تعلیمی تعطل کے مضمرات

ہفتہ 11 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

علم کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود ہمارے سماج میں ایجوکیشن کبھی ترجیحی اول نہیں رہی اگر ہم غور کریں تو مملکت میں سب سے زیادہ نظرانداز کردہ شعبہ تعلیم نظر آئے گا،ہر فرد یہ تو چاہتا ہے کہ اسکے بچے پڑھیں لیکن وہ ایجوکیشنل سسٹم کی زبوں حالی بارے فکر مند دیکھائی نہیں دیتا،خاص طور پہ ملک کے ان دور افتادہ علاقوں میں جہاں ریاست کی عملداری محدود ہے وہاں مقتدر وڈیرے تعلیم کے فروغ کو اپنی بالادستی کے لئے خطرہ تصور کرکے سرکاری تعلیمی نظام کو مفلوج رکھنے میں عافیت تلاش کرتے ہیں،اس حوالہ سے مایہ ناز بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے بھی ”شہاب نامہ“ میں کئی دلچسپ واقعات رقم کئے۔

سنہ 1970 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں جب سرکاری سکولوں کے قیام کی کوشش کی تو کئی بلوچ سردار لاو لشکر لیکر ریاست کے خلاف مزاحمت پہ اتر آئے،حیرت انگیز طور پہ جو سردار اپنے بچوں کو ایچی سن،برن ہال،لارنس کالج،ایکسفورڈ اور ہاورڈ یونیورسٹیز جیسے اعلی اداروں میں پڑھا رہے تھے وہی عام شہریوں کے بچوں کو کھلے دل کے ساتھ مقامی سطح پہ بھی حصول علم کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے۔

(جاری ہے)

لاریب،تعلیم کسی بھی قوم کی سائنسی،ذہنی،اخلاقی اور فنی میراث کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا وسیلہ بنتی ہے مگر افسوس کہ ہماری اجتماعی سرکاری مشینری بھی تاحال نوآبادیاتی نظام کی تاریکیوں سے نکل کے آزادی کی صبح نور سے ہم آغوش نہیں ہو سکی۔ہمارے قبائلی علاقوں کے مقتدر وڈیروں نے ساٹھ سالوں تک سرکاری تعلیمی اداروں کو غنیم کا مال سمجھ کے جانوروں کے باڑوں یا پھر حجروں کے طور پہ استعمال کیا لیکن وہاں کی سرکاری اتھارٹی دانستہ ان تجاوزات سے چشم پوشی کرتی رہی،چنانچہ پچھلے بیس سالوں میں دست قضا نے فاٹا کے طاقتور انتظامی ڈھانچہ سمیت قبائلی ڈسٹرک کے ان مقتدر سرداروں کو بھی تہس نہس کرڈالہ جو خدا کے لہجہ میں گفتگو کیا کرتے تھے۔

تاہم جب نوجوان نسلوں پہ علم و آگاہی کے دروازے بند اور ذہنی ترقی کی راہیں مسدود ہوئیں تو پھر سماج میں تیر وتفنگ،راکٹ لانچرز،کلاشنکوف کلچر مقبول اورمرکز گریز سوچوں کو فروغ ملا،رفتہ رفتہ جہالت عمومی کے دائرے وسیع ہوتے گئے،جن سے انتشار اور سماجی تفریق بڑھتی گئی اور بلآخر اسی نامطلوب کشمکش نے ایک پوری نسل کو نگل لیا،شاید اسی آشوب کے کارن اس وقت نوجوانوں کی بڑی تعداد ہمیں سرکارکے خلاف مزاحمت پہ کمربستہ دیکھائی دیتی ہے۔

لیکن تمام تر قباحتوں کے باوجود فطرت انسانی اپنی قدرتی لچک کے ذریعے دائمی ارتقاء کا سفر جاری رکھتی ہے،بالکل ایسے جیسے چھوٹے سے چشمہ سے نکلنے والا لطیف پانی بھاری چٹانوں اور سنگلاخ پہاڑوں میں کھڑی مہیب رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر اپنے لئے بیسیوں متبادل راستے بنا لیتا ہے، اس کی فطری لطافت اور استقلال بلآخر اسے پُرشور دریاوں اور گہرے سمندروں کی ایسی پرشکوہ طاقت میں بدل دیتا ہے،جس کے سامنے کوئی قوت ٹھہر نہیں سکتی۔

اسی طرح تمام تر سماجی رکاوٹوں کے باوجود علم کے متلاشی انسانوں نے نجی تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعے حصول علم کی متبادل راہیں استوار کر لیں،بلاشبہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے معاشرے میں فروغ تعلیم کیلئے ایسی گرانقدر خدمات سرانجام دیں،جس سے لاکھوں افراد فیض یاب ہوئے۔خیبر پختوں خوا کے انتہائی شمال میں واقع دورافتادہ ضلع چترال سے لیکر جنوبی وزیرستان کی پُرہول چٹانوں تک اور بلوچستان کے ضلع ژوب سے لیکر ساحل مکران کی وسعتوں تک جہاں ہزاروں سرکاری سکولز ویران پڑے ہیں وہاں مہیب شوریدگی کے باوجود یہ نجی تعلیمی ادارے ہماری نوخیز نسلوں کو زیوار تعلیم سے آراستہ کرنے کا فرض نبھانے کے علاوہ قومی خزانہ کو قابل لحاظ ٹیکسسز دینے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

یہ نجی تعلیمی ادارے سماجی وظائف کے ایسے فطری معاون ہیں،جو بچوں کو بہترین تعلیم کی فراہمی کے علاوہ بہت سے افراد،خاص کر،خواتین کی بڑی تعدادکو باعزت روزگار کے بہترین مواقع بھی مہیا کرتے ہیں لیکن کورونا لاک ڈاون کے باعث جہاں مملکت کے دیگر شبہ جات متاثر ہوئے وہاں تعلیم کے نجی شعبہ کو ایسے بدترین بحران نے آ گھیرا،جس نے پرائیویٹ ایجوکیشنل سسٹم کی چولیں ہلا کے رکھ دیں۔

ایک سروے کے مطابق اس وقت نجی تعلیمی ادارے ملک میں پچاس فیصد سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینے کا موثر ذریعہ ہیں۔صرف صوبہ پنجاب کے 60 فیصد بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے نور علم حاصل کر رہے ہیں،مجموعی طور پہ ملک بھر میں 2 لاکھ 70 ہزار نجی تعلمی ادارے سرگرم عمل ہیں،جن میں سے117810 پنجاب میں39,850 سندھ میں،29,660 خیبر پختوں خوا میں،6880 بلوچستان،4450 اسلام آباد اور 9450 نجی سکولز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں خدمات دینے میں مشغول ہیں۔

ان دولاکھ ستّر ہزار سکولوں میں کم و بیش 2 کروڑ30 لاکھ طلبہ پڑھتے ہیں اور ان بچوں کو پڑھانے کا فریضہ سرانجام دینے والے 15 لاکھ سے زیادہ اساتذہ باعزت روزگارحاصل کر کے ریاست کا بوجھ کم کرتے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں ملک بھر کے کل 1,52,000سرکاری سکولز کم ہو کے 131000 رہ گئے یعنی اس ایک دہائی میں 21000 سرکاری سکولز فیل ہو گئے،یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وسیع تعلیمی ڈھانچہ پہ بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھانے اور گورنمنٹ کے 25 ٹیکسسیز ادا کرنے کے باوجود پچاسی فیصد نجی تعلیمی ادارے دوہزار روپے ماہانہ سے کم اور تیرہ فیصد سکولز پانچ ہزار روپے ماہوار سے کم فیس وصول کرتے ہیں،صرف دو فیصد نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو پانچ ہزار روپے ماہانہ فیس لینے کے مجازہیں،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نجی سکٹر کے 98 فیصد سکول بہت کم فیسں لیکر عام شہریوں کے بچوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔

اس کے برعکس اُن گورنمنٹ سکولزمیں جہاں تعلیم کا میعار انتہائی پست ہے سرکاری خزانہ سے فی طالبعلم 7960 روپے ماہوار خرچ اٹھتا ہے۔دنیا بھر میں معیاری تعلیم کہیں بھی سستی نہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ان اعلی تعلیمی اداروں کو گورنمنٹ یا کسی اور ذرائع سے بھاری فنڈ ملتے رہتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ گورنمنٹ یا مخیر حضرات تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے بلکہ نجی تعلیمی اداروں کو چلانے کا سسٹم نہایت پیچیدہ اور دشوار ہے،اکثر سرکاری سکولز کرایہ کئی بلڈنگز میں قائم ہیں،ان عمارات کے کرایوں میں ہر سال دس فیصد اضافہ کے علاوہ بلڈنگ اونر کی جانب سے بیدخلی کے نوٹسیسز کے خطرات ہمہ وقت سر پہ منڈلاتے رہتے ہیں،اگر کسی وقت عمارت بدلنے کی نوبت آئے تومنتقلی کے عمل پہ لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں،طلبہ سے حاصل ہونے والی فیس کا تقریباً پچاس فیصد حصہ اساتذہ کی تنخواہوں مین کھپ جاتا ہے،بجلی فراہم کرنے والی پاور کمپنیاں نجی تعلیمی اداروں سے مہنگے ترین کمرشل نرخ چارج کرنے کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں تقریباً 27 فیصد سالانہ اضافہ کرتی ہیں،لوڈ شڈنگ کی وجہ سے ہر نجی سکول کو متبادل کے طور پہ جنریٹر رکھنے کا اضافی بوجھ بھی اٹھانا پڑتاہے۔

اگرچہ شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن دسمبر دو ہزار چودہ کے بعد نجی سکولوں کو سیکورٹی کی مد میں بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔اسی طرح تعمیرات میں استعمال ہونے والے لوہا،سیمنٹ، لکڑی،پینٹ اور دیگر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ہر سال 25 فیصد بڑھوتری کے ساتھ 16فیصد جی ایس ٹی کی ادائیگی بھی لازمی ہے،گزشتہ تین سالوں میں صرف کمپیوٹر آلات کی قیمیتوں میں25 فیصد اضافہ ہوا،لیبارٹری میں استعمال ہونے والے سامان میں سالانہ 24 فیصد اورسکولز کے فرنیچر اوراسکی تنصیب کی قیمتوں میں23 سے25 فیصد اضافہ ہوا۔

اس سب کے باوجود نجی ایجوکیشنل سیکٹر قومی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا تھا لیکن لاک ڈاون کی بدولت معیاری تعلیم کا یہ بہترین وسیلہ تباہی کے دہانے تک جا پہنچا،پچھلے تین مہینوں میں سکولوں کی بندش کی وجہ سے کروڑوں طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی کے علاوہ پورا تعلیمی سسٹم مضمحل ہو گیا جس سے دس لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ جن میں اکثریت خواتین کی ہے بے روز گار ہو گئی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :