مڈٹرم انتخابات کرانے کا اشارہ عمران خان کا اعتراف شکست ہے

وزیراعظم عمران خان کے بعض بیانات اور اعلانات سے قوم میں مایوسی اور بددلی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے وہ مستقبل قریب میں کیا رنگ لائے گی اس پر

جمعرات 6 دسمبر 2018

midterm intikhabaat karanay ka ishara Imran Khan ka aitraaf shikast hai
احمد کمال نظامی
وزیراعظم عمران خان کے بعض بیانات اور اعلانات سے قوم میں مایوسی اور بددلی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے وہ مستقبل قریب میں کیا رنگ لائے گی اس پر مختلف آراء ہیں۔ بعض اسے عمران خان کی حکمت عملی قرار دیتے ہیں اور بعض اسے محض چسکا بازی کہہ کر بات کو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے اڑا دیتے ہیں لیکن کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے عمران خان اپنی ٹیم کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں اور انہیں کوئی راستہ ہی نظر نہیں آ رہا ہے کہ وہ بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اور اب تک پاکستان میں ماضی کی کسی حکومت کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ کوئی حکومت اور حکمران اپنے ابتدائی 100 دنوں میں اس قدر بیچارگی سے دوچار ہوئے ہوں کہ اپنی شکست کا اعتراف قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ دس روز میں وفاقی وزارتوں میں بھی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا ایک لمبا مرحلہ ہے۔ ملک میں قبل ازوقت بھی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ مڈٹرم انتخابات دو ہی صورتوں میں ہوا کرتے ہیں کہ حکومت اس قدر ناکام ہو چکی ہو اور عوام کی طرف سے مطالبہ ہو رہا ہو کہ حکومت مستعفی ہو جائے اور مڈٹرم انتخابات کرائے جائیں یا پھر حکمران عوام میں اس قدر مقبول اور ہردلعزیز ہوں کہ حکمرانوں کو مکمل یقین ہو یا مڈٹرم انتخابات میں وہ پہلے سے زیادہ اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی اور مخالف جماعتوں کا صفایا کر دے گی یا پھر حکمران پارٹی پر الزام ہو کہ اس نے دھاندلی کے زور پر اپنی حکومت قائم کی ہے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن قومی اتحاد کی جماعتوںنے بھٹو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا اور حکومت مخالف تحریک چلائی تو بھٹو نے دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔

اب صورت حال یکسر مختلف ہے نہ ملک میں کوئی حکومت مخالف تحریک چلائی جا رہی ہے اور نہ عوام کی طرف سے حکومت سے مستعفی ہونے اور مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے البتہ ملک میں شدید ترین مہنگائی اور گرانی کے جس طوفان نے جنم لیا ہوا ہے اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں اور حکمران مہنگائی اور گرانی پر قابو پانے میں قطعی ناکام ہو چکے ہیں اور عمران خان خدا معلوم کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ قبل ازوقت انتخابات کے امکان کو ظاہر کر رہے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان حکومت کی حالت اونٹ جیسی ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں اور وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر کے بعض بیانات اپنے ہی وزیراعظم کے بیانات کی نفی کرتے ہیں۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ آئندہ دس دنوں میں بعض وزراء کی چھٹی کرا رہے ہیں۔ یہ بھی عمران خان کا اعتراف شکست ہے کہ انہیں اپنی ٹیم تشکیل دینے کی صلاحیت نہیں ہے اور پاکستان کی معیشت بحال کرنے کا دعویٰ حکومت ملنے کے بعد ایک مسکراہٹ میں اڑا دیا اور جس پارٹی کو فاشسٹ کہا اس کے وزیر آج عمران خان کی بغل میں بیٹھے ہیں اور جن کو مہاڈاکو کے خطاب سے نوازا وہی لوگ عمران خان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اور عمران خان نے ماسوائے ایک کام کے کہ انہوں نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا ورنہ ان کے یوٹرن پر یوٹرن پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے اور عمران خان اپنی بنائی ہوئی حکمت عملی کے گرداب میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اس دلدل میں مزید پھنستے ہی جا رہے ہیں اور جس گڈگورننس کا بڑا دعویٰ کیا جا رہا تھا وہ کہیں نظر نہیں آتے جبکہ عدلیہ کی طرف سے بھی حکومت کے بعض اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

لاہورہائیکورٹ نے گورنر ہاؤس کو قومی ورثہ قرار دے کر حکم جاری کیا ہے کہ گورنرہاؤس ثقافتی ورثہ کی حامل تاریخی عمارت ہے اس کی دیواروں کو بھی نہیں گرایا جا سکتا۔ لہٰذا جس تیزی سے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرائی جا رہی تھیں۔ اب اسی تیزی سے کام بند ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری تو پشین گوئی کر رہے ہیں کہ کپتان عمران خان سے حکومت نہیں چلائی جا رہی کیونکہ وہ اس صلاحیت کے مالک ہی نہیں ہیں انہیں جلد گھر جانا ہو گا جبکہ مسلم لیگ(ن) نے عمران خان حکومت کے 100دنوں کے حوالہ سے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ شرح نمو میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ روزگار کیسے ملے گا۔

حیران کن بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان کہتے کہ ڈالر کی اڑان کا علم انہیں میڈیا کی خبروں سے ہوا جبکہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نہ صرف باخبر تھے بلکہ روپے کی قدر میں کمی ان کے علم میں تھی۔ آئندہ عشرہ بہت سی تبدیلیوں کی غمازی کرتا نظر آتا ہے اور وزراء کی برطرفی سے تحریک انصاف کو جو جھٹکا لگے گا اس کے نتائج تحریک انصاف کے مستقبل پر ضرور مرتب ہو ں گے کہیں تحریک انصاف دو حصوں میں نہ بٹ جائے۔پھر اس کے باوجود عمران خان اگر وزیراعظم رہتے ہیں تو کیا معلوم حکم کسی اور کا چلے گا، اس اور میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

midterm intikhabaat karanay ka ishara Imran Khan ka aitraaf shikast hai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 December 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.