بہروپیے!!!

منگل 21 ستمبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے صاف وشفاف انتخابی نظام ناگزیر ہے ۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے انتخابی نظام میں اصلاحات کیلئے ایک جزوی کاوش کےطورپر 10 جون 2021 کو انتخابی اصلاحات ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا ۔ مذکورہ بل کی 13 شقوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے صدارتی انتخاب کیلئے خفیہ کی بجائے اعلانیہ رائے شماری ، حلقوں کا تعین آبادی کی بجائے ووٹرز کی بنیاد پر کرنے،ووٹرز کے اندراج اور انتخابی فہرستوں کی تیاری اور درستگی کا اختیار نادرا کو دینے، الیکٹرانک ووٹنگ کا اجراء ، بیرون ملک مقیم افراد کو ای ووٹنگ کی سہولت ، اور سینیٹ انتخابات کیلئے خفیہ کی بجائے اعلانیہ رائے شماری پراعتراضات​ اٹھا دئیے ۔

ان میں سب سےزیادہ​ متنازعہ معاملہ الیکٹرانک ووٹنگ کا سامنے آیا ہے۔

(جاری ہے)

  الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز مسترد کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں 37 مختلف اعتراضات لگائے ہیں ۔
اگردیکھاجائے تو "‏الیکٹرانک ووٹنگ" کیلئے رائے شماری کے مجوزہ طریقہ کار میں کئ تکنیکی خامیاں واقعی موجود ہیں ۔
مثال کے طورپر‏الیکٹرانک ووٹنگ مشین شناختی کارڈ نمبر کی تصدیق طلب نہیں کرے گی بلکہ پریزائیڈنگ افسر شناختی کارڈ دیکھ کر ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دےگا۔

جس کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی روکنے میں ناکام اور غیر موثر ثابت ہوگی اور اس طرز کی ووٹنگ خفیہ بھی نہیں رہ پائےگی جبکہ پریزائڈنگ افسر کا کردار بدستور فیصلہ کن رہےگا۔  سوال یہ ہےکہ اگر موبائل سم خریدنے کےلیے بائیو میٹرک تصدیق ضروری ہے ، تو ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کی بائیو میٹرک تصدیق کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟؟؟  اگر الیکٹرانک ووٹنگ پر آنے والی لاگت کا تخمینہ لگایا جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بقول کم از کم 150 ارب روپے خرچ ہوگا مگر کئ تکنیکی مسائل بدستور موجود رہیں گے ۔

مختصراً​ یہ کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا مجوزہ طریقہ کار ہی اس کی افادیت ختم کرنے کےلیے کافی ہے ۔ جہاں تک صدارتی  اور سینیٹ انتخابات کیلئے ووٹنگ کا تعلق ہے اور انتخابی فہرستوں  سے متعلقہ امور میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کم کرنےکا معاملہ ہے تو اس کےلیے​ دوتہائی اکثریت سے آئینی ترمیم درکار ہوگی، جس کےلیے حزبِ اختلاف کا تعاون چاہئے ہوگا ۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق بہرحال ضرورملناچاہئیے ۔ انتخابی اصلاحات کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قیام/ تشکیل / طریقہ تقرری کو بھی آئینی ترمیم کے ذریعے بدلنے کی ضرورت ہے ، بہتر ہوگا کہ یہ فریضہ حکومت اور حزبِ اختلاف کو مشترکہ طور پر دینے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کو تفویض کردیاجائے۔ انتخابی اصلاحات کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے امیدواروں کی آرٹیکل 62/63 کے تحت اسکروٹنی ہونی چاہئے ۔

اور امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی حد مقرر کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے خلاف موثر کاروائی کرناہوگی ، طاقت کے استعمال کے ذریعے انتخابی عملے کو خریدنے اور انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے جیسے اہم معاملات پر آئینی اصلاحات کا ترمیمی بل خاموش  ہے، جوکہ اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔  الیکٹرانک ووٹنگ کی تکنیکی خرابیوں کے باوجود بدستوراس پر بضد رہنا محض وقت کا ضیاع ہے۔

  لگتاہےکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو محض اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی فکر دامن گیرہے اور دونوں ایک دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں ، مگر کوئی بھی ٹھوس اور نتیجہ خیز انتخابی اصلاحات کےلیے سنجیدہ نہیں ہے ۔ حالیہ آزاد کشمیر انتخابات اور کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کردیاہے کہ جب تک امیدواروں کی اسکروٹنی اور انتخابی اخراجات کی حد کو سنجیدگی سے نہیں لیاجائےگا ، تب تک دھونس اور دھاندلی کا کلچر ہماری انتخابی سیاست سے ختم نہیں ہوپائےگا اور انتخابات صرف امراء کا کھیل ہی سمجھے جاتےرہیں گے۔

پھر بھلے آپ جی ڈی پی کو بہتر کرلیں ، سی پیک اور گوادر کو ترقی دیں ,یکساں نصاب تعلیم رائج کردیں ۔ آپ پاکستانی سیاست پر اشرافیہ کی گرفت ختم نہیں کرپائیں گے۔ پھر آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ پارلیمان میں آنے کا چور دروازہ بھی کھلا رہے ، اورغریب آدمی تبدیلی سرکار سے مطمئن بھی رہے ، جوکہ سستی روٹی ، مفت علاج،سستا آٹا گھی اور چینی ، سستی گیس، بجلی ، پیٹرول اور ڈیزل ، اچھی نوکری اور کامیاب کاروبار چاہتاہے مگر کیا سیاسی اشرافیہ برسراقتدار آکر اس کی توقعات پر پورا اترے گی ؟؟؟ ہرگز نہیں ، لہذٰا عام آدمی کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار کا ایوانوں میں پہنچنے کا راستہ فراہم کرنے ضرورت ہے ۔

  کبھی کبھی ایسالگتاہےکہ جیسے اصلاح احوال کے دعویدار بھی بہروپیے ہیں ، جنہیں صرف اپنی نیتاگیری توعزیز ہے ، مگر وہ سیاسی نظام میں کوئی حقیقی سدھار نہیں چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :