سیاسی موسمیات !!!

پیر 25 نومبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

ارےیہ کیا ؟؟؟ تندرست و توانا  نواز شریف کی لندن سدھارگئے۔ ہمارےحیران وپریشان کپتان پر    ذرائع ابلاغ کےذریعے یہ انکشاف ہواہےکہ  نوازشریف بیمارنہیں ۔ اب  یہاں پرسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وزیراعظم پاکستان کو کیا واقعی غلط میڈیکل رپورٹ دی گئ اور اگر ایساہے توپھر      سرکاری میڈیکل بورڈ کےخلاف تحقیقات ضرورہونی چاہیں تھیں ۔

غلط میڈیکل رپورٹ وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشدکےماتحت سرکاری ڈاکٹرز نے جمع کروائیں تھیں ۔ چنانچہ وزیراعظم پاکستان نے ڈاکٹریاسمین راشد کو اب تک کیوں نہیں ہٹایا ؟ کیا واقعی عمران خان کی ٹیم میں شامل کئ لوگ وکٹ کےدونوں جانب کھیل رہےہیں ؟؟؟اورصورتحال اتنی گھمبیر ہےکہ وزیراعظم پاکستان کو ذرائع ابلاغ کےذریعے حقائق کا ادراک ہوپاتا ہے تو یقیناً پھر یہ صورتحال قومی سلامتی کےلیےکسی بھی وقت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

      مگراس معاملےکا دوسرا پہلو یہ ہےکہ وزیراعظم پاکستان نےانتہائی اہم مرحلے پردودن کی چھٹی کیوں لی ؟اس سےغفلت کا پہلو نکلتا ہے ۔ انہیں تمام معاملات پر نظر رکھنی چاہیے تھی ۔ آپ اتنے مطمئن کیسے ہوگئے؟ اگر آپ صورتحال معلوم کرنےکی کوشش کرتے توآپ ضرورلاہورہائیکورٹ کےفیصلےکےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرتے؟ اب یہ غفلت دانستہ تھی یاغیردانستہ؟ یا پھرمک مکا ہوچکا تھا ؟؟؟    
  نوازشریف کی لندن اڑان کے معاملےمیں    وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس ذوالفقارکھوسہ کے ریمارکس سےایساظاہرہواہےکہ جیسے عدالت اورحکومت      دونوں ہی نوازشریف کی لندن اڑان کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال رہےہیں , اور لامحالہ  ایک بحث و تکرارشروع ہوچکی ہے ۔

مگر سچ تویہ ہےکہ نواز شریف کی لندن اڑان کوممکن بنانےکےلیے ادارے ایک پیج پرتھے ۔ مگراب معاملےکابوجھ ایک دوسرےکےکندھوں پرڈال کرفیس سیونگ کی کوشش ہورہی ہے۔ ہماری عدالتیں شریف خاندان کوریلیف پہنچانےکےلیےچھٹی کےدن بھی فعال ہوجاتی ہیں مگر یہ عدالتیں برسوں گزرجانےکےبعد بھی شہدائے ماڈل ٹاون کےلواحقین کوانصاف فراہم نہ کرسکیں اور سانحہ ماڈل ٹاون میں شہید ہونےوالی بسمہ امجد اسی عدالت کےجج   صاحبان کا 4,5 گھنٹے انتظار کرکےمایوس ہوکرواپس گھرچلی گئی تھی , جوکہ شریف خاندان کےلیےچھٹی کےدن  بھی کام فعال ہوجاتی ہے ۔

کاش ہمارے ملک میں قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے , قانون کی حکمرانی ہوتی , انصاف کا بول بالا ہوتا تو یقیناً سانحہ ساہیوال اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کو بھی ضرورانصاف مل جاتا ۔ جب   ہمارا نظام عدل غریب , کمزوراورپسےہوئےطبقات کوانصاف فراہم کرنے میں ناکام ہےتوپھر" طاقتور" کا طعنہ توپھربجاہے ۔         
سیاسی صورتحال مزید دلچسپ اس وجہ سے بھی ہوگئ ہے کہ نواز شریف کے لندن اڑان بھرتے ہی پی ٹی آئی حکومت کےلیےشہراقتدار   کی ہواؤں کا رخ بدلنے لگا ہے۔

اچانک چیئرمین نیب کو پی ٹی آئی کے 14 ماہ پرمشتمل  دورِحکومت میں ہونے والی بدعنوانی کی فکرہونےلگی ہے۔ اور الیکشن کمیشن کی جانب  سےپی ٹی آئی کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کا جلد فیصلہ  متوقع ہے اور حزبِ اختلاف پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ غیرملکی      فنڈنگ ثابت ہونےکےحوالےسےکافی پرامید ہے۔     پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں ق لیگ اور ایم کیوایم بھی اچانک کافی ناراض دکھائی دیتی ہیں ۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شہراقتدارمیں ہواؤں کا رخ بدلنےسے نواز شریف کی لندن اڑان سے کوئی تعلق نہیں ہے تواسےسمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب اچانک وقوع پذیر نہیں ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف محلاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا وقت ہواچاہتاہے ۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے امکانات کافی کم ہیں ۔ نواز شریف علاج کے بہانے کئ ماہ تک باآسانی لندن میں مقیم رہ سکتے ہیں ۔

اور ن لیگ کی قیادت اب عمران خان کے خلاف کھل کر کھیلنے کی تیاری کرچکی ہے۔ ن لیگی دورحکومت کی باقیات اب بھی ہرجگہ موجود ہیں اوریہ باقیات نہ صرف نوازشریف کو فرار کروانے میں کرداراداکرچکی ہیں ۔ بلکہ عمران خان کے خلاف نئ سیاسی بساط بھی بچھا چکی ہیں ۔ اور احتساب کا کھیل کافی سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اس مرحلے پرضروری ہےکہ محلاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔

ماضی میں بھی کئ مرتبہ منتخب حکومتوں کی بساط لپیٹ دی گئ تھی , جس سےملک کوشدید نقصان ہوا   ۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا , اور بار بارچہرےاورمہرےبدلنےکا کھیل ختم ہوناچاہیے۔
 شطرنج کےمہروں کھیل والےکھیل کی پروردہ نادیدہ قوت یعنی " اشرافیہ "اس فرسودہ نظام کی اصل محافظ ہے۔ اگرہمیں ""فرسودہ نظام "  بدلنا ہےتو " اشرافیہ " کے بےلگام گھوڑے کولگام دینا ہوگی۔

یہ ہی اشرافیہ کبھی ایک سیاسی جماعت کواپنا مہرہ بناکراستعمال کرتی ہے تو کبھی اپنی چال چلنے کےبعد اسے استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے۔ مجھے افسوس ہےان سیاست دانوں پرجواقتدارکی حوس پوری کرنےکےلیے  "  کٹھ پتلی " تماشے کےلیے خود کونیلام کردیتے ہیں۔ ہمیں ایسی جرات مند, مضبوط اورباکردارسیاسی قیادت کی ضرورت ہےجوکہ   " اشرافیہ " کی بجائے " عوامی طاقت " پربھروسہ کرے اوراسےہی اللہ تعالیٰ کے بعدطاقت کا سرچشمہ  سمجھے۔

" عوامی بالادستی " کے بغیرفرسودہ نظام کوشکست نہیں     دی جاسکتی ۔ یہ نظام اگرکبھی گرسکتاہے توصرف اورصرف " عوامی طاقت " سےہی یہ ممکن ہوگا  !!! اورجب تک نیا نظام نہیں آتا , اس ملک کی تقدیرکبھی  نہیں بدل سکتی اورنہ غریب کی حالت سنورسکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :