پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فاصلے کم

یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ حکمرانوں سے لے کر فٹ پاتھی سیاست دان بھی دہشت زدہ ہیں۔ لفظ دہشت اپنے معنی و مفہوم میں دہشت کا پر تو ہے۔

منگل 6 نومبر 2018

peoples party aur muslim league ( N ) ke darmiyan faslay kam
احمد کمال نظامی
یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ حکمرانوں سے لے کر فٹ پاتھی سیاست دان بھی دہشت زدہ ہیں۔ لفظ دہشت اپنے معنی و مفہوم میں دہشت کا پر تو ہے۔ دہشت گردی کی اقسام اس قدر ہیں اگر اس پر غور کیا جائے تو آدمی خود دہشت زدہ ہو جاتا ہے جیسے آج کل بعض سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کے بارے میں نیب زدہ کی اصطلاع استعمال ہو رہی ہے۔

اس سے بڑی اور کیا دہشت ہو سکتی ہے کہ عوام نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ایک پارٹی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا اور جنہیں حق حکمرانی کی عوامی سند حاصل ہوئی ہے وہ بھی پریشان اور عوام بھی پریشان، اور ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کا دارومدار کرپشن کے خاتمہ میں مضمر ہے۔ اگر موجودہ تناظر میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے کہ سالہاسال سے لوٹ مار کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

ایک سادہ سا سوال ہر شخص کی زبان پر ہے کہ گزشتہ دس بارہ برسوں میں جو چوبیس ہزار ارب قرضہ لیا آخر وہ کہاں گیا، کہاں خرچ ہوا اور کون لوٹ کر لے گیا۔ یہ ایک معمہ ہے جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور نہ کسی کی سمجھ میں آ رہا ہے جبکہ کسی عام پاکستانی سے پوچھا جائے تو اس کا برجستہ جواب ہو گا کہ پاکستان میں عام آدمی رشوت یا سفارش کے بغیر اپنا حق نہیں لے سکتا۔

گویا لوٹ مار کی اصل جڑ سفارش اور رشوت ہے۔ اس کے خاتمہ کی طرف وزیراعظم عمران خان نے پاکستان سٹیزن پورٹل قائم کیا ہے اور خود ہی اس کے نگران بھی ہیں۔ اس نظام کے تحت اندرون اور بیرون ملک بیٹھا ہر پاکستانی اور پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کے بارے میں براہ راست وزیراعظم کے پاس اپنی شکایات درج کرا سکیں گے جن محکموں اور اداروں کے بارے میں شکایات ہوں گی ان کے حکام جواب دہ ہوں گے اور شکایت کنندہ کو دو ہفتے کے اندر اس درخواست کے متعلق کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔

پی سی پی کے قیام کا مقصد دراصل رشوت اور سفارش کے کلچر کا خاتمہ ہے اور بہتر طرزحکمرانی معاملات میں شفافیت اور سرکاری محکموں میں جواب دہی اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنانا ہے۔ اس نظام کے نافذ کرنے کا اول و آخر مقصد یہی ہے کہ سرکاری افسروں، وزارتوں اور سیاست دانوں کو قابل احتساب قرار دے کر سماج کے ذہن میں انقلابی تبدیلی لائی جائے اور سزا و جزا میں آسانی ہو گی۔

سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں سب سے زیادہ شکایات رشوت اور سفارش کے بارے میں ہوتی ہیں۔ اس نظام پر اگر اس کی روح کے مطابق کام لیا جائے کہ کہیں بھی بیٹھے معلوم ہو سکے گا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے اور کون سا سرکاری افسر کرپشن کر رہا اور رشوت مانگ رہا ہے۔ اس نظام کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کہ عوام کی آواز ہے لیکن خدشہ ہے کہ جنرل ایوب خاں کے عہد حکومت میں بھی سٹیزن پورٹل کا نظام نافذ ہوا تھا۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ جس پٹواری یا افسر کے خلاف شکایت ہوتی تھی اس کے خلاف درخواست اسی افسر یا پٹواری کے پاس انکوائری کے لئے پہنچ جاتی تھی اور پھر درخواست گزار کا جو حشر ہوتا تھا اس کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھتی تھیں۔ کہیں تاریخ اپنے آپ کو نہ دہرائے۔ جیساکہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کے مابین پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین شپ کے معاملہ پر تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اور تحریک انصاف نے اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہبازشریف کا بطور چیئرمین نام مسترد کر دیا ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں فیصلہ ہوا۔

اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ میاں محمد شہبازشریف کی بجائے کسی اور شخصیت کا نام تجویز کریں کیونکہ میاں محمد شہبازشریف پر کرپشن میں ملوث ہونے کے مختلف الزامات ہیں اور وہ نیب کی حراست میں ہیں جبکہ اپوزیشن اس پر رضامند نہیں ہے اور بضد ہے کہ قائدحزب اختلاف ہونے کے ناطے بھی میا ںمحمد شہبازشریف کا حق ہے کہ وہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمینی کے فرائض سرانجام دیں۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ان دنوں جو فاصلے کم ہو چکے ہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں میاں محمد شہبازشریف اور آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شریک ہونا اس امر کی غمازی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) مشترکہ حکمت عملی کے تحت عمران خان حکومت کے خلاف اسمبلی اور اسمبلی کے باہر تحریک چلانے پر اتفاق رائے کر چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کی جو اے پی سی بلائی ہے یہ اے پی سی جس میں میاںمحمد نوازشریف اور آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بھی شریک ہو رہے ہیں جبکہ میاں محمد شہبازشریف اور میاں محمد نوازشریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نوازشریف اے پی سی میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ مسلم لیگ(ن) کا ایک بڑا وفد ممبران کی صورت میں شرکت کرے گا۔

اس کے فیصلے آئندہ سیاسی روڈ میپ ہو گا جبکہ میاں محمد نوازشریف نے بھی چپ کا روزہ توڑ دیا ہے اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان میں ہمت ہے تو بتائیں کہ این آر او کس نے مانگا ہے۔ ہماری پارٹی کے کسی فرد نے نہ این آر او مانگا نہ یہ لفظ زبان پر آیا۔ میاں محمد شہبازشریف جنہوں نے پوری دیانت داری سے پنجاب کی خدمت کی اور عوام کو وہ ریلیف دیا جس کا عمران خان خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

انہیں صاف پانی میں بلایا گیا اور آشیانہ میں گرفتار کر لیا گیا، جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو اب آمدن سے زیادہ اثاثوں کی بات کی جا رہی ہے۔ عوام ملک کے حالات دیکھ رہے ہیں کوئی بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کیا مذاق ہے۔ ہم پاکستان کو کدھر لے کر جا رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے دھمکی دی ہے کہ اگر میاں محمد شہبازشریف کو پی اے سی کا چیئرمین نہ بنایا گیا تو مسلم لیگ(ن) تمام کمیٹیوں سے علیحدگی اختیار کرے گی اور حکمران ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت غیرجمہوری اقدامات اٹھا رہی ہے۔

ایسے ہی خدشات کا اظہار آصف علی زرداری نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی این آر او کے قائل نہیں ہے اور نہ ہمیں این آر او کی ضرورت ہے بلکہ آصف علی زرداری کا الزام ہے کہ عمران خان سابق ڈکٹیٹروں کی راہ اور لائن پر چل رہے ہیں اور اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان تمام حالات پر ایک نظر ڈالیں تو ماضی کی دونوں حکمران جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتی نظر آتی ہیں اور آئندہ سیاسی جنگ ماضی کے حکمرانوں اور نئے حکمرانوں کے درمیان پانی پت کا میدان گرم ہوتا نظر آتا ہے۔

اس میں کون سرخرو ہو گا، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن عوام اپنی جگہ مہنگائی اور گرانی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ در اضافہ کا جو باب کھل چکا ہے وہ بند ہوتا نظر نہیں آتا۔ اپوزیشن کچھ کرے یا نہ کرے مہنگائی ہی اس حکومت کو لے ڈوبے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

peoples party aur muslim league ( N ) ke darmiyan faslay kam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.