جمہوریت خود ایک انتقام ہے

جمعہ 17 جولائی 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

کچھ وقت پہلے کا لگا نعرہ کہ جمہوریت  سب سے بڑا انتقام ہے آج  بہت بے مایہ سا نظر آتا ہے اور مجھے بار بار شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمدؐ اقبال ؒ کا  کہا یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کوگنا کرتے ہیں،تولا  نہیں  کرتے
جوں جوں میں اس پیرائے میں اترتا جاتا ہوں مجھے اور زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ جمہوریت خود ایک انتقام ہے- جمہوریت شاید دیکھنے میں حسیں لیکن اس کی ریشہ دوانیاں نہایت سنگین ہیں- کہنے کو نعرہ ہے لیکن اس کا پھل اشرافیہ ہی کھاتی ہے- راہ حق پہ رواں دواں حضرت نوح ؑ کا بیڑہ یوں تو اکثریتی نہیں ہے لیکن سچ کی صدا انہیں چند روحوں میں اذاں دیتی محسوس ہوتی ہے  جو ہے تو اقلیت میں لیکن ربِ ذوالجلال کے دربار میں کامیاب و کامران ہے- بنی نوع انساں نے جمہوریت کے لبادے میں جو ظلم ڈھائے ہیں وہ آج سب کو  شرمندہ کئے دیتے ہیں- اسی جمہوریت کا ہی دین تو یہ کشمیر کی وادی ہے جس میں اکثریتی ہندتوا ظلم و استبداد کی وہ کہانی لکھ رہی ہے کہ  شہید نانا کے سینے پہ بیٹھا بچہ اس کی بھیانک شکل اقوامِ عالم  کو دکھا رہا ہے- اکثریت جمہوریت کی تصویر بنی قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور عصمت دری اقلیتوں کی قسمت ہے –اکثریت ہندو انتہا پرستوں کے سامنے صاحب رائے اور علم و دانش کے مینارے بے بس ہیں- اندھیرے کی اکثریت  اجالوں کا یوں کھا گئی ہے کہ  علم کی جگہ جہالت پر پھیلائے  چناروں کو جلا رہی ہے-خود بھارت میں ہندو اکثریت مہاتما گاندھی کو باپو کہتے کہتے آج اسی کے  قاتلوں کا ہیرو گردان رہی ہے – بھارت جمہوریت کا  علم بردار آج اسی جمہوریت کے سامنے شرمسار ہے-  بات فلسطین کی کروں تو یہودیوں کی آباد کاری اور بڑھتی تعداد نے   وہاں کے مالکوں کو محکوم بنایا ہوا ہے- اسرائیل کے مسلم اکثریتی علاقے کچھ یوں آباد کیے گئے ہیں کہ  مسلمان اقلیت میں شمار ہوتے ہوئے اپنی آواز تک کھو بیٹھے ہیں- یہی کھیل بھارت کشمیر میں کھیلتا ہوا وہاں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے درپے ہے کہ وہاں بھی اکثریتی  جمہوریت وہاں کے مقامی لوگوں کے حقوق کودبا ئے اور حکمرانی کرے- بات سب سے بڑی طاقت امریکہ کی کروں تو وہاں سڑکوں پہ مظاہرے اس جمہوری معاشرے کا چہرہ نوچ رہے ہیں - سیاہ فام گوروں سے حقوق مانگتے جانوں کی بازیاں لگا رہے ہیں- امریکہ میں بسنے والے اصل باشندے تو نہ جانے کن تہوں میں کھو گئے  ہیں اب تو سفید فام کا راج ہے اور وہ خوب جمہوریت کے  جمہوری رنگ جمائے ہوئے اپنی عددی قوت سے شہ مات دیے  ہوئے ہیں-
بات اپنے ملک کی کروں تو یہاں بھی جمہوریت اپنی منہ مانگی قیمت وصول کر رہی ہے – مانگے تانگے کی حکومت ہر اہم موقع پہ جب اسے اتحادیوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو بات کروڑوں اور اربوں سے ہی آگے  بڑھتی ہے- پھر ان کے شام کے بھولے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں خون میں نہلاتے، نہلائے ملتے ہیں- جمہوریت کے تحائف میں ایک تحفہ آج کی لوڈ شیڈنگ ہے – 1990 ء جب بجلی وافر تھی اور اس وقت پانی سے بجلی کے منصوبے لگائے جاتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے لیکن جمہوریت نے ایسے میں  بھی لمبے نوٹ دیکھے اور بجلی کے ایسے معاہدے کئے کہ آج تک ملک تنتیس سو ارب  ان کو ہی دے کے مقروض ہوا ہوا ہے- اس جمہوریت کا فیض کبھی ہم نے پی آئی  اے کی تباہی کی صورت دیکھا – کبھی اس میں سیاسی بھرتیاں یوں دیکھیں کہ عملہ تو رہ گیا لیکن پی آئی اے کے جہاز اور سروس اڑن چھو ہو گئی – کبھی روز ویلٹ پہ نظریں جمائے جمہوریت کے پیرو کاروں  نے اسے بھی خرید لینے کا پروگرام بنایا تو  کبھی گورے امریکی  داماد کو  ہی سونپ دینے میں اپنے تعلقات کو  بہتر بنانے کی راہ میں موزوں جانا- اسٹیل مل  کو جمہوریت نصیب ہوئی تو وہ بھی ٹکے ٹوکری ہو گئی – سی پیک میں لوہے کی ضرورت کے پیش نظر ضروری تھا کہ اسٹیل مل پھلے پھولے لیکن   وہ جمہوریت ہی کیا کہ جس میں اشرافیہ مال نہ بنائے- ووٹوں اور اکثریتی جماعت کے حصول کے لئے ہم نے ایسی ایسی سیاسی جماعتیں پالیں کہ ان کے نیچے  راء پلی بڑھی- کبھی وہ کراچی ائرپورٹ کے عملے میں دشمن کے عزائم پوری کرتی رہی تو کبھی فائر بریگیڈ کی شکل میں کھل کھیلتی رہی- لندن اور ساؤتھ افریقہ کے ونگز کسے بھولے ہیں- 258 جیتے جاگتے محنت کش جمہوری حکومتوں میں ہی  جلے اور راکھ ہو گئے – ان ہی راہوں میں کبھی کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ نے ملکی صدر کو سڑکوں پہ گھسیٹا  اور کبھی جمہوریت  سب سے بڑا انتقام کہنے والوں نے ملکی وزیر اعظم کو اسلام آباد سے گھسیٹ باہر نکالنے کی باتیں کیں- یہ جمہوریت جب بھی اسمبلی میں گئی تو قانون کیا بناتی اسے تو آپس کی لڑائی سے ہی فرصت نہ ملی – ساتھی خواتین پہ فقرے چست کرنا ہوں یا پھر صرف بالغوں کے لئے ہی اخلاق باختہ  گفتگو کرنی ہو اس میں اپنا ثانی  نہ رکھنے والے کن کن الزامات میں ملوث ہیں ان کی نظیر دونوں جی آئی ٹیز کی صورت ملتی ہے جو آج خوب موضوع سخن ہے- مجھے تو لگتا ہے دنیا بھر میں جمہوری نظام لڑکھڑا رہا ہے – اس کو شاید کسی سہارے یا ترمیم کی ضرورت ہے وگرنہ اب یہ انسانیت کی موت کے درپے ہے  اور خود انتقام لے رہا ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :