عمران خان کا کڑا امتحان ھو گا !

آئی ایم ایف کا بیل آؤ ٹ پیکج عمران خان کے متوقع وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف پیکج کا آپشن استعمال کر نے کابیان صورتحال کی سنگینی کا مظہر ہے روپے کی قدر میں بر وقت کمی نہ کرنے کی ضد کا نتیجہ بر آمدات میں کمی اور درآمدات میں زیادتی کی صورت میں نکلا

جمعرات 9 اگست 2018

Imran Khan ka kara imthehan hoga
 محمد شریف کیا نی
پاکستان میں اقتدار با لخصوص وزارت عظمیٰ کا منصب اگر چہ کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہا ‘ لیکن اس بار حالات ماضی کی نسبت کچھ زیادہ ہی گھمبیر اور توجہ کے طالب ہیں ۔تحریک انصاف کے چےئر مین عمران خان نے آئندہ چند روز میں اپنی کا بینہ تشکیل دینی ہے ‘ صوبائی گورنر نامزد کرنے ‘پنجاب اور خیبر پی کے میں وزرائے اعلیٰ منتخب کرانے اور صوبائی وزراء کاچناؤ کرانا ہے ۔

ذرائع ابلاغ کی آزادی اور تیزی کے باعث کسی عوامی شخصیت کی زندگی کا اہم اور غیر اہم کوئی پہلو اعوام کی نظر وں سے اب پو شیدہ نہیں رہا ‘ ان کو حکومت سازی میں احتیاط کرنا ہو گی ۔کہتے ہیں شروعات اچھی ہوں تو آدھا کام خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے ۔عمران خان نے اپوزیشن کی تمام تر کو ششوں کے باوجود جس طرح ماضی میں حالات کا ڈٹ کر مقا بلہ کیا ‘ وہ حکومت سازی کے لئے بھی پر عزم ہیں جبکہ مخالفین انہیں ٹف ٹائم دینے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر شعبے کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت مشکل ترین صورتحال کا شکار ہے ‘ غیر ملکی قر ضوں کا نا قابل بر داشت بوجھ ‘ ملکی قر ضوں کا دباؤ ‘زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ تجارتی خسارے میں بد ترین اضافہ ‘ افراط زر کی تشو یشناک کیفیت اور شرح سود میں اضافہ ملکی معیشت کی زبوں حالی کا منہ بو لتا ثبوت ہے اور وطن عزیز کی یہی دگر گوں معاشی صورتحال عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے اصل چیلنج ہے اسے سنبھالا دینے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہو گی ۔

تحریک انصاف کی طرف سے امور خزانہ کے لئے اسد عمر کا نام سامنے آیا ہے اسے ایک اچھا انتخاب قرار دیا جا سکتا ہے کہ اسد عمر پاکستان بزنس کونسل کے صدر رہے ہیں اور چھ برس پہلے تک ایک بہت بڑے بزنس ہاؤس انگر و کا ر پو ریشن کے چیف ایگز یکٹو بھی رہے ہیں اگر ان کو وزیر خزانہ بنا یا گیا تووہ 1972 کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد پہلے فل ٹائم وزیر خزانہ ہوں گے جو قومی اسمبلی کے رکن بھی ہوں گے ۔

اس سے قبل ہمیشہ عارضی طور پر قومی اسمبلی کے ارکان وزیر خزانہ رہے ہیں جن میں نوید قمر نمایا ں ہیاں ۔اسحاق ڈار بطور سینیٹر وزیر خزانہ تھے ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں خزانے کا قلمدان اپنے پاس رکھا تھا ۔پاکستان کے اقتصادی مسائل کا ادراک ہونے کے با وجود ان کا تر یاق اور حل تلاش کر نا انتہائی پیچیدہ اور کٹھن ہے ۔نواز شریف حکومت کے دور میں ملک کی مجموعی پیداوار میں اضافہ تو ہوا لیکن قر ضے دگنا ہو گئے ۔

پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے اختتام پر پاکستان پر 54بلین ڈالر قر ضہ تھا جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں بڑھ کر تقر یباََ 89بلین ڈالر ہوگیا یعنی پانچ سال میں 35بلین ڈالر کااضافہ ‘ اس کی وجہ سی پیک کے منصوبے بتا ئے جاتے تھے لیکن عملاََ صورتحال یہ ہے کہ سی پیک کے منصوبے تو مکمل ہو گئے اور بعض تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔اس ضمن میں اب چینی کمپنیوں کو واجب الا دا قر ضوں کی واپسی میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔

نواز شریف حکومت روپے کی قدر کم نہ کرنے پر بضد تھی ‘ اسے مصنوعی سہا را دینے کے لئے مارکیٹ میں خوب ڈالر پھینکے‘ اس سے روپیہ تو مہنگا ہو گیا لیکن ملکی بر آمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہونے کے باعث ہمارا کر نٹ خسارہ بڑ ھتا چلا گیا ۔مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو وقت کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی نہ کرنے کا نتیجہ نکلا کہ یہ دھڑم سے نیچے آگر ا اور ڈالر 130روپے تک پہنچ گیا ۔

یوں عاقبت نااندیشی اور غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث ملک کو غیر ملکی قر ضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا اور خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح پاکستان کو ایک بار پھر کشکول لے کر عالمی مالیاتی اداروں کی چو کھٹ پر سر جھکانا پڑے گا ۔نا مزد اورمتو قع وزیر خزانہ کی طرف سے بھی کچھ ایسی ہی بے بسی کا اظہار سا منے آیا ہے کہ شاید ہمیں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کا آپشن استعمال کرنا پڑے جبکہ اکثر نا قد ین کا ما ننا ہے کہ عمران خان ماضی میں چونکہ آئی ایم ایف کے سخت نا قدر ہے ہیں ‘ اس لئے نئی حکومت کے لئے اس عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے کا فیصلہ آسان نہ ہوگا جبکہ ما ہرین اقتصادیات کچھ مزید اقتصادی معاملات کا بھی تذکرہ کرتے ہیں ۔

ان کے مطابق اس وقت ملک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری سی پیک کی شکل میں ہورہی ہے ‘ ایسے میں آئی ایم ایف میں جانے کا مطلب ہوگا کہ آئی ایم ایف سی پیک کی مد میں ملنے والے قر ضے جات کا آڈٹ کروائے جو بیجنگ کے لئے شاید قابل قبول نہ ہو کہ چین نے یہ قر ضے دو طرفہ معاہدوں کے تحت دئیے ہیں ‘ ان کو کسی عالمی مالیاتی ادارے کے تحت لا نا منا سب نہ ہوگا جبکہ انہی دنوں جلتی پر تیل کے مترا دف امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آؤ ٹ پیکج نہ دے ۔

پاکستان یہ قر ضہ لے کر چین کا قرضہ واپس کرے گا ۔امریکہ کی طرف سے جس انداز میں عالمی مالیاتی ادارے کو یہ تنبیہہ کی گئی وہ افسوسناک او تشویشناک تو ہے لیکن خلاف تو قع نہیں ۔امریکی خد شات اندیشہ ہائے دور ودراز کے مترادف ہیں کہ پاکستان نے ابھی بیل آؤٹ پیکج کے لئے نہ کوئی درخواست دی ہے اور نہ آئی ایم ایف انتظامیہ کے ساتھ اس بارے میں کوئی مذاکرات ہوئے ہیں ۔

اس امریکی رد عمل میں دراصل ٹر مپ ڈاکٹر ائن چھلکتا ہے ۔یہ وہ طرز تکلم ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عام طور پر استعمال کرتے ہیں ‘ ہمارے ڈالر قر ضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال نہیں ہونے چا ہییں ۔آئی ایم ایف کی شر ائط عموماََ کڑی ہوتی ہیں جس سے لوگ اکثر نالاں ہوتے ہیں ۔عام تاثر ہے کہ آئی ایم ایف کے قر ضوں سے دنیا کے کسی ملک نے کبھی تر قی نہیں کی ۔

یہ ایک ایسا جال ہے جس میں تر قی پذیر ملکوں کی معیشت بری طرح جکڑی جاتی ہے ۔امریکی رد عمل میں دراصل سی پیک کے خلاف اس کا غم وغصہ باہر آرہا ہے ۔امریکہ بوجوہ اس منصوبے سے خوش نہیں ۔امریکہ دوسرے ملکوں کی صرف ایسی تر قی چاہتا ہے جو انہیں اس کے اثر و رسوخ میں باندھ کر رکھے ۔حیلے بہانوں سے مختلف پابندیوں کی شکل میں پریشان کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکہ خطے میں پاکستان کو اپنے مخصوص مفادات کے زیر اثر استعمال کر کے چین کو اقتصادی اور تزویر اتی نقصان پہنچا نے کی را ہ پربراہ راست اور بالواسطہ گا مزن ہے ۔

دنیا کرو فر اور جھوٹی شان وشوکت کے عملی مظاہرے دیکھ چکی ہے ۔غیر ضروری شاہانہ اخراجات ختم کرکے سادگی اور ملکی وسائل پر انحصار سے ہی ملک کو تر قی د ی جا سکتی ہے ۔مہا تیر محمد نے اقتدار سنبھالا تو ملائیشیا کی فی کس سالانہ آمدن 50ڈالر تھی ۔چین ‘ ترکی کا حال بھی پتلا تھا اور سنگاپور کسی شمار قطار میں نہ تھا لیکن اپنے بل بوتے اور مقامی وسائل پر انحصار کرکے یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی بڑی اقتصادی قوتیں بن گئیں ۔

جاپان‘ جر منی اور کوریا کی مثالیں موجود ہیں جبکہ ہم ٹھو کریں کھاتے رہے اور کھا رہے ہیں کہ اب تک کوئی واضح لائحہ عمل نہ بنا سکے ہمیشہ سہاوں اورشارٹ کٹ کی تلاش میں رہے ۔آئی ایم ایف کا سہارا لینا اچھا پر وگرام نہیں ہوگا ۔عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی غلط مالی ترجیحات اور پالیسیوں سے پہلے ہی نالاں ہیں ۔امریکہ بہادر کاموڈ بھی اس وقت پاکستان بارے اچھا نہیں جبکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں پراس کا اثر ور سوخ کسی ڈھکا چھپا نہیں ۔

ایسا نہ ہو آئی ایم ایف کا سخت قسم کا بیل آؤٹ پیکج عمران خان کے لئے سر منڈ اتے ہی اولے پڑنے کے مترادف ثابت ہو ۔ایک طرف ووٹرز کی ان سے خو شگوار تو قعات ‘ دوسری جانب زمینی حقائق ....عمران خان کے لئے ان سے عہد بر آہونا کڑا امتحان ہوگا ۔صورتحال سے نمٹنے کے لئے عمران خان کو سوجھ بوجھ اور ٹھہراؤ کے ساتھ معاملات طے کرنا پڑیں گے ۔ملک کے مسائل اور مفادات کے پیش نظر ایک نئی اور جامع خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے ۔

معلوم نہیں نئی حکومت اور نئے پاکستان کے کرتا دھرتا موجود مسائل بارے کس طور سوچتے ہیں ‘ لیکن عوام کا عمومی تاثر ہے کہ ملک سنگین بحران سے دوچار ہے اور یہ بحران حالیہ دنوں میں نمٹتا نظر آتا ۔معاشی ‘ سیاسی اور انتظامی چیلنجوں کا سامنا کرنا کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں ۔ستر سال کی پرانی بیماریوں کا کائی متفقہ علاج تجویز کر نا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Imran Khan ka kara imthehan hoga is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.