امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے 31مئی کو اعلان کیا کہ بھارت کودیا گیاخصوصی تجارتی ملک کا درجہ ختم کردیا گیاہے، جس کے تحت امریکی فیصلے کا اطلاق5جون 2019ء سے شروع ہوچکا ہے،لہذا بھارت اب امریکا کے ان ممالک کی صف میں شامل نہیں رہا، جو خصوصی تجارتی درجے کے تحت ڈیوٹی فری تجارت سے مستفید ہورہے ہیں۔
صدرٹرمپ نے کہا کہ بھارت اپنی منڈی تک امریکا کو رسائی دینے میں ناکام رہا،بھارت کواب ترجیحی تجارتی حیثیت والا ترقی پذیرملک نہ سمجھا جائے،بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر نے 5مارچ کوایک خط کے ذریعے نئی دہلی اور امریکی کانگریس کو بھی باقاعدہ آگاہ کیا تھاکہ جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز(GSP)سے بھارت کو خارج کردیا جائے گا،لیکن مودی کے سرپران دنوں جنگی جنون سوار تھا، اور مودی سرکاری انتخابی مہم میں لگی ہوئی تھی،جس کے باعث بھارت نے امریکی خط پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا،جس پر امریکا نے بھارت کیلئے جی ایس پی درجے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا،جی ایس پی کا درجہ ختم ہونے سے بھارتی غریب عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
(جاری ہے)
دوسری جانب بھارتی حکام کاکہنا ہے کہ جی ایس پی امریکا اور بھارت کے اسٹریٹجک تعلقات کا ایک علامتی حصہ تھا، جس میں کوئی شرط عائدنہیں تھی،بھارت ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دے گا۔ جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسزامریکا کا ایک ایسا تجارتی پروگرام ہے، جس کوٹریڈایکٹ 1974ء کے تحت یکم جنوری 1976ء میں تقریباً129ممالک کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا،اس پروگرام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تقویت بخشنا تھا،پروگرام میں شامل مستفید ہونے والے ممالک اڑتالیس سو مصنوعات کی ڈیوٹی فری تجارت کرسکتے ہیں،یعنی امریکا پروگرام میں شامل ممالک سے بغیرٹیکس محصولات مختلف مصنوعات کی درآمدکرتا ہے،اور پروگرام میں شامل ممالک کیلئے ٹیکس استثنیٰ حاصل ہوتی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق2018ء میں جی ایس پی کے تحت ا مریکا سے بھارت میں 6.35ارب ڈالرکی دوطرفہ ڈیوٹی فری تجارت ہوئی،جس میں مصنوعات کی کل برآمدات کاحجم2.9ارب ڈالراور درآمدات 3.7بلین ڈالرکی ہیں۔
جبکہ بھارت کو جی ایس پی کے ذریعے پچھلے سال تمام شعبوں میں260ملین ڈالر کا فائدہ پہنچا۔ 51.4بلین ڈالر کی کل مجموعی برآمدات میں سے یہ امریکا کے ساتھ بھارتی برآمدات کا ایک چھوٹا ساحصہ تھا۔
اسی طرح ابھی صرف تین سال قبل واشنگٹن میں 29اگست 2016ء میں امریکا اوربھارت کے درمیان لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ(LEMOA)دستخط ہوا،اس معاہدے کا مقصد دونوں اتحادیوں کا دہشتگردی کیخلاف ایک دوسرے کی دفاعی و فوجی تنصیبات سے مستفید ہونا شامل ہے،بالخصوص یہ معاہدہ ایشیاء میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کرنے کیلئے بھی مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا تھا۔
ترجیحی تجارتی حیثیت والا ترقی پذیرملک کادرجہ ختم ہونے کے بعدبھارت اب اس بات پر بھی غور کر رہا ہے کہ وہ امریکا سے درآمد کی جانے والی 20 سے زائد مصنوعات پر درآمدی محصولات بڑھا دے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ امریکی مفادات کو مدنظر رکھ کرکیا ہے، امریکا کو بھارت کے ساتھ ڈیوٹی فری تجارت میں بہت زیادہ خسارے کا سامنا تھا،صرف پچھلے 2018ء میں مختلف مصنوعات اور خدمات کے شعبوں میں 25بلین تک خسارہ برداشت کرنا پڑا،لہذاامریکا کو بھارت کے ساتھ ایک طرف ٹیکس کی چھوٹ کا نقصان ہورہا تھا، دوسرا بھارت کے معاہدے پر پورا نہ اترنے سے تجارتی نقصان پہنچ رہا تھا،بھارت نے امریکی انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور امریکا کو اپنی منڈیوں تک مناسب رسائی بھی فراہم نہیں کی، اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ کو جی ایس پی کا درجہ واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا،فیصلے سے بھارتی معیشت کو شدید دھچکا پہنچے گا، بھارت کی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتی برآمدات شدید متاثر ہوں گی۔
امریکا اور بھارت کے معاشی اور دفاعی تعلقات کا ماضی دیکھیں تو90ء کی دہائی میں بھارتی خارجہ پالیسی یونی پولر کے تحت عالمی سیاست سے منسلک ہوئی،جس کے ذریعے بھارت نے ا مریکا سے قریبی تعلقات استوارکرلیے،یوں امریکا اور بھارت قریب جبکہ پاکستان کے تعلقات میں خلل پڑنا شروع ہوگیا،جبکہ بھارت امریکا کی نسبت روس کا اتحادی اوردوست ملک تھا،یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیاتوپاکستان کے پاس دوچوائسزتھیں کہ متحدہ ہائے امریکا،یا پھرروس(سویت یونین) دونوں میں کس کے ساتھ دوستی کاہاتھ بڑھائے،کیونکہ امریکااور روس دونوں دنیاکی اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بڑی طاقتیں تھیں،دونوں ایک دوسرے کے بڑے حریف بھی تھے۔
لیکن 1950ء میں امریکی صدرہیری ٹرومن نے پاکستان کاپہلاسرکاری دورہ کیاتو وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکاکے ساتھ غیررسمی طورپردوستی کاہاتھ بڑھادیا،یوں 1953ء میں پاکستان نے امریکا کی فوجی اور اقتصادی امدادکوقبول کیا تو پاکستان مستقل بنیادوں پر امریکی پلڑے کا حصہ بن گیا، پاکستان جغرافیائی لحاظ سے بھارت،چین افغانستان اور ایران کے درمیان واقع بڑا اہم ایٹمی ملک ہے،پاکستان کے ایک طرف دوست ملک چین اوراس کے ساتھ ازلی دشمن ہندوستان واقع ہے،افغانستان اسلامی ملک لیکن بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی بناہوا ہے،چین چونکہ دنیا کی بڑی معاشی اوردفاعی طاقت بننے جارہا ہے،اس لیے امریکا کوکسی صورت قبول نہیں کہ چین قتصادی لحاظ سے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو۔
امریکہ کی بھارت کو قبول کرنے کی وجہ بھی یہی مفادات ہیں،کہ وہ اپنی معاشی و دفاعی طاقت کوہرحال میں برقراررکھنا چاہتا ہے، سُپر پاور امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی جنگ جارہی ہے،امریکا نے چین کا معاشی اثر زائل کرنے کیلئے انڈیا کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA)بھی سائن کیا، اس کے باوجودامریکا تجارتی لحاظ سے چین پرحاوی نہیں ہوپایا۔
امریکا نے خطے میں اپنی سپرپاورکی حیثیت کو منوانے اور چین کو قابو کرنے کیلئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی تجارتی منڈی ہندوستان سے تعلقات کو پروان چڑھانا شروع کردیا،امریکا کو معلوم ہے کہ چین اور پاکستان کے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں،جس کی مثال پاکستان میں چین کی شراکت داری سے سی پیک اور گوادرپورٹ جیسے بڑے منصوبے کامیابی کے ساتھ جاری ہیں،یہ منصوبے خطے کی معاشی ترقی اور دنیا میں تجارت کا جال بچھانے میں گیم چینجزہیں،پھرامریکا کویہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات چل رہے ہیں،جس کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے،لہذا امریکا نے پاکستان کے ساتھ اپنے معاشی و دفاعی تعلقات کو محدودکردیااور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دے دی۔
اب امریکا اور بھارت دوبڑے تجارتی ملک ہیں،بھارت امریکا کیلئے 9واں جبکہ امریکا بھارت کیلئے دوسرا بڑا تجارتی ملک ہے۔امریکاکے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی رجحان کا جائزہ لیں تویوایس تجارتی نمائندہ آفس کے مطابق 1995ء میں امریکا کا بھارت کے ساتھ مختلف مصنوعات اور خدمات میں تجارت کا حجم 11.2بلین ڈالرتھا،10سال بعد2015ء میں 109.4بلین ڈالر تک پہنچ گیا،یوں پچھلے سال 2018ء میں یہ تجارتی حجم 142.1بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
جس میں 2018ء میں صرف اشیاء کی تجارت87.5بلین ڈالر،زرعی شعبے کی 4.2بلین ڈالر،مینوفیکچرنگ ٹریڈ74.8بلین ڈالر،سروسزکے شعبے میں 54.6بلین ڈالرتجارت رہی۔امریکا کی بھارت کے ساتھ برآمدات کو دیکھیں توپچھلے سال برآمدات کا حجم 58.9بلین ڈالر اور83.2بلین ڈالر رہا،جبکہ امریکا کو بھارت کے ساتھ تجارت میں پچھلے سال 2018ء میں 24.2بلین ڈالر خسارے یا نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
اب اس کا موازنہ پاکستان کے ساتھ کیا جائے تویہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں ہے،1995ء میں امریکا کی پاکستان کے ساتھ کل تجارت کا حجم2.1بلین ڈالرتھا،اسی طرح 2015ء میں 5.5بلین ڈالر اور2018ء میں 6.6بلین ڈالر ہوگیا،برآمدات 2.9اور درآمدات 3.7بلین ڈالر تک محدود ہیں،زراعت کے شعبے میں 1.6بلین ڈالر اور مینوفیکچرنگ میں 4.7بلین ڈالر تک محدود ہیں۔
امریکا کی بھارت اور پاکستان کے ساتھ تجارت کو دیکھ کربخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان امریکا سے کس قدر دور اور بھارت کس قدر نزدیک ہے،یہ بھی پتا چلتا ہے کہ امریکا اور بھارت کے مفادات ملتے جلتے ہیں،امریکا کو خطے میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ایک تھانیدار چاہیے،یہ امریکا کا نقصان کرے یا فائدہ پہنچائے،وہ قبول ہے،اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ہی امریکا نے افغانستان میں دہشتگردی کی جنگ کی آڑ میں اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے،سابق وائس چانسلرڈاکٹر مجاہدکامران کی کتاب”نائن الیون /دی نیوون ورلڈ آرڈر“کے مطابق امریکا خطے سے کسی بھی صورت نہیں جائے گا،امریکا خطے میں واپس جانے کیلئے نہیں بلکہ اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے آیا ہے،امریکا نے اپنی فوجیں واپس بھیج بھی دیں تووہ اپنا اثر ورسوخ قائم رکھے گا۔
یوایس تجارتی نمائندہ آفس کاکہنا ہے کہ 2018ء کے اعدادوشمار کے تحت امریکا نے افغانستان کے ساتھ 1262.8ملین ڈالر کی تجارت کی۔اسی طرح چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑاملک ہے،ایک طرف امریکا اور چین میں معاشی جنگ جاری ہے، تودوسری طرف دونوں ممالک سب سے بڑے تجارتی ملک بھی ہیں،2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق امریکا کے ساتھ چین کا مصنوعات اور خدمات میں مجموعی تجارت کا حجم 737.1بلین ڈالرریکارڈ کیا گیا۔
جس میں 179.3بلین ڈالر کی برآمدات اور 557.9بلین ڈالر کی درآمدات ہیں۔ درج بالاتمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات مستقبل میں کیا شکل اختیار کرتے ہیں؟امریکا کے بھارت کیلئے جی ایس پی کے درجے ختم کرنے سے خطے کی معاشی ترقی اور خطے میں موجود دوسرے ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ہندوستان میں الیکشن 2019ء میں کامیابی حاصل کرکے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ایک بار پھر حکومت آگئی ہے،امریکا کے پاس آپشن نہیں کہ مودی سرکارسے معاملات بگاڑے،لہذایہ سب دکھاوا اورڈرامہ ہے،بھارت میں چونکہ دنیا کی 1ارب سے زائد آبادی ہے،بڑی معاشی منڈی ہے،اس لیے امریکا بھارت کے ساتھ دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کوضرور وسعت دے گا۔
لیکن اس کے ساتھ خطے میں پاکستان کے کردار کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،پاکستان کی آبادی 22کروڑ کے قریب ہے،جوکہ ہندوستان اور چین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، لہذا پاکستان ایک بڑی معاشی منڈی نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود پاکستان ایک زرخیززرعی ملک ہے،جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کی بڑی اہمیت ہے،ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں،اللہ نے ہمیں بہترین پہاڑی،میدانی اور ساحلی علاقوں،دریاؤں اور چاروں موسموں سے نوازا۔
لیکن ملک وقوم کی تعمیرکرنے والی سیاسی جماعتوں میں اقتدارکی لڑائیوں کے باعث معاشی ترقی کیلئے کوئی ایک پالیسی وضع نہ کی جاسکی،جس کا نتیجہ کہ ہم آج بھی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں،ہمیں چاہیے کہ پاکستان کو معاشی بحرانوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے یک نکاتی پالیسی بنائیں پھر تمام اسٹیک ہولڈر اسی کے تحت ترقی کی منازل طے کریں،پاکستان کو اب صرف امریکا کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کومدنظر رکھتے ہوئے اپنی ضروریات کے پیش نظر دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کو قائم کرنا چاہیے،چین کی دوستی کسی نعمت سے کم نہیں،جس نے پاکستان کو سی پیک کا تحفہ دیا، اگرچہ سی پیک چین کی ضرورت ہے،لیکن فائدہ پاکستان سمیت پورے خطے کوپہنچے گا،سی پیک خطے میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تجارتی تعلقات استوار کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔