چین امریکہ کی سرد جنگ اور عالمی اقتصادی بحران

نئے قانون کے تحت ”کنٹرولڈ مصنوعات“ کی برآمد پر سخت پابندیاں لاگو ہوں گی

ہفتہ 19 دسمبر 2020

China America Ki Sard Jang Or Aalmi Iqtesaadi Bohran
محبوب احمد
دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ اور چین کی اقتصادی ترقی نے ”سپر پاور“ امریکہ کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔عالمی افق پر اقتدار کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے جو جال بنا تھا آج وہ خود اس میں بری طرح پھنس چکا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عراق اور افغانستان کی جنگیں امریکی تاریخ کی مہنگی اور طولانی ترین جنگیں ثابت ہوں گی۔

ایک اندازے کے مطابق 2001ء سے لے کر 2020ء تک ان دونوں جنگوں و دیگر ممالک میں ہونے والے عسکری اخراجات کا تخمینہ تقریباً 6.4 ٹریلین امریکن ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے۔امریکہ کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ اس کا شمار آج قرض دینے والے ملک کے بجائے ”مقروض“ملک میں ہو رہا ہے ۔امریکہ 600 ارب ڈالر کے بانڈز بیچ کر چین کا سب سے بڑا مقروض بن چکا ہے،تجارتی عدم توازن اور قرضوں کے بوجھ سے جھنجھلاہٹ کے شکار واشنگٹن کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے جنگ سے زیادہ آسان آپشن نظر نہیں آرہا جبکہ چین جنگ سے گریزاں ہے۔

(جاری ہے)

مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور یورپ کی عوام کا اپنے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد کا فقدان دراصل مغرب میں معاشی ناہمواری،عدم مساوات اور جنگ و جدل کا نتیجہ ہے،یہی وجہ ہے کہ لوگ زوال پذیر معیشت سے پیدا ہونے والی کساد بازاری،بیروز گاری، غربت اور مہنگائی پر سراپا احتجاج ہیں۔
”کرونا“کے مہلک وار کے ساتھ ساتھ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ سے اقتصادی بحران دن بدن شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی سطح پر طاقت کے معاملات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے دکھائی رہے ہیں اس سے طاقت اور دولت کے بدلتے ہوئے معیار اور معاملات کے اثرات بھی وسیع اور گہرے ہیں لہٰذا امریکہ کی برتری کو لاحق خطرات میں سے بیشتر اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔امریکہ دنیا بھر میں اپنی طاقت کا لوہا منوا کر عالمی سیاست اور سفارتکاری میں 6 عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے لیکن اب اس کی تباہی کا سبب وہ بے نام پروگرام ہیں جو ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور غیر معینہ مدت تک مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔

امریکہ اور یورپ پر دنیا بھر کے متعدد ممالک انحصار کئے ہوئے تھے مگر اب انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ ان دونوں خطوں کے اپنے مسائل ہیں اور اندرونی سطح پر بھی شدید کشمکش پائی جاتی ہے اس لئے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی معیشت و سیاست میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن متعدد ممالک کے لئے پریشانی کا سامان کر رہی ہے لہٰذا اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اتحادیوں کی مدد سے شطرنج کی بساط 2 براعظموں میں الگ الگ بچھا رہا ہے۔

امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے چین کو بھی شدید تشویش لاحق ہے کیونکہ بھارت بھی بحرہند میں ایک بڑی بحری قوت کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اسی سمندر کے راستے چین کی 70 تا 90 فیصد تجارت انجام پاتی ہے۔چین بحرہند کے راستے ہی مشرق وسطیٰ،افریقہ،یورپ اور شمالی و جنوبی امریکہ اپنا سامان تجارت برآمد اور درآمد کرتا ہے لہٰذا یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ چین کی بھارت اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی کشیدگی سے اب یہ خطرہ جنم لے چکا ہے کہ کسی بڑی جنگ کے دوران بھارتی بحریہ با آسانی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کر سکتی ہے،گویا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں چین کی تجارت کو منجمند کرکے رکھ دے۔

مودی حکومت بھارتی بحریہ کو جدید جنگی جہازوں اور آبدوزوں سے لیس بھی کر رہی ہے ایسے میں درہ خنجر اب سے گوادر تک کے راستے نے بہت اہمیت حاصل کر لی ہے۔
چین کی یہ خواہش ہے کہ ایشیاء و افریقہ کو کسی نہ کسی طور پر ایک بھرپور بلاک کی شکل میں عالمی معیشت کے بڑے عنصر کے طور پر سامنے لائے لہٰذا”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے کے تحت سڑکوں،ریلوے کی پٹڑیوں اور بندرگاہوں پر اربوں ڈالر لگانے کے ساتھ ساتھ فوجی صلاحیت کو بڑھانے پر بھرپور توجہ دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،بحر الکاہل میں پہلے سے ہی چین کی سب سے بڑی بحریہ موجود ہے جس میں 3 سو سے زائد جہاز ہیں اور اب افریقہ میں 60 ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کا اعلان یقینا امریکہ کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑے امریکی کریک ڈاؤن کیخلاف چین نے ملک میں ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت ”کنٹرولڈ مصنوعات“ کی برآمد پر مزید سختیاں لاگو ہوں گی یہ نیا قانون بالخصوص ملٹری ٹیکنالوجی اور ایسی مصنوعات پر لاگو ہو گا جس کی برآمد سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں لہٰذا نئے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ساڑھے 7 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے،یاد رہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے ادارے اور انفرادی شخص کو بھی سزا مل سکتی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے جس کی وجہ قرار دی گئی ہے کہ چینی کمپنیاں اپنا مواد حکومت کے ساتھ بانٹتی ہیں اس اقدام سے ٹک ٹاک ،ہواوے اور ٹین سینٹ کمپنی شدید متاثر ہوئی ہیں۔امریکہ نے اشیاء پر اضافی ڈیوٹی لگا کر چین کی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں۔چین صرف دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی کے حصول کا ہی خواہاں نہیں بلکہ وہ اب عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے نئے معیار طے کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ معاملات امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدانوں میں ایک طویل ترین جنگ کی بنیاد تیار کر رہے ہیں۔


آزاد معیشت کا حال ہی میں جو نیا اتحاد ہوا ہے وہ امریکہ،میکسیکو اور کینیڈا کے علاوہ یورپی یونین سے بھی بڑا ہے کیونکہ ”آر سی ای پی“ کے اراکین ممالک کی کل پیداوار مجموعی عالمی پیداوار کا 29 فیصد ہے لیکن یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا”آر سی ای پی “آئندہ 20 برس میں کئی اشیاء کی برآمد پر ٹیکس ختم کر دے گا؟،اس معاہدے کے رکن ممالک میں سے کئی ایک کے درمیان پہلے ہی فری ٹریڈ معاہدے ہیں تاہم ان میں کچھ باتیں محدود کی گئی تھیں لیکن موجودہ فری ٹریڈ معاہدے”آر سی ای پی“ کے مقابلے میں کافی پیچیدہ ہیں جس کاروبار کی سپلائی چین یعنی اشیاء کی رسد کئی ممالک پر محیط ہے ان پر فری ٹریڈ معاہدے کے باوجود ٹیکس لگ سکتا ہے کیونکہ ان کی اشیاء کے جز کسی دوسرے ملک سے لائے گئے ہوتے ہیں۔

”ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ“میں جنوبی کوریا،چین،جاپان،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت 10 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک شامل ہیں،یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا۔قبل ازیں بھی تحریر کیا جا چکا ہے کہ ٹرمپ نے 2016ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ”ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ“ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اس معاہدے میں 12 ممالک شامل تھے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے سابق امریکی صدر باراک اوباما کی حمایت بھی حاصل تھی۔


بھارت بھی ان مذاکرات کا حصہ تھا لیکن گزشتہ برس اس نے علیحدگی اختیار کی۔8 برس سے ”آر سی ای پی“ سے متعلق مذاکرات جاری تھے بالآخر جس معاہدے پر ”ایسوسی ایشن آف ساوٴتھ ایسٹ ایشین نیشنز“ کے ورچوئل اجلاس کے موقع پر دستخط کئے گئے ہیں اس میں جملہ حقوق کے حوالے سے ٹیلی کمیونیکیشنز،مالیاتی سروسز،ای کامرس اور دیگر متعدد پیشہ وارانہ سروسز کے حوالے سے خصوصی شقیں موجود ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جہاں امریکہ معاشی تنزلی کا شکار ہے وہیں چین اپنی معیشت کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہے۔چین اپنے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن تگ ودو کر رہا ہے اور اس کے ترقیاتی منصوبے کا سب سے اہم ہدف پہلو یہ ہے کہ وہ فی کس آمدنی کو دوگنا کرے۔چین نے افریقہ کے 34 ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے جس میں صرف نائجیریا میں 21 ارب،ایتھوپیا اور الجیریا میں 15 ارب سے زائد جبکہ انگولا اور جنوبی افریقہ میں 10,10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ایک طرف امریکہ میں جاری اقتصادی بحران کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں بینکوں کے بند ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف چین نے عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے جو مثبت قدم اٹھایا ہے اس سے ترقی پذیر ممالک کو وقت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکلنے کا ایک موقع فراہم ہوا ہے۔یاد رہے کہ 90ء کی دہائی میں امریکہ میں مجموعی طور پر 12 سے زائد کمرشل بینک کام کر رہے تھے جن کی تعداد میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔


امریکہ میں طبقاتی جدوجہد اور کشمکش اتنی شدت اختیار کر رہی ہے کہ سوویت یونین کی طرح اس کے بھی بکھر جانے کا ڈراب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ٹرمپ کی یہ خواہش ہی رہی کہ چین سے تجارت کم سے کم کی جائے تاکہ تجارتی خسارہ ختم ہو سکے اس مقصد کیلئے انہوں نے مختلف سامان بنانے والی کمپنیاں قائم کرنے کی بھی کوشش کی تاکہ بیشتر اشیاء بیرون ممالک خصوصاً چین سے نہ منگوانا پڑیں لیکن وہ اس میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہو پائے اور اب ان کے دور اقتدار کے آخری ایام میں امریکہ اور چین کے مابین تناؤ مزید گھمبیر ہو چکا ہے جو کہ آنے والے دنوں میں نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کیلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہو گا۔

دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کیخلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی اس نے آج پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک طرف دنیا کو ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاؤ پر وعظ،ترغیب،دباؤ اور لبھاؤ کے ذریعے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو امریکہ اور مغربی ممالک نے ایٹمی اسلحہ کے اتنے انبار لگا لئے ہیں کہ اس سے دنیا لرز رہی ہے۔

چین اور مغرب کے مابین معاشی،عسکری اور معاشرتی تصادم کوئی نیا عجوبہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔اس میں کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ امریکہ دور حاضر میں مغرب کا سب سے بڑا نمائندہ بن چکا ہے اسی لئے چین کے ساتھ اس کا وہ ٹکڑاؤ جاری ہے جو آج سے کئی سو سال قبل شروع ہوا تھا اسی تصادم کی تاریخ حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔
امریکہ اور چین دونوں ہی جوہری طاقتیں ہیں لیکن وسائل کے لحاظ سے دونوں کی فوجی طاقت میں کافی زیادہ فرق ہے امریکی افواج کا بجٹ 610 ارب ڈالر جبکہ چین کا دفاعی بجٹ 228 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

امریکہ کو اس صدی میں کئی جنگیں لڑنے کا تجربہ حاصل ہے جو اس نے اپنے سے کمزور ممالک کیخلاف لڑیں لیکن ان میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس کے برعکس چین کو کوئی بھی بڑی جنگ لڑنے کا اتفاق نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ امریکہ 1839ء کی طرح پھر چین کو ڈرا دھمکا کر باہمی تجارت کا جھکاؤ اپنی طرف کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن اسے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ آج بیجنگ بڑی عسکری طاقت بن چکا ہے لہٰذا امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ڈیڑھ سو سال پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور چین کا سامنا ہے اگر امریکہ نے سرد یا گرم جنگ چھیڑ دی تو ممکن ہے تاریخ کا پہیہ الٹا چل پڑے۔

امریکہ کو اب تاریخ سے سبق حاصل کر لینا چاہئے کہ جب چین قیادت میں ایشیائی اور افریقی ممالک اس کے سامنے مقابلے کیلئے کھڑے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

China America Ki Sard Jang Or Aalmi Iqtesaadi Bohran is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.