Episode 32 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 32 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”بس خورشید! اب تم مجھے بھول جانے کی کوشش کرو۔“ یہ کرن کی آواز تھی۔ ”تمہاری کوئی بھی کوشش میرے نصیب کو بدل نہیں سکتی۔“
”کرن یوں تو نہ کہو… ورنہ تمہیں معلوم ہے کہ کرن کے بغیر خورشید کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔“
”کرن کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہوتاخورشید کے بغیر مگر میں بھی مجبور ہوں۔ اب تو ہم مل بھی نہیں سکتے۔ اماں میرا یوں پہرہ دیتی ہیں جیسے کسی خزانے پر کوئی سانپ بیٹھا ہوا ہو…“ کرن نے کہا تو نجمہ اندر ہی اندر بل کر کھا کر رہ گئی۔
”کبھی نہ کبھی تو تمہارا اماں کہیں جائے گی ناں…؟“ خورشید نے کہا۔
”تو…؟“ کرن نے پوچھا۔ ”اب میں مزید تمہیں چوری چھپے نہیں مل سکتی۔ اس جھونپڑے میں تو کوئی بھی کسی بھی وقت اندر آ سکتا ہے۔“
”میں کوئی اور بات کرنا چاہتا ہوں…“ وہ جھجکا۔

(جاری ہے)

”اور کون سی بات کرنے کو رہ گئی ہے؟“ کرن کے لہجے میں مایوسی تھی۔
”تم میری خاطر کیا کر سکتی ہو؟“ سوال تھا یا آزمائش۔
”سب کچھ… جو تم کہو…“ کرن نے اپنی وفا کا یقین دلایا۔
”جب نہ تمہاری اماں مان رہی ہے نہ میری تو میرے پاس ایک ہی حل ہے…“ خورشید بولا۔ ”کہ ہم یہاں سے بھاگ چلیں…“ نجمہ کا دل اس کا سینہ توڑ کر باہر آنے لگا۔ قریب تھا کہ اٹھ کر خورشید کو بالوں سے پکڑ لیتی، اس کا جی چاہا کہ اپنی بیٹی کا جواب سنے۔
”مگر خورشید! میری اماں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے۔
اب میں اسے اس محلے میں کہیں سر اٹھانے کے بھی قابل نہ چھوڑوں…؟ میں عمر بھر اپنی اماں کا منہ دیکھ پاؤں گی۔“ نجمہ مطمئن ہو گئی۔
”بس یہی تھی تمہاری محبت؟“ خورشید نے طنز سے کہا۔ ”ابھی کہہ رہی تھیں کہ میری خاطر سب کچھ کر سکتی ہو؟“
”مگر میں اپنی اماں کو کیسے چھوڑ دو؟“ کرن روہانسی ہو گئی۔
”کون کہہ رہا ہے اماں کو چھوڑنے کو؟ تھوڑا عرصہ گزر جائے گا تو ہم معافی مانگ لیں گے تمہاری اماں سے بھی اور میری اماں سے بھی…“
اتنی بڑی غلطی قابل معافی نہیں ہوتی…“ کرن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”تم اب میرا ساتھ دو… میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں خود نجمہ خالہ کے پاؤں پڑ کر تمہیں معافی دلوا دوں گا۔“ خورشید نے اسے یقین دہانی کرائی۔ ”جس روز خالہ گھر پر نہ ہو۔ تم کوئی سبز رنگ کا کپڑا، پچھلی طرف باندھ دینا…“
”تم کام پر نہیں جاتے ہو؟“ کرن نے پوچھا۔
”نہیں، اب میں نے پرانی نوکری چھوڑ دی ہے، ہم کسی دوسرے شہر میں جا کر نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔
”لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے…“
”بس تم اپنے کپڑوں کے دو چار جوڑے ساتھ لے لینا۔ میں پچھلی طرف آ کر کھانسوں گا اور ممکن ہوا تو تمہارا نام بھی لوں گا۔ تم سامنے کی طرف نکل کر بس اسٹاپ پر پہنچ جانا۔“ خورشید نے اسے سمجھایا۔ ”مجھے تمہارے سوا کچھ نہیں چاہیے۔“
”مجھے ڈر لگ رہا ہے خورشید!“
”ہمت کرو گی تو ہم ایک دوسرے کی طاقت بن سکیں گے۔
“ پھر خورشید چلا گیا تھا۔
نجمہ کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے اور ٹپ ٹپ تکیے پر گرنے لگے۔ ”مجھے تمہارے سوا کچھ نہیں چاہیے۔“ یہ فقرہ اس کی بیٹی کو کسی نے کہا بھی تو کیسے اور کس طرح کے حالات میں۔ کرن خاموشی سے آ کر بستر پر ماں کے قریب ہی لیٹ گئی۔ نجمہ کا دل بھر آیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ بیٹی کو لپٹا لے… اسے پیار کرے۔ اسے کہے کہ وہ اس کے جگر کا ٹکڑا ہے اسے سمجھائے کہ یوں لڑکیاں پتھروں کی طرح رل جاتی ہیں، ہیروں سی نازک اور خوبصورت لڑکیاں۔
مگر اسے علم تھا کہ اس وقت بیٹی سمجھانے کی حالت میں نہ تھی۔ خورشید کی محبت اورا س کی طلب سر چڑھ کر بول رہی تھی پھر یہ سوچ کر کہ وہ اس کے بعد اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی وہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ جلد ہی کرن گہری نیند میں چلی گئی۔ نجمہ نے کروٹ بدل کر اسے اپنے بانہوں کے حلقے میں لے لیا۔
اس کے بس میں ہوتا تو وہ خورشید کی ماں کی مرضی کے بغیر ہی اپنی بیٹی کا بیاہ خورشید سے کر دیتی مگر لوگ بھی اس پر تھوتھو کر دتے اورا س کی بیٹی کو کبھی بہو کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا جاتا۔
کر ن سکون سے سو رہی تھی۔ نجمہ شکر ادا کر رہی تھی اللہ کا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دونوں کے فرار کا منصوبہ اپنے کانوں سے سن لیا… ورنہ کیسے خاموشی سے کرن کسی روز اس کے بالوں میں خاک اڑا کر چلی جاتی۔ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی مگر وہ تو شاید ویسے بھی نہ تھی۔
ض…ض…ض
یہ بھی اسے یقین تھا کہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو کسی اور روز کرن کو بھاگنا ہی ہے۔
خورشید کے ساتھ کیونکہ خورشید نے اپنی باتوں سے اسے ہر فکر سے آزاد کر دیا تھا، ماں کی ناراضی کی فکر سے بھی۔ کس حد تک وہ اس پر پہرے لگا سکتی تھی اور پھر اس کی سوچوں کا دھارا ہی بدل گیا۔ جس اولاد کو اپنی اس ماں کی ناراضی کی فکر نہیں رہی تھی جس نے تنہا اسے ماں اورباپ دونوں کا پیار دیا تھا۔ اپنی جنم دینے والی ماں کو بھول کر وہ خود غرضی سے صرف اپنے ہی بارے میں سوچ رہی تھی۔
اسے یہ بھی علم تھا کہ اس کی بیٹی کی عمر ہی ایسی تھی نادانی والی، اس عمر میں انسان دماغ سے نہیں بلکہ دل سے سوچتا ہے۔ خورشید اور کرن کے دماغ میں جو خناس سما گیا تھا، وہ تو نجمہ نہیں نکال سکتی تھی لیکن یکدم اسے لگا جیسے وہی خناس اس کی تمام فکروں سے نجات کا وسیلہ بننے جا رہا تھا۔ فیصلہ تو کٹھن تھا مگر اس روز کا سورج طلوع ہونے سے قبل وہ ایک فیصلے پر پہنچ چکی تھی۔
اس نے اپنے پاس سوئی ہوئی بیٹی کو سوتے ہوئے ہی پیار کیا پھر جانے اس سے کب اس کی ملاقات ہوئی۔
”بیٹا مجھے ناشتا بنا کر دو، آج سے میں پھر کام پر نکلوں…“ نجمہ نے صبح اٹھ کر بیٹی سے کہا۔ ”ایک کپ چائے بنا دے اور ساتھ دو رس دے دے۔“
کرن نے بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے ناشتا بنا کر دیا۔ گریبان سے پرس نکال کر اس میں سے دس ہزار روپے نکالے اور کرن کو دیے۔
کرن نے ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”یہ اپنے پاس سنبھال کر رکھ لے۔ بسوں میں آتی جاتی ہوں، کہیں کوئی حرج مرج ہو جائے تو ساری رقم جائے گی اور یوں بھی اچھے برے وقت کا کسے معلوم، گھر پر کچھ نہ کچھ رقم تو ہونی چاہیے ناں…!“ نجمہ نے اس سے نظر چراتے ہوئے کہا۔
”کس وقت واپس آؤ گی اماں؟“ کرن نے حسبِ عادت پوچھا۔
”کوشش کروں گی کہ جلدی لوٹ آؤں۔
“ نجمہ بولی۔ ”تو ذرا دھیان سے رہنا بیٹا…“
”اللہ کے حوالے بیٹا!“ نجمہ نکلتے ہوئے پھر پلٹی اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
”کیا ہوا اماں تجھے؟“ کرن حیران تھی۔
”تجھے اس خیمے میں پہلی دفعہ اکیلے چھوڑ کر جا رہی ہوں ناں…!“ نجمہ نے بات بنائی۔ باہر نکل کر نجمہ کو جانے کیا خیال آیا کہ واپس پلٹی اور ماں کے دیے ہوئے دس ہزار روپے اپنے گریبان میں رکھتی ہوئی کرن شرما گئی۔
نجمہ نے دھیان دوسری طرف کر لیا۔
”بیٹا میری کالی چادر دے دینا ذرا…“ نجمہ نے اپنی اوپر اوڑھی ہوئی سبز چادر اتار کر بستر پر رکھی۔ کرن سے کالی چادر لے کر اوڑھی، اپنی نظر کو ایک دفعہ پھر بیٹی کے دیدار سے سیراب کیا اور اس سے قبل کہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر رک جاتی، تیز تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ لوٹ کر اس لیے آئی تھی کہ اسے علم تھا کہ اس کے عارضی گھر میں سوائے اس کی چادر کے اور کوئی سبز رنگ کا کپڑا نہ تھا۔
فلیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے وہ مطمئن تھی کہ بیٹی کو زادِ راہ دے کر بھی اس کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ قسطوں پر اپنے خیالوں میں بسا ہوا فلیٹ لے سکتی تھی جہاں پر مستقبل میں اس کے نواسوں اور نواسیوں کی قلقاریاں گونجنے والی تھیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider