تحریک انصاف کی اپنے مخالفین کے ساتھ چومکھی لڑائی

قومی اسمبلی کے چھٹے سیشن کے آغاز میں ہی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو دینے کے ’’ ڈرامائی ‘‘ اعلان سے قومی اسمبلی میں ہونے والا احتجاج وقتی طور پر تھم گیا ہے

اتوار 23 دسمبر 2018

tehreek insaaf ki apne mukhalfin ke sath chomkhi larai
نواز رضا۔

قومی اسمبلی کے چھٹے سیشن کے آغاز میں ہی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو دینے کے ’’ ڈرامائی ‘‘ اعلان سے قومی اسمبلی میں ہونے والا احتجاج وقتی طور پر تھم گیا ہے لیکن اب قومی اسمبلی میں مجالس قائمہ کی چیئرمین کا نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے معمول کی مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ لینے سے انکار کر دیا ہے اور حکومت سے داخلہ، خارجہ اور خزانہ سمیت اہم مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ مانگ لی ہیں ، اپوزیشن نے طے کیا ہے کہ شماریات، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور موسمی تغیرات جیسی معمولی مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ قبول نہیں کی جائیں گی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کے تناسب کو پیش نظر رکھ مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت حکومت کو20اور اپوزیشن کو19 مجالس قائمہ کی سربراہی دی جانی ہے اپوزیشن نے شماریات، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور موسمی تغیرات جیسی معمولی نوعیت کی مجالس قائمہ کی سربراہی مسترد کر دی ہے جب کہ اپوزیشن کی جانب سے اہم مجالس قائمہ کی سربراہی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے بھی کسی مجلس قائمہ کی سربراہی لینے سے انکار کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے طے کیا ہے کہ سابق دور میں جو وزرا ء یا مجالس قائمہ کے سربراہ رہ چکے ہیں انہیں اب مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ نہیں دی جائے گی بلکہ نئے لوگوں کو موقع دیا جائے گا۔ شنید ہے پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ کے چیئرمینوں کے نام فائنل کر دئیے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں لیت لعل سے کام لینے سے پارلیمنٹ کا ماحول ’’مکدر‘‘ ہو گیا ہے ۔ سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دو روز کا وقفہ کر کے حکومت کو ریلیف دے دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے سپیکر حکومتی دبائو میں ہیں جس کے باعث وہ خواجہ سعد رفیق کا فوری طور پر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے گریزاں ہیں ممکن ہے وہ اس روز پروڈکشن آرڈر جاری کریں جس روز موجودہ سیشن کا آخری روز ہو اس طرح خواجہ سعد رفیق کو پارلیمنٹ میں نہیں لایا جاسکے گا ۔ حکومت میں ’’ ہارڈ لائنرز‘‘ پارلیمنٹ کا ماحول خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انھیں میاں شہباز شریف کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنائے جانے کا فیصلہ ہضم نہیں ہو پا رہا اور وہ قائد حزب اختلاف پر مسلسل ’’طنز و تشنیع‘‘ کے تیر چلا رہے ہیں اور وہ اشتعال انگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اپنے سیاسی خالفین کے ساتھ ’’ چومکھی ‘‘لڑائی لڑ رہی ہے، حکومت کے طرز عمل نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترنے پر مجبور کر دیا ہے، اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں موجود تھے لیکن دونوں اطراف سے خواہش کے باوجود میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات نہیں ہو سکی شنید ہے کہ دونوں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے لیکن فرحت اللہ بابر اور مریم اورنگ زیب دونوں نے اس بات کی تردید کر دی ہے البتہ قومی اسمبلی کے ایوان میں آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان ملاقات ہو گئی ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت کے درمیان روابط بڑھ گئے ہیں ، آنے والے دنوں میں اپوزیشن جماعتوں کا ’’گرینڈ الائنس ‘‘ بھی بن سکتا ہے حکومت کی جانب سے بھی آئے روز اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو’’ جیل ‘‘ بھجوانے کا’’ ڈراوا ‘‘ دیا جا رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری جہاندیدہ سیاست دان ہیں انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ انہیں جلد ’’سرکاری مہمان‘‘ بنایا جانے والا ہے اس لئے انہوں نے کھل کر ان تمام ’’قوتوں‘‘ کو للکارنا شروع کر دیا ہے جو ان کے لئے جیل بھجوانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں لہذا انہوں نے مصلحت پر مبنی سیاست کو ترک کر دیا ہے انہوں نے پچھلے تین ماہ کے دوران اپوزیشن بنچوں پر ہوتے ہوئے تحریک انصاف سے غیر اعلانیہ تعاون کیا ہے لیکن اس کا انہیں یہ صلہ دیا جا رہا کہان کی ’’طنابیں ‘‘ کھینچی جا رہی ہیں ۔ اب وہ سمجھتے کہ ان کی جانب سے حکومت کے ساتھ کیا گیاتعاون ان کی کمزوری ہے آصف علی زرداری جو سندھ کے دورے کے بعد وفاقی دار الحکومت اسلام آباد آئے ہیں ان کا دورہ اسلام آباد سیاسی اہمیت کا حامل ہے انہوں نے جچے تلے الفاظ میں معنی خیز گفتگو کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ ’’ 3سال کی نوکری والے کو قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ مستقبل سیاست دانوں کا ہے آپ کا نہیں ۔ فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے ملک آگے جاتا ہے پھر ایک لکڑی اٹھا لی جاتی ہے تو ملک15سال پیچھے چلا جاتا ہے حکمرانوں کو مرغی انڈے کو سوا کوئی کام نہیں آتا‘‘۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آصف علی زرداری کا روئے سخن کون ہے ؟ انھوں نے اشاروں کنائیوں میں متعلقہ حلقوں کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ آصف علی زرداری کے بیان کی حدت اسلام آْباد کے ایوانوں میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے فوراً آصف علی زرداری کے بیان پر اپنا ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’آصف علی زرداری ایک بیان پر پہلے بھی 3سال تک متحدہ عرب امارات کی سیر و تفریح کر چکے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری ہماری حکومت کے 100دن گننے کی بجائے اپنی سیاست کے آ ٓٓخری 100دن گنیں ‘‘۔ آصف علی زرداری کے لب و لہجے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اہداف پر بلا مقصد گولہ باری نہیں کی ہے بلکہ وہ کھلم کھلا’’ سیاسی جنگ ‘‘لڑنے کیلئے تیار نظر آتے ہیں لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’سب اچھا نہیں ہے‘‘ حکومت کو اب یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقابلہ’’ مصلحتوں کا شکار‘‘ آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ ایک ایسے’’ زخمی‘‘ سیاستدان سے ہے جو حکومتی طرز عمل سے مایوس ہو کر کھل کر سیاست کرنے کیلئے سامنے آ گیا ہے۔ حکومت کے طرز عمل نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ، جو کل تک اکٹھی ہونے میں گریزاں تھیں ، اب انھیں ایک ’’صفحہ‘‘ پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اس سے نہ صرف سیاسی ماحول’’ کشیدہ ‘‘ہو رہا ہے بلکہ ملک میں ’’مزاحمتی سیاست ‘‘ کو فروغ مل رہا ہے جو جمہوری نظام کے لئے کسی صورت خوش آئند نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف نے پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈرکے چیمبر میں مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین احسن اقبال نے پارٹی کی تنظیم نو کے بارے میں بریفنگ دی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار سے الگ ہونے کے بعد دوسری بار پارلیمنٹ ہائوس گئے ہیں جہاں انھوں نے مسلم لیگی ارکانِ پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی صدارت کی۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ’’چُپ کا روزہ‘‘ رکھا ہوا ہے لیکن کبھی کبھار وہ ملکی صورتحال پر دھیمے انداز میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ اپارٹمنٹس ریفرنس کی سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ 24 دسمبر 2018 تک ان دونوں ریفرنسوں کا فیصلہ آ جائے گا جس کے بعد ملکی سیاسی منظر واضح ہو جائے گا۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جو اپنی والدہ محترمہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد سے ’’خاموش‘‘ ہیں، ان کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ احتساب عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد کھل کر ملکی سیاست میں سرگرم کردار ادا کریں گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے 30 دسمبر 2018ء سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال ہال لاہور میں مسلم لیگ ن کا کنونشن ہو گا جس میں قومی اسمبلی و سینیٹ کے ارکان اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز شرکت کریں گے۔ کنونشن میں پارٹی کے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر ہر ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز میں جلسے کیے جائیں گے، میاں نواز شریف عوامی جلسوں سے نواز شریف بھی خطاب کریں گے۔جلسوں سے خطاب کے لیے 6 سینئر رہنماوں کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کا مشاورتی اجلاس جمعرات کو دوبارہ منعقد ہو گا جس میں تنظیم سازی کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

tehreek insaaf ki apne mukhalfin ke sath chomkhi larai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 December 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.