کرتا رپور کوریڈور کا سنگِ بنیاد

130 کلو میٹر کا فاصلہ اور خلیج پاٹنے میں ستر سال سے زائد عرصہ لگ گیا دُنیا بھر کی سکھ کمیُونٹی میں خُوشی کی لہر

ہفتہ 1 دسمبر 2018

kartarpur border ka sang e bunyaad
 خالد بہزاد ہاشمی
بھارتی کا بینہ نے پاکستان کی تجویز مانتے ہوئے کرتا رپور بارڈر کھولنے کی منظوری دیدی ہے جس کا سنگِ بنیاد وزیراعظم عمران خان 28نومبر کو رکھنے جا رہے ہیں جس میں اعلیٰ پاکستانی حکام اور بھارتی وزراء کے علاوہ سابق کر کٹر اور مشرقی پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو بھی شریک ہونگے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ،جوسدھوپاجی پر یہ کہہ کر برس پڑی تھیں کہ ”انہوں نے پاکستانی آرمی چیف کی وردی کو کیوں چھوا “،نے الیکشن مصروفیات کا بہانہ تراش کرکرتا رپوربارڈر کھولنے کی تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی ہے جس کے بعد بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے بھی حسبِ سابق پاکستان کیخلاف ہر زہ سرائی کرتے ہوئے تقریب میں شرکت سے معذرت کا جوابی خط پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کوار سا ل کردیا ہے ۔

(جاری ہے)


بھارتی وزیراعلیٰ 28نومبر کو سنگِ بنیاد کی تقریب میں بھارتی مہمانوں کو عشائیہ دیں گے جس میں صوبائی کا بینہ کے ارکان شریک ہونگے جبکہ 20سے زائد بھارتی مہمان بھی شامل ہونگے ۔اس موقع پر سدھو پاجی نے کہا کہ کرتا رپور راہداری بنانا قابلِ تعریف ہے ۔بھارت ایک قدم اُٹھائے تو پاکستان دو قدم اُٹھانے کوتیار ہے ۔بھارت کے ایک قدم پر پاکستان نے سنگِ بنیاد رکھنے کااعلان کردیا ہے ۔


قبل ازیں مشرقی پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے کرتا رپور بارڈر کھولنے کی قرار داد پاس کی جبکہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنراجے بساریہ نے کرتا رپور کے علاقے کا دورہ بھی کیا تھا ۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں معروف بھارتی کر کٹر اور ٹی وی شو کے میز بان نوجوت سنگھ سدھو کو مدعو کیا تھا جنہیں ہمارے سپہ سالا رجنرل قمر جاوید باجوہ نے گر مجوشی سے گلے لگایا اور انہیں آئندہ سال بابا جی گورونانک کے 550ویں یوم پیدائش پر کرتا رپور بارڈر کھولنے کی فراخدلانہ پیشکش بھی کردی جس پر سدھو پاجی خوشی سے پھولے نہ سمائے اور دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی میں ایک جشن کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور سب کے دل اور چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ۔


سدھو پاجی نے پاکستان اور پاکستانی آرمی چیف کی ہر پلیٹ فارم پر تعریف کی جس پر انتہاپسند ہندوبہت برہم ہوئے ۔ضلع آگرہ میں بجرنگ دل کے ضلعی صدر سنجے جٹ نے سدھو کا سر کاٹ کر لانے والے کیلئے چینلز پر پانچ لاکھ روپے کا انعامی چیک بھی لہرا کر دکھایا۔ بال ٹھا کرے کے بیٹے اودھے ٹھا کرے نے سدھو کو پاکستان جا کر انتخاب لڑنے کا کہا ،بہار کے وکیل سدھیر کمال اوجھا نے سدھو کیخلاف غداری کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن سدھو پاجی نے دلائل سے کرارے جواب دے کر ان کا منہ بند کیا جبکہ ہزاروں سکھ بھی تلواریں سونتے سدھو جی کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔


ان کی پاکستانی آرمی چیف سے جپھی بھارتی انتہا پسندوں کو تاحال ہضم نہیں ہورہی بالکل اسی طرح جیسے انہیں ابھی تک پاکستان کا وجود ہضم نہیں ہوپارہا ۔مودی جو سدھو پاجی کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں انہیں کانگریس کے نوجوان لیڈر اور اندر اگاندھی کے پوتے راہول گاندھی مسلسل ”چور “کا خطاب دے رہے ہیں جبکہ سابق بھارتی وزیرِ مملکت برائے خارجہ ،ششی تھرور ،انہیں ”بچھو “سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ”مودی ایسا بچھو ہے جسے ہاتھ سے ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ جوتے سے مارا جا سکتا ہے ۔


فیملی میگزین ،نوائے وقت گروپ تازہ ترین اہم قومی ایشوز پر اپنے قارئین کرام کو ہمیشہ اپ ڈیٹ رکھنے کی بھر پور کوشش کررہا ہے۔ قبل ازیں میں ادارہ نوائے وقت کے دو سینئر تجزیہ نگاروں برادرم خالد بیگ اور برادرم محمد اسلم خان سے کرتا رپور راہد اری کے حوالے سے 16تا22ستمبر اور 7تا 13اکتوبر کے فیملی میگزین کے شماروں میں مفصل آرٹیکل لکھوائے تھے جس سے ”کرتا رپور کو ریڈور “کے حوالے سے انہیں اس کی تمام جزئیات ،تاریخی حوالوں اور موجود ہ پیش رفت سے مفصل باخبر کیا گیا تھا ۔

برادرم محمد اکرم چودھری ،جو ”سائرن “کے عنوان سے نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں ،کے اس حوالے سے تحریر کردہ کالم ”کرتارپور کوریڈور حکومت کی سفارتی کامیابی ”سے منتخب حصہ نذر قارئین ہے جس سے انہیں ”کرتا ر پور کوریڈور “کے حوالے سے معلومات حاصل ہو نگی ۔
”کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند کلومیٹر کا ہی ہے اور نارووال ضلع کی حدود میں واقع اس گردوارہ تک پہنچنے میں لاہور سے 130کلو میٹر اور تقریباً ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کی تاریخ نے اس سفر کو بہت طویل بنا رکھ ہے ۔

تحصیل شکر گڑھ میں واقع سکھوں کا یہ مقدس مقام پاکستان اور انڈیا کے درمیان آج کل خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔
کرتا رپوروہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرونا نک دیوجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے ۔یہیں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کیلئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ گردوارہ تحصیل شکر گڑھ ایک چھوٹے سے گاؤں ،کو ٹھے پنڈ ،میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقعی ہے ،راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔

پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ،ڈیرہ صاحب لاہور ،پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاؤں میں ہے ۔
 پکی سڑک یعنی شکر گڑھ روڈ سے نیچے اترتے ہی ایک دلفریب منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے ۔سر سبز کھیت آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ،پگڈنڈیوں پر بھاگتے دوڑتے بچے اور دینگتی بیل گاڑیاں ،دور درختوں کی چھاؤں میں چلتے ٹیوب ویلز اور کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک سفید عمارت ۔

دھان کی فصل اور پر سکون دیہی ماحول میں گردوارے کی سنگِ مرمر کی عمارت دور سے نیلے آسمان تلے لہلاتے کھیتوں میں بیٹھے کسی سفید پرندے کی مانند دکھائی دیتی ہے ۔
یہاں سے کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے گردوارے تک کا سفر ایک خوشگور تازگی کا احساس دلاتی ہے ۔گردوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں ہے جسے گرونانک دیوسے منسوب کیا جاتا ہے ۔اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرونانک کے زیر استعمال رہا ۔

اسی مناسبت سے اسے ”سری کُھو صاحب “کہا جاتا ہے ۔کنویں کے ساتھ ہی ایک بم کا ٹکڑا بھی شیشے کے شوکیش میں نمائش کیلئے رکھا ہوا ہے ۔
اس پر درج تحریر کے مطابق یہ گولہ انڈین اےئر فورس نے 1971ء کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پھینکا تھا جسے کنویں نے ’اپنی گود میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا ۔‘گردوارے کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور ہر آنے والے کیلئے یہاں لنگر کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔

گوردوارہ کی موجودہ عمارت 1920ء سے 1929ء کے درمیان1,35,600روپے کی لاگت سے پٹیا لہ کے مہاراجہ سردار بھو پندرہ سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی ۔
1995ء میں حکومت پاکستان نے بھی اس کی دوبارہ مرمت کروائی تھی ۔تقسیمِ ہند کے وقت یہ گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیا لیکن قیام پاکستان کے بعد تقریباً 56سال تک یہ گردوارہ ویران رہا ۔دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے سبب یہ گردوارہ عرصہ دراز تک یا تریوں کا منتظر رہا ۔

سرحد کے دوسری جانب سکھ یا تری گردوارہ دربار صاحب کو دیکھنے کیلئے دور بینوں کا استعمال کرتے ہیں ۔اس حوالے سے انڈین بارڈرسکیورٹی فورسز نے خصوصی طور پر ”درشن ستھل “قائم کیے ہیں تا کہ وہ اس جانب واضح طور پرگوردوارے کے درشن کر سکیں ۔
برسوں سے سکھ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بھارتی سرحد سے گورودوارہ کرتا رپور صاحب تک ایک کوریڈور بنایا جائے ،جہاں سکھ یا تری ویز ے کے بغیر آسکیں ۔

گزشتہ تقریباً چالیس سال سے دنیا بھر سے سکھ اس کیلئے باقاعدہ دعائیں کررہے ہیں ۔سکھ سیاسی قیادت بھی اس کیلئے جدوجہد کرتی رہی ہے ،مگر اس معاملے میں بھارتی فوج رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔بھارتی فوجی افسران دلیل دیتے ہیں کہ گوروداسپور میں چھاؤنی ہے ،جبکہ اس کے قریبی ضلع پٹھا نکوٹ میں اسلحہ کا سب سے بڑا ڈپو ہے ۔اس کے علاوہ پٹھانکوٹ میں اےئر فورس کی متعدد بڑی تنصیبات ہیں ۔


کہا جاتا ہے کہ اگر سکھوں کو بھارتی سرحد سے کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ کرتا رپور تک رسائی دے دی گئی تو اس سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔2004ء میں ونود کھنہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنے تو انہوں نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کوکوریڈور کے منصوبے کی تجویز پیش کی ،مگر فوج نے اس کی مخالفت کی تھی ۔2مئی 2017ء کو بھارتی پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امو خارجہ نے اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے کوریڈور کے منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔

اس وفد کی قیادت سابق وزیر مملکت ششی تھرور کررہے تھے ۔
تجویز پیش کی گئی کہ درشن کیلئے چار اعلیٰ درجے کی دور بیتیں نصب کردی جائیں اور ان کے ذریعے گوردوارہ صاحب کا درشن کیا جائے ۔کرتار پورڈیرہ بابا نانک راہداری کے حوالے سے پہلی بار1998ء میں انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے مشاورت کی گئی تھی اور اب 20 برس بعد یہ دوبارہ خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے ۔


بھارت کشمیریوں کی حق خودار ادیت کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔لہٰذا ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کشمیر کا معاملہ حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ آگے چل سکتے ہیں ؟ اور یہ بھی سوچنا ہو گا کہ بھارت اس کوریڈور کے کھولنے کے مقاصد کو کس حد تک استعمال کر سکتا ہے؟ یقینا یہ حکومت کی کامیابی ضرورہے مگر ہمیں ہر زاویے پر سوچنے کا حق بھی حاصل ہے۔

“یہ تو تھی برادرم محمداکرم چودھری کی انفارمیشن۔
اسلام رواداری کا دین ہے ‘قرآن پاک اور اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور انہیں برابری کا حق دینے کیلئے بار ہاارشاد فرمایا ہے ۔پاکستان نے بھی اقلیتوں کے حقوق کی کھلے دل سے پاسداری کی ہے چونکہ سکھوں کے بیشتر متبرک اور مقدس مقامات پاکستان میں ہیں اسلئے ان کے دل پاکستان خاص طور پر لاہور ‘ننکانہ صاحب ‘حسن ابدال ‘سُچا سودا‘فاروق آباد (چو ہڑ کا نہ )ایمن آباد کیلئے دھڑکتے ہیں اور لاہور تو جیسے ہر سکھ کے خوابوں میں بسا ہے اور وہ قیام پاکستان کے بعد سے انکی تینوں نسلیں یہاں آنے کیلئے تڑپتی رہی ہیں ۔


پاکستان نے سکھ اقلیت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے 1960ء کی دہائی میں بھی ڈیرہ بابا گرونانک جی اور دربار صاحب کرتا رپور کے علاقے کو سکھوں کیلئے کھلا علاقہ قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی اور یہ پیشکش پہلے وفاقی وزیر انور عزیز چودھری کی جانب سے دی گئی تھی ۔بھارت نے حسب سابق اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا ۔
مشرف دور میں بھی یہ پیشکش ہوئی جبکہ 2005ء میں وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں ان کی دعوت پر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن (ر)امریندرسنگھ لاہور آئے تھے اور دونوں نے واہگہ سے ننکار نہ صاحب وہ طرفہ پختہ سڑک کا سنگِ بنیاد رکھا تھا ‘گوردوارہ کرتا ر پور تک جانے والی سڑک بھی انہی کے دور میں مکمل ہوئی تھی جبکہ لاہور تا امر تسر بس سروس کا آغاز بھی ہوا تھا ۔


سکھ 2020ء کو بھارت سے علیحدگی کیلئے ریفر نڈم کا سال قرار دے رہے ہیں جس کیلئے امریکہ اور برطانیہ سے باقاعدہ طور پر منظم تحریک بھی چلائی جارہی ہے ۔سکھوں کو 1947ء میں تقسیم ہندوستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کی پیشکش تسلیم نہ کرنے کا شدید افسوس اور دکھ ہے۔ جس کا خمیا زہ وہ جون 1984ء میں بھارتی وزیراعظم اندر اگاندھی کے حکم پرسکھوں کے مقدس ومتبرک مقام ”گولڈن ٹیمپل “پر 24گھنٹے گولے باری ‘سینکڑوں سکھوں کی ہلاکت اور ہزاروں کے لاپتہ ہونے کی شکل میں بھگت چکے ہیں اور انہیں بھارتی میں مسلم اقلیت کی طرح امتیازی سلوک کا سامنا ہے جس کا اظہار اکثر وبیشتر
 میڈیا میں ہوتا رہتا ہے ۔


بھارتی حکومت کے مسلسل معاندانہ اور متعصبانہ رویے کی بدولت لاہور سے بھارتی سرحد تک 130کلو میٹر کا فاصلہ گزشتہ سات دہائیوں میں بھی طے نہیں ہو پایا اب جبکہ بھارتی حکومت سکھوں کے اندرونی اور بیرونی دباؤ اور انکی علیحدگی کے آمدہ ریفر نڈم سے خوفزدہ ہوکر یہ کڑواگھونٹ بھر نے پر مجبور ہو گئی ہے ۔
خیر سگالی ،رواداری ‘ایثار ‘میزبانی اور مہمان نوازی سب بجالیکن ان سب پر ملکی سلامتی کیلئے ہرلمحہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔وطن عزیز جو پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہے کہیں خدانخواستہ وطن دشمن قوتیں یہاں ہونے والے مذہبی اجتماعات کو اپنے ناپاک مقاصد کیلئے استعمال نہ کرسکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kartarpur border ka sang e bunyaad is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 December 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.