پی ڈی ایم کاشوراور سینٹ انتخابات

بدھ 23 دسمبر 2020

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو وزیراعظم عمران خان کی منتخب حکومت کو گھربھیجنے کیلئے بنایاگیا ۔ اس کی قیادت جمعیت علمائے اسلام (ف)کے رہنما مولانا فضل الرحمن کررہے ہیں اورانہیں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے ۔

پی ڈی ایم کے ایکشن پلان کے تحت یہ اتحاد ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں،رواں ماہ ریلیوں اور جنوری 2021 ء میں اسلام آباد کی طرف ایک فیصلہ کن لانگ مارچ جیسے اقدامات شامل ہیں۔اس شیڈول میں سب سے پہلے پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ میں 16اکتوبر 2020کوایک جلسہ کیاجس کی میزبانی مسلم لیگ (ن) نے کی اوراس کے بعدکراچی میں 18 اکتوبر 2020کوپیپلزپارٹی میزبان تھی اسی طرح پھر کوئٹہ میں25 اکتوبر 2020،پشاور میں 22 نومبر 2020،ملتان میں30نومبر2020اور13 دسمبر2020ء کولاہورمیں جوکہ مسلم لیگ (ن) کاگھر اوراسی کی میزبانی میں ہوا،آزادذرائع کاکہناہے کہ مسلم لیگ (ن) لاہورمیں پاورشوکرنے میں ناکام رہی ہے ،پی ڈی ایم کااگلاپروگرام ریلیاں منعقدکرنا پھرجنوری 2021میں حکومت ختم کرانے کیلئے اسلام آبادکارخ کرنا شامل ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(PDM)کی اب تک کی بھاگ دوڑ اوراداروں کیخلاف بکواس بازی کی اصل وجہ ایک توکسی طرح پاکستان میں جاری احتساب کے عمل کوپریشرڈال کرروکاجاسکے اوران کادوسراایشونئے سال میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات ہیں، اپوزیشن کے خیال میں اگرموجودہ حکومت برقراررہی توسینٹ میں بھی پاکستان تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن جائے گی اوراپنی مرضی کی قانون سازی کرے گی ،اپوزیشن خاص طورپرپی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) نہیں چاہتی کہ سینٹ الیکشن موجودہ حکومت کرائے کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں سب سے زیادہ ریٹائرڈ ہونے والے سنیٹرمسلم لیگ (ن) ہی کے ہیں اور یہ دوبارہ اپنی سیٹیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ نئے انتخابات ہوں جن میں یہ اکثریت حاصل کرلیں گے اور پھرسینٹ انتخابات کرانے سے انہیں نقصان نہیں ہوگا،یہ سینٹ انتخابات سب سے زیادہ محمودخان اچکزئی ،مولانافضل الرحمٰن اورمسلم لیگ (ن)خاص کر شریف خاندان بلکہ نوازشریف اینڈکمپنی کیلئے ایک مسئلہ بناہواہے۔

محمودخان اچکزئی ایک سمگلرہے اورافغانستان میں اس کی جائیدادیں ہیں اورافغان بارڈرپرلگنے والی باڑسے اسے تکلیف ہے کیونکہ باڑلگنے سے افغانستان سے سمگلنگ مشکل ہو گئی ہے اورمولانافضل الرحمن اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات سے پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کوریلیف مل جائے جبکہ ہونیوالے سینٹ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی یا کسی اورپارٹی کوکوئی فرق نہیں پڑیگا کیونکہ پیپلزپارٹی کے جتنے سنیٹرریٹائرڈہورہے ہیں وہ اتنی سیٹیں دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔


12مارچ 2021ء کے بعد کچھ صورت حال اسطرح ہوگی کہ سینٹ کے104ارکان میں سے 52ریٹائرڈ ہوجائیں گے یعنی سینٹ ممبران کی تعدادآدھی رہ جائے گی اور52سیٹوں کیلئے سینٹ کے انتخابات ہوں گے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے 8 سنیٹرسلیم مانڈوی والا،شیریں رحمن،رحمن ملک،فاروق ایچ نائک،اسلام الدین شیخ،میریوسف بادینی اورجان چندریٹائرڈہوجائیں گے،آنے والے سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی 8 سے 9سیٹیں نکال لے گی کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی جوڑتوڑ کی ماہرہے،اس طرح الیکشن میں پیپلزپارٹی کوکسی قسم کے نقصان کاکوئی اندیشہ نہیں ہے بلکہ ایک سیٹ اضافی بھی نکال سکتی ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے ریٹائرڈ ہونے والے سنیٹرزکی تعداد 17ہے جن میں راجہ ظفرالحق،مشاہداللہ خان،پرویزرشید،عبدالقیوم،چوہدری تنویر،پروفیسرساجدمیر،سلیم ضیاء،نجمہ حمید،عائشہ فاروق رضا،اسداشرف،غوث محمدنیازی،شاہزیب،کلثوم پروین،لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی،میاں جاویدعباسی،راحیلہ مگسی اورسرداریعقوب خان (ن) لیگ کے ریٹائرڈہونے والے سنیٹرزمیں شامل ہیں،اب مسلم لیگ (ن) کوبلوچستان،خیبرپختون خواہ اورقومی اسمبلی یعنی وفاقی دارالحکومت سے بھی کوئی سیٹ نہیں ملے گی اورپنجاب سے انہیں صرف تین سیٹیں ملیں گی اگرخفیہ رائے شماری نہ کرائی گئی اوراگرخفیہ رائے شماری کرائی گئی توپنجاب میں مسلم لیگ (ن) میں فارورڈبلاک موجود ہے وہ میاں نوازشریف کے امیدوارکوووٹ نہیں دیں گے،شایدان کو3 سیٹیں بھی نہ مل سکیں ۔

جب کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) سینٹ میں اکثریتی پارٹی ہے ،الیکشن کے بعدیہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیگی۔اس وقت ایم کیوایم پاکستان کے4سنیٹرزخوش بخت شجاعت،عتیق شیخ،محمدسیف علی،اورنگہت مرزا شامل ہیں،ایم کیوایم کاحال بھی مسلم لیگ (ن) جیساہے کیونکہ ان کی سندھ اسمبلی میں اتنی سیٹیں نہیں ہیں کہ یہ دوبارہ اپنے سنیٹرزمنتخب کراسکیں،ادھرجمیعت علمائے اسلام (ف)کے دوسنیٹرمولاناعبدالغفورحیدری اورمولاناعطاء الرحمن ریٹائرہوجائیں گے اوران کی جگہ جمیعت علمائے اسلام (ف) اپنے دوسنیٹرمنتخب کروانے میں کامیاب ہوجائے گی اس طرح مولانافضل الرحمن کیلئے یہ الیکشن بغیرکسی نفع نقصان گذرجائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ریٹائرہونے والے سنیٹرزکی تعداد7ہے جن میں شبلی فراز،محسن عزیز،نعمان وزیر،ذیشان خانزادہ،ثمینہ سعید،لیاقت ترکئی اورجان کیتھ ولیم شامل ہیں،اب پاکستان تحریک انصاف کے ریٹائرڈ ہوئے سات سنیٹرز اورانتخابات کے بعد23سے 26 سنیٹرزمنتخب ہوکرسینٹ میں پہنچ جائیں گے ،پیپلزپارٹی کے سینٹ کے چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین بھی فارغ ہوجائیں گے۔

اسطرح پاکستان تحریک انصاف سینٹ میں اکثریتی پارٹی بن جائے گی اورقانون سازی اور آئینی ترامیم کرانے میں کسی قسم کی بلیک میلنگ کاشکارنہیں ہوگی۔
پی ڈی ایم والے خاص طورنوازشریف اورمولانافضل الرحمن یہ سمجھتے تھے کہ ہم آصف علی زرداری کوبیوقوف بناکر اسمبلیوں سے استعفیٰ دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور سینٹ الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرلیں گے اورجاری احتساب کے عمل کوبھی رول بیک کردیں گے لیکن پی ڈی ایم اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان جسے اناڑی اورناتجربہ کارکہتے اپوزیشن نہیں تھکتی ایسی سیاسی اننگزکھیل رہاہے کہ جس سے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی منہ کے بل گرے ہوئے ہیں اور انہیں سنبھلنے کاکوئی موقع نہیں مل پارہا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :