Episode 23 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 23 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”سر چنگیز کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ واپس میں جانا چاہتا ہے…“ طلال اور علی نے جا کر سر احمد سے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے، ہم کسی ڈاکٹر کو کال کر لیتے ہیں اسے اس کے کمرے میں آرام کرنے دو۔“ سر احمد نے کہا۔
”نو سر وہ اپنی دوا ساتھ لانا بھول گیا ہے اور وہ دوا یہاں مل نہیں رہی… ہم پنڈی جا کر وہ دوا لا سکتے ہیں یا اسے ساتھ لے کر پنڈی چلے جاتے ہیں سر…!“ علی نے جھوٹ گھڑا۔
”ہاں میرے بڑے بھائی رہتے ہیں ہم تین دن وہاں ٹھہریں گے اور جس روز آپ لوگ آئیں گے ہم آپ کے ساتھ ہی مل جائیں گے۔“
”نہیں بیٹا، ہم اس طرح آپ لوگوں کو اجازت نہیں دے سکتے…“ سر احمد نے سختی سے کہا۔ ”ہم کچھ نہ کچھ بندوبست کرتے ہیں۔“
”سر پلیز… ہم ویسے بھی واپس جانا چاہتے ہیں…“ طلال نے کہا۔

(جاری ہے)

”ہم یہاں بور ہو رہے ہیں۔“

”یہ تو آپ کو یہاں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا…“ سر احمد غصے میں آ گئے۔
“ آپ کی بوریت کی وجہ سے ہم اپنے اصول اور قاعدے تو تبدیل نہیں کر سکتے… اگر چنگیز بیمار ہے تو اس کی دوا اور علاج کا بندوبست کر لیتے ہیں۔“
”سر ہم نے تو کرایے پر گاڑی بھی منگوا لی ہے۔“ علی نے منہ لٹکایا۔
”مجھ سے پوچھے بغیر تم یہ کیسے کر سکتے ہو…؟“ سر احمد کے غصے کا پارہ اور بھی بلند ہو گیا۔
”سر پلیز ہم کوئی چھوٹے بچے نہیں ہیں… اٹھارہ اٹھارہ سال کے نوجوان ہیں…“ طلال نے نرمی سے کہا ”یوں بھی ہم تینوں چنگیز کے ساتھ جائیں گے میں، علی اور فیض۔
”میں تم لوگوں کو اکیلے بھیجنے کا خطرہ مول کیسے لے سکتا ہوں…“ سر احمد ذرا ڈھیلے پڑ گئے تھے۔
”سر ہم آپ کو لکھ کر دے دیتے ہیں کہ ہم اپنے رسک پر جا رہے ہیں…“ طلال نے کہا۔
”سر ہم ابھی جا کر رات تک واپس آ جائیں گے…“ علی نے فریادی انداز میں کہا تو سر احمد نے اجازت دے دی۔
”سر آپ گریٹ ہیں قسم سے…“ علی نے ہنس کر کہا۔
گاڑی میں وہ وہاں سے ڈرائیور کے ساتھ نکلے چند کلومیٹر کے بعد انہوں نے ڈرائیور کو وہاں اتارا جہاں سے اسے شہر جانے کے لیے بس یا ویگن مل جاتی اور واپس آ کر مقررہ جگہ سے انہوں نے ہم چاروں لڑکیوں کو لیا جہاں ہم پیدل ہی گئی تھیں۔ چنگیز گاڑی چلا رہا تھا۔لینڈ کروزر پہاڑی علاقوں کے لیے بہترین گاڑی ہے چنگیز کے ساتھ طلال آگے بیٹھا تھا اس سے پچھلی سیٹ پر ہم چاروں لڑکیاں تھیں اور سب سے پیچھے فیض اور علی بیٹھے تھے گاڑی کی نرم اور گرم فضا میں میٹھے نغمے بکھر رہے تھے اور ہم میوزک کے ساتھ ساتھ بیٹھے تھرک رہے تھے۔
ہم یونہی منہ اٹھا کر نکل پڑے تھے، راستوں سے بھی بہت زیادہ واقفیت نہ تھی اور یہی چنگیز کے ایڈونچر کا آئیڈیا تھا کہ لگی بندھی ٹرپ کی روٹین سے نکلیں اور کسی ایک طرف چل پڑیں پھر کہیں راستہ بھولیں اور کھو جائیں پیدل اتر کر ان علاقوں کی خوب صورتی کو اپنی یادوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے حافظوں میں محفوظ کر لیں۔ سر احمد کو طلال اور علی نے کہا تھا کہ ہم رات کو لوٹ آئیں گے لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا۔
چنگیز کی طبیعت بدستور خراب ہونے کا کہہ کر شام علی کو کال کر کے سر احمد کو بتانا تھا کہ ہم صبح آئیں گے ہم چار لڑکیوں کی غیر حاضری پر بھی شام کا طوفان اٹھ کھڑا ہونا تھا مگر ہمیں یقین تھا کہ ہمارے اساتذہ حتی الامکان ہماری عدم موجودگی کو صیغہٴ راز میں رکھیں گے کیونکہ یہ ان کے لیے ہی مسئلہ کھڑا کر سکتا تھا۔
”واؤ…!“ چنگیز کی بلند آواز نے ہم سب کو سامنے دیکھنے اور پھر مبہوت ہو جانے پر مجبور کر دیا ۔
سڑک کے سے نیچے وادی نظر آ رہی تھی جس میں بل دار اور سیاہ چمکدار سڑک نمایاں تھی چھوٹے چھوٹے گھریوں نظر آ رہے تھے جیسے گڑیوں کے گھر ہوں۔ چنگیز نے گاڑی ایک طرف کر کے پارک کی اور ہم کوٹ، جیکیٹس اور مفلر لپیٹے باہر نکل آئے۔
”دنیا میں کیا یہ جنت نہیں ہے…؟ آلودگی سے پاک… ان چھوا حسن…“ سیماب کی شاعرانہ حسیں بیدار ہو رہی تھیں۔
”چلو…“ چنگیز اور علی آگے چل پڑے۔
”کہاں جا رہے ہو…؟“ علینہ نے طلال کا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
”آؤ ناں یار… پیدل چلتے ہیں اور کسی گھر میں جا کر مکئی کی روٹی کھاتے ہیں…“ چنگیز نے کہا۔
”روٹی ہمارے لیے کس نے پکا رکھی ہو گی…؟“ فیض کو یہ خیال زیادہ پسند نہیں آیا تھا۔ اس سے بہتر ہے کہ کہیں سے مرغیاں چوری کر کے انہیں بھون کر کھایا جائے۔“
”چلو تو سہی تم… دیکھتے ہیں کیا کیا چرایا جا سکتا ہے۔
“ علی نے فیض کو گھسیٹا اور ہم برف میں دھنستے ہوئے قدموں سے چل کر واپس گاڑی میں آ بیٹھے۔ یقینا منفی سے بھی کئی درجے نیچے درجہ حرارت تھا کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں ہم برف کی سلوں کی طرح ٹھنڈے ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کر گرمی کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔ پاؤں بھاری جوتوں اور اونی جرابوں کے باوجود جم سے گئے تھے۔
”چنگیز واپس چلو…“ میں نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہا۔
”پلیز سردی سے مر جائیں گے۔“
”اگر نصیب میں سردی سے مرنا ہی لکھا ہے تو پھر…“ چنگیز نے مضحکہ اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”مجھے تو ڈر لگ رہا ہے…“ علینہ کافی دیر کے بعد بولی تھی۔
”بہادر بنو لڑکی…!“ طلال نے اس کا کندھا تھپکا۔ ”میں ہو ناں تمہارے ساتھ۔“
اردگرد برف میں بہت سی گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں مگر چنگیز سیٹی بجاتا بے فکری سے گاڑی چلا رہا تھا جیسے وہ کسی ہموار سڑک پر گاڑی چلا رہا ہو۔
اب رخ وادی کی طرف تھا ہم بادلوں سے بھی اوپر تھے، دھند اور برف کی سفیدی کے باوجود بھی اندھیرا چھانا شروع ہو گیا تھا۔ ہم بستی میں پہنچ گئے تھے اور بستی میں بنے ہوئے گھر برف کی تہوں تلے دبے ہوئے غاروں کی طرح لگ رہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کسی فلم کا کوئی کردار ہوں۔ ہماری گاڑی کی آواز اس بستی میں آنے والی واحد آواز تھی۔ کیسا اچھوتا سا حسن تھا اس بستی کا جو ہمیں مبہوت کیے ہوئے تھا یک دم گاڑی کا انجن ہلکا سا جھٹکا لے کر بند ہو گیا، چنگیز نے اسے دوبارہ اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود…
”لیں جی… سواری بادِ بہاری یہاں رکی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہی ہماری منزل ہے۔
“ چنگیز نے کہا۔
برف کی تہیں وہاں پر کتنی گہری تھیں اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ علی نے عین گاڑی کے سامنے والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کافی دیر تک انتظار کر کے بھی آواز نہ آئی تو اس نے دروازہ دھڑدھڑایا۔
”کون ہے…؟“ کمزور سی مردانہ آواز آئی۔
”ہم ہیں جی…“ علی نے کہا… ”ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے اور ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔
”دروازے کے اوپری حصے میں ہاتھ ڈالو تو کنڈی کھل جائے گی، آگے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاؤ…“ اسی آواز نے راہنمائی کی۔ ”اور ہاں کنڈی واپس لگانا نہ بھولنا…“ علی نے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے دروازہ کھولا اور ہم سب بے تابی سے اندر داخل ہو گئے طلال سب سے آخر میں تھا اس نے دروازے کی کنڈی چڑھائی اور ہم وہ اندھیری سیلن زدہ سیڑھیاں چڑھنے لگے جنہیں ہم نے اپنے موبائل ٹیلی فون سے روشنی کر کے دیکھا تھا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم گھر والوں کی سادگی اور سادہ لوحی کا ہی تذکر ہ کر رہے تھے جنہوں نے ہماری شناخت کے بغیر یونہی اپنے گھر کے اندر آنے کی اجازت دے دی تھی۔ شہروں میں تو ہم یوں کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے… سیڑھیاں ایک ہال نما کمرے میں ختم ہوئیں… تھوڑی دیر میں ہی اندازہ ہو گیا کہ وہی کمرا پورا گھر تھا اور اس میں رہنے والے کل دو نفوس وہ ادھیڑ عمر کے میاں بیوی مولوی عبدالقدوس اور اس کی بیوی سجیلی مائی جس کا چہرہ ابھی بھی بتا رہا تھا کہ وہ کتنی خوب صورت رہی ہو گی جوانی کے وقت۔
کمرے میں فرشی نشستیں تھیں، روئی کے گدیلے، ایک طرف آتش دان میں آگ جل رہی تھی اور اس کے نزدیک ہی چھت تک چٹائی کی طرح رکھی ہوئی سوکھی لکڑیاں۔ لکڑیوں کے نزدیک ہی مٹی کا چولہا بنا ہوا تھا جس پر ہنڈیا رکھی ہوئی تھی اور کچھ پکنے کی سوندھی سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ہم سب آتش دان کے قریب دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ سجیلی مائی نے ایک کیتلی میں دودھ پتی ڈال کر ہمارے لیے آتش دان پر ہی دودھ پتی پکانے کو رکھ دی… ہم ذرا شرمندہ ہوئے کہ جانے بے چارے کہاں سے دودھ لائے ہوں گے اور کتنے ہی دنوں کے لیے ذخیرہ کر رکھا ہو گا۔
چنگیز نے ہی کچھ سچ اور کچھ جھوٹ گھڑ کر بتایا کہ ہم سب اپنے خاندان کے ساتھ پکنک پر جا رہے تھے کہ راستہ بھول کر ہم اس طرف نکل آئے، جانے انہیں اس بات پر یقین آیا کہ نہیں مگر ہمیں ان کے چہرے پر شک کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔
دودھ پتی کے ساتھ سجیلی مائی نے انڈے بھی ابال لیے تھے اور ہماری شرمندگی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ ایک ٹوکری میں سے مٹر لے کر وہ چھیلنے بیٹھ گئیں ہم سب نے ان کے ساتھ مٹر چھیلنا شروع کر دیے تو وہ اٹھ کر آلو اور پیاز لے کر بیٹھ گئیں۔
”آپ کے پاس مکئی کا آٹا ہے…؟“ چنگیز نے ان سے پوچھا۔
”بس آپ مکئی کی روٹی کھلا دیں…“ علی نے فرمائش کی۔
”وہ بھی بن جائے گی ساتھ…“ عبدالقدوس کہنے لگے۔ ”دیسی مرغی کھاؤ گے تم لوگ شوق سے…؟“
”اس وقت آپ کہاں زحمت کریں گے…؟“ فیض نے اس انداز میں کہا کہ اگر زحمت نہ ہو تو کر لیں۔
”زحمت کی کیا بات ہے…“ مولوی صاحب کہنے لگے… “ہر چیز گھر میں موجود ہے…“ ہم نے ان کے کہنے پر دائیں بائیں نظریں دوڑائیں اور فریج ڈھونڈنے کی کوشش کی اس پر مولوی صاحب ہنسنے اور کمرے کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ایک گول چکر دار زینہ نیچے جاتا نظر آتا تھا، یہ وہ زینہ نہ تھا جس سے ہم اوپر آئے تھے۔
” اس سے نیچے کی منزل پر ہمارے جانور رہتے ہیں بھینس، گائے، خچر، گھوڑے، بکریاں اور مرغیاں بھی… اور وہ جگہ اس جگہ سے بہت بڑی ہے… اس کا یہ بھی ایک فائدہ ہے کہ جانوروں کے جسموں کی حرارت ہمارے گھر کو بھی گرم رکھتی ہے۔“
اتنے سارے جانوروں کی گھر میں موجودگی کے خیال سے ابکائی سی آنے لگی وہی کمرا جہاں سے تھوڑی دیر قبل تک ہمیں سوندھی خوشبو آ رہی تھی وہاں پر اب گھن آ رہی تھی۔
مولوی صاحب نے بتایا کہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی اور وہ دونوں میاں بیوی اکیلے ہی رہتے تھے۔
”آپ نے اولاد کی خاطر دوسری شادی نہیں کی…؟“ سیماب نے تجسس سے پوچھا۔
”شاید میرے نصیب میں اولاد نہیں…“ مولوی صاحب نے کہا۔ ”ورنہ سجیلی سے ہی ہو جاتی سجیلی سے مجھے بہت پیار تھا، میں نے بڑی دعائیں مانگ مانگ کر اسے پایا تھا اس لیے کہ وہ میری قسمت میں تھی، نہ اس کے گھر والے مانتے تھے نہ میرے اگر اولاد نصیب میں ہوتی تو وہ بھی مل جاتی۔
اس کے لیے تو ہم دونوں نے مل کر بہت دعائیں کی تھیں۔“
”آپ ہمیں اپنے بچے سمجھیں۔“ فیض نے کہا۔
”ہم ہر سال آپ سے ملنے آیا کریں گے۔“ فیض ایک ایسے وعدے کی ڈور انہیں تھما رہا تھا جسے کبھی وفا نہ ہونا تھا۔
”کیسی دلچسپ کہانی ہے اور کیسے قناعت والے لوگ ہیں۔“ روحا نے انگریزی میں کہا۔
سجیلی بی بی مکئی کا آٹا گوندھ رہی تھی مولوی صاحب عشاء کی نماز کے لیے اٹھ گئے تھے ہم آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔
”مجھے ایک نیا اور انوکھا خیال آیا ہے۔“ علی نے کہا ہم سب نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ”تم لوگ خاموش رہنا اور جو کچھ میں مولوی صاحب سے کہوں، میری ہاں میں ہاں ملانا…“
”پھر بھی آئیڈیا کیا ہے…؟“ فیض نے بیزاری سے پوچھا۔ ”تم بتاؤ تو ہی ہم ہاں میں ہاں ملائیں گے ناں…“
”تمہیں پتا ہے کہ مولوی صاحب کیا کام کرتے ہیں…؟“ علی نے پوچھا۔
”صرف مولوی نہیں ہیں…“ اس نے پُراسرار لہجے میں کہا۔ ”میں ابھی باتھ روم گیا تو پرے تپائی پر میں نے ایک رجسٹر پڑا دیکھا تھا۔“
”تو کیا وہ ماسٹر صاحب ہیں…؟“ علی رکا۔
”اب بک بھی چکو…“ روحا نے کہا۔
”مولوی عبدالقدوس…“ علی نے ہلکے سے کہا۔ ”نکاح خواں…“
”تو…“ ہم سب کی آوازیں اکٹھی نکلیں۔
”بس اب خاموش ہو جاؤ…“ علی نے کہا۔
”مولوی صاحب نماز سے فارغ ہو چکے ہیں…“ سجیلی مائی نے توے سے گرما گرم مکئی کی روٹی اتار دی اوپر مکھن رکھا اور دو تین رکابیوں میں آلو اور مٹر کا شوربے والا سالن ہم ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑے… آج بھی مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اتنا لذیذ کھانا ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ سجیلی مائی نے کسی ماں کی طرح ان گنت روٹیاں ہمارے لیے پکائی تھیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider