امریکہ اور آئی ایم ایف کا نکتہ اعتراض ‘ سوالیہ نشان؟

پاکستانی معیشت میں چین کی شمولیت ․․․․․․ حکومتیں قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں اور ان سابقہ حکومتوں نے ملکی معاملات چلانے کیلئے قرضوں کے حصول کوہی اولین ترجیح دی۔ ایک اندازے کے مطابق

پیر 22 اکتوبر 2018

America aur IMF ka nuqta aitraaz sawalia nishaan
 محبوب احمد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کئی روز کی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد بالآخر قرض کے حصول کے لئے عالمی مالیاتی ادارے” آئی ایم ایف“ سے رجوع کرنے کا جو فیصلہ کیا اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے گرما گرم بحث کا سلسلہ جاری ہے حالا نکہ دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ 1980ء کی دہائی سے اب تک متعدد
حکومتیں قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں اور ان سابقہ حکومتوں نے ملکی معاملات چلانے کیلئے قرضوں کے حصول کوہی اولین ترجیح دی۔

ایک اندازے کے مطابق 1999ء میں2800ارب کا قرضہ تھا جو مشرف دور میں 6000ارب تک پہنچ گیا،2008ء سے 2013ء تک یہ قرضہ 6000ارب سے بڑھ کر14000ارب ہو گیا۔

(جاری ہے)

کشکول توڑنے کی دعویدار مسلم لیگ ن کی حکومت جب بر سر اقتدار آئی تو اس نے کشکول بھرنے کے ریکارڈ توڑ دیئے کیونکہ اس دور میں اتنا قرض لیا گیا کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا اور اب ملک کا ہر بچہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت نے گزشتہ 5 سال میں تقریبا ً
30.1 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں غیر ملکی قرضوں کا حجم60 ارب90
کروڑ ڈالر تھا جو کہ اب بڑھ کر91ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ 5 سال میں مقامی قرضے 65 کھرب روپے بڑھ
گئے۔ سال 2013ء میں مقامی قرضوں کا حجم 95 کھرب روپے تھا جو کہ اب بڑھ کر160 کھرب روپے ہو چکا
ہے، سابقہ حکومت نے قرض لینے کے لئے یورو بانڈز، سکوک ہو یا عالمی بینک اور آئی ایم ایف کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا۔

بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان میں قرض معاف کرانے والوں کی بھی ایک طویل فہرست موجود ہے جس کے مطابق گزشتہ 27 برس میں سابقہ حکومتوں نے اپنوں کو نوازنے کیلئے 4 کھرب روپے سے زائد کے قرضے معاف کئے جن میں 988 سے زائد کمپنیاں اور شخصیات شامل ہیں جنہوں نے 4 کھرب 30 ارب 6 کروڑ روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے۔ قرض معانی کے معاملے میں عبداللہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا جس نے نواز شریف دور یعنی کہ2015ء میں ایک کھرب 54 ارب 84 کروڑ 73لاکھ، مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب نے 1997ء میں دو ارب 47 کروڑ، ریڈ کو ٹیکسٹا ئل کے مالک اور سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمن نے 2006ء میں ایک ارب 16 کروڑ 67 لاکھ روپے معاف کرائے۔

ایک طرف پاکستان بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا تو دوسری طرف سابقہ جمہوری ادوار میں جو اندرونی قرضے معاف کئے گئے اس کی ایک طویل داستان ہے جس کا اندازہ
اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس سپریم
کورٹ میاں ثاقب نثار نے جون میں قرضہ معافی کیس کی سماعت کے دوران 222 افراد کو 3 ماہ میں واجب الادا قرض کا75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس
د ئیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کئے گئے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کیا جائے گا اور قرض نادہند گان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں
گی، اب کس نے کس قدر اپنا واجب الادا قرضہ جمع کرایا اس کی تفصیل تاحال سامنے نہیں آسکی۔


اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستانی حکومت کو قرضوں کے حصول کی وجہ سے ان دنوں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہی معاشی مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو باضابطہ قرض کیلئے درخواست دی گئی ہے لیکن یہاں امریکہ اور آئی ایم ایف نے نکتہ اعتراض اٹھایا ہے کہ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ سے قرضہ لینے کی وجہ چینی قرضے ہیں جو پاکستان کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان سے قرضوں
کے بارے میں مکمل اور شفاف معلومات ما نگی ہیں بالخصوص چین سے لئے گئے قرضوں کی تفصیلات پر زور دیتے ہوئے پاکستان کو امریکی تحفظات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو چینی قرضے اتارنے کیلئے مزید رقم فراہم نہ کرے۔ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کی کڑی شرائط عائد
کر دی ہیں اور ان میں اولین قرضوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس پر حکومت آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کرنے سے گریزاں ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لو گارڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مکمل شفافیت کے ساتھ بتانا ہو گا کہ اس نے چین سمیت کس کس ملک سے کب اور کتنا قرض لیا اور یہ رقم کہاں کہاں خرچ کی۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور امریکہ کا پاکستان میں چینی سرمایہ کاری یا اس کی معیشت میں چین کی شمولیت پر نکتہ اعتراض سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کے ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر بیل آؤٹ پیکج پر بات ہوتی ہے تو اس کا مقصد پاکستان کو اپنی پوری صلاحیت پر پہنچا دے گا۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر اور غیر لچکدار کرنسی کی وجہ سے اسے سرمایہ کاری کے بڑے خلا کا سامنا ہے، اگر عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کا مقصد اصلاحات ہو گا جو پاکستان کو مخصوص تفصیلات فراہم کئے بغیر ہی اس کی ملکی صلاحیت کو بہت زیادہ وسیع کردے گا۔

حکومت نے ساختی اصلاحات نافذ کرنے سے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے جن سے پاکستان کی فنڈز کے ذریعے مالی مدد کی عادت ختم ہو جائے گی۔
پاکستان کو انفراسٹرکچر کی ترقی کی زیادہ ضرورت ہے جس میں چین کی (سی پیک) منصوبے میں سرمایہ کاری پاکستان کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے اور اسی پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت سے تحفظات ہیں۔ آئی ایم ایف
کے ماہر معاشیات کے مطابق یہ بہت اہم ہے کہ ان منصوبوں کا ڈیزائن بہت مضبوط ہو جس میں ایسے قرضوں کو جو ادانہ
کئے جاسکیں نظرانداز کیا جانا چاہئے، حال ہی میں وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے سادگی کو نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے بیل
آؤٹ پروگرام کے بجائے اس کے متبادل کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اب اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بیل آؤٹ پیکج کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دی ہے، قابل غور امر یہ بھی ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ماہر معاشیات خبر دار کر رہے تھے کہ موجودہ خراب صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بحران کے پیش نظر ملکی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چڑھے کھربوں روپے
کے قرض کی ادائیگی اور درآمدات کی خریداری کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے فیصلے کے بعد ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا۔ انٹر بینک مارکیٹ میں جہاں روپے کی قدر میں کمی دیکھنے میں آئی وہیں ڈالر کی قدر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح 138 روپے تک جا پہنچی۔ پاکستانی قیادت نے درپیش حقیقی معاشی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ممکنہ طور پر نئے قرض پروگرام کیلئے آئی ایم ایف کو رضامند تو کر لیا ہے، اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی ایک جائزہ ٹیم جلد پاکستان کا دورہ کرے گی جس میں وہ نئی حکومت کی معاشی ترجیحات اور ممکنہ معاشی پالیسیوں کا جائزہ لے کر رپورٹ ایگز یکٹو بورڈ
کو پیش کرے گی اور آئی ایم ایف کا ایگز یکٹوبورڈ پاکستان کے گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو بھجوائے جانے والے لیٹر آن انٹینٹ (LOI) کی روشنی میں پاکستان کیلئے قرض کا نیا پروگرام منظور کرے گا۔

اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ آئی ایم ایف کوئی خیراتی ادارہ نہیں اس کی شرائط کو پورا کرنا پڑے گا اور ان شرائط میں امریکی ”ڈو مور“ کا مطالبہ بھی ہو سکتا
ہے۔ امریکہ کی بھی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ مل جائے کیونکہ اکثریتی حصص یورپی یونین اور امریکہ کے پاس ہیں، قابل غور امر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی جو بھی پالیسیاں ہوتی ہیں ان میں امریکہ کا عمل دخل
کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کو کہا جارہا ہے کہ پاکستان پر سخت شرائط لاگو کی جائیں۔

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو تب تک کوئی پیسے نہیں دینے جب تک پاکستان اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی نہ کر
لے، اٹھارہویں ترمیم میں ایک اور ترمیم کرنا ہو گی کیو نکہ آئین میں ترمیم آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لئے ضروری
ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس سے جتنا پیسہ اکٹھا ہوتا ہے وہ پیسہ 5سے تقسیم ہو تا ہے اور فیڈریشن کو اس پیسے کا30 فیصد جبکہ صوبوں کو70 فیصد ملتا
ہے اور وہ0 3 فیصد جو ہے وہ پنشنرز، دیگر اخراجات، قرض اور انتظامی اخراجات کے لئے کافی نہیں ہے جب تک فیڈریشن
کے پاس پیسہ نہیں آئے گا تب تک فیڈریشن میں تبدیلی نہیں آئے گی لہٰذا ان حالات میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے
لئے آئین میں تبدیلی لازمی کرنا پڑے گی۔

اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کے لئے معاشی بحران چھوڑ کر جاتی ہے بالکل اسی طرح
مسلم لیگ ن کی حکومت کی وجہ سے تحریک انصاف ان ونوں گرداب میں مکمل طور پر پھنس چکی ہے، موجودہ تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں معاشی بدحالی کا یہ تسلسل توڑنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America aur IMF ka nuqta aitraaz sawalia nishaan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.