Episode 24 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 24 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

جمال نے جانے کس طرح اپنے والدین سے بات کی کہ جلدی ہی شادی کی تاریخ طے ہو گئی اور دونوں گھروں میں ہنگامے سے جاگ کھڑے ہوئے۔ میری ہاؤس جاب شروع ہو چکی تھی اور میں اپنی انتہائی مصرفیات کے باوجود اپنی اور جمال کی مما کے بیچ پنگ پانگ بنی ہوئی تھی۔ کبھی ایک مجھے خریداری کے لیے گھسیٹ رہی ہوتی تھیں تو کبھی دوسری، زیور، کپڑے، جوتے… جمال ہر ہر چیز کے انتخاب میں میرے ساتھ ہوتا تھا ہر وقت اس کی سراہتی نظریں مجھے خود پر محسوس ہوتی تھیں۔

پپا نے دعوت ناموں کے نمونے منگوا کر میرے سامنے رکھے۔
”میرا بیٹا خود اپنے دعوت نامے کا انتخاب کرے گا۔“
”پلیز پپا…“ میں شرما کر ان سے لپٹ گئی۔… پپا کے بازو میرے گرد حمائل ہو گئے انہوں نے میرے سر پر بوسہ دیا… میں محسوس کر رہی تھی کہ ان کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

(جاری ہے)

”کیا بات ہے پپا… آپ ٹھیک تو ہیں ناں…؟“ میں نے تشویش سے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہوں میری جان…!“ پپا نے کہا۔ ”بس دل کو کچھ ہونے لگتا ہے یہ سوچ کر کہ اب میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔“
”پپا…!“ میں ٹھنکی… ”ایسی باتیں کریں گے تو آپ کا بیٹا آپ سے ناراض ہوجائے گا… میں آپ کو چھوڑ کر جاؤں گی بھی نہیں…“
”آؤ آؤ… ینگ مین…“ پپا نے اٹھ کر جمال کو بھینچ کر گلے سے لگایا اور اس کی پیٹھ تھپکی۔
”کیسے آئے ہو…؟“
گاڑی پر انکل…“ مسخرے پن سے جمال بولا۔
”اچھا، میں سمجھا گھوڑے پر آئے ہو…“ پپا نے بھی اس کے مذاق کا جواب مذاق میں دیا۔
”گھوڑے پر بھی جلد ہی آ جاؤں گا انکل…“ جمال کا کہنا تھا کہ دونوں کا بھرپور قہقہہ پڑا…“ اصل میں انکل شادی کے دعوت نامے چھپوانا تھے تو میں نے ایک دعوت نامہ ڈیزائن کروایا تھا، مما کا خیال تھا کہ حتمی منظوری صوفی دے گی…“ اس نے ایک بھاری سا لفافہ میری طرف بڑھایا میں نے اس کے اوپر سے ٹیپ اتار دی اور کارڈ کھینچ کر باہر نکالا میرا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔
کارڈ کے باہر میری اور جمال کی ایک انتہائی خوب صورت تصویر تھی منگنی کے فنکشن میں جمال انگوٹھی پہنانے کے بعد میرے کان میں سرگوشی میں مبارک باد دے رہا تھا ورمیرے چہرے پر شرم و حیا کے سبھی رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ میں نے یہ تصویر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
# # #
”مولوی صاحب یہ میری بہن ہے جی صوفیہ احمد…“ علی نے قہوے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”میں نے تو اپنا نام آپ کو بتایا ہی تھا علی احمد…!“ سوئے اتفاق میرے اور علی دونوں کے والد کا نام احمد علی تھا۔ ”یہ لڑکا ہے چنگیز اس سے، میرا مطلب ہے کہ یہ صوفیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور ہمارے والدین نہیں مانتے…“
”یہ کیا بکواس ہے…؟“ میں نے انگریزی میں علی سے کہا مگر روحا نے فوراً ڈپٹ کر مجھے خاموش ہو جانے کو کہا۔
”کیا وجہ ہے… کیوں نہیں مانتے…؟“ مولوی صاحب نے پوچھا۔
”بظاہر تو لڑکا ٹھیک ہی نظر آتا ہے…“
”سب ٹھیک ہے جی بس وہ…“ علی نے پھر سر پکڑا۔ ”ابو نے اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے… صوفیہ گھر سے ناراض ہو کر نکل گئی تھی… ہم سب اسے یہی سمجھانے بجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں…“ باقی سب اس صورت حال سے محفوظ ہو رہے تھے۔
”کیا عمر ہے تمہاری بیٹا…؟“ مولوی صاحب نے مجھ سے پوچھا۔
”جی اٹھارہ سال…!“ میں نے بیزاری سے کہا۔
”تمہیں یہ لڑکا پسند ہے…؟“ انہوں نے کہا ۔ میں جواب دیتے ہوئے متذبذب تھی چنگیز کی طرف دیکھا تو وہاں اس کی آنکھوں میں جانے کیا تھا۔
”جی…!“ میں نے جانے کیسے یہ لفظ ادا کر دیا۔ مولوی صاحب سوچ میں پڑ گئے سجیلی مائی نے کچھ رضائیاں کچھ کمبل جانے کہاں سے برآمد کر لیے تھے اور ہمیں دیے تھے آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈال دی تھیں اور ہم آہستہ آہستہ غنودگی میں جانے لگے۔
کسی عجیب سے احساس کے تحت میری آنکھ کھلی تھی، کسی نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیری تھیں، میں نے بمشکل آنکھ کھول کر دیکھا چنگیز میرے اوپر جھکا ہوا تھا… میں ابھی تک سمجھ نہ پائی تھی کہ کیا ہو رہا تھا۔
”کیا کر رہے ہو تم…؟“ میں نے کہا تو اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
”شش…“ اس نے مجھے خاموشی کا اشارہ کیا…“ اٹھو میرے ساتھ چلو… اِدھر ساتھ ایک چھوٹا کمرا ہے وہاں…“
”کیوں…؟“ اس نے خفگی سے کہا۔
”تم آؤ تو…“
”مگر کس لیے…؟” میں نے پھر درشتی سے کہا۔
”تمہیں کھا نہیں جاؤں گا میں…“ اس نے کھینچ کر مجھے بستر سے نکالا اورا سی طرف چلا جہاں گول چکردار زینہ نیچے جا رہا تھا۔ مجھے عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے سامنے ہی ایک دروازہ نظر آ رہا تھا اس سے ہم اندر داخل ہوئے تو اندر مولوی صاحب سجیلی مائی اور علی بیٹھے تھے میں صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”آؤ بیٹھو بیٹا…“ میں آہستگی سے چلتی ہوئی مائی کے پاس رکھے موڑے پر جا کر بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب کی گود میں ایک خاکی کاغذ چڑھا ہوا رجسٹر تھا، میں ہونقوں کی طرح کچھ سوئی جاگی کیفیت میں تھی۔
”بیٹا ہمیں اپنے ماں باپ کی طرح ہی سمجھو…“ مولوی صاحب گویا ہوئے۔ ”بسا اوقات جنم دینے والے والدین بھی اولاد کے جذبات کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اولاد وہ راستے اختیار کرتی ہے جو تم نے کیا۔
تم میری بیٹی جیسی ہو اور تمہیں بھٹکنے سے بچانے کے لیے ہمیں یہ کام کرنا پڑا ہے اگرچہ یہ کام میرے اصولوں کے خلاف ہے لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے اصول تو کبھی بھی توڑے اور تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔“ مجھے تو ان کی تقریر کا ایک لفظ پلے نہیں پڑ رہا تھا پٹر پٹر میں انہیں دیکھ رہی تھی، سجیلی مائی نے میرے اوپر لال رنگ کا گوٹے والا بوسیدہ سا دوپٹا اوڑھا دیا۔
”یہ سب کیا ہے… کیا بکواس ہے…؟“ میں انگریزی میں دھاڑی۔
”کچھ نہیں یار… مولوی صاحب میر ی سنائی ہوئی کہانی پر سنجیدہ ہو گئے ہیں اور یہ سارا ڈر اما پلاٹ ہوا ہے، یہ سب ایک ڈراما ہی سمجھو…“ علی ہنسا اور انگریزی میں ہی مجھے بتانے لگا۔
”تو یہ ڈراما تم اور روحا کر لو…“ میں چڑی۔
”کم آن یار…“ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا مولوی اور اس کی بیوی میرے علاوہ گواہ ہیں اور نکاح نامے کا کیا ہے اسے ہم یہاں سے نکلتے ہی پھاڑ دیں گے۔“
”مسماة صوفیہ احمد… “ مولوی صاحب جانے کیا کیا بول رہے تھے، میں نے غائب دماغی سے سب سنا اور جب چنگیز نے رجسٹر اور بال پین میری طرف بڑھا کر کہا مجھے کہاں کہاں دستخط کرنا تھے تو میں نے کچھ سوچا نہ سمجھا اور دستخط کر دیے۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider