہی دن سختی سے اسے کہا تھا کہ اسے اس معمول کو اپنانا ہو گا، مجھے معلوم ہے کہ وہ بادل نخواستہ ہی میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی اور ٹی وی لاؤنج میں تھوڑا وقت گزارتی ہے مگر مجھے یہ وقت کتنا قیمتی لگتا-
وہ چاہتی تو میری بات ماننے سے انکار بھی کر سکتی تھی مگر وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی، میں نے اس سے کہا تھا کہ جب اور جیسا وہ چاہے گی، وہی ہو گا… علیحدگی، طلاق یا جو بھی فیصلہ وہ کرے گی مگر جب تک وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ جاتی تب تک اسے اس گھر میں ا سی انداز سے رہنا ہو گا جیسے کہ ہم ہنسی خوشی رہنے والے دو میاں بیوی ہیں - میں نے اسے اس کی مرضی کے بغیر چھوا تک نہیں ہے … نہ اس کی مرضی ہو گی نہ میں اسے چھوؤں گا- پہلی رات کوا س کی انگلی میں انگوٹھی پہنانے کے علاوہ ہمارا کوئی تعلق قائم ہی نہ ہوا تھا-
میں نے ا س سے فون مانگا تو اس نے کتنے تذبذب کے بعد مجھے دیا، شاید اسے پسند نہیں آیا کہ میں اس کے فون کو استعمال کروں … ہاں مجھے اس کی کسی بھی چیز کو استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے … میری آنکھوں میں مرچیں لگنے لگیں- مجھے نتالیہ کی سوچ سے نفرت محسوس ہوئی، کتنی کم ظرف عورت تھی وہ، میری محبت کی، میرے جذبات کی قدر کرنا تو کجا اس نے تو انہیں جاننے کو کوشش تک نہ کی تھی- میں نے کیا پایا تھا شادی کر کے… نفرت اور مزید محرومیاں ؟ اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ میں حامی ہی نہ بھرتا اور عمر بھر کنوارا ہی رہ جاتا، اس تکلیف دہ صورت حال سے تو نہ گزرتا-
اب وہ مانگے یا نہ مانگے… میں خود اسے طلاق دے دوں گا، ایک بار اسے اطلاع کر دوں گا کہ میں طلاق نامہ بھجوا رہا ہوں … میں نے کرب سے سوچا، اسے نہ سہی، مجھے تو اس سے لگاؤ ہو گیا تھا، میرا نکاح ہوا تھا اس سے اور نکاح کے دو بولوں میں وہ طاقت ہوتی ہے جو بسا اوقات خونی رشتوں سے بڑھ جاتی ہے-
ض…ض…ض
” بس اب ملنا ہی ہو گا… “ میں نے پیغام بھیجا-
” تم ڈرائیونگ کرتے ہوئے کیوں پیغام لکھ رہی تھیں؟ “
” کیونکہ تم جواب جو نہیں دے رہے تھے… “
” تم نے خود ہی کہا تھا کہ کام کرنے دو… “
” تمہیں برا لگا اور تم ناراض ہو گئے تھے… “
” مگر گاڑی احتیاط سے چلایا کرو… تمہیں کچھ ہو جائے تو جانتی ہو کہ میں “
” کیا میں؟ “ میں نے فورا ٹائپ کیا، جاننا چاہتی تھی کہ وہ کیا کہتے کہتے رک گیا تھا-
”میں کوئی اور لڑکی ڈھونڈ لوں گا… “ اس نے مزاحیہ چہرے کے ساتھ پیغام بھیجا اور میں تپ کر رہ گئی، غصے سے فون بند کر کے لیٹ گئی، اس کے بعد بار بار اس کی طرف سے پیغامات کی ٹون بجتی رہی اور میں نظر انداز کرتی رہی- سرمد ان دنوں بابا کے کمرے میں سو رہا تھا اس لئے میں دھڑلے سے فون پر اس سے پیغام رسانی کرتی- میں نے سوچا کہ اس سے بات کروں مگر ا س کاکہنا تھا کہ اسے پیغامات اچھے لگتے ہیں-
” ہاں تا کہ ان پیغامات کو تم میرے خلاف ثبوت کے طور پر جب اور جہاں چاہے استعمال کر سکو! “ میں نے اسے ایک بار کہا تھا ،حالانکہ جانتی تھی کہ وہ ایسا نہ تھا- کتنا اعتبار تھا مجھے اس ان دیکھے محبوب پر-
” ایسا گھٹیا سمجھتی ہو مجھے… “ اس کے جواب نے مجھے انتہائی شرمندہ کر دیا تھا- مجھے مذاق میں بھی اس سے ایسی بات نہیں کہنا چاہئے تھی-
ض…ض…ض
” اب ملنے کے علاوہ کوئی بات نہ ہو گی! “ دفتر پہنچی تو ا سکا پیغام موجود تھا-
” آ جاؤ میرے دفتر میں پھر… “
” اچھا! “ جواب آیا، ” میں آ بھی جاؤں گا، تم بتاؤ کہ کیا تم یہ سکینڈل افورڈ کر لو گی؟ “
” مذاق کر رہی ہوں … “ میں نے گھبرا کر جواب دیا-
” جانتا ہوں … اتنی بہادر نہیں ہو تم… “
” میری بہادری کو نہ آزمانا… پرواہ نہیں ہے مجھے کسی کی بھی! “ میں نے جھوٹی تڑی لگائی-
” آج شام کو ملیں پھر؟ “ سوال آ یا-
” آج شام کو تو نہیں… “ میں نے جواب لکھا، ” پلان کرنا پڑے گا، پہلے سے گھر پر بتانا پڑے گا! “ میں نے اس سے کہا، حالانکہ اس روز نہ ملنے کا تو فقط بہانہ تھا، میں اسے ملنے سے پہلے اپنے آپ کو presentable بنانا چاہتی تھی، پارلر جا کر اپنے چہرے اور بالوں کو سنوارتی اور اس کے لئے خواہ مجھے دفتر سے چھٹی لینا پڑتی-
”تین دن کے بعد ملتے ہیں… “
” بڑی پتی ورتا ہو… اور پتی کو کہاں بھیجو گی ملاقات کے دن ؟ “
” فضول باتیں مت کرو… تم سب کچھ جانتے ہو پھر بھی مجھے چڑانے کو یہ سب کچھ کہتے ہو! “
” مذاق کر رہا تھا جان… “
” اچھا اپنے مذاق بند کرو اور اب خود بھی کام کرو اور مجھے بھی کام کرنے دو! “ 
ملنے کا وقت اور جگہ طے ہونے لگی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ جو جگہ بھی بتاتا وہ مجھے مناسب محسوس نہ ہوتی، اسے تو شاید کسی کی پروا نہ تھی مگر مجھے اس ملاقات کو سارے شہر سے چھپانا تھا… سرمد جلال کی بیوی کے خفیہ عشق کی داستان کو چھپانا تھا اور جب کچھ چھپانا مقصود ہو تو پوری دنیا چھوٹی محسوس ہوتی ہے-بالآخر ایک گمنام سے ہوٹل کے ہال میں ملنے کا فیصلہ ہوا اور میں نے دل میں پھر بھی خوف محسوس کیا کہ کہیں پکڑے نہ جائیں- میری شادی کی تصاویر بھی اخبارات میں چھپی تھیں اور دیکھ لئے جانے کا احتمال تھا…اور وہ ہر فکر سے بے نیاز- مگر اس سے ملنے کی لگن اور تڑپ نے میری آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دی تھی-
ض…ض…ض
پارلر سے نئے انداز سے بال بنوائے… بہترین لباس منتخب کیا اور تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آئی تو سرمد نے مجھے غور سے دیکھا… ” دفتر ہی جا رہی ہو نا آج؟ “ ان کے انداز میں توصیف تھی-
” ج جی جی! “ میں ہکلا گئی … ” شام میں ہم دوستوں نے باہر ملنے کا پروگرام بنایا ہے… چائے پر! “
” اچھا… پھر تو تم معمول سے دیر سے لوٹو گی! “ لا پروائی سے اپنے توس کے ساتھ انڈا کھاتے ہوئے کہا، ایک بار دیکھنے کے بعد وہ میری طرف دیکھ بھی نہ رہا تھا-
” ہاں … دیر تو ہو ہی جائے گی! “ میں نے کہا اور اپنے دھیان ناشتہ کرنے لگی، سرمد ناشتے کے ساتھ اخبار دیکھنے میں مصروف تھا، مجھے اپنے حسن کی توہین محسوس ہوئی- ناشتہ ختم کر کے میں نے اسے خدا حافظ کہا اور چل دی- اس کے بعد شاید حالات مختلف ہوں گے… میں نے دل میں سوچا، نیڈی کو ملوں گی تو جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچ کر تمہیں خدا حافظ کہہ دوں گی مسٹر سرمد… 
” سنو… “ اس نے پکارا، مجھے لگا کہ وہ مجھے روکنا چاہتا ہو، مگر اسے کیا معلوم کہ میں کس مشن پر جا رہی ہوں، مجھے اپنی سوچ پر خود ہی ہنسی آئی-
” تم بہت اچھی لگ رہی ہو آج… “ اس نے کہا، ” ہمیشہ سے بڑھ کر، اسی طرح رہا کرو… اور ہنستی ہوئی تو تم اور بھی اچھی لگ رہی ہو! “
” اچھا!!! “ میں نے طنز سے کہا-
” سچ مانو! “
” بس یا کچھ اور بھی کہنا ہے تمہیں؟ “ میں نے ایسے غرور سے گردن اکڑائی جیسے میں واقعی ملکہء حسن ہوں، ایک مرد نے تو میرے حسن کو خراج دے دیا تھا، اب دوسرے کو قتل کرنا باقی تھا- دفتر سے لنچ کے وقفے کے بعد ہی مجھے اٹھ جانا تھا، ہمیں لنچ اکٹھے کرنا تھا، اور نیڈی نے کہا تھا کہ واپس جانے کی بات نہ ہو گی، ہم دیر تک باتیں کریں گے- جانے کیا کیا باتیں جمع کر رکھی تھیں اس نے… میں نے اس کا شکریہ بھی ادا نہ کیا اور خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلی-
میں نے گاڑی میں خالہ جان کی ایک چادر ایک دن پہلے ہی رکھ دی تھی، اس سے مجھے کچھ نہ کچھ تحفظ مل جاتا، ہوٹل میں داخلے سے لے کر اس کیبن تک مجھے خود کو اس چادر سے کور کرنا تھا تا کہ اگر کوئی ہال میں جاننے والا بیٹھا ہو تو وہ مجھے پہچان نہ سکے-

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider