حکومت کے تین سال ،عوام کوکیاملا؟

پیر 30 اگست 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

تحریکِ انصاف کی حکومت 25 جولائی 2018 ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ عمران خان نے 18 اگست 2018 ء کو وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔حکومت نے اپنی تین سالہ کارکردگی پیش کرنے کے لیے اسلام آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں تقاریب کا انعقاد کیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ کا اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں اجرا کیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تین سالہ کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت میں آئے تو تقریباََ 20َ ارب روپے کا خسارہ تھا۔ پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا کیوں کہ بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ مشکل وقت میں حکومت سنبھالی اور یہ تین سال بھی بہت مشکل سے گزرے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور چین مدد نہ کرتے تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے پاس مجبوری میں جانا پڑا۔عمران خان نے کہا کہ جس سے قرضہ لیتے ہیں وہ پوچھتا ہے کہ واپس کیسے کرو گے۔ شرائط لگائی جاتی ہیں جب ان شرائط پر چلتے ہیں تو عوام کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس مشکل وقت سے نکل ہی رہے تھے کہ کرونا آ گیا۔حکومت نے نیا پاکستان کامیاب نوجوان، احساس کفالت، پناہ گاہ اور انصاف صحت کارڈ جیسے منصوبے شروع کئے۔

یکساں نصاب تعلیم، فاٹا کا خیبرپختونخوا ہ میں انضمام، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور کرتار پور راہداری جیسے منصوبوں سے خوب داد سمیٹی۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لئے دس بلین ٹری منصوبہ بھی دنیا میں توجہ کا مرکز رہا۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی شجرکاری مہم کا آغاز بھی کیا گیا۔حکومت کے قیام کے ڈیڑھ سال بعد ہی دنیا بھرمیں کورونا جیسی خطرناک وبا پھوٹ پڑی۔

وزیراعظم کی اسمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی سے پاکستان کی معیشت نقصان سے بچ گئی۔ حکومت کی کوششوں سے پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی معاشی پالیسیوں سے فروغ ملا، لوگوں کی ویکسی نیشن میں حکومت نے قابل تعریف اقدامات کئے، تقریبا پانچ کروڑ افراد کو ویکسین بھی لگا ئی جاچکی ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے 3 سال میں خارجی محاز پر بھی کامیابیاں سمیٹی۔ مسئلہ کشمیر کوہر عالمی فورم پر اٹھایا، اسلامو فوبیا کامقابلہ کیا اور افغان امن عمل میں مصالحتی کردار ادا کیا۔

بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کیے۔ 90 لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے الیکڑانک ووٹنگ سسٹم کے قیام کا عمل جاری ہے۔ پاکستان سٹیزن پورٹل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جہاں شہریوں کی شکایات کی دادرسی ہو رہی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو ملکی معیشت کی حالت انتہائی خراب تھی،اب حکومت اپنے تین سال مکمل کر چکی اور مسلسل قوم کونویددی جارہی ہے کہ معیشت بہتر ہوچکی اور ملک میں استحکام آچکا ہے اورملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس کی تصدیق بیرونی ادارے بھی کرچکے ہیں اسکے باوجود غریب عوام کو مہنگائی سے چھٹکارانہیں ملا ،جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی پر کنٹرول نہیں پایا جا سکایاپھرحکومت مافیاز کے سامنے بے بس ہوگئی ہے۔

حکومت تین سال میں مہنگائی سمیت کسی بھی مسئلہ پر قابو نہیں پاسکی۔بچاری عوام پس کر رہ گئی تاہم کمزور اپوزیشن ہونے کے باعث حکومت کو تین سال کے دوران ملک گیر احتجاج عوامی ردعمل سمیت کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اگر آئندہ دو سال بھی حکومت کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو عام انتخابات میں عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے 3 سال مہنگائی کا سونامی لے آئے۔

چینی، آٹا،گھی ،دالیں اورگوشت سب کچھ مہنگا ہوگیا۔موجودہ حکومت کے تین سال عوام پر مہنگائی کے لحاظ سے کافی بھاری رہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق تین سال میں چینی اوسطاََ50 روپے فی کلو مہنگی ہوگئی۔ اگست 2018 میں چینی کی اوسط قیمت 56 روپے فی کلو تھی جو اب اوسطا106 روپے فی کلو ہوچکی ہے۔ یہی نہیں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا بھی اوسطاََ362 روپے مہنگا ہوگیا۔

موجودہ حکومت کے دورمیں گھی کی اوسط قیمت میں 179 روپے فی کلو اضافہ ہوا،اسی عرصے میں دال ماش 96 روپے فی کلو ، دال مسور 44 روپے، دال مونگ 69 روپے اور دال چنا اوسطاََ 30روپے فی کلو مہنگی ہوئی۔ادارہ شماریات کے مطابق تین سال میں بکرے کا گوشت اوسطاََ337 روپے اور گائے کا گوشت 170 روپے اور مرغی کا گوشت 38 روپے فی کلو مہنگا ہوگیا۔تازہ دودھ کی قیمت میں26 روپے فی لٹراور دہی کی قیمت میں 27 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔

تین سال میں لہسن 122روپے ،ٹماٹر13 روپے اورپیاز دو روپے کلو مہنگے ہوئے۔ چاول کی قیمت میں 19 روپے، گڑ 55 روپے فی کلو جبکہ انڈے کی قیمت میں 59 روپے فی درجن اضافہ ہوا۔اسی طرح پی ٹی آئی حکومت نے گیس اوربجلی کی قیمتیں بھی آؤٹ آف کنٹرول رہیں اوربجلی کے فی یونٹ چارجز 2 روپے سے 5.95 روپے ہوگئے جبکہ ایل پی جی کا گھریلو سِلنڈر 530 روپے مہنگا ہو گیا۔


گزشتہ تین سالوں میں سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا نعرہ صرف باتوں تک ہی محدود دکھائی دیا۔ اس دوران اپوزیشن رہنماؤں کو احتساب کے نام پر گرفتار تو کیا گیا تاہم حکومتی بینچوں میں موجود ارکان کو احتساب سے دور رکھا گیا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی دورحکومت میں کرپشن مزید بڑھی ، راولپنڈی رنگ روڈ جیسے کئی سکینڈلز سامنے آئے لیکن دوستوں کو بچایا گیا،موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ کی مہنگی ترین ایل این جی خریدی لیکن کرپشن کے الزامات اب بھی سابق حکمرانوں پر لگائے جارہے ہیں، عمران خان کی حکومت کے ان تین سالوں میں صرف مافیازکو فائدہ پہنچایاگیا،گذشتہ سال تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ملکی سطح پر بھی پیٹرول کی قیمت میں کم کی گئی،مارچ 2020 میں 111 روپے فی لیٹر میں فروخت ہونے والے پیٹرول کی قیمت تقریبا 75 روپے فی لیٹر ہوگئی جب حکومت نے دو مہینوں میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی کی۔

اس کمی کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا۔ تاہم پیٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی دستیابی مشکل ہوگئی۔ پیٹرولیم بحران کے پیشِ نظر حکومت نے گزشتہ سال26جون کو شدید دبا ؤمیں آکر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں راتوں رات 25 روپے 58 پیسے تک کا اضافہ کیاتو فوری طور پر ملک بھر میں پیٹرول کی دستیابی بھی بحال ہوگئی،اسی طرح گذشتہ سال ستمبر میں وفاقی کابینہ کی جانب سے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں 510 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔

ایک مہینے بعد اکتوبر میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر ادویات کی قیمتوں میں 22 سے 35 فیصد اضافہ کر کے مجموعی طور پر 253 ادویات کی قیمتیں بڑھائیں،اس وقت غیراعلانیہ طورپرروزانہ کی بنیادپرانسانی زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ جاری ہے اوربچاری عوام مہنگی ادویات نہ خریدسکنے کے باعث آسانی سے موت کے منہ میں جارہی ہے اوروزیراعظم صاحب سیکیورٹی کے حصارمیں ناچ گانے کی محفلیں سجاکراپنی حکومت کے تین سال پورے ہونے کاجشن منارہے ہیں۔


پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس کی قلت کے مسائل سے دو چار ہے۔ گذشتہ سالوں میں جن اجناس کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی ان میں چینی، گندم اور آٹا سرفہرست رہے۔ عوام اور میڈیا کے شور مچانے پر ان بحرانوں کی وجوہات جاننے اور ذمہ داران سے نمٹنے کیلئے تحقیقات کرائی گئیں، جس کے بعد تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک کر دیا گیا، تاہم بحرانوں کی وجہ سے قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو تاحال قابو نہیں کیا جاسکا، نہ ہی ذمہ داران کو پکڑاکیاگیا۔

کچھ ایسا ہی گذشتہ سال ہوا گندم بحران کے ساتھ چینی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے اورقیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے عملی طورکچھ بھی نہیں کیاجارہاہے اورکہیں بھی گورنمنٹ کی رٹ دکھائی نہیں دیتی ،جس کاجب جی چاہے اپنی مرضی سے اشیائے ضروریہ غائب کردے یاپھر اس کی قیمت بڑھادے کوئی پوچھنے والانہیں ہے ،عوام کی کھال اتارنے کیلئے ان تین سالوں میں حکومت نے سب کوکھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا گیاتھاپتا نہیں وہ گھرکہاں گئے،یوٹرن کے ماہروزیراعظم عمران خان اپنے دیگر وعدوں کی طرح ملک میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیاتھا تاہم بعد میں اس وعدے پریوٹرن لیتے ہوئے کہاکہ ملازمت کے مواقع فراہم کرنے سے متعلق حکومت کی امیدیں نجی شعبے سے وابستہ ہیں۔جھوٹ اوردروغ گوئی کرتے ہوئے نوجوانوں کوایک کروڑنوکریوں کاجھانسہ دیکربیوقوف بنایاگیا۔


وزیراعظم صاحب!عوام آپ سے یہ نہیں پوچھتی کہ آپ کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے یاناکام ہے، اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے کے جشن منائیں یانہ منائیں،عوام کاصرف آپ سے ایک ہی سوال ہے کہ آپ کی حکومت نے مہنگائی کے سونامی کے علاوہ پاکستانی عوام کوکونساریلیف دیاہے،یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ حکومت کا باقیماندہ عرصہ اقتدار درحقیقت عوام کو ریلیف اور سہولتیں دے سکتاہے کہ نہیں،اب میرے عزیزہم وطنوں گھبرانانہیں ہے کادورختم ہوچکاہے اورمہنگائی اورحکومت کی خراب کارکردگی سابقہ حکمرانوں پر ذمہ داری ڈالنے کی پالیسی کادوربھی چلاگیاہے،عوام کواب ہرصورت میں ریلیف کی ضرورت ہے لیکن لگتانہیں ہے کہ خان صاحب کی حکومت مہنگائی کے ایٹم بم کوپھٹنے سے روکنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھائے گی۔

حکومت کے اب تک اقدامات سے یہی ظاہرہوتاہے کہ مافیاکو مہنگائی کرنے کی کھلی چھٹی دے کر اور عوام کیلئے روزمرہ کے دوسرے نئے مسائل پیدا کرکے اپنے خلاف اپوزیشن کومضبوط کررہی ہے اوراپوزیشن بھی عام انتخاباب میں اس اٹھنے والے طوفان سے بھرپورفائدہ اٹھائے گی اوراپوزیشن بھی حکومت کواپنی مدت پورے کرنے دے رہی ہے اورمشکلات پیدانہیں کررہی ،اپوزیشن سیاسی جماعتیں عمران خان کو سیاسی شہید نہیں بناناچاہتی کہ وہ انتخابات میں یہ نہ کہیں کہ میری حکومت ختم کردی گئی اورعوام کوریلیف دینے کاموقع ہی نہیں ملا۔

اب یہ عمران خان پرمنحصرہے کہ وہ مہنگائی کے سنامی سے عوام کوکس طرح بچاتے ہیں ورنہ یادرکھیں اس مہنگائی کی وجہ سے عام انتخابات میں عوام کے ٹھپوں سے آپ کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :