فاطمہ بھٹو کی واپسی۔۔۔

میر مرتضی بھٹوزرداری کو چور کیوں کہتے تھے؟ بھٹو خاندان کے بڑے ایک بار پھر سیاسی اختلافات ختم کروانے کیلئے متحرک کیوں

ہفتہ 20 اپریل 2019

fatima bhutto ki wapsi
راؤ محمد شاہداقبال
بے نظر بھٹو سے حیران کُن حد تک مشابہت رکھنے والی فاطمہ بھٹو محض 14برس کی تھیں جب بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد میر مرتضی بھٹو کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر پولیس نے ہلاک کر دیا۔
معصوم فاطمہ بھٹو کو اپنے والد کی موت کی خبر کی تصدیق پرائم منسٹر ہاؤس سے ہوئی جہاں انہوں نے اپنی پھوپھی کو فون کیا لیکن ان کے شوہر آصف زرداری نے یہ کہہ کر فاطمہ بھٹو کی بینظیر بھٹو سے بات کرانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا سن کرشدید غم وہیجان کی کیفیت میں ہیں ۔


اس واقعی کا تفصیلی تذکرہ خود فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب”سانگزآف بلڈ اینڈ سورڈ “یعنی”لہو اور تلوار کے گیت“میں کیا ہے جبکہ اسی کتاب میں ایک اور جگہ وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ ”ان کے والد آصف زرداری کو ہمیشہ ”چور“کہتے تھے کیونکہ آصف علی زرداری نے میر مرتضی بھٹو سے اپنی دوسری ملاقات کے دوان ہی ان کو رشوت کی ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ”ڈیل “کر رہے ہیں اور اگر مرتضی چاہیں تو وہ ان کو بھی حصہ دار بنا سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)


میرے باپ نے آصف زرداری کو جواب دیا ’زردای صاحب! بھٹو ایسا نہیں کرتے۔“فاطمہ بھٹو کی کتاب سے مندرجہ بالادواقتباسات اس لئے پیش کئے گئے ہیں کہ پڑھنے والے اندازہ لگا سکیں کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے متعلق فاطمہ بھٹو کس قسم کے خیالات رکھتیں ہیں کیونکہ اب اسی فاطمہ بھٹو کو عملی طور پر سیاسی میدان میں اتارنے کے لئے سرگرمیاں تیز ہونے کی خبریں میڈیا میں گردش کررہی ہیں ۔


اِن خبروں میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ صوبہ سندھ پر آصف علی زرداری کی گرفت کمزور ہونے اور کرپشن کیسز میں گرفتاری کے منڈلاتے بادل اور بدنامی کے باعث بھٹو خاندان کے سرکردہ افراد نے بھی بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت واپس دلانے کے لئے فاطمہ بھٹو کی حمایت کا عندیہ دے دیا ہے ،یہاں سوال یہ ہے کہ کیا فاطمہ بھٹو سیاسی میدان میں بلاول بھٹوزرداری کا مقابلہ کر پائیں گے؟۔


بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ فاطمہ بھٹو کیلئے بلاول بھٹو ز رداری کی سیاسی وراثت کو چیلنج کرنا اتنا آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ بلاول بھٹو زرداری، شہید بے نظیر بھٹو کی اولاد ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہمیشہ سے ہی بلاول کی والدہ کے براہ راست اختیار میں رہی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بلاول گزشتہ کئی سالوں سے پیپلز پارٹی میں عوامی سطح پر خوب متحرک بھی رہے ہیں ۔

گوکہ اب بھی بہت سے لوگوں کے نزدیک موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حقیقی باگ دوڑ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے ،مگر چونکہ فرنٹ فٹ پر ہمیشہ بلاول بھٹوزرداری ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں اس لیے فاطمہ بھٹو کیلئے یہ تو کسی صورت ممکن ہی نہیں ہو گا کہ وہ اچانک پیپلز پارٹی کے سیاسی اُفق پر نمودار ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کو بطور جماعت اپنی گرفت میں لے سکیں ۔


یوں ان کے پاس فقط دوہی راستے بچتے ہیں پہلا راستہ تو وہی ہے جو اُن کی والدہ غنویٰ بھٹو نے کئی سال پہلے بے نظیر بھٹو کے خلاف اختیار کیا تھا۔یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف الگ سے ایک سیاسی جماعت بنا کر زبردست سیاسی جدوجہد کا آغاز کرکے پیپلز پارٹی کو انتخابی میدان میں شکست فاش دینا۔
سب جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ غنویٰ بھٹو کے لئے سیاسی خود کشی ہی ثابت ہوا اور کبھی بھی سندھ میں غنویٰ بھٹو بے نظیر کے مقابلے میں اپنی کوئی قابلِ ذکر سیاسی چھاپ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں اگر فاطمہ بھٹو چاہیں تو وہ بھی اس پر خطر راہ کا انتخاب کر سکتی ہیں لیکن اس طرح اُنہیں فقط بلاول بھٹوز رداری ہی نہیں بلکہ آصفہ اور بختاور کے خلاف بھی سیاسی طور پر اعلان جنگ کرنا ہو گا۔


کیا وہ اتنابڑا سیاسی فیصلہ کر سکیں گی ؟لگتا یہ ہی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی سیاسی وراثت پانے کیلئے یہ کڑواگھونٹ بھر بھی لیا تو اس سے انہیں شاید سیاسی طور اتنا فائدہ نہ ہو سکے لیکن اخلاقی طور پر بہت زیادہ نقصان ضرور ہو جائے گا۔فاطمہ بھٹو کے لئے اپنی سیاسی وراثت حاصل کرناکاایک دوسرا محفوظ راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اُن کی اپنی پھوپھی یعنی شہید بے نظیر بھٹو کے بچوں بلاول ،بختاور اور آصفہ سے اُن کی صلح ہو جائے ،ماضی میں بختاور اور آصفہ کی جانب سے سیاسی صلح کے کئی پیغامات فاطمہ بھٹو کو تسلسل کے ساتھ بھجوائے جاتے رہے ہیں جن میں غیر مشروط طور پر فاطمہ بھٹو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پیشکشیں شامل رہی ہیں۔


 فاطمہ بھٹو ہر بار اسے پیغامات کو سختی سے مسترد کرتی آئیں ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بلاول ،بختاور اور آصفہ پر تو کسی حد تک اعتبار کیا جا سکتاہے لیکن آصف علی زرداری اور اُن کی بہنوں پر اعتبار کرنا ایک سیاسی بے وقوفی سے کچھ زیادہ ہی ہو گا۔حالانکہ آصف علی زرداری اور ان کی بہنیں مختلف ذرائع سے کئی بار فاطمہ بھٹو کو یہ یقین دہانی کراچکی ہیں کہ اگر انہیں ایک موقع فراہم کیا جائے تو وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر سکتیں ہیں کہ وہ فاطمہ بھٹو کو بطور ایک خاندانی رُکن کے قبول کرنے کیلئے پوری طرح مخلص ہیں
شاید اسی لئے ایک بار زرداری خاندان کی طرف سے بلاول بھٹوز رداری کی شادی کا پیغام بنام فاطمہ بھٹو بھجوایا گیا تھا لیکن فاطمہ بھٹو نے شادی کے اس پیغام کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا،فاطمہ بھٹو کے اس انکار کو سندھ کی روایت کے منافی قرار دیتے ہوئے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا اور خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ ان کی طرف سے صلح کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔

فاطمہ بھٹو کی جانب سے بلاول بھٹو کو شادی کے لئے انکار کئے جانے کے 3سال بعد اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ بھٹو خاندان کے بڑے ایک بار پھر سے بھٹو خاندان کے سیاسی اختلافات ختم کروانے کے لئے متحرک ہو گے
 ہیں ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بھٹو خاندان کی یکجہتی کویقینی بنانے کیلئے زرداری خاندان کی سیاسی قربانی کا مشکل فیصلہ لے لیا گیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

fatima bhutto ki wapsi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.