"گلگت بلتستان میں سیاسی ٹوپی ڈرامہ"

پیر 16 نومبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

گلگت بلتستان میں انتخابات   کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا ہے.  وہاں سیاسی رونقیں اور گہما گہمی  اپنے عروج پر پہنچ رہی ہیں. ہر دوسرے روز وہاں کی کسی نہ کسی پرکشش اور دل موہ لینے والی وادی میں,  خوبصورت روایتی پوشاک میں ملبوس, معصوم  مقامی لوگوں کا تا حد نگاہ ہجوم جمع ہوتا یے. اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے  پرکشش تقاریر ہو رہی ہوتی ہیں.

مفاد پرست سیاست دانوں کے ٹولے  باری باری اپنی اپنی دکان  سجانے آتے ہیں . ہر کوئی نئے سرے سے خواب بیچنے آتا ہے. کیا گورنمنٹ کیا اپوزیشن سب کا اپنا اپنا ٹوپی ڈرامہ ایک بار پھر زور و شور سے شروع ہوجاتا ہے. ایک دوسرے کے  لیے غیر سیاسی نازیبا الفاظ کی بوچھاڑ ہوتی ہے. ماضی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا کر مستقبل کے حسین  اور خوشنما خواب دکھائے جا تے ہیں.

معصوم اور سادا  لوگ ان کے بچھائے جال میں پھنسنے کو تیار بیھٹے ہوتے ہیں .  پہلے تو جادوئی ٹوپی پہن کر یہ ڈرامے ہوتے تھے مگر اب تو سب نے ظاہر میں ٹوپیا ں پہن کر عوام کی مجبوریوں کو  ان کی بے وقوفی سمجھ لیا ہے. انہیں غربت, تنگ دستی, معاشی بحران اور  دو وقت کی روٹی کے  جھمیلوں میں ایسے الجھایا گیا ہے کہ ہر خواب بیچنے والے کی باتیں انہیں سچ لگتی ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا.

یہ ٹوپیاں پہنے کا ڈرامہ صرف یہاں نہیں ہو رہا ہے. یہ لوگ سندھ میں اجرک پہن کر,  پشاور میں پگڑی باندھ کر بلوچستان میں روایتی بلوچی لباس پہن کر یہی ڈرامے کرتے آئے ہیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے جیتنے کے بعد کرسی کے نشے میں سارے خواب بھول جاتے ہیں.
گلگت بلتستان کو شمالی علاقی جات بھی کہا جاتا ہے . یہ ہنزہ, گلگت اور بلتستان پرمشتمل ہے.

تہتر ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا تقریباً بیس لاکھ کی آبادی والا یہ علاقہ قدرتی حسن اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے.  یہاں کی دلکش آبشاریں اور جھرنیں سیاحوں کا دل اسیر کرنے کے لیے بے تاب ہیں. اس پر موسم کے حسین نظارے, بادل, بارش اور برف باری کی صورت میں نہ صرف لوگوں کا دل مو لیتی ہیں بلکہ ان کو سحر زدہ کرتی ہیں. برف پوش پہاڑوں کے گرد سفید دیو ہیکل درخت اس منظر کو مزید دلکش بناتے ہیں.

بچپن میں پریوں کے دیس کی سنی کہانیاں یہاں بالکل سچ معلوم ہوتی ہیں.  یہاں دنیا کے تین بڑے گلیشئر ہیں اور پچاس کے قریب بلند ترین چوٹیاں بھی ہیں. اللہ تعالی نے جہاں اس علاقے کو دیو مالائی حسن دیا ہے وہیں یہاں کے مکینوں کی آزمائشیں بھی بے انتہا ہیں. مقامی لوگ ہمیشہ سے ہی ان آزمائشوں سے نبرد آزما نظر آتے ہیں.
آزادی پاکستان کے وقت یہاں  کشمیر کے ڈوگرا سکھ راجہ کی حکومت تھی.

مگر 1948میں یہاں کے علاقائی لوگوں نے اپنی ذاتی کوششوں سے آزادی حاصل کی. 5 جنوری 1949 کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد میں اسے جموں کشمیر کا حصہ تسلیم کر لیا گیا. تب سے  اس علاقے میں فرنٹر کور تعینات ہے.  پاکستان کے زیر انتظام ہونے کے باوجود آئینی طور پر اسے ہمیشہ سے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے.  "سٹیٹ سبجیکٹ رول" کے تحت یہ علاقہ صرف یہاں کے باشندوں کی ملکیت تھا اور یہیں کے باشندوں کو ہی یہاں زمین کی خرید و فروخت کی اجازت تھی, اسی طرح سرکاری ملازمتوں اور سیاسی عہدوں پر بھی صرف اور صرف یہاں کی مقامی آبادی کا ہی حق تھا جسے بھٹو کے دور حکومت میں ختم کیا گیا اور یہیں سے ایک بار پھر یہاں کے لوگوں کا استحصال زیادہ ہوگیا.

2009 میں اسے آزاد حیثیت دی گئی. اور اسی سال پہلی بار الیکشن ہوئے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے برتری حاصل کی.
گلگت بلتستان کے حوالے سے انڈین حکومت کا بیانیہ ہے کہ کشمیر اور لداخ سمیت یہ علاقے 1947 کے معاہدے کے تحت انڈیا کا حصہ ہیں, ان کے مطابق پاکستان نے ان علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے.
اگر حالیہ الیکشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو  حکومتی بیانیے کے مطابق بہت جلد گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق کے  ساتھ صوبے کا درجہ دیا جائے گا.

اسے وہی آئینی حقوق حاصل ہونگے جو دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں. مگر کشمیری عوام اس فیصلے سے بالکل مطمعن اور خوش نہیں ہیں. ان کا بیانیہ ہے کہ گلگت بلتستان تاریخی حوالے سے کشمیر کا حصہ ہے. وہ بشمول گلگت بلتستان کے عوام کے استصواب رائے اور ان علاقوں کی مکمل آزادی کے خواہاں ہیں . کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی طرح گلگت بلتستان بھی متنازع علاقوں میں شامل ہے اور اس کا حل بھی اس وقت تک ناممکن ہے جب جموں کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا.

اور ان تمام علاقوں کے حل کے لیے اقوام متحدہ کو اپنا کردار نبھانا ہوگا. اور یہ یہاں کے عوام کی رائے شماری سے ہی ممکن ہے. اس لیے کشمیری قیادت کے خیال میں اس علاقے کے صوبہ بننے سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور ہو گا جبکہ خود  گلگت بلتستان کی قیادت کا موقف ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ کشمیر سے جدا ہوگیا. ساتھ ہی ساتھ  گلگت بلتستان کے مقامی آبادی میں احساس محرومی پائی جاتی ہے اور وہ بے یقینی کی کیفیت میں ہیں ان میں سے کچھ لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اسے صوبہ کا درجہ دے کر پاکستان میں ضم کیا جائے.

یا انھیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی طرز کا انتظامی ڈھانچہ فراہم کیا جائے تاکہ  یہاں عوام کے  معاشی اور سماجی مسائل حل ہوں۔

(جاری ہے)


پاک چین اقتصادی راہ داری کے میگا منصوبے کے حوالے سے بھی گلگت بلتستان اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 500 کلو میٹر سڑک یہاں سے گزرے گی .سی پیک کی بنیاد رکھتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ اس کے زیادہ تر فوائد گوادر اور گلگت بلتستان کے عوام کو ملیں گے کیونکہ ان دونوں علاقوں کا سی پیک میں کلیدی کردار ہے.

لیکن تاحال گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی اہم منصوبہ شامل نہیں ہے.
گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق, قوانین کی پاسداری اور مفادات کا تحفظ ان کا بنیادی حق ہے.  اور اس کا بہترین طریقہ استصواب رائے ہی ہے. حکومت پاکستان کو وہاں کے صرف گلیشئرز اور خوبصورت علاقے  کو ہی نہیں وہاں کے لوگوں کو بھی اپنانا ہوگا. وہاں کے لوگوں کو مکمل آئینی حقوق کے ساتھ صوبائی خود مختاری دینی ہوگی یا پھر ان کی خواہش کے مطابق کشمیر کے ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں مسئلہ حل کرانا ہوگا.  وگرنہ وہاں کی اندرونی صورتحال بھی بلوچستان سے مختلف نہیں ہوگی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :