وزیراعظم پر ایوان کا اعتماد،جمہوریت کی فتح

پی ڈی ایم کا مشروط اتحاد”مزاحمتی“نہیں بلکہ”مفاہمتی“دکھائی دے رہا ہے

جمعرات 11 مارچ 2021

Wazir e Azam Per Ewaan Ka Aitmad - Jamhoriyat Ki Fateh
محبوب احمد
ارکان پارلیمنٹ کی ”بولیاں“ یعنی کہ خرید و فروخت کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ خوش آئند امر ہے کہ اس مرتبہ سرعام لگنے والی”منڈی“ کیخلاف پی ٹی آئی حکومت نے جس منظم انداز میں آواز بلند کی ہے اس نے جہاں الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کرانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کیا وہیں ہر خاص و عام پر یہ آشکار کر دیا کہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار عوامی نمائندے سالہا سال سے کس طرح اپنے ضمیر کو سرعام”نیلام“ کرتے آئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں گزشتہ دنوں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد یہ چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ حکومت اب زیادہ دیر نہیں چل سکے گی لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایوان سے 178 اراکین نے اعتماد کا ووٹ ڈال کر ”پی ڈی ایم“ کے سیاسی غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں دوسرا موقع ہے کہ کسی وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا ہو اس سے قبل 1993ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی اعتماد کا ووٹ لیا تھا لیکن اب 2021ء میں ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کے ووٹ میں فرق یہ ہے کہ موجودہ کارروائی آئین کی دفعہ 91 شق 7 کے تحت ہوئی۔

سیاسی نظام میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے سکے۔
اپوزیشن کی یہ کوشش تھی کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کو استعمال کرتے ہوئے حکومت پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکائی جائے لیکن ایسا ممکنہ ہو سکا۔ سپریم کورٹ احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن نے جس طرح حالیہ انتخابات کرائے ہیں اس پر حکومتی عدم اعتماد لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی سینیٹ انتخابات میں ووٹ کی خرید و فروخت اور اس کو ضائع کرنے کے حوالے سے ایک مبینہ خفیہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد الیکشن کمیشن کا اس کیخلاف نوٹس نہ لینا سمجھ سے بالاتر ہے۔سینیٹ انتخابات میں عددی اکثریت رکھنے والی حکومتی جماعت کے امیدوار کی ناکامی اور اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کی کامیابی نے بہت سے سوالات جنم دئیے ہیں جن میں سرفہرست یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے وہ ارکان کون ہیں جنہوں نے پارٹی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیادت کیخلاف بغاوت کی؟کیا آنے والے دنوں میں ان کے خلاف بھی ویسی ہی کارروائی ہو گی جس طرح جنرل الیکشن سے قبل کے پی کے میں 20 صوبائی اراکین اسمبلی کو پیپلز پارٹی کے 2 سینیٹرز جتوانے پر فارغ کر دیا گیا تھا؟کیا حکومت اور اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن پائیں گے؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی فلور پر جس جارحانہ انداز میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کرپٹ عناصر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اس سے یہی دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں بعض نامور شخصیات کے گرد گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔


وطن عزیز میں کرپشن اور اقربا پروری اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جسے سیاسی جماعتوں نے مذموم مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا ہو۔مقدس ایوانوں میں ممبرانوں کی سرعام”بولیاں“ اس کا واضح ثبوت ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نیب زدہ اپوزیشن کا پی ڈی ایم کی صورت میں مشروط اتحاد ”مزاحمتی“ نہیں بلکہ کافی حد تک ”مفاہمتی“دکھائی دے رہا ہے اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔

کرپشن مقدمات میں ملوث متعدد سیاسی شخصیات حکومت پر دباؤ بڑھا کر اپنی معافی تلافی یعنی کہ”ڈیل“اور”ڈھیل“کیلئے ہر ممکن راستہ تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے آنے والے دنوں میں کون سا لائحہ عمل طے کرتی ہے بہرحال وزیراعظم عمران خان نے واشگاف الفاظ میں یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہر حال میں واپس لائیں گے اور کسی کو کوئی ”این آر او“ نہیں دیا جائے گا۔

قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کو جن بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل نے جکڑا ہوا ہے ان میں سے بیشتر انہی حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں جو آج اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ماضی میں اقوام عالم میں پاکستان کی گرتی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے کوئی بھی مثبت اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔مولانا فضل الرحمن آج اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر جو حکومت کیخلاف فعال کردار ادا کر رہے ہیں وہ کشمیر کمیٹی کے متعدد بار چیئرمین بننے کے باوجود آج تک ادا نہ کر سکے۔


یاد رہے کہ جے یو آئی کے سربراہ 2018ء میں الیکشن ہارنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کی دھمکی دی تھی حالانکہ مولانا،پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے حکومت مخالف مبہم بیانیئے پر اکثر رہنماء و کارکنان سخت نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔متحدہ اپوزیشن کی تحریک میں اب وہ دم خم نظر نہیں آرہا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

اس میں بھی کوئی دورائے نہیں ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ماضی کی نسبت مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی خوفناک لہر پر کنٹرول کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ تباہ حالی کا شکار کیسے ہوا اس حوالے سے کسی بھی دور میں جاننے کی کوشش نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں پی آئی اے،سٹیل ملز،ریلوے اور دیگر منافع بخش ادارے سفید ہاتھی بن گئے وہیں سرمایہ کاروں کے بیرون ممالک رخ کرنے اور سیاحوں کی اچانک عدم دلچسپی سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔

گزشتہ 10 برس کے دوران ٹیکس بیس کا کم ہونا، زرمبادلہ کے ذخائر کی تباہ حالی اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا ملکی معاشی بدحالی کے وہ عوامل ہیں جنہیں درست کرنے کیلئے ایک وقت درکار ہے۔قومی اسمبلی سے وزیراعظم پر ایوان کے اعتماد نے اپوزیشن کے سیاسی غبارے سے ہوا نکال دی ہے لہٰذا اب کوئی بھی سیاستدان اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت سے ٹکر لی جائے دوسرے لفظوں میں جے یو آئی(ف)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین کی سیاست اب ”آئی سی یو“ وارڈ میں آخری ہچکی لے رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazir e Azam Per Ewaan Ka Aitmad - Jamhoriyat Ki Fateh is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.